آج کی تاریخ

سولی یا اصلاح؟ ایک غیر انسانی سزا پر ازسرنو غور کی ضرورت

پاکستان میں موت کی سزا پر حالیہ اعداد و شمار اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی نئی رپورٹ نے ایک بار پھر قومی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف ہمارے عدالتی نظام کے گہرے نقائص کو بے نقاب کرتی ہے، بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ہم آج بھی اپنے قانونی ڈھانچے میں نوآبادیاتی دور کی باقیات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ جہاں دنیا انسانی حقوق کے احترام کی جانب بڑھ رہی ہے، ہم آج بھی موت کی سزا جیسے جابرانہ، ناقابل واپسی اور اکثر غیر منصفانہ اقدام کو “انصاف” کا نام دے رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی تعداد 3,394 ہے، جن میں 18 خواتین بھی شامل ہیں۔ اگرچہ 2019 کے بعد پھانسیوں پر عملدرآمد میں نمایاں کمی آئی ہے — اور سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے — مگر یہ پیش رفت صرف ایک عارضی وقفہ محسوس ہوتی ہے، نہ کہ کسی سنجیدہ اصلاحات کی جھلک۔اس وقت پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں سزائے موت کا نظام اس قدر بڑے پیمانے پر لاگو ہے۔ پنجاب اس میں سب سے آگے ہے، جہاں 2,307 قیدی موت کے منتظر ہیں — یعنی پورے ملک کی کل تعداد کا تقریباً 68 فیصد۔ سندھ میں 503، خیبرپختونخوا میں 325، بلوچستان میں 67، آزاد جموں و کشمیر میں 150 اور گلگت بلتستان میں بھی شرح کے لحاظ سے تشویشناک تعداد موجود ہے۔یہ اعداد و شمار محض نمبر نہیں، بلکہ ہر ایک کے پیچھے ایک زندگی، ایک خاندان، اور ایک المیہ چھپا ہے۔ ان اعداد و شمار کے پیچھے جو چیز نظر انداز ہو رہی ہے، وہ ہے پاکستان کے نظامِ انصاف کی کمزوریاں، جہاں ناقص تفتیش، جھوٹے اعترافات، بغیر ثبوت کے مقدمے، غیر معیاری پراسیکیوشن اور تاخیر سے انصاف وہ “ترکیب” بن چکی ہے جو ایک مظلوم کو سولی تک لے جاتی ہے۔سزائے موت کا تصور شاید قدیم زمانوں میں “انصاف” کے مترادف تھا — جرم کے جواب میں سزا، قصاص کے اصول، یا پھر معاشرے کو “ڈر” کا پیغام دینا۔ مگر آج کے دور میں، جب قانون اور انسانی حقوق کی فہم ترقی کر چکی ہے، یہ سزا محض ریاستی انتقام بن چکی ہے۔ بدترین پہلو یہ ہے کہ اگر ایک بے گناہ کو سولی چڑھا دیا جائے تو اس غلطی کی تلافی ممکن نہیں۔اس ضمن میں کانیزاں بی بی اور صفیہ بانو کیسز ہمارے نظام کی ظالمانہ بے حسی کے ثبوت ہیں۔ کانیزاں بی بی، جس کی سزا بعد میں معاف کر دی گئی، مگر وہ تین دہائیوں تک جیل کی اندھیری کوٹھڑی میں ذہنی اذیت سہتی رہی۔ ایسے معاملات میں نہ صرف انصاف کا قتل ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔صفیہ بانو کیس میں سپریم کورٹ نے 2021 میں واضح طور پر کہا کہ جن قیدیوں کو ذہنی یا نفسیاتی مسائل لاحق ہیں، انہیں سزائے موت دینا غیر آئینی اور غیر انسانی ہے۔ مگر اس فیصلے پر عملدرآمد کب، کہاں اور کس سطح پر ہوا؟ جیلوں میں آج بھی سینکڑوں قیدی ایسے ہیں جو ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں، اور ان کے لیے کوئی مناسب نفسیاتی علاج میسر نہیں۔پاکستان کا فوجداری قانون، خاص طور پر تعزیراتِ پاکستان، انگریزوں کے بنائے گئے قوانین پر مشتمل ہے۔ ان قوانین کا بنیادی مقصد انصاف نہیں بلکہ قابض حکومت کے لیے نظم و نسق قائم رکھنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ قانون طاقتور کے حق میں جھکتا ہے اور کمزور کو کچلتا ہے۔ سزائے موت اسی پالیسی کا ایک پرانا ہتھیار ہے، جسے “احتساب” یا “انصاف” کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ایسی سزائیں اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتی ہیں جب ان کے نفاذ کا دارومدار ایک ایسے نظام پر ہو جو خود ناقص، غیر شفاف، اور سیاست زدہ ہو۔ تفتیشی افسران اکثر دباؤ میں کام کرتے ہیں، گواہ خریدے یا ڈرائے جاتے ہیں، اور اعترافات زبردستی لیے جاتے ہیں۔ ایسے میں عدالتوں کے فیصلے انصاف کے بجائے اندازوں، مفروضوں یا ناقص شواہد پر مبنی ہوتے ہیں۔اس بات پر دنیا بھر میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ سزائے موت جرائم کے خلاف مؤثر رکاوٹ ثابت نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے، اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پھانسی کی سزا جرم کو کم نہیں کرتی، بلکہ اس سے ریاست خود ایک قاتل بن جاتی ہے۔پاکستان میں بھی ایسے درجنوں مقدمات موجود ہیں جہاں پھانسی کے بعد یہ ثابت ہوا کہ مجرم بے گناہ تھا — مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ریاست کی اس “غلطی” کی قیمت کون ادا کرے گا؟ اس ماں سے کون معافی مانگے گا جس کا بیٹا بے گناہ تھا؟ اس بچے کو کون باپ لوٹائے گا جسے سسٹم نے سولی پر چڑھا دیا؟2019 کے بعد پھانسیوں پر ایک خاموشی ضرور آئی ہے، لیکن اس کا تعلق داخلی انسانی شعور سے کم، اور بین الاقوامی دباؤ سے زیادہ ہے۔ یورپی یونین، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بارہا پاکستان پر دباؤ ڈال چکے ہیں کہ سزائے موت کا خاتمہ کرے، یا کم از کم اس پر باضابطہ پابندی عائد کرے۔ مگر ہمارے ریاستی ادارے کبھی اس دباؤ کو “غیر ملکی مداخلت” قرار دیتے ہیں، تو کبھی وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔حالیہ برسوں میں پاکستان نے چار جرائم کو سزائے موت کی فہرست سے نکالا، مگر یہ قدم بھی آدھا سچ تھا — نہ اسے قانون سازی کے ذریعے مستقل بنایا گیا، نہ ہی ریاستی سطح پر کوئی واضح پالیسی اختیار کی گئی۔ یہ اصلاحات محض وقتی “ریلیف” ہیں، جو اصل مسئلے کو چھپانے کے لیے کافی نہیں۔موت کی سزا صرف قیدی تک محدود نہیں رہتی، اس کے اثرات پورے خاندان پر پڑتے ہیں۔ ایک شخص جو برسوں تک سزائے موت کا انتظار کرتا ہے، وہ ہر روز ذہنی اذیت سے گزرتا ہے۔ اس کے اہلِ خانہ سماجی طور پر تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں، مالی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں، اور ان کی زندگی بھی گویا ایک قید بن جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک مہذب، انسانی اقدار پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو کیا ہم اس ظلم کا جواز دے سکتے ہیں؟ کیا ہم انصاف کے نام پر ظلم کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ کیا ایک ریاست، جو خود کو اسلامی جمہوریہ کہتی ہے، وہ اصلاح کی گنجائش کو نظر انداز کر سکتی ہے؟اسلامی فقہ میں بھی سزائے موت کو آخری چارہ کار سمجھا گیا ہے، اور قصاص کے اصول کے ساتھ معافی، دیت اور اصلاح کو ترجیح دی گئی ہے۔ مگر ہمارے نظام میں معافی صرف طاقتور کے لیے، اور سزا صرف کمزور کے لیے ہے۔آگے کا راستہاب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان سزائے موت کے خاتمے کی سمت واضح قدم اٹھائے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقدامات فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں:
1.سزائے موت پر باضابطہ اور مستقل پابندی کا اعلان، اور اس کا قانون سازی کے ذریعے نفاذ۔
2.سزائے موت کے تمام موجودہ مقدمات کا ازسرنو جائزہ، خاص طور پر وہ مقدمات جن میں شواہد کمزور، یا تفتیش مشکوک ہو۔
3.سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ایسے تمام قیدیوں کی فوری رہائی جو ذہنی امراض کا شکار ہیں۔
4.ایک قومی سطح کی کریمنل جسٹس پالیسی، جو انسانی حقوق، اصلاح اور بحالی پر مرکوز ہو۔
5.جیلوں میں نفسیاتی معاونت، قانونی مدد اور بعد از رہائی بحالی کے مراکز کا قیام۔
ایک معاشرہ تب ہی مہذب کہلاتا ہے جب وہ اپنے سب سے کمزور فرد کے ساتھ بھی انصاف کرے۔ سزائے موت کا موجودہ نظام اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ یہ نظام ظلم، غیر یقینی، اور بے گناہوں کی قربانی پر قائم ہے۔ہمیں یہ سوچنا ہوگا: کیا ہم ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں انصاف کا مطلب صرف سزا ہو؟ یا ایسا پاکستان، جہاں انسانوں کو سدھارنے، سمجھنے، اور دوبارہ زندگی دینے کی کوشش کی جائے؟سوال صرف یہ نہیں کہ سزائے موت مؤثر ہے یا نہیں — سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس دنیا میں ظلم کے بدلے ظلم کا جواب دینا چاہتے ہیں، یا ایک ایسا نظام بنانا چاہتے ہیں جو ظلم کو روکے، ختم کرے، اور اصلاح کی راہیں پیدا کرے؟ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا — سولی یا اصلاح؟ کیونکہ دونوں راستے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں