ملتان (سٹاف رپورٹر) پروفیسر جیسے اہم اور باعزت ترین عہدوں پر فائز لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کیسے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ڈین فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز اینڈ کامرس پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال کی جانب سے بذریعہ پی آر او دھوکہ دیتے ہوئے جھوٹے موقف جاری کئے جانے پر سامنے آئی۔ ڈین یعنی اپنی ہی جانب سے جاری کردہ سرکلر کے مطابق چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آ ف مینجمنٹ سائنسز کا چارج پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال، ڈین فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز اینڈ کامرس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ایکٹ 1975 کی کھلم کھلا دھجیاں بکھیرتے ہوئے غیر قانونی طور پر پروفیسر ڈاکٹر اریبہ خان کو نوازنے کے لیے سونپ دیا اور ڈین پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال کی جانب سے خود ساختہ طور پر بنائے گئے ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز کے کوالٹی انہانسمنٹ سیل کا چارج ڈاکٹر زین نقوی کو سونپا گیا تھا۔ حیران کن طور پر جب یہ خبر روزنامہ قوم ریسرچ سیل کی طرف سے بمعہ نوٹیفکیشن اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پی آر او کو موقف کے لیے بھیجی گئی تو پی آر او نے ڈین پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق روزنامہ قوم کو بتایا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے وہ غیر قانونی سرکلر واپس لے لیا ہے۔ جبکہ حیران کن طور پر ڈاکٹر جواد اقبال کی طرف سے نوٹیفکیشن واپس لینے کا اعلانیہ طور پر کہہ کر اسے واپس نہ لیا گیا بلکہ ایک غیر قانونی کام دوسرا غیر قانونی کام کرتے ہوئے ضد میں آ کر ایک اور غیر قانونی نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اس طرح ڈین جیسے معزز عہدے پر تعینات پروفیسر نے دھوکہ دیتے، دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے مزید غیر قانونی کاموں کی لائن لگا کر ڈاکٹر اریبہ کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے کوآرڈینیٹر کا نیا خود ساختہ عہدہ پیدا کر دیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ چیئرپرسن کی تعیناتی کا اختیار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایکٹ 1975 کے مطابق وائس چانسلر کی سفارشات پر صرف اور صرف سینڈیکیٹ کے پاس ہے جبکہ کوالٹی انہانسمنٹ سیل میں بھی وائس چانسلر ہی تعیناتیاں کر سکتے ہیں۔ اس پورے ایکٹ میں کوآرڈینیٹر کی کسی پوزیشن کا نام و نشان تک موجود نہ ہے مگر حیران کن طور پر 22 ستمبر کو ہی جاری ہونے والے انٹرنل سرکلر کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر اریبہ خان چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز اب کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کریں گی۔ حیران کن طور پر چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز کا چارج بھی ڈین پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال ہی کے پاس ہے۔ چنانچہ ایکٹ میں کوآرڈینیٹر کی پوسٹ نہ ہونے کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر اریبہ خان کو پہلے خود سے چیئرپرسن کا چارج سونپنا اور بعد ازاں روزنامہ قوم کے توجہ دلانے پر پروفیسر ڈاکٹر اریبہ خان کو کوآرڈینیٹر کا چارج خود سے سونپنا بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایکٹ 1975 کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر زین نقوی کو پہلے ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز کے خود ساختہ کوالٹی انہانسمنٹ سیل کا چارج دیا گیا اور بعد ازاں اسی تاریخ کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈاکٹر زین نقوی کو ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز کی خود ساختہ کوالٹی انہانسمنٹ کمیٹی کا چارج دینا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ایکٹ 1975 کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور یونیورسٹی کے اندر علیحدہ سے یونیورسٹی بنانے کے مترادف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈین پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال سینڈیکیٹ سے کوالٹی انہانسمنٹ سیل کے ممبر کی منظوری لیتے مگر قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اور وائس چانسلر اور سینڈیکیٹ کی پاورز کو نظر انداز کرتے ہوئے قوانین کے بر خلاف فیصلے کرنا ریاست کے اندر ریاست بنانے کے مترادف ہے۔ سونے پر سہاگا یہ کہ جب روزنامہ قوم نے اس غیر قانونی عمل کی نشاندہی کی تو ڈین ڈاکٹر جواد اقبال کی جانب سے بذریعہ پی آر او دھوکہ دہی پر مبنی جھوٹا موقف جاری کیا گیا کہ سرکلر واپس لے لیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقتاً سرکلر واپس لینے کی بجائے انہی پروفیسر حضرات کو نوازنے کی خاطر ڈین کی کرسی پر بیٹھے حضرات کا ایسے غیر قانونی اور بچگانہ فیصلے کرنا اس ملک کے تعلیمی و تدریسی نظام کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق ہے۔ یاد رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال وہی ہیں جن پر لاہور کی ایک نجی نرسنگ سکول کی پرنسپل نے ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا جس کی انکوائری کافی عرصہ جاری رہی پھر بعد ازاں صلح و کمپرومائز کے ذریعےالزام عائد کرنے والی خاتون کی تمام تر شرائط پوری کرنے کے بعد انکوائری ختم کر دی گئی تھی۔ اس بارے میں موقف کے لیے جب مزید اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پی آر او سے رابطہ کیا گیا اور درخواست کی گئی کہ برائے مہربانی حقیقت پر مبنی موقف پیش کیا کریں تاکہ قارئین کو اصل حقائق سے باخبر رکھا جا سکے تو ان کا موقف تھا کہ انہیں تو ڈین ڈاکٹر جواد کی جانب سے یہی بتایا گیا تھا کہ وہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے۔ جب پی آر او کو بتایا گیا کہ نوٹیفکیشن واپس نہیں لیا گیا بلکہ ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس پر تو ڈین صاحب خود ہی بتا سکتے ہیں۔ اسی خبر کو وائس چانسلر ڈاکٹر محمد کامران اور رجسٹرار کو بھی موقف کے لیے بھیجا گیا تو رجسٹرار نے خبر پڑھنے کے باوجود کوئی جواب نہ دیا۔








