آج کی تاریخ

روز نامہ قوم (اداریہ)

معیشت کی بحالی : تکلیف دہ راستہ صرف عام آدمی کیلئے کیوں ؟

پاکستان کی معیشت کی بحالی کا سوال اب ‘زندگی اور موت کا سوال بنتا جا رہا ہے۔ اب ہر طرف سے ایک ہی آواز آر رہی ہے کہ پاکستان کو ڈوبنے سے بچانا ہے تو معشیت کے باب میں جرآت مندانہ اقدام اٹھانے پڑیں گے۔ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جرآت مندانہ اقدامات سے مراد کیا ہے؟اس حوالے سے حکومت کی جانب سے اب تک جو عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں جرآت مندی کا سارا اظہار عام شہریوں پر ٹیکسز کے بوجھ ڈالنے اور حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات مکں بے تحاشا اضافوں کی صورت میں ہوا ہے۔اگر ہم پاکستان کے بڑے مالیاتی مسائل کی طرف دیکھیں تو اب بھی کسی نہ کسی طریقے سے ڈالر کی شرح تبادلہ کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اور حکومت اب تک اسے سرکاری ریٹ کو مارکیٹ ریٹ سے منسلک کرنے کے دعوے پر عمل درآمد نہیں کرسکی ہے۔ افراط زر، مہنگائی نے ہماری مانیٹری پالیسی کے تحت شرح سود کو اب بھی اس سطح پر رکھا ہوا ہے جس کے سبب چھوٹے اور میڈیم کاروباری تو رہے ایک طرف بڑے کاروباری بھی کمرشل بینکوں سے قرض لیکر اپنے بزنس نیٹ ورک میں اضافہ کرکے روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے قاصر ہیں- جب کہ حکومتی قرض کی ادائیگیوں کی شرح کل بجٹ کا 52 فیصد ہوگئی ہیں اور مقامی بینکوں کا قرضہ ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔پچھلے ہفتے، سی ایف اے سوسائٹی پاکستان نے کراچی میں ایک سیمینار منعقد کیا جہاں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے دو سابق ڈپٹی گورنروں نے بھی پاکستان کی معشیت اور مالیاتی مسائل اور معشیت پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے ایکسچینج ریٹ، مانیٹری پالیسی، اور حکومتی قرض کے مستقبل کا جو نقشہ کھنچا وہ بھی کوئی امید افزا نہیں تھا- سٹیٹ بینک پاکستان کے سابق دو سربراہوں نے اگرچہ یہ تو کہا کہ شرح سود نیچے جا رہی ہے اور فی الحال کرنسی کے بڑے پیمانے پر گراوٹ کا امکان نہیں ہے لیکن وہ اشاریوں ، کنایوں میں یہ بات ضرور کرگئے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے معیشت کے استحکام کا بہت تکلیف دہ راستا چنا ہے۔ جس سوال کا جواب پاکستان کے طاقتور ترین عہدوں میں سے ایک پر فائز رہنے والے دو معشیت دانوں نے دینے سے گریز کیا وہ یہ تھا کہ پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے معشیت کے استحکام کے لیے چنے جانے والے جس راستے کو انھوں نے تکلیف دہ قرار دیا ہے وہ کن کے لیے تکلیف دہ ہے؟ حالیہ بجٹ کی روشنی میں دیکھیں تو اس کا صاف جواب ہے وہ تکلیف دہ راستا جس پر صرف اور صرف مشکلات اور بربادی ہے وہ عام آدمیوں کے لیے ہے ناکہ اشرافیہ کے لیے۔ ان سابق عہدے داروں کا کہنا تھا کہ پاکستان کا عوامی قرض ناقابل برداشت ہے اور اسے دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ صورتحال خراب ہے لیکن قابل انتظام ہے، بشرطیکہ مالیاتی احتیاط جاری رہے۔ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ مالیاتی ہے اور ساختی عدم توازن کو حل کیے بغیر ملک ترقی کی راہ پر نہیں جا سکتا۔ عام آدمی کو شاید ‘ساختی عدم توازن جیسی اصطلاح سمجھ میں نہ آئے۔ لیکن اس کا صاف اور آسان مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے اور سویلین و عسکری اداروں کے اخراجات میں حاطر خواہ تبدیلی لائے اور جتنے سرکاری بابو شاہی کے کنٹرول میں چلنے والے انٹرپرائز ہیں انہیں پبلک – پرائیویٹ پارٹنر شپ یا مکمل طور پر نجی شعبے کو سونپ دیا جائے تاکہ غیر ترقیاتی اخراجات اور نقصانات سے مل کر بننے والے حکومتی اخراجات اور اداروں کے خسارے کے بوجھ سے مقامی بینکوں سے بے تحاشا قرضے لیکر عوام پر بوجھ نہ بڑھایا جائے۔سب سے بڑا مسئلہ ملکی اور غیر ملکی عوامی قرض کی کمی کا ہے مگر حکومت یا آئی ایم ایف اس کی ضرورت پر کچھ نہیں کہے گا۔ اشرافیہ کے ماہرین معشیت جب خود وزیر خزانہ یا گورنر سٹیٹ بینک یا حکومتی معاشی مشیر ہوتے \ ہیں تب وہ ایسا اظہارعوام کے سامنے نہیں کرتے جب ریٹائر ہوجائیں یا ہٹا ددیے جائیں تب وہ ایسی باتیں خوب کرتے ہیں۔ اشرافیہ کے حامی ماہرین معشیت جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو قرض کو پائیدار بنانے کے لئے کئی سالوں تک مالی سرپلس چلانا ہوگا، جو عوام کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ تو اس کا مطلب صاف یہ ہوتا ہے کہ حکومت میں شامل لوگ نہ تو اپنے خرچ گھٹانا چاہتے ہیں نہ وہ سویلین و فوجی بابو شاہی کی مراعات ختم کرنا چاہتے ہیں اور وہ ساری مشکلات عوام پر ڈالنا چاہتے ہیں- موجودہ مالی سال کا بجٹ اس کا ثبوت ہے۔ حکومت ٹیکس دینے والوں کی قوت برداشت کو آزما رہی ہے- عوام اگر اس پر احتجاج کا راستا اختیار کرتے ہیں تو حکومت ‘سماجی بدامنی کی دہائی دینے لگتی ہے اور اسے طبقہ اشرافیہ کے تحفظ کی فکر لگ جاتی ہے۔ افراط زر اور ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے عوام کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ کیا کئی سالوں تک پرائمری سرپلس چلانے کی پالیسی کی کوئی اہمیت ہے؟ اس پر غور اور بحث ہونی چاہیے۔ ملک کو ایک وقفہ چاہیے کیونکہ موجودہ حالات بہت تکلیف دہ ہیں۔ سماجی و معاشی اشاریے غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ لیکن یہ تکلیف حصّہ بقدر جثہ ہونی چاہيے قوی دولت کا جس کے پاس جتنا حصّہ ہے اس پر اتنا ہی بوجھ ڈالنا بنتا ہے لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی ہے جو جتنا کمزور ہے حکومت کا ٹیکسز نظام اسے اتنا ہی زیادہ دبا رہا ہے۔لیکن صرف قرض کی دوبارہ ترتیب کافی نہیں ہوگی۔ 1998 میں ایسا کیا گیا لیکن مختصر ترقی کے بعد معیشت پھر غیر پائیدار ہو گئی۔ مستحکم ایکسچینج ریٹ اور خراب مالیاتی پالیسیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ عالمی بینک کے ماہر معاشیات نے بھی اس بات پر زور دیا کہ عوامی شعبے کے خرچ کی معیار خراب ہے، جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔موجودہ معاشی حالات میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ کا عہدہ ایک مشکل اور غیر شکر گزار کام ہے۔ معاشی ترقی بمشکل آبادی کی شرح نمو کا احاطہ کرتی ہے، مہنگائی بلند ہے، مالیاتی ڈھانچہ غیر مستحکم ہے، اور ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سخت شرائط کے ساتھ شدت اختیار کر چکا ہے- یہ منصب ایک ‘گرم نشست کی مانند ہے جو مزید گرم ہو رہی ہے کیونکہ وزیر خزانہ کو بااثر عناصر اور حالات نے جکڑ رکھا ہے جو معیشت کے مسائل سے نمٹنے کی کوششوں کو متاثر کرتے ہیں۔ متعدد وزرائے خزانہ کو میڈیا، عوام، مفادات کے گروپوں اور بااثر عناصر کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ بھی اسی مشکل سے گزر رہے ہیں۔ اتحادی حکومت کا پاس کردہ بجٹ کاروباری طبقے اور شہری متوسط طبقے سمیت ہر طبقے کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بن رہا ہے، اور بجا طور پر، کیونکہ حکومت نے موجودہ ٹیکس دہندگان پر بے جا بوجھ ڈال دیا ہے جبکہ سرکاری افسران کو اضافی ٹیکس اقدامات سے مستثنیٰ رکھا ہے اور ان کی تنخواہوں میں بھاری اضافہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کے پاس بہت کم گنجائش تھی اور انہیں بڑی تعداد میں اشیاء پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنی پڑی۔ مختلف شعبوں (بشمول برآمد کنندگان) کے لیے آمدنی ٹیکس کی عمومی شکل بھی لانا پڑی۔ اس کے باوجود، حکومت کچھ علاقوں میں زیادہ محتاط ہو سکتی تھی۔ متوسط طبقے کے افراد پر زیادہ بوجھ ڈالنا جائز نہیں ہے جہاں سب سے زیادہ ٹیکس کی شرح 39-49 فیصد ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں مختلف قسم کے تکنیکی ماہرین کو سینیٹ کی تکنیکی نشستوں پر منتخب کیا گیا اور انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا۔ انہوں نے پارٹی کے سربراہ کے سامنے جوابدہی کی جو معاشی اور مالیاتی امور میں مہارت نہیں رکھتے تھے۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے بڑے فیصلے کرنے کے لیے شخصیت اور پارٹی سربراہ کا اعتماد ضروری ہے۔ محمد شعیب اور غلام اسحاق خان جیسے وزرائے خزانہ نے اپنے عہدے پر اس اعتماد اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ایک واقعہ غلام اسحاق خان کے دور کا ہے جب فوج نے اپنا بینک بنانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جب غلام اسحاق خان اور گورنر اسٹیٹ بینک کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور بینک قائم نہ ہو سکا۔ مشکل معاشی حالات میں، وزیر خزانہ کو وزیر اعظم اور دیگر بااثر حلقوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اگر ان کے مطالبات ملک کے وسیع تر معاشی مفادات کے خلاف ہوں۔ موجودہ وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو حکومت کے ایم این ایز کی پی ایس ڈی پی (عوامی ترقیاتی منصوبہ) کی اسکیموں پر اعتراض کرنے میں مشکل پیش آئی، جبکہ ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کر دیا گیا۔ یہ اقدامات عوام پر بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوں گے اور صرف امیر طبقے تک محدود نہیں رہیں گے۔ قومی قربانی کے مطالبے کی غیر متوازن اطلاق اور حکومت کے اخراجات میں کمی کے بغیر مالیاتی بل کی منظوری عوام کے لیے کسی طمانچے سے کم نہیں ہے۔

بی جے پی کی فاشزم سیاست

راہل گاندھی کی بطور اپوزیشن لیڈر پہلی تقریر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھاری ہلچل مچائی جب انہوں نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے نظریاتی مرکز، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، پر “آئین پر مکمل اور منظم حملہ” اور “بھارت کے نظریے” پر حملہ کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے بی جے پی پر اقلیتوں کو دھمکانے اور مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تشدد پھیلانے کا بھی الزام لگایا۔جب وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر نے راہل گاندھی سے ‘پر تشدد ہندوؤںکو بی جے پی سے جوڑنے پر معافی کا مطالبہ کیا، تو وزیراعظم نریندر مودی بھی مداخلت کرنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ “پورے ہندو کمیونٹی پر تشدد کا الزام لگانا بہت سنگین ہے”۔کانگریس لیڈر نے جواب دیا: نریندر مودی جی پوری ہندو کمیونٹی نہیں ہیں، بی جے پی پوری ہندو کمیونٹی نہیں ہے، اور آر ایس ایس پوری ہندو کمیونٹی نہیں ہے”۔اپوزیشن لیڈر کے تبصروں نے وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو اس قدر ناراض کیا کہ ان کی تقریر کے کئی حصے، بشمول مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کے بارے میں، پارلیمانی ریکارڈ سے حذف کر دیے گئے۔تاہم، وہ تاریخ سے اس منظم تشدد کو حذف نہیں کر سکتے جو اقلیتوں کے خلاف جاری ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کے بانی اور نظریاتی دمودر ساورکر سے تحریک لیتی ہے، جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہندوؤں کو قوم کے طور پر متحد کرنے کا واحد راستہ قرار دیا تھا۔مودی، جو آر ایس ایس کے رکن تھے، نے 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کی نگرانی کی تھی۔ جب سے وہ 2014 میں وزیراعظم بنے ہیں، ہندوتوا، ساورکر کی اصطلاح، ان کی حکومت کی پالیسیوں کی وضاحت کرتی ہے، جس میں بھارت کو ہندو راشٹریہ (ہندو ریاست) میں تبدیل کرنا شامل ہے۔نتیجتاً، مسلمانوں کو بڑھتے ہوئے تشدد، امتیازی قوانین، املاک اور کاروبار کی تباہی، اور خوف کی عمومی فضا کا سامنا ہے۔ہندؤں میں سے متشدد جنونی گروہوں نے گائے کا گوشت کھانے یا گائے لے جانے کے شبہ میں کئی مسلمانوں کو لنچ کیا، جبکہ دیگر کو مارا پیٹا اور “جے شری رام” کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔بی جے پی کی حکمرانی والے ریاستوں میں، حجاب پہننے والی خواتین اور لڑکیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کئی پرانی مساجد کو منہدم کیا جا رہا ہے یا ان کے احاطے ہندو گروہوں کو الاٹ کیے جا رہے ہیں، یہ جھوٹا بہانہ بنا کر کہ انہیں ہندو مندروں کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا۔دسمبر 1992 میں، بی جے پی، آر ایس ایس اور ان کی اتحادی تنظیموں کے زیر قیادت ہندو گروہوں نے اجودھیا میں 8ویں صدی کی بابری مسجد کو منہدم کر دیا، دعویٰ کیا کہ یہ ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس سے فسادات پھوٹ پڑے جن میں 2000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ گزشتہ جنوری میں، بڑے جوش و خروش کے ساتھ، وزیراعظم مودی نے اس قدیم مسجد کی جگہ پر رام مندر کا افتتاح کیا۔اپنے مذہبی طور پر منقسم ایجنڈے کے حصول کے لئے تشدد کا سہارا لینے کے باوجود، مودی اور ان کے ساتھی کانگریس لیڈر کے تبصروں پر ناراض ہوئے جو صرف ان کے سامنے آئینہ رکھ رہے تھے۔ وہ سچائی سننا نہیں چاہتے، لیکن اعمال ان کے احتجاج سے بلند آواز میں بولتے ہیں۔مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کے خلاف عدم برداشت کی لہر کو جنم دینے کے علاوہ، وہ ملک کو بڑھتے ہوئے فاشزم سے بچانے کی کوشش کرنے والے سول سوسائٹی کے کارکنوں پر بھی وحشیانہ حملے کرتے ہیں۔بی جے پی کی یہ فاشزم سیاست بھارت کے آئین اور اس کے بنیادوں پر حملہ ہے۔ اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کی یہ حکمت عملی نہ صرف خطرناک ہے بلکہ بھارت کی جمہوریت کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ یہ وقت ہے کہ بھارتی عوام اس فاشزم سیاست کے خلاف کھڑے ہوں اور اپنے ملک کو ان نفرت انگیز قوتوں سے بچائیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں