بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیکورٹی فورسز کو دہشت گردی کے شبے میں کسی بھی شخص کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کے اختیار دینے کے حکومتی فیصلے پر سینٹ میں شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ یہ اختیارات انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کے ذریعے فراہم کیے گئے ہیں، جس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو مؤثر بنانا ہے۔ لیکن، سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ ترمیم واقعی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو مؤثر بنانے کے لیے ہے یا اس سے بنیادی انسانی حقوق کے پامال ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے؟
گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے، لیکن بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں میں بہتری کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔ تاہم، ان حکمت عملیوں کے نفاذ کے دوران بنیادی انسانی حقوق اور آئینی تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومت کے حالیہ اقدام کو سینیٹرز نے ایک ایسے وقت میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے جب بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ پہلے ہی سنگین ہے۔
سینیٹ میں ہونے والی بحث کے دوران سینیٹر جان محمد بلیڈی نے حکومت کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس قانون سازی کے ذریعے سیکورٹی فورسز کو وہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے جن سے عام شہریوں کے گھروں میں بغیر کسی وارنٹ کے داخل ہونا اور گرفتاری عمل میں لانا ممکن ہوگا۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ حکومت ان اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتی ہے اور ان کے غلط استعمال سے بلوچستان میں پہلے سے موجود مسائل مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس نے وہاں کی عوام کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے۔ سینٹ میں کیے جانے والے احتجاج کے دوران سینیٹرز نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے اختیارات سے مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا بلکہ اس سے عوام اور حکومت کے درمیان دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔ سینیٹر جان محمد بلیڈی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک جبری گمشدگیاں ہیں، اور یہ قانون سازی ان گمشدگیوں کو قانونی تحفظ فراہم کر دے گی۔
ایمل ولی خان، جو عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں، نے بھی اس اقدام کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے اور اس پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے قوانین کو پاس کروانا حکومت کی جانب سے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، اور ان اختیارات کے نفاذ سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ ان کے مطابق حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان کے ناراض نوجوانوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپناتی، لیکن اس کے بجائے حکومت نے سیکورٹی فورسز کو بے پناہ اختیارات دے کر مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ، جو جے یو آئی (ف) کے قانون ساز ہیں، نے بھی اس اقدام پر تنقید کی اور کہا کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے قوانین صرف مخصوص علاقوں میں نافذ کرنے سے وہاں کے عوام میں مزید احساسِ محرومی پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور اب ان کو مزید دباؤ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ان خدشات کے علاوہ، اس قانون سازی کے ذریعے سیکورٹی فورسز کو دیے گئے اختیارات کے غلط استعمال کا خدشہ بھی ہے۔ جب کسی ریاست میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وسیع اختیارات دیے جاتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کا نظام بھی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ ان اختیارات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے، پاکستان میں اکثر ایسے قوانین کے نفاذ کے بعد احتساب کا مؤثر نظام نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اختیارات دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے ضروری ہیں، لیکن سینیٹرز کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین سے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ عوام کا اعتماد بھی ختم ہوگا۔ بلوچستان میں پہلے ہی لاپتہ افراد کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے، اور اس قانون سازی کے بعد اس مسئلے میں مزید اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو عوامی اعتماد کو بحال کریں نہ کہ ان کے خوف میں اضافہ کریں۔
