آج کی تاریخ

پاک ۔ امریکہ تعلقات: عسکری قیادت کا نیا زاویہ

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے ایک پیچیدہ مگر اہم نوعیت کے حامل رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے مختلف ادوار میں ایک دوسرے کے ساتھ گہرے تعاون اور سخت کشیدگی کا تجربہ کیا ہے، لیکن حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی دی اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق، آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں ان تعلقات میں ایک نیا اور امید افزا رُخ نمایاں ہوا ہے۔
جون میں فیلڈ مارشل منیر کی پانچ روزہ امریکہ یاترا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں پرائیویٹ ظہرانے میں ملاقات صرف ایک رسمی دورہ نہیں تھی بلکہ ایک علامتی اور اسٹریٹجک تبدیلی کی غمازی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی برسرِاقتدار پاکستانی سپہ سالار نے امریکی صدر سے براہِ راست ملاقات کی، اور اس ملاقات کا پس منظر مئی میں ہونے والا بھارت کے ساتھ سرحدی تصادم تھا جسے امریکی ثالثی سے ختم کیا گیا۔
فیلڈ مارشل منیر نے اس دورے کے دوران جس “کثیرالجہتی اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات” کی بات کی، وہ نہ صرف پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کا عکس ہے بلکہ امریکی پالیسی میں بھی پاکستان کے لیے ایک نئی دلچسپی کی نشاندہی کرتا ہے۔ دی اکنامسٹ نے واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ نئی تجارتی شراکت داری، انسداد دہشت گردی کے تعاون، اور مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی مشاورت میں شمولیت جیسے عناصر اب امریکہ کے لیے پاکستان کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی بنیاد بن رہے ہیں۔
جولائی کے آخر میں امریکہ کی جانب سے بھارت کو معاشی طور پر “ڈیڈ اکانومی” قرار دینا اور پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے میں ٹیرف کم کر کے 19 فیصد کرنا، بظاہر ایک معاشی قدم ہے، لیکن درحقیقت یہ امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں ایک خاموش تبدیلی کا اشارہ بھی ہے۔ اس معاہدے میں پاکستان کے تیل کے ذخائر کی مشترکہ تلاش کا معاہدہ، واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کی علامت ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ فیلڈ مارشل منیر کی مغرب سے عدم تربیت کے باوجود، جیسا کہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بیان کیا، وہ مغربی طرزِ فکر اور سفارتی ماحول سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف عسکری قیادت کے زمرے میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی ایک فعال اور ذہین کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس دوران امریکہ نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو سراہا، خاص طور پر داعش کے مقامی نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان کے کردار کو “شاندار شراکت دار” قرار دیا گیا۔ جنرل مائیکل کوریلا، جو امریکی سینٹ کام کے کمانڈر ہیں، نے جون میں پاکستان کے کردار کو کھلے الفاظ میں سراہا۔
فیلڈ مارشل منیر کی ایک اور اہم حکمت عملی یہ ہے کہ وہ امریکہ کی توجہ پاکستان کے ان شعبوں کی طرف لے جا رہے ہیں جو امریکی معیشت یا عالمی پالیسی کے لیے دلچسپی کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے کہ کرپٹو اور مائننگ۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کا موقع ملے گا بلکہ امریکہ کے ساتھ دیرپا معاشی شراکت داری کا دروازہ بھی کھلے گا۔
یہ تمام عوامل اس بات کی دلیل ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت اب صرف سرحدوں کی حفاظت تک محدود نہیں بلکہ اسٹریٹجک، سفارتی اور معاشی میدان میں بھی متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکہ کی جانب سے اسٹریٹجک مفاہمت، ہتھیاروں کی ممکنہ فروخت، اور میزائل پروگرام پر موقف میں نرمی، ان تعلقات میں غیر معمولی بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نازک لیکن موقع آفرین موڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر ان تعلقات کو دانشمندی سے آگے بڑھایا جائے، تو نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بحال ہو سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھی ایک نئی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عسکری قیادت کا نیا بیانیہ، جو محض جنگی تیاری سے بڑھ کر سفارتی بصیرت پر مبنی ہے، یقیناً پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ پیش رفتیں، جیسا کہ دی اکنامسٹ نے رپورٹ کی ہیں، نہ صرف دوطرفہ تعلقات میں گرمجوشی کی غماز ہیں بلکہ عالمی سطح پر طاقت کے نئے توازن کی علامت بھی ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات، جو نہایت علامتی اور غیر معمولی تھی، ایک ایسے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے جس میں پاکستان محض ایک تزویراتی اتحادی نہیں بلکہ ایک بااثر علاقائی کھلاڑی کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اپریل اور مئی میں ہونے والی جھڑپیں، جس کے نتیجے میں امریکہ نے جنگ بندی میں ثالثی کی، اس بات کی مثال ہے کہ واشنگٹن اب جنوبی ایشیا میں غیر جانبدار رہنے کی بجائے فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ یہی تبدیلی بھارت کے لیے باعثِ تشویش ہے، جسے برسوں سے امریکہ کا قدرتی اتحادی سمجھا جا رہا تھا۔
امریکہ کی جانب سے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف لگانا اور اس کے ساتھ معاشی تعلقات میں سرد مہری پیدا کرنا، اس خطے میں توازنِ طاقت کے ازسرنو تعین کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کو تجارتی فوائد، ہتھیاروں کی فروخت، اور انسداد دہشت گردی میں تعاون جیسے مواقع فراہم کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت امریکہ کے لیے اب محض ایک سیکیورٹی پارٹنر نہیں بلکہ ایک ممکنہ اسٹریٹجک اتحادی بن کر ابھری ہے۔
اس ضمن میں یہ بھی قابل توجہ ہے کہ امریکہ اب پاکستان کے اس موقف کو بھی سننے پر آمادہ ہے جس میں وہ بھارت پر مقامی شورشوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ حالانکہ امریکی حکام ابھی تک ان دعوؤں سے قائل نہیں ہوئے، مگر ان کے شواہد کا “جائزہ لینا” خود ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یہ پاکستان کے بیانیے کی عالمی سطح پر پذیرائی کی ایک ابتدائی علامت سمجھی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی نئی عسکری قیادت نے روایتی سلامتی کے مسائل سے ہٹ کر جدید معاشی شعبوں جیسے کہ کرپٹو اور مائننگ میں امریکی دلچسپی کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ فیلڈ مارشل منیر نے پاکستان کو نہ صرف علاقائی سیکیورٹی کا ضامن بلکہ امریکی مفادات کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور ایران جیسے حساس معاملات میں ایک ممکنہ معاون کے طور پر پیش کیا ہے۔
یہ تمام اقدامات اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ دکھائی دیتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو دنیا کے اہم سفارتی و تجارتی حلقوں میں دوبارہ مقام دلانا ہے۔ امریکہ کا اسلحہ بیچنے پر غور، امدادی پروگرامز کی بحالی، اور میزائل پروگرام پر نرمی، سب اسی ممکنہ تعاون کا عکس ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ امریکہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان “کبھی رسمی اتحادی” نہیں رہا، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ نئے عالمی حالات میں، خاص طور پر جب افغانستان میں دہشت گرد گروہ دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں، امریکہ کے لیے پاکستان کا کردار ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اس پس منظر میں، اگرچہ یہ تعلقات اب بھی نازک اور تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں، مگر ان میں ایک نئے توازن، باہمی فائدے اور طویل مدتی اسٹریٹجک مفاہمت کی امید ضرور کی جا سکتی ہے۔ فیلڈ مارشل منیر کی قیادت میں پاکستان کا عسکری و سفارتی بیانیہ ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے — ایک ایسا دور جو پاکستان کو عالمی طاقتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر گفت و شنید کے قابل بنا سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں