پاکستان میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل عوام، صنعتکاروں اور کاروباری اداروں کے لیے سنگین مشکلات کا سبب بن چکے ہیں۔ بلند نرخوں نے نہ صرف ملکی معیشت پر منفی اثر ڈالا ہے بلکہ عوام کے معیارِ زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے اور توانائی کے شعبے میں استحکام لانے کے لیے جامع اور دوررس اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے توانائی کے نرخوں کو متوازن رکھنے کے لیے آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں میں اصلاحات پر غور کیا ہے، لیکن اس راستے پر قدم رکھنے سے زیادہ پیچیدہ اور مکمل حکمت عملی کی ضرورت ہے۔پاکستان میں توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے حکومت نے آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ جاری معاہدات پر نظرثانی کی ہے۔ ان معاہدات میں زیادہ تر بگاس، گیس، اور ہائیڈرو پاور پر مبنی منصوبے شامل ہیں جن کے ذریعے مقامی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے آٹھ بگاس پر مبنی آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں میں تبدیلی کی گئی ہے، جس سے تقریباً دو روپے فی یونٹ کی بچت متوقع ہے۔ یہ بچت عوام اور صنعت کو مختصر مدتی ریلیف فراہم کر سکتی ہے، تاہم اس سے طویل مدتی استحکام کے حصول کے لیے مزید اصلاحات کی ضرورت باقی ہے۔’’ٹیک اینڈ پے‘‘ ماڈل کے تحت گرڈ کی طلب کے مطابق آزاد پاور پروڈیوسرز کو ادائیگیاں کی جائیں گی، جس سے غیر ضروری اخراجات میں کمی کی توقع ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں کمی کے لیے صرف انہی اقدامات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں بجلی کی طلب میں کمی اور گرڈ پر انحصار میں کمی واقع ہوئی ہے، جس سے سرکلر قرضے کی مقدار بھی بڑھ گئی ہے۔توانائی کے شعبے میں پاکستان کو ایک اور بڑا چیلنج سرکلر قرضے کی شکل میں درپیش ہے۔ سرکلر قرضے نے ملکی معیشت کو جکڑ رکھا ہے اور اس کا بوجھ صارفین اور صنعت پر منتقل ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی کی بلند قیمتوں کے باعث صارفین کی عدم ادائیگیوں کا سلسلہ بھی بڑھ رہا ہے، جس سے نہ صرف سرکلر قرضے میں اضافہ ہوا ہے بلکہ توانائی کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کے مواقع بھی محدود ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سرکلر قرضے کے مسئلے کو جڑ سے حل کیا جائے، تاکہ توانائی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام کو بھی فروغ دیا جا سکے۔چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان میں چینی فنڈز سے چلنے والے مختلف توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں جنہوں نے توانائی کے شعبے میں پاکستان کو عارضی ریلیف فراہم کیا ہے۔ تاہم، ان منصوبوں کی تعمیراتی لاگت اور سود کی ادائیگی کی شرائط نے پاکستان کی مالی صورتحال پر بھی بوجھ ڈال دیا ہے۔ چینی منصوبوں کی قرضہ پروفائلنگ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے، جس پر دونوں حکومتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے میں کراچی میں چینی شہریوں کے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات نے ان مذاکرات پر کچھ اثرات مرتب کیے ہیں، مگر دونوں حکومتوں کی سطح پر ان مذاکرات کی اہمیت برقرار ہے۔ چینی فنڈز سے چلنے والے منصوبوں میں مالیاتی استحکام پیدا کرنے کے لیے حکومت کو اس معاملے پر سنجیدہ توجہ دینی چاہیے تاکہ یہ منصوبے ملک کے لیے بوجھ بننے کے بجائے ایک مستقل ذریعہِ توانائی ثابت ہو سکیں۔پاکستان میں توانائی کے شعبے کو مستحکم کرنے کے لیے آزاد پاور پروڈیوسرز کے معاہدات کی اصلاحات کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ توانائی کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے حکومت کو ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنا چاہیے۔ بجلی پر عائد بھاری ٹیکسوں کے بجائے حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے پر غور کرنا چاہیے، جس سے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں استحکام آئے گا بلکہ الیکٹرک گاڑیوں کی جانب رجحان بھی فروغ پائے گا۔ اس سے توانائی کے شعبے کی طلب میں توازن پیدا ہو سکتا ہے اور ماحولیاتی مسائل کا بھی کسی حد تک حل نکل سکتا ہے۔توانائی کے شعبے میں استحکام لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں توانائی مارکیٹ کو لبرلائز کیا جائے، تاکہ آزاد پاور پروڈیوسرز اور دیگر ادارے مسابقتی ماحول میں کام کر سکیں۔ اس کے لیے شفافیت پر مبنی اور معقول نرخوں کا نظام متعارف کروایا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی، نجی شعبے کی توانائی کی تقسیم میں شمولیت کو فروغ دینا ہوگا تاکہ صارفین کو بہتر خدمات فراہم کی جا سکیں۔ اگر توانائی کے شعبے میں نجکاری کے عمل کو فروغ دیا جائے تو اس سے طویل مدتی فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں، جس سے نہ صرف ملک میں معاشی استحکام آئے گا بلکہ عوام کو بھی ریلیف مل سکے گا۔پاکستان میں چینی منصوبوں اور شہریوں کے تحفظ کا مسئلہ بھی ایک حساس موضوع ہے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں چینی فنڈز سے چلنے والے منصوبوں کے حوالے سے۔ چینی شہریوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، کیونکہ اس سے پاکستان اور چین کے درمیان اعتماد اور باہمی تعلقات کو استحکام ملے گا۔ اگر چینی منصوبوں میں تسلسل برقرار رکھا جائے تو پاکستان کے لیے یہ ایک اہم اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں جو ملک میں توانائی کے بحران کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔پاکستان میں توانائی کے شعبے کو مستحکم کرنے کے لیے صرف آزاد پاور پروڈیوسرز کے معاہدات کی اصلاحات یا چینی منصوبوں کی پروفائلنگ کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ایک طویل مدتی اور جامع حکمت عملی وضع کی جائے۔ حکومت کو ان معاہدات کو ملک کے مجموعی مفاد میں دیکھنا چاہیے اور ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جو محض عارضی ریلیف کے بجائے طویل مدتی معاشی استحکام فراہم کرے۔توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا مقصد محض قیمتوں میں کمی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس سے ملک کے معاشی استحکام اور عوام کی خوشحالی بھی جڑی ہوئی ہے۔ حکومت کو عوام کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک مضبوط اور قابلِ عمل حکمت عملی وضع کرنی ہوگی جس سے توانائی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ سرکلر قرضے کے مسئلے کا بھی حل نکل سکے۔ پاکستان کے لیے توانائی کا شعبہ نہ صرف ایک معاشی ضرورت ہے بلکہ اس کا قومی سلامتی کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔ اس لیے اس شعبے میں اصلاحات کو قومی اہمیت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔پاکستان میں توانائی کی قیمتوں میں اصلاحات کا مسئلہ ایک پیچیدہ مگر اہم موضوع ہے، جسے حل کرنے کے لیے حکومت، صنعتکار اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدات کی اصلاحات، سرکلر قرضے کے مسئلے کا حل، چینی منصوبوں کی پروفائلنگ اور دیگر اصلاحات کی تکمیل سے توانائی کے شعبے میں استحکام آ سکتا ہے۔ لیکن یہ اقدامات اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایک جامع اور طویل مدتی حکمت عملی نہ بنائی جائے جو کہ معاشی اور سیکیورٹی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہو۔پاکستان میں توانائی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے محض وقتی ریلیف پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو نہ صرف معاشی استحکام فراہم کرے بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کو بھی یقینی بنائے۔ اگر حکومت توانائی کے شعبے میں ٹھوس اصلاحات لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ نہ صرف معیشت کو مضبوط کرے گا بلکہ عوام کے معیار زندگی میں بھی بہتری لائے گا۔
ایک متنازعہ مہمان: ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ پاکستان
حال ہی میں بھارتی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پاکستان کا ایک ماہ طویل دورہ مکمل کیا جس نے پاکستان کے مختلف طبقوں میں اس سرکاری دعوت پر سوالات اٹھائے ہیں کہ کیوں ریاست نے انہیں بطور مہمان مدعو کیا۔ ڈاکٹر نائیک اپنی جارحانہ تبلیغی طرز، اشتعال انگیز بیانات اور متنازعہ خیالات کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک تنازعے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ ان کے اس دورے نے ایک بار پھر ان کے بیانات سے پیدا ہونے والے مباحث کو ہوا دی ہے اور پاکستانی معاشرت میں مذہبی برداشت، سماجی اتحاد، اور ریاست کے کردار کے بارے میں اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔پاکستان میں قیام کے دوران ڈاکٹر نائیک نے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور انہیں اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقات کا موقع دیا گیا، جن میں وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔ تاہم، جلد ہی ان کے بیانات پر خدشات پیدا ہوئے، خصوصاً مسیحی برادری کے رہنما ریورینڈ آزاد مارشل نے سرکاری طور پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے صدر پاکستان کو ایک خط میں لکھا کہ ڈاکٹر نائیک کے بیانات نے پاکستانی مسیحیوں کو “شدید پریشانی” میں مبتلا کیا ہے اور ان کے ریمارکس کو ’’ مذہبی توہین‘‘قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نائیک کے خیالات بانی پاکستان محمد علی جناح کے اس وژن کے خلاف ہیں جس میں انہوں نے 11 اگست 1947 کو ہر شہری کے لیے مساوی حقوق کی بات کی تھی، خواہ ان کا مذہب کچھ بھی ہو۔ یہ بات ان پاکستانی حلقوں کے جذبات کی عکاس تھی جو ڈاکٹر نائیک جیسے متنازعہ شخصیت کی پذیرائی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک مسلم دنیا میں ایک متنازعہ شخصیت رہے ہیں، اور وہ اپنے مذہبی عقائد اور تنگ نظری پر مبنی خیالات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن کے قیام کے بعد ان کے معتقدین کی بڑی تعداد جمع ہوئی، خاص طور پر ٹیلی ویژن پروگرامز میں ان کی شرکت نے انہیں عالمی سطح پر شہرت دی۔ تاہم، ان کا طرزِ تبلیغ اکثر تعلیمی اور اشتعال انگیز تقریر کے درمیان موجود باریک لکیر کو عبور کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، ماضی میں ان کے بیانات کو خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا ہے، کیونکہ ان کے مطابق ڈاکٹر نائیک کی باتیں خواتین کے لیے قدامت پسند نظریات کو فروغ دیتی ہیں۔ حالیہ دورے میں بھی ان کے بیانات سے خواتین کے حقوق کے کارکنان نے اعتراض کیا اور انہیں پاکستانی معاشرت میں خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ڈاکٹر نائیک کا متنازعہ ماضی اس سے بھی قبل کا ہے۔ 2007 میں، انہوں نے اسلامی تاریخ پر کچھ ایسے بیانات دیے جو نہ صرف تاریخی غلطیاں تھیں بلکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بھی بنے۔ 2016 میں بھارت نے ان پر منی لانڈرنگ اور اشتعال انگیزی کا الزام عائد کیا، جس کے بعد وہ بھارت چھوڑ کر ملائشیا منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے مستقل رہائش حاصل کر لی۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نائیک کی جراتمندانہ تبلیغی طرز انہیں اپنے معتقدین میں محبوب بناتی ہے، جبکہ ناقدین کا ماننا ہے کہ ان کے بیانات اکثر عدم برداشت کو فروغ دیتے ہیں اور کثیر الثقافتی معاشروں میں حساسیت کے ضروری اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ڈاکٹر نائیک کو سرکاری طور پر مدعو کرنے کے فیصلے پر پاکستانی ریاست پر تنقید کی گئی ہے۔ مذہبی گفتگو کا معاشرے میں ایک اہم مقام ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں مذہب ذاتی اور ثقافتی شناخت کا ایک مضبوط حصہ ہے۔ تاہم، ایسی مذہبی گفتگو جو عوامی سطح پر کی جاتی ہے، اس میں ایک مخصوص سطح کی حساسیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مابین کشیدگی نہ بڑھے۔ ریورینڈ مارشل نے اپنے خط میں اس بات پر زور دیا کہ ڈاکٹر نائیک کے بیانات نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے اس جامع نظریے کی توہین کی، جس میں جناح نے ہر پاکستانی کے لیے احترام اور مساوات کو اہمیت دی تھی۔ جب مذہبی گفتگو کو ایسے انداز میں پیش کیا جائے جو کسی خاص طبقے کو الگ تھلگ کر دے یا خواتین کے کردار کو محدود کرے تو یہ نہ صرف جناح کے اس وژن کے منافی ہے بلکہ معاشرتی انتشار کو بڑھانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ریاست نے ڈاکٹر نائیک کو مدعو کرنے کا فیصلہ شاید اسلامی علوم کے فروغ کے پیشِ نظر کیا ہو، لیکن اس کا نتیجہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ایسے حساس موضوعات پر بات کرنے والی شخصیات کی بہتر چھان بین ضروری ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے مذہبی اور فرقہ وارانہ چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، اور باوجود اس کے کہ حالیہ برسوں میں بہتری آئی ہے، مختلف کمیونٹیز اب بھی ایسے بیانات سے ہوشیار رہتی ہیں جو ان کے نزدیک فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نائیک کی تقاریر، جو اکثر حساس موضوعات پر ہوتی ہیں، کو ایک زیادہ منظم ماحول، جیسے کہ تعلیمی یا بین المذاہب مکالمے میں شامل کیا جا سکتا تھا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے بیانات کو غلط نہ سمجھا جائے اور گفتگو مثبت انداز میں ہو۔تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلے سے ہی کافی متنازعہ شخصیات موجود ہیں اور کسی غیر ملکی متنازعہ شخصیت کی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ ڈاکٹر نائیک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اشتعال انگیزی نہیں بلکہ تعلیم دینا ہے، مگر ان کا طرزِ بیان اکثر اختلافی اور کٹر نظر آتا ہے، جس سے پاکستان جیسے مذہبی تنوع رکھنے والے ملک میں سماجی ہم آہنگی کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں معاشرتی اتحاد کا انحصار احترام پر مبنی گفتگو کے فروغ پر ہے، وہاں ریاست کو ایسے شخصیات کا انتخاب کرنا چاہیے جو متوازن گفتگو کو فروغ دے سکیں۔اس وقت جب پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور معاشرتی ڈھانچہ نازک ہے، سب کو شامل کرنے والی گفتگو اور ہم آہنگی پیدا کرنے والی پالیسیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ عوامی حمایت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ متنازعہ تاریخ رکھنے والے افراد کی میزبانی سے برداشت اور احترام کی فضا کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو ایسی گفتگو کا حصہ بننے کی ضرورت ہے جو ثقافتی پیچیدگیوں کو سمجھے اور مختلف پس منظر والے معاشروں میں ان کے بیانات کے اثرات کا ادراک کرے۔خلاصہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دورے نے پاکستان کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے کہ مذہبی شعبے میں اثر انداز شخصیات کی میزبانی کے لیے کیا معیارات ہونے چاہئیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ امن کو برقرار رکھے اور تمام شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرے۔ ایسی مذہبی گفتگو جو پاکستان کے تنوع کا احترام کرتی ہو، معاشرتی فرق کو کم کرنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم، ڈاکٹر نائیک جیسے شخصیات جن کا ماضی اختلافات کو فروغ دیتا ہے، اس وژن سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اگر پاکستان واقعی مذہبی سمجھ بوجھ کو فروغ دینا چاہتا ہے تو اسے سوچ سمجھ کر ایسی شخصیات کا انتخاب کرنا ہوگا جو معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دے سکیں۔ ایسے بہت سے علما اور مذہبی رہنما موجود ہیں جو بامعنی مکالمے کو فروغ دے سکتے ہیں اور معاشرت کو تقسیم کیے بغیر اتحاد پیدا کر سکتے ہیں، اور یہی وہ آوازیں ہیں جنہیں پاکستان کو تقویت دینی چاہیے تاکہ مستقبل میں ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کو یقینی بنایا جا سکے۔