بلوچستان میں جاری مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت وہاں کے عوام کے ساتھ مکالمہ کرے اور ان کے مسائل کو سمجھ کر حل نکالے۔ صرف سخت گیر اقدامات سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ مشاورت کرے اور ان کی رائے کو اہمیت دے۔ مکالمہ اور مشاورت ہی وہ راستہ ہے جس سے مسائل کا حل ممکن ہے۔
اس کے علاوہ، ملک کے دیگر حصوں میں بھی ایسے قوانین کا نفاذ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں بھی عوامی مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور وہاں کے عوام بھی ایسی قانون سازی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی سالمیت اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے متوازن پالیسی اپنائے تاکہ ملک کے تمام حصوں میں امن و امان کی بحالی ممکن ہو سکے۔
حکومت کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ عالمی سطح پر ایسے قوانین کی تنقید ہوتی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی نظر میں پاکستان کو ایک مہذب اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والے ملک کے طور پر پیش کرنا بھی اہم ہے۔ اگر ملک کے اندر ہی عوام اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہوں تو عالمی سطح پر پاکستان کا امیج متاثر ہو سکتا ہے۔
آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی صرف سخت گیر اقدامات سے ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے اعتماد کو بحال کرے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ سیکورٹی فورسز کو دیے گئے بے پناہ اختیارات کا غلط استعمال نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بن سکتا ہے بلکہ یہ ملک کے امن و امان کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کے مسائل کو سمجھ کر حل کرنا ہی ملک کی سالمیت اور استحکام کی ضمانت ہے۔
خواتین اور بچیوں کا تحفظ: محض قوانین کافی نہیں
پاکستان میں خواتین اور بچیوں کی سلامتی اس وقت تک یقینی نہیں بنائی جا سکتی جب تک مجرموں کے خلاف قانون کی پوری طاقت کا استعمال نہ ہو۔ بدھ کے روز گوجرانوالہ کے ایک سرکاری اسکول میں کم از کم پانچ کم عمر طالبات کے ساتھ ان کے اسکول ٹیچر کے شوہر کے ہاتھوں زیادتی کا واقعہ سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق، ملزم نے ان بچیوں کے ساتھ بار بار زیادتی کی، ان کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کیا، لیکن آخرکار ایک متاثرہ بچی نے اپنے والدین کو اس ظلم کی خبر دی۔ متاثرہ خاندان کی شکایت پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور پنجاب حکومت کے حکم پر اسکول کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ روشنی ہیلپ لائن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2023 کے دوران تقریباً 20 بچے اپنے گھروں سے لاپتہ ہوئے، جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ یہ افسوسناک حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی کے لیے حساس اور ترقی پسند رویے انتہائی اہم ہیں، کیونکہ کوئی بھی لباس، عمر، جگہ، سماجی معیار یا حیثیت ریپ کو روکنے کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
یہ مسئلہ صرف نچلی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ طاقت کے ایوانوں تک بھی پھیلا ہوا ہے جہاں بعض رہنما ریپ کے بارے میں مذاق کرتے ہیں اور ایسے ناقابل قبول بیانات دیتے ہیں جو انہیں ریپ کے حامیوں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔ فوری انصاف کی گونگی خواہش — جیسے کہ سزائے موت، پولیس مقابلے، اور کیمیائی castration — اس مسئلے کا حل نہیں ہیں کیونکہ پرتشدد سزائیں معاشروں کو مزید بربریت کی طرف لے جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں متاثرین کو شرمندہ کرنے کا رجحان، خواتین کی آزادیوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاستدانوں کا تسلط، یہ سب پاکستان میں ریپ کلچر کی عکاسی کرتے ہیں۔ 2021 میں منظور ہونے والے اینٹی ریپ (تحقیقات اور مقدمہ) ایکٹ نے ریپ کی تعریف کو وسیع کر دیا ہے اور اس جرم کو مزید قابلِ تعزیر بنا دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، اینٹی ریپ کرائسز سیلز، فاسٹ ٹریک عدالتیں، اور جنسی مجرموں کی قومی رجسٹری جیسے اقدامات کو مضبوط بناتے ہوئے جرم کو روکنے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گلیوں، پارکوں، عوامی ٹرانسپورٹ، اور محفوظ مقامات جیسے کہ اسکولوں کو بھی محفوظ بنانے کے لیے آگاہی پروگرامز، سی سی ٹی وی کیمرے، ہیلپ لائنز، گشت، اور حفاظتی آلات، مثلاً پیپر اسپرے، شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ناقص تحقیقات اور افسوسناک سزاؤں کی شرح مزید برداشت نہیں کرنی چاہیے۔ ریاست کو سلامتی اور بااختیاری کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے انصاف کے ساتھ سختی سے وابستہ رہنا ہوگا۔
ان واقعات کی روشنی میں یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے لیے صرف قوانین کافی نہیں ہیں، بلکہ ان قوانین کا مؤثر نفاذ، سماجی رویوں کی تبدیلی اور متاثرین کے لیے ایک محفوظ ماحول کی فراہمی ناگزیر ہے۔ جنسی جرائم کے خلاف جدوجہد میں معاشرتی تعلیم و تربیت کا کلیدی کردار ہے، جس کے لیے اسکولوں، کالجوں اور دیگر اداروں میں خصوصی آگاہی مہمات چلانا وقت کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں بچوں کی آن لائن حفاظت کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ خطرات سے آگاہ رہیں اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچ سکیں۔ ریاست کی جانب سے ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو بچوں کی آن لائن پرائیویسی اور تحفظ کو یقینی بنائیں، تاکہ بچوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے استحصال سے بچایا جا سکے۔
مجموعی طور پر، ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جہاں خواتین اور بچیاں بلا خوف و خطر اپنی زندگی گزار سکیں۔ اس کے لیے ہمیں صرف قانون سازی پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایک جامع حکمت عملی اپنانی چاہیے جس میں قانونی، سماجی، تعلیمی، اور نفسیاتی پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایک محفوظ، ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بچیوں اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اور فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔
آخر کار، ہمارے معاشرتی نظام کی مضبوطی اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے کمزور اور مظلوم طبقوں کی حفاظت کے لیے عملی قدم اٹھائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے لیے نہ صرف قوانین بنائے بلکہ ان کے نفاذ کو بھی یقینی بنائے۔ ہر اس شخص کو، جو خواتین یا بچیوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، قانون کے کٹہرے میں لانا اور اسے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سزا دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں ہر بچی اور ہر خاتون محفوظ ہو اور انہیں اپنی زندگی کے ہر میدان میں بغیر کسی خوف کے آگے بڑھنے کا موقع ملے۔
کس سے کتنا قرض ملے گا؟
اگست21، 2024 کو وزیر خزانہ اورنگزیب نے ایک غیر ملکی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری ستمبر میں متوقع ہے، تاہم 3 ستمبر کو ملکی میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریز کیا جس سے قیاس آرائیاں جنم لینے لگیں کہ مثبت پیشرفت میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔
27 اگست کو اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے بھی اسی غیر ملکی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ملک مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے 4 ارب ڈالر جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ بیرونی مالیاتی فرق کو پورا کیا جا سکے۔ تاہم، اس بیان میں تین اہم نکات وضاحت طلب ہیں: بجٹ میں کس مالیاتی خلا کو پر کرنا ہے، کمرشل قرضوں اور یورو بانڈز کے حصول میں اضافہ کیوں ضروری ہوا، اور 4 ارب ڈالر کے قرض پر شرح سود کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
رواں سال کے پہلے دو ماہ میں محصولات کی مد میں 98 ارب روپے کی کمی اور متوقع اخراجات میں اضافے سے مالیاتی توازن مزید بگڑ گیا ہے۔ فچ اور موڈیز کی جانب سے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری کے باوجود ملک اب بھی زیادہ خطرے والے ممالک میں شامل ہے۔
پاکستانی حکام کی دبئی اسلامک بینک اور مشرق بینک کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد سے کوئی واضح معاہدہ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کی حالیہ چین کے دورے کا مقصد اضافی قرضے اور ادائیگی میں توسیع پر بات چیت تھا، لیکن سی پیک کے تحت قائم چینی پاور پروڈیوسرز کے بقایا جات کی ادائیگی میں تاخیر رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر دو طرفہ قرضوں میں توسیع مشکل ہے، جس سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت سخت معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جہاں قرض دہندگان کے سخت شرائط کے ساتھ ساتھ ملک میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