

پاکستان بزنس کونسل کے دو روزہ اقتصادی مکالمے میں ایس ایف آئی سی کے نیشنل کوآرڈی نیٹر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں عملی کارپوریٹ ٹیکس شرح بعض اوقات 50 فیصد تک پہنچ جاتی ہے، جو سرمایہ کاری کے لیے بڑی رکاوٹ

مسابقتی کمیشن پاکستان نے حال ہی میں ایک پریس بیان جاری کیا جس میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے اپنی کارکردگی کے بارے میں کی گئی تعریف کو نمایاں انداز میں پیش کیا گیا۔ یہ بیان بظاہر اس لیے دیا گیا کہ ذرائع ابلاغ

پاکستان بیوروِ شماریات کی تازہ محنت و روزگار رپورٹ نے جس بحث کو جنم دیا ہے، وہ محض اعداد و شمار کا اختلاف نہیں بلکہ ایک ایسے بحران کی طرف اشارہ ہے جو برسوں سے بڑھ رہا تھا اور اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع کے اس بیان نے ایک بار پھر پاک۔افغان تعلقات کے اس پیچیدہ اور حساس گوشے کو اجاگر کر دیا ہے جسے برسوں کی غلطیوں، غلط فہمیوں اور باہمی بدگمانیوں نے ایک ایسے گہرے بحران میں بدل دیا ہے جس کا کوئی آسان

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے جائزہ اجلاس میں برآمدی ترقیاتی محصول کو فوری طور پر ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے، وہ بظاہر ایک درست قدم ہے، لیکن اسے برآمدات کے بحران کا مکمل حل سمجھنا خود ایک بڑی غلط فہمی

ہمیں حیرت تو نہیں ہونی چاہیے۔ موسمیاتی سفارت کاری کے تیس برسوں کا حاصل آج بھی وہی پرانے وعدے، وہی ادھورے عزم، وہی مبہم بیانیے اور وہی غیر سنجیدگی ہے جس نے پوری دنیا کو ایک ایسے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے جہاں خاموشی خود

پاکستان کی سیاست میں الزامات، جوابی الزامات، ماضی کی تلخیوں اور مستقبل کے خوف کا جو مسلسل بہاؤ جاری ہے، اس نے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے ذہنوں میں شدید بے یقینی بھی پیدا کر دی ہے۔ سابق وزیراعظم اور مسلم

پاکستان آج ایک ایسے نازک معاشی موڑ پر کھڑا ہے جہاں صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کا طرزِ عمل بھی ملکی معاشی سمت پر سوال اٹھا رہا ہے۔ حکومت اب کثیر القومی کمپنیوں کے انخلا کو روکنے کے لیے ’’سرمایہ کاری و

عورت کے خلاف تشدد کسی بھی سماج کی سب سے خوفناک کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ کمزوری دراصل اُس مردانہ بے بسی کا اعتراف ہے جو اپنی برتری کے خول میں چھپ کر عورت کو برابر کا انسان تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ عورت

پاکستان کی سیاست ایک بار پھر اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں ظاہری فتح، اندرونی کمزوریوں اور جمہوری ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ کا عکاس بن کر سامنے آ رہی ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت کی واضح کامیابی، اور ہری پور میں علامتی اہمیت

پاکستان کی بیرونی تجارت کی تازہ ترین صورتِ حال ایک گہری تشویش کو جنم دے رہی ہے۔ ظاہری طور پر بڑی صنعتوں کی معمولی بحالی کے باوجود، تجارتی خسارہ نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے گہرا ہوتا

پاکستان میں خطرے کی گھنٹیاں ایک بار پھر بج چکی ہیں—اور اس بار پہلے سے کہیں زیادہ زور سے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جاری کردہ قبل از وقت پیش گوئی کہ اگلے برس مون سون کی بارشیں معمول سے بائیس سے چھبیس فیصد زیادہ ہو

غزہ کے خون میں ڈوبے ہوئے ساحلوں پر جب ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے اب بھی لاشیں پڑی ہیں، جب اسرائیلی جارحیت مسلسل جاری ہے اور قبضہ اپنے بدترین مرحلے پر ہے—ایسے وقت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل

پاکستان اس وقت شدید معاشی بے یقینی کے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک بیرونی مالیاتی استحکام کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی ایک خطرناک علامت بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ محض ایک

پاکستان کی داخلی سلامتی کی صورتِ حال ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں خطرات کی پیچیدگی بڑھتی جا رہی ہے، دشمن زیادہ منظم ہو رہے ہیں، اور ریاستی اداروں کی حکمتِ عملی اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ ریاست جو طریقے برسوں سے آزما رہی

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پہلے ہی شدید بحران کا شکار تھی، مگر ستائیسویں آئینی ترمیم نے اس بحران کو ایک اور خطرناک موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سالانہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والی بیانئے میں جو خدشات

مقابلہ کمیشنِ پاکستان کی جانب سے سترہ بڑے نجی اسکول نظاموں کو جو نوٹس جاری کیے گئے ہیں، وہ نہ صرف والدین کی دیرینہ شکایات کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ ملک میں نجی تعلیم ایک ایسے منافع خور کاروبار

وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے حالیہ بیان میں امید ظاہر کی ہے کہ یہ نیا عدالتی ادارہ ’’آنے والی نسلوں کے لیے آئینی عملداری کا محافظ اور انصاف کی علامت‘‘ ثابت ہوگا۔ ان کے الفاظ اعلیٰ عدلیہ کے وقار اور آئین

پاکستان کے معدنی وسائل ہمیشہ سے ہمارے لیے امید کا دروازہ بھی رہے ہیں اور ایک ایسا میدان بھی جہاں عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے صف بندی کرتی رہی ہیں۔ تازہ ترین پیش رفت — پانچ سو ملین ڈالر کے مفاہمتی یادداشت کا امریکی

پاکستان میں انصاف کا سفر ایک ایسی گلی میں داخل ہو چکا ہے جہاں روشنی کم ہے، سایے گھنے ہیں، اور بے بسی کی آہٹ ہر قدم کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ قید خانوں کی حالت، زیر سماعت قیدیوں کی تعداد، اور عدالتی تاخیر کا جو

کتنی بیٹیاں اور…؟یہ سوال اب چیخ بن کر اس ملک کی فضا میں گونج رہا ہے۔ ہر چند ماہ بعد کسی ماں، بہن یا بیٹی کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملتی ہے، اور ہر بار ایک ہی کہانی لکھی جاتی ہے—’’خودکشی‘‘۔ ہر بار ایک ہی

پاکستان کی آٹوانڈسٹری اس وقت ایک نہایت فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بنائی جانے والی خودروی پالیسیاں، خصوصاً ۲۰۱۶ء تا ۲۰۲۱ء اور ۲۰۲۱ء تا ۲۰۲۶ء کی پالیسیوں نے بالآخر اپنی عملی شکل دکھانا شروع کر دی ہے۔ چند برس پہلے تک

غزہ میں جاری تباہی، بے گھری اور انسانی المیے کے پس منظر میں وہ منصوبہ جسے کچھ حلقوں نے ’’خطے کو بدل دینے والی چال‘‘ قرار دیا تھا، آج اپنی کمزور بنیادیں واضح طور پر ظاہر کر رہا ہے۔ ایک ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود

دنِ ذیابیطس اس سال اس موقع پر آیا ہے جب ایک نئی عالمی تحقیق نے ہمارے سامنے وہ تلخ حقیقت رکھ دی ہے جسے ہم برسوں سے نظر انداز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریض نہ صرف ایک بڑھتے ہوئے طبی بحران کا سامنا

اسلام آباد اور وزیرستان میں ہونے والے تازہ دہشت گرد حملے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن اب بھی ہمارے امن اور استحکام کو نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں خودکش حملے نے، جہاں عدالت

روزنامہ قوم ملتان اپنے معزز قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہے کہ آج آپ کو ہمارے روایتی زندہ اور باہوش اداریہ نویس کا اداریہ پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ وہ حسب معمول چھٹی پر تھے اور اس بار دفتر میں کوئی دوسرا عارضی فکری مزدور بھی

پاکستان ایک ایسے نازک معاشی موڑ پر کھڑا ہے جہاں بیرونی سرمایہ کاری کا گراف مسلسل نیچے جا رہا ہے، جبکہ عالمی اور علاقائی سرمایہ کار اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی محض ایک اقتصادی اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں،

پاکستان کی سیاست اس وقت ایک نہایت حساس اور پیچیدہ مرحلے سے گزر رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری اور ان کے ساتھی رہنماؤں کی جانب سے حالیہ دنوں میں یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور گرفتار سیاسی کارکنوں کی

نیویارک میں مسلمان آبادی تین فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے باوجود وہاں ایک مسلمان امیدوار کی فتح نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ جمہوریت صرف آبادی کے تناسب کا نام نہیں بلکہ اصولوں اور اجتماعی شعور کا نام ہے۔ زہران ممدانی کی کامیابی

صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ دریائے سندھ کے پانیوں کے معاہدے کی خلاف ورزی کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہوگی، صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک اصولی، قانونی اور اخلاقی مؤقف ہے جس کے پیچھے تاریخ، بین الاقوامی قانون، ماحولیاتی حقائق اور





























