آج کی تاریخ

بجلی کا بحران: گرڈ سے دور ہوتی معیشت

پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور اس کی کھپت کا بحران اب محض ایک فنی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ریاستی پالیسی، معیشت اور عوامی اعتماد کا معاملہ بن چکا ہے۔ مالی سال 2025 کے اعداد و شمار اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں: بجلی کی پیداوار میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا، اور یہ اب بھی مالی سال 2022 کی بلند ترین سطح سے پیچھے ہے۔ حالانکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بجلی کی پیداوار کے لیے بڑی سطح پر بنیادی ڈھانچے کی تنصیب کی گئی، مگر ان منصوبوں کے عملی فوائد تاحال عوام تک نہیں پہنچ سکے۔
اس وقت بجلی کے نرخوں کا سب سے زیادہ بوجھ “گنجائش ادائیگی” (کیپیسٹی پیمنٹ) کی شکل میں عوام پر ڈالا جا رہا ہے، جو کہ 2020 میں فی یونٹ سات روپے تھی، اور اب بڑھ کر تقریباً 17.5 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اضافہ بنیادی طور پر روپے کی قدر میں کمی اور تیزی سے بڑھتے ہوئے شمسی توانائی کے استعمال کے سبب ہوا ہے۔ جب گرڈ سے حاصل ہونے والی بجلی مہنگی ہوتی جا رہی ہے، تو صارفین کے لیے متبادل ذرائع— خصوصاً شمسی توانائی— زیادہ پرکشش ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً، گرڈ سے بجلی کی کھپت میں کمی ہو رہی ہے، جس سے فی یونٹ لاگت مزید بڑھ جاتی ہے، اور یہ ایک ایسا دائرہ بن جاتا ہے جو خود کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
قومی سطح پر بجلی کی مجموعی طلب تو بڑھ رہی ہے، مگر یہ طلب اب قومی بجلی کے نظام کے ذریعے پوری نہیں ہو رہی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ گھریلو اور صنعتی صارفین تیزی سے شمسی توانائی کے نظام کی طرف مائل ہو رہے ہیں، چاہے وہ نیٹ میٹرنگ کے تحت ہوں یا بغیر اس کے۔ جیسے جیسے بیٹریوں کی قیمتیں کم ہوں گی اور ٹیکنالوجی مزید بہتر ہوگی، صارفین کا رجحان مکمل یا جزوی طور پر قومی نظام سے ہٹ کر توانائی حاصل کرنے کی طرف بڑھتا رہے گا۔
اس رجحان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نیٹ میٹرنگ کی پالیسی کو عالمی اصولوں اور گرتی ہوئی شمسی توانائی کی لاگت کے مطابق ازسرِنو ترتیب دے۔ تاہم، اس حوالے سے حکومتی تذبذب اور پس و پیش نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ موجودہ نیٹ میٹرنگ پالیسی درحقیقت شمسی توانائی کے استعمال کو غیر متوازن انداز میں فروغ دے رہی ہے، جو نہ قومی نظام کے لیے پائیدار ہے اور نہ ہی قومی معیشت کے لیے۔
دوسری طرف، حکومت نے قومی نظام سے بجلی کی کھپت بڑھانے کے لیے کچھ وقتی اقدامات کیے، جن میں متبادل توانائی کے ذرائع کو مہنگا کرنا شامل ہے۔ صنعتی شعبے کو قومی نظام پر واپس لانے کے لیے گیس پر بھاری محصول عائد کیا گیا، جس سے نجی بجلی پیدا کرنے والے نظام مہنگے ہو گئے۔ اس کے بعد کچھ صنعتیں قومی نظام پر واپس آئیں، جبکہ دیگر نے فرنس آئل کا سہارا لیا۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے حالیہ بجٹ میں فرنس آئل پر پٹرولیم لیوی لگا دی گئی۔ مزید برآں، چوتھی سہ ماہی میں بجلی کی قیمتوں میں 7.5 روپے فی یونٹ تک کی کمی کی گئی، جس کے باعث کچھ حد تک صنعتی سرگرمیاں بحال ہوئیں اور بجلی کی طلب میں معمولی سا اضافہ دیکھنے کو ملا۔
لیکن سوال باقی ہے: یہ بہتری کب تک قائم رہے گی؟ یہ وقتی ریلیف پالیسی کے مستقل خلاؤں کو نہیں بھر سکتا۔ جیسے ہی سبسڈی واپس لی جائے گی اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بلند رہیں گی، صارفین پر دوبارہ مہنگائی کا بوجھ لاد دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں بجلی کی طلب دوبارہ گرنے کا اندیشہ موجود ہے۔
حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ مکمل لاگت کی وصولی کی پالیسی پر قائم رہنا چاہتی ہے، یا اس سے ہٹ کر ایک عملی اور معاشی طور پر قابلِ قبول ماڈل اختیار کرنا چاہتی ہے۔ قومی نظام کی بقاء اور معیشت کی بہتری اسی صورت ممکن ہے جب اضافی یونٹس کو جزوی لاگت پر فراہم کیا جائے، اور توانائی کے شعبے کو مکمل طور پر آزاد کر دیا جائے تاکہ مسابقتی ماحول پیدا ہو اور قیمتیں قدرتی انداز میں متعین ہوں۔
2026 کا مالی سال حکومت کے لیے ایک فیصلہ کن سال ہوگا۔ اگر اس سال بھی وہی پالیسی تعطل اور نیم دلی سے چلتی رہی تو نہ صرف قومی نظام مزید کمزور ہو گا، بلکہ توانائی کے پورے ڈھانچے پر عدم استحکام چھا جائے گا۔ وقت آ چکا ہے کہ پالیسی سازی کو اعلانات اور عارضی اقدامات سے نکال کر اصلاحات اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر استوار کیا جائے — بصورت دیگر، ہم ایک ایسے بحران کی طرف بڑھتے رہیں گے جہاں بجلی تو ہو گی، مگر صارفین نہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں