آج کی تاریخ

ایران کے صدر کا دورۂ پاکستان — خطے میں شراکت داری کا نیا باب؟

ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیاں کا حالیہ دورۂ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نئی جہتوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں کسی ایرانی صدر کا اتنی گرمجوشی سے استقبال ایک غیر معمولی علامت ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی دیرینہ برادرانہ تعلقات کو محض سفارتی بیانات سے آگے لے جانے کا عزم رکھتے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کا خود نور خان ایئربیس پر ایرانی صدر کا استقبال کرنا ایک سیاسی پیغام ہے—نہ صرف ایران کو، بلکہ خطے کے دیگر ممالک اور عالمی طاقتوں کو بھی۔ اس دورے کا وقت اور پس منظر غیرمعمولی ہے: مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی، ایران-اسرائیل تنازعے کے بعد کی فضا، ایران-امریکہ مذاکرات کی معطلی، اور پاکستان کا پس پردہ ثالثی کردار۔ ایسے میں ایران اور پاکستان کے درمیان باضابطہ و غیر باضابطہ سطح پر بڑھتی قربت نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ایرانی صدر کے ہمراہ آنے والے وزراء—جن میں وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع، صنعت و مواصلات کے عہدیدار، اور سستان و بلوچستان کے گورنر شامل ہیں—یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس دورے کو صرف خیرسگالی کے جذبے سے نہیں بلکہ عملی اشتراک کے نئے دروازے کھولنے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک لے جانے کی بات ہو رہی ہے، جو فی الحال ایک خوش آئند مگر چیلنجنگ ہدف ہے۔تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ آیا ایسا ممکن ہو پائے گا؟ ماضی میں ایران اور پاکستان کی تجارت مختلف سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر محدود رہی ہے۔ سرحدی کشیدگی، بین الاقوامی پابندیاں، داخلی بیوروکریٹک سست روی اور انفراسٹرکچر کی کمی جیسے عوامل اس راہ میں رکاوٹ رہے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود، یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے قدرتی تجارتی شراکت دار ہیں: ایران کے پاس توانائی کے وسیع ذخائر ہیں، جبکہ پاکستان ایک بڑی صارف مارکیٹ ہے۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار اور پاکستان کا گوادر بندرگاہ خطے میں تجارتی نقل و حمل کے دو کلیدی مراکز ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ پالیسی سطح پر مستقل مزاجی اور باہمی اعتماد پیدا کیا جائے۔دفاعی تعلقات کے ضمن میں بھی یہ دورہ غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ ایران کے وزیرِ دفاع کی اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات، سرحدی سلامتی، دہشت گردی اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پر زور، سب اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک اب سیکیورٹی کے شعبے میں بھی پائیدار تعاون کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ 900 کلومیٹر طویل سرحد کو محفوظ بنانا نہ صرف ان کی داخلی سلامتی بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی کلیدی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود، کچھ اہم سوالات تشنہ جواب رہ گئے ہیں—خاص طور پر ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے۔ نہ صرف یہ کہ یہ منصوبہ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا، بلکہ اس پر کوئی علامتی اشارہ تک نہیں دیا گیا۔ اس خاموشی کا مطلب کیا ہے؟ کیا پاکستان امریکی دباؤ یا ممکنہ پابندیوں سے بچنے کے لیے اس منصوبے کو نظرانداز کر رہا ہے؟ یا ایران داخلی اقتصادی و تکنیکی وجوہات کے باعث اس پر سنجیدگی سے پیش رفت نہیں کرنا چاہتا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب خطے کی توانائی حکمتِ عملی کو متعین کریں گے۔مزید براں، اگرچہ ایران نے بارہا اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف اقتصادی بلکہ سٹریٹجک تعلقات کو بھی نئی سطح پر لے جایا جائے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک شفاف اور نتیجہ خیز مذاکرات کو ترجیح دیں۔ ادارہ جاتی سطح پر بات چیت، نجی شعبے کی شمولیت، اور پالیسی میں تسلسل جیسے عناصر اس سمت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔آنے والے مہینوں میں ایران-پاکستان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کی منصوبہ بندی اس بات کا اشارہ ہے کہ دونوں ممالک اپنی بات چیت کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں۔ لیکن عمل درآمد ہی اصل چیلنج ہو گا۔ کیا یہ دورہ محض رسمی خوش آمدید تک محدود رہے گا، یا یہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی، باہمی تعاون اور خطے میں استحکام کی بنیاد بنے گا؟ یہی اصل سوال ہے، جس کا جواب آنے والے وقت میں سامنے آئے گا۔ایران اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ میں ایسے لمحات بارہا آئے ہیں جب دونوں ممالک نے قریبی تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن عملی طور پر پیش رفت سست یا متضاد رہی۔ حالیہ دورے میں دونوں فریقین کی جانب سے جو بلند بانگ دعوے کیے گئے ہیں، اُن کی بنیاد بظاہر مضبوط دکھائی دیتی ہے، لیکن ان کے حقیقی ثمرات کا انحصار مستقل اقدامات، دیرپا پالیسیوں، اور علاقائی سیاست کی نزاکتوں کو سمجھ کر فیصلے کرنے پر ہوگا۔تاریخی طور پر ایران اور پاکستان کے تجارتی تعلقات میں کئی بار نشیب و فراز آئے۔ 2008 سے لے کر 2023 تک، دوطرفہ تجارتی حجم بمشکل 1.5 سے 2 ارب ڈالر سالانہ کے درمیان رہا ہے، جو دونوں ممالک کی صلاحیتوں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ 2021 میں گو کہ چند مقامی اقدامات اور بارٹر سسٹم کے ذریعے سرحدی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن بینکنگ چینلز کی عدم دستیابی، عالمی پابندیاں اور رسد و رسائل کی دشواریاں بڑی رکاوٹیں بنی رہیں۔اب ایک بار پھر 10 ارب ڈالر سالانہ تجارتی ہدف کی بات ہو رہی ہے—یہ نہ صرف ایک پرکشش نعرہ ہے بلکہ اگر اس پر درست حکمت عملی سے عمل کیا جائے تو یہ خطے میں اقتصادی انضمام (economic integration) کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ ایران کی جانب سے انرجی، انفراسٹرکچر، مواصلات، کسٹمز، سیاحت اور ثقافتی تبادلے جیسے شعبوں میں تعاون کی پیشکش قابلِ قدر ہے، اور اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے تو جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے درمیان ایک کلیدی راہداری کے طور پر اپنی حیثیت مضبوط کر سکتا ہے۔تاہم، اس موقع پر ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی مکمل خاموشی تشویش ناک ہے۔ “امن کی پائپ لائن” کے نام سے مشہور اس منصوبے پر 2013 میں دستخط ہوئے تھے، لیکن تاحال نہ تو کوئی کام مکمل ہو سکا، اور نہ ہی حالیہ دورے میں اس پر بات چیت کی گئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دوطرفہ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی بات ہو رہی ہے، تو سب سے اہم توانائی منصوبے کو نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے؟پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے، اور ایران کے پاس نہ صرف گیس کی وافر مقدار ہے بلکہ پاکستان کے سرحدی علاقوں تک گیس پائپ لائن پہلے ہی بچھائی جا چکی ہے۔ ایسے میں اس منصوبے کا مکمل طور پر ایجنڈے سے غائب ہونا ایک سفارتی اور اقتصادی تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ ممکنہ طور پر امریکہ کی پابندیوں کا خوف یا مالیاتی نظام کی کمزوری اس غفلت کا سبب ہے، لیکن ایران کے صدر کی موجودگی میں کم از کم علامتی حوالہ یا مستقبل کے ارادے کا اظہار تو ہونا چاہیے تھا، تاکہ دونوں عوام کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ معاملہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔مزید برآں، دفاعی تعاون پر جو زور دیا جا رہا ہے، وہ موجودہ علاقائی صورتحال میں ناگزیر ہے۔ افغانستان میں بدامنی، بلوچستان میں سرحد پار دہشت گردی، اور غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں نے دونوں ممالک کے لیے خطرات پیدا کیے ہیں۔ اس پس منظر میں ایران کے وزیر دفاع کی پاکستان آمد اور اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ایک مثبت اشارہ ہیں، لیکن دفاعی تعلقات کی مضبوطی کا انحصار صرف ملاقاتوں پر نہیں بلکہ عملی تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور بارڈر مینجمنٹ کے مشترکہ میکنزم پر ہوگا۔خارجہ پالیسی کے میدان میں پاکستان کی ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی خفیہ کوششیں حالیہ دنوں میں عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کر چکی ہیں۔ اگرچہ یہ کوششیں منظر عام پر نہیں آئیں، لیکن ایران کی طرف سے پاکستان کے کردار کو سراہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد کو خطے میں ایک پُرامن ثالث کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک علاقائی کھلاڑی بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک بااعتماد رابطہ کار کے طور پر منوائے۔یہاں یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس دورے کے دوران پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ، دفاع، مواصلات، اور شہری ترقی کے وزراء کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئیں، جن میں بارڈر سکیورٹی، تجارتی راہداریوں، اور باہمی ادارہ جاتی روابط کو فروغ دینے پر بات کی گئی۔ گو کہ ان ملاقاتوں کے نتائج کا عملی ثبوت آنے والے مہینوں میں سامنے آئے گا، لیکن یہ اقدام اس امر کا اشارہ ہے کہ دونوں ممالک اب بات چیت کو عملی اقدام میں ڈھالنے کی نیت رکھتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ایران اور پاکستان محض بیانات اور نعرے بازی سے نکل کر پائیدار تعلقات کی طرف بڑھیں۔ محض تجارتی معاہدے، مفاہمتی یادداشتیں یا فوٹو سیشنز کافی نہیں ہوں گے—ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک قومی مفاد میں مشکل فیصلے کریں، سرحدی مسائل کا عملی حل نکالیں، اور اپنے نجی شعبوں کو شریکِ سفر بنائیں۔ بصورت دیگر، یہ دورہ بھی ماضی کی طرح محض ایک علامتی پیش رفت بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر مسعود پزشکیاں کا یہ دورۂ پاکستان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پورا خطہ غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ فوجی کشیدگی، ایران-امریکہ مذاکرات کی معطلی، افغانستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی، اور خلیجی ریاستوں کی داخلی سیاسی تبدیلیاں، سب اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ایران اور پاکستان جیسے ممالک کو اپنے تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ایران کی قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ مشرقی ہمسایہ (پاکستان) کے ساتھ تعلقات کو محض مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی تک محدود رکھنا سودمند نہیں۔ اسی لیے اس دورے میں نہ صرف سرکاری سطح پر ملاقاتیں ہوئیں بلکہ صدر پزشکیاں نے لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دے کر ایک علامتی مگر پُراثر پیغام بھی دیا کہ دونوں قوموں کی فکری، تہذیبی اور تاریخی بنیادیں مشترک ہیں—اور انہی بنیادوں پر آج کا اقتصادی و سٹریٹجک رشتہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات صرف روایت پر مبنی جذباتی بیانات پر چل پائیں گے؟ یا اس بار دونوں ممالک ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ایک پائیدار اور حقیقی پارٹنرشپ کی جانب بڑھیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا فقدان، بیوروکریسی کی پیچیدگیاں، بین الاقوامی دباؤ، اور نجی شعبے کی کم شمولیت نے ہمیشہ تعلقات کو سطحی رکھنے میں کردار ادا کیا ہے۔اگر 10 ارب ڈالر سالانہ تجارت کا ہدف حاصل کرنا ہے تو دونوں ممالک کو سب سے پہلے ایک مشترکہ تجارتی فریم ورک (Joint Trade Mechanism) تشکیل دینا ہوگا جس میں محصولات، کسٹمز، بینکنگ، اور رسد و رسائل جیسے بنیادی مسائل کو حل کیا جائے۔ ایران کی طرف سے حالیہ دورے میں کسٹمز، مواصلات، معیارات، اور سیاحت کے حوالے سے جو دستاویزات تیار کی جا رہی ہیں، وہ اچھی شروعات ہو سکتی ہیں، مگر انہیں زمینی حقیقت سے جوڑنا ہوگا۔علاوہ ازیں، ایرانی وفد میں صوبۂ سستان و بلوچستان کے گورنر کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ دونوں ممالک اپنی سرحدی پٹی کو نہ صرف سیکیورٹی بلکہ اقتصادی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی کئی چیلنجز موجود ہیں: اسمگلنگ، فرقہ وارانہ کشیدگی، اور سرحد پار عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی دونوں ممالک کے لیے مسلسل دردِ سر ہیں۔ ان مسائل کا حل صرف عسکری تعاون سے ممکن نہیں، بلکہ مقامی سطح پر ترقیاتی پروگراموں، تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع پیدا کر کے بھی پائیدار امن ممکن بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان کی قیادت کے لیے بھی یہ موقع ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو توازن کے ساتھ آگے بڑھائے۔ چین، سعودی عرب، امریکہ اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے، اور کسی ایک کے مفاد کی قیمت پر دوسرے کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا دیرپا پالیسی نہیں ہو سکتی۔ ایران کے ساتھ تعلقات کو صرف سعودی عرب یا مغربی ممالک کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے، ایک خودمختار اور باوقار خارجہ پالیسی کے تناظر میں استوار کرنا ہوگا۔یہ بات بھی اہم ہے کہ صدر پزشکیاں کا یہ دورہ گذشتہ ایک سال میں ایران-پاکستان قیادت کے درمیان پانچویں اعلیٰ سطحی ملاقات تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں سیاسی سطح پر روابط مضبوط ہو رہے ہیں۔ تاہم، ان روابط کا فائدہ تبھی ممکن ہے جب ان سے پیدا ہونے والی توانائی کو عملی میدان میں منتقل کیا جائے، خاص طور پر نجی شعبے، تعلیمی اداروں، تھنک ٹینکس، اور عوامی روابط کے ذریعے۔تجارت، توانائی، سیکیورٹی، اور ثقافت کے شعبوں میں اگرچہ مشترکہ ایجنڈا موجود ہے، لیکن اس بار ایران-پاکستان گیس پائپ لائن جیسے بنیادی منصوبے کو ایجنڈے سے غائب رکھنا ایک ناپختہ سفارتی رویہ دکھائی دیتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا، بلکہ پاکستان کی موجودہ توانائی ضروریات کے تناظر میں اس منصوبے کو یکسر نظرانداز کرنا قومی مفادات سے متصادم معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اس منصوبے کو دوبارہ مذاکرات کا حصہ بنائے، کیونکہ یہ نہ صرف توانائی کے بحران کا حل ہے بلکہ ایران کے ساتھ تعلقات کو معاشی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ صدر پزشکیاں کا دورہ محض سفارتی رسمیّت نہیں بلکہ ایک امتحان ہے—دونوں ممالک کے لیے۔ کیا پاکستان اور ایران اپنی سرحدوں کو دراڑوں سے راہداریوں میں بدل سکتے ہیں؟ کیا یہ تعلقات واقعی 10 ارب ڈالر کی تجارت، سیکیورٹی شراکت داری، اور ثقافتی ہم آہنگی کا نیا باب بن سکتے ہیں؟ یا پھر ایک بار پھر گرمجوش بیانات کے بعد یہ موقع بھی تاریخ کی کسی فائل میں دب کر رہ جائے گا؟یہ سب کچھ اب دونوں ممالک کی قیادت، اداروں، اور عوامی سطح پر تعلقات کی گہرائی پر منحصر ہے۔ تاریخ دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے—اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس دروازے کو کھولتے ہیں یا موقع گنوا دیتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں