آج کی تاریخ

پاکستان اسپورٹس بورڈ کی مالی بے ضابطگیوں پر احتساب کی ضرورت

پاکستان کے جملہ ریاستی اداروں کی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں اور فراڈ کے واقعات میں سالانہ اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ ان رپورٹس کو عوامی وسائل کے استعمال میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، تاہم اکثر یہ رپورٹس صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہ جاتی ہیں اور عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ ان رپورٹوں میں جو سفارشات پیش کی جاتی ہیں، ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے بدعنوانی اور ناقص انتظامی ڈھانچہ برقرار رہتا ہے۔ ریاستی ادارے، جن پر عوام کا اعتماد ہونا چاہیے، بدقسمتی سے بے ضابطگیوں کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کی حالیہ مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف اسی مسئلے کی ایک نمایاں مثال ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ (وفاقی حکومت) نے مالی سال 2023-24 کے لیے پاکستان اسپورٹس بورڈ کا آڈٹ کیا، جس میں تقریباً 7.198 ارب روپے کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق بورڈ میں غیر مجاز اخراجات، ضابطہ خلاف ورزیاں اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کے ایسے متعدد معاملات سامنے آئے ہیں، جن کی وجہ سے بورڈ پر عوامی اعتماد بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اسپورٹس بورڈ جیسے ادارے، جس کا بنیادی مقصد ملک میں کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی تربیت ہے، میں اس سطح کی بے ضابطگیاں عوامی وسائل کے ضیاع کی واضح علامت ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں پاکستان اسپورٹس بورڈ کے مالیاتی انتظام میں متعدد بے ضابطگیوں کی تفصیل دی گئی ہے، جن میں غیر قانونی اخراجات، غیر مجاز ادائیگیاں اور کھیلوں کے فروغ کے لیے مختص فنڈز کا غلط استعمال شامل ہیں۔ ایک بڑے معاملے میں، مختلف غیر متعلقہ سرکاری محکموں کے ملازمین کو ہونرریا کے طور پر 18.819 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ اور فنانس ڈویژن کے ان ملازمین کو دو ماہ کی بنیادی تنخواہ پی ایس بی کے ڈرائنگ اور ڈسبرسنگ آفیسر کے ذریعے دی گئی، جو کہ حکومت کے مالیاتی قوانین کے بنیادی اصول-9 کی خلاف ورزی ہے۔ ایک عوامی ادارہ جس کی ذمہ داری کھیلوں کے فروغ کے لیے وسائل کا درست استعمال ہے، اس طرح کی ادائیگیاں مالیاتی کنٹرول کی کمزوری کی واضح مثال ہیں۔
اسی طرح، آڈٹ رپورٹ میں 13.8 ملین روپے کی غیر قانونی گرانٹس کا بھی ذکر ہے، جو کہ غیر منسلک کھیلوں کی تنظیموں کو فراہم کی گئیں۔ ان میں سے ایک اہم کیس کراچی میں قائم ایک ادارہ “اسپورٹس ان پاکستان” کا ہے، جسے بغیر کسی باضابطہ درخواست اور پی ایس بی سے وابستگی کے 9 ملین روپے کی گرانٹ دی گئی۔ گرانٹ کا یہ اجراء بظاہر بجٹ کے خاتمے سے بچنے کے لیے کیا گیا، جو کہ مالیاتی قوانین اور بورڈ کے مینڈیٹ کے خلاف ہے۔ اس سے نہ صرف ادارے کے مالیاتی نظام میں خرابی کی نشاندہی ہوتی ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ سرکاری فنڈز کے استعمال میں احتساب کا فقدان ہے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ میں مالیاتی بے ضابطگیوں کا یہ حال اس بات کا عکاس ہے کہ ادارے میں احتساب اور مالیاتی کنٹرول کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی ایس بی کے مالیاتی نظم و ضبط میں اہم خامیاں پائی گئیں، جو کہ عوامی فنڈز کے ضیاع اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال کی بنیادی وجوہات ہیں۔ ان بے ضابطگیوں کا سبب بظاہر ادارے کے اندر احتساب کا فقدان اور مالیاتی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جب ایسے ادارے عوامی فنڈز کے استعمال میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں تو یہ نہ صرف ان اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ملک میں کھیلوں کے فروغ کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔
ایک اور تشویشناک معاملہ اسپورٹس بورڈ کے ایک افسر کی جانب سے برطانیہ میں ایک ایونٹ کے دوران پاکستان کی ٹیم کے خزانچی کے طور پر اپنے فرائض کے لیے 367,000 روپے کا آئی فون خریدنا ہے۔ آڈٹ نے اس خریداری کو غیر ضروری اور فضول خرچ قرار دیا، جو کہ بورڈ کے مالیاتی نظم و ضبط پر سوال اٹھاتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں بنیادی کھیلوں کے ڈھانچے کے لیے وسائل کی شدید کمی ہے، وہاں اتنی بڑی رقم ذاتی آسائش پر خرچ کرنا ادارے کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں پی ایس بی کی مالیاتی انتظامی پالیسیوں میں بنیادی اصولوں سے انحراف اور مالیاتی کنٹرول میں کمی کی نشاندہی کی گئی۔ ان بے ضابطگیوں میں سے ایک اہم پہلو بورڈ کی خریداریوں میں بے قاعدگی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ایس بی نے 344 جوڑوں کی خریداری کی، جن میں سے صرف 182 جوڑے وصول ہوئے۔ اس قسم کی بے قاعدگیوں کے پیچھے احتساب کی کمی اور مالیاتی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کار فرما ہے۔
یہ مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پی ایس بی میں مالیاتی قوانین کی پابندی کا فقدان ہے اور عوامی وسائل کے استعمال میں شفافیت نہیں ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف مالیاتی نظام کی خامیوں کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس بات کا بھی اشارہ دیتے ہیں کہ ادارے میں انتظامی نظم و ضبط کے فقدان کی وجہ سے مالیاتی بے ضابطگیاں جاری ہیں۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کی مالیاتی بے ضابطگیوں کا انکشاف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پی ایس بی جیسے عوامی ادارے میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ادارے کو نہ صرف مالیاتی کنٹرول میں بہتری لانے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے اندر احتساب کو بھی مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ پی ایس بی کے تمام مالیاتی معاملات میں شفافیت اور ذمہ داری کو یقینی بنانے کے لیے نئے طریقہ کار اپنانا ضروری ہے۔
پی ایس بی کو اپنے مالیاتی کنٹرول کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ آئندہ ایسی بے ضابطگیوں سے بچا جا سکے۔ اس میں بڑے اخراجات کی منظوری، مالیاتی معاملات کی باقاعدہ آڈٹ اور خریداری کے عمل میں دستاویزی ثبوت شامل ہونے چاہئیں۔ مزید برآں، پی ایس بی کے مالیاتی عملے کو مالیاتی نظم و ضبط اور شفافیت کے بارے میں مزید تربیت فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ عوامی فنڈز کے استعمال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ میں بے ضابطگیوں کی سب سے بڑی وجہ احتساب کا فقدان ہے۔ افسران کو مالیاتی قوانین کی پاسداری کے لیے جوابدہ ٹھہرانا انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کو پی ایس بی میں بے ضابطگیوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ ایک مضبوط پیغام دیا جا سکے کہ عوامی فنڈز کا غلط استعمال کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کا بنیادی مقصد ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے وسائل فراہم کرنا اور کھلاڑیوں کو ترقی کے مواقع دینا ہے۔ اس سطح کی بے ضابطگیوں کی وجہ سے نہ صرف ادارے کا مقصد متاثر ہو رہا ہے بلکہ عوامی فنڈز کا ضیاع بھی ہو رہا ہے، جس سے ملک میں کھیلوں کے ڈھانچے کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔
آڈٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے، پی ایس بی کو اپنے مشن کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بہتر مالیاتی نظم و ضبط کے ساتھ، پی ایس بی پاکستانی کھلاڑیوں کی بہتر تربیت اور کھیلوں کے انفراسٹرکچر کی بہتری میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کو ایک شفاف، ذمہ دار اور مؤثر ادارہ بنانے کے لیے درج ذیل حکمت عملی اپنائی جانی چاہیے:
آڈٹ کی سفارشات پر عمل درآمد: حکومت کو پی ایس بی کے مالیاتی امور کی سالانہ آڈٹ کروا کر سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔
داخلی کنٹرول کی مضبوطی: پی ایس بی کو مالیاتی کنٹرول کے لیے ایک مؤثر نظام متعارف کروانا ہوگا تاکہ مالی بے ضابطگیوں کا سدباب ہو سکے۔
شفافیت اور عوامی اعتماد کی بحالی: پی ایس بی کو اپنے اخراجات کی تفصیلات ہر سال شائع کرنی چاہئیں تاکہ عوام کو اعتماد حاصل ہو اور مالی بدعنوانی کا خاتمہ ہو۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کی مالی بے ضابطگیوں کی حالیہ انکشافات ادارے میں اصلاحات کی اشد ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایسے ادارے کو جو ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے، شفافیت، احتساب اور مالیاتی نظم و ضبط کی اعلیٰ مثال بننا چاہیے۔ اس رپورٹ کو حکومت اور پی ایس بی دونوں کے لیے ایک وارننگ سمجھا جانا چاہیے، جس کے بعد اصلاحات کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

پاکستانی شہروں کا زوال: فوری شہری اصلاحات کی ضرورت

ایشیائی ترقیاتی بینک کی حالیہ پاکستان نیشنل اربن اسیسمنٹ رپورٹ پاکستان کے شہری مراکز کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو نمایاں کرتی ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور جیسے شہروں میں رہائش کے معیار میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ٹریفک جام، آلودگی، مربوط شہری منصوبہ بندی کی عدم موجودگی اور عوامی خدمات کی زبوں حالی جیسے سنگین چیلنجز ان شہروں کو غیر پرکشش اور غیر مؤثر بنا رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود پاکستانی شہروں کی کارکردگی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے، جو کہ شہری حکمرانی میں ناکامی کی عکاسی کرتی ہے اور فوری سیاسی اور انتظامی احتساب کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
پاکستانی شہروں کا زوال کسی ایک دور کا نتیجہ نہیں بلکہ برسوں سے جاری سیاسی لاپروائی، بدانتظامی اور قلیل مدتی پالیسیوں کا ثمر ہے۔ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے 2018 سے 2023 کے اوائل تک حکومت کی، جس کے بعد نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور اب مریم نواز (مسلم لیگ ن) برسر اقتدار ہیں۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ 2016 سے عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں، جبکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف 2013 سے حکمرانی کر رہی ہے۔ ان سب جماعتوں کے پاس وقت تھا کہ وہ شہری چیلنجز کو حل کریں، مگر ان کے اقدامات غیر مستقل اور غیر مؤثر رہے۔ ہر پارٹی کی صوبائی قیادت شہری مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد پاکستانی شہروں کی مشکلات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں عوامی خدمات زوال پذیر ہیں، معیار زندگی کم ہوتا جا رہا ہے اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہے۔ شہری احتجاجات کی وجہ سے شہر کا مرکز اکثر بند کر دیا جاتا ہے، جس کا براہ راست اثر 8 لاکھ شہریوں پر پڑتا ہے۔ پاکستان نیشنل اربن اسیسمنٹ میں پروفیسر اسپائرو پولالس کے مطابق، اسلام آباد کی ترقی ناکافی شہری منصوبہ بندی اور کمزور حکمرانی کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ یہاں کی شہری انتظامیہ زیادہ تر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے پر توجہ دیتی ہے، جبکہ شہر کے دیگر بنیادی مسائل نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے اقتصادی استحکام کے لیے معاشرتی ناراضگی کو ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ مہنگائی، آمدنی میں کمی، خطے میں جاری تنازعات، بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور انتخابی تنازعات پاکستان میں سماجی بے چینی کو بڑھا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی سفارشات میں انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری اور مالی نظم و ضبط کی تاکید کی گئی ہے، تاہم یہ سب سیاسی عزم اور دانشمندی کے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستان میں شہری حکمرانی کو متعدد ساختی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان نیشنل اربن اسیسمنٹ میں بتایا گیا کہ شہری انفراسٹرکچر ناکافی ہے اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ لاہور میں بے ترتیب رہائشی سکیموں کی تعمیر سے نہ صرف ٹریفک کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے بلکہ آلودگی بھی بڑھی ہے۔ کراچی، ملک کا معاشی مرکز، سیاسی اور فرقہ وارانہ تنازعات کی وجہ سے سالہا سال سے نظرانداز ہو رہا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور میں جاری سیکیورٹی خدشات نے انفراسٹرکچر اور سماجی خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
ان مسائل کی وجہ حکومتی سطح پر جوابدہی کا فقدان ہے۔ پاکستانی شہروں کو جامع شہری منصوبوں کی ضرورت ہے جو پائیدار ترقی، عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کی نمو کو اولیت دیں۔ مگر سیاسی اور اقتصادی رکاوٹوں کی وجہ سے ان منصوبوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
پاکستانی شہروں کی بگڑتی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں:
شہری منصوبہ بندی کو مضبوط بنانا: پاکستان کے شہروں کے لیے ایک مربوط منصوبہ بندی کی حکمت عملی ضروری ہے جو پائیداری اور طویل مدتی ترقی کو مد نظر رکھے۔ زوننگ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا تاکہ رہائشی، تجارتی اور سبز علاقوں میں توازن برقرار رکھا جا سکے۔
حکومتی اختیارات کی تقسیم: مؤثر شہری انتظام کے لیے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا ضروری ہے تاکہ مقامی حکومتیں شہری مسائل کو جلدی حل کر سکیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری: ٹریفک کا مسئلہ پاکستانی شہروں کی کارکردگی اور آلودگی میں رکاوٹ ہے۔ ماس ٹرانزٹ سسٹم میں سرمایہ کاری سے نہ صرف ٹریفک کا دباؤ کم ہوگا بلکہ شہریوں کے سفر کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔
فضلہ مینجمنٹ اور آلودگی کنٹرول: بڑے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں فضلہ مینجمنٹ کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ مؤثر فضلہ جمع کرنے اور ری سائیکلنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ پلاسٹک بیگز پر پابندی اور تجدید شدہ توانائی کے فروغ کی ضرورت ہے۔
سماجی و اقتصادی تحفظ فراہم کرنا: آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق معاشرتی عدم استحکام سے بچنے کے لیے سماجی تحفظ کے منصوبے بڑھانے چاہئیں۔ اس میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے، سستے گھروں کی فراہمی اور بنیادی صحت اور تعلیم کے ڈھانچے میں سرمایہ کاری شامل ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ: انفراسٹرکچر اور صفائی کے منصوبوں میں نجی شعبے کے ساتھ شراکتیں حکومتی بجٹ کے خلا کو پر کر سکتی ہیں۔
سیکیورٹی کو بہتر بنانا: کراچی، کوئٹہ اور پشاور جیسے شہروں میں امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے سیکیورٹی اداروں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے تاکہ سرمایہ کاری کے مواقع اور سماجی ترقی کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔
احتسابی نظام کا نفاذ: منصوبہ بندی کے فیصلوں میں مفاد پرست عناصر کے اثر کو روکنے کے لیے سخت احتسابی نظام متعارف کرایا جائے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستانی شہروں کی حالت ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور جیسے شہری مراکز غیر مؤثر اور غیر پرکشش ہو رہے ہیں۔ پاکستانی شہروں کو درپیش چیلنجز پیچیدہ ہیں اور سیاسی غفلت، ناقص منصوبہ بندی اور حکمرانی کی ناکامیوں کی پیداوار ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کو ان مسائل کو حل کرنے کا موقع ملا، مگر پیش رفت معمولی رہی۔
پاکستان کے شہری مراکز کو ترقی اور خوشحالی کا مرکز بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو شہری اصلاحات کو قومی ترجیح کے طور پر اپنانا ہوگا۔ طویل مدتی پالیسیوں اور مربوط حکمت عملی کے بغیر شہری زوال کی روک تھام ممکن نہیں۔ مقامی حکومتوں کو اختیارات دینا، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، عوامی خدمات کی فراہمی اور شفاف حکمرانی کو فروغ دے کر پاکستان اس زوال کو روک سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا مستقبل اس کے شہروں کی حالت پر منحصر ہے۔ اگر ہمارے قائدین نے فوری اقدامات نہ کیے تو پاکستان اپنے شہریوں کے ساتھ ناانصافی کرے گا، غربت کو مزید بڑھائے گا اور سرمایہ کاروں کو دور کر دے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ شہری حکمرانی میں ایک انقلابی تبدیلی لائی جائے—ایک ایسی تبدیلی جو عوام کو ترجیح دے، ماحول کا تحفظ کرے اور پاکستان کو ایک مضبوط اور خوشحال مستقبل کے لیے تیار کرے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں