آج کی تاریخ

چھبیسویں آئینی ترمیم: جمہوری عمل کی سمت ایک اہم قدم

چھبیسویں آئینی ترمیم: جمہوری عمل کی سمت ایک اہم قدم

چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد یہ قانون بن چکی ہے، اور یہ قانون سازی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔ اس ترمیم کا مقصد نہ صرف عدالتی نظام میں بہتری لانا ہے بلکہ جمہوری عمل کو مضبوط کرنا اور پارلیمانی نظام کو مزید فعال بنانا ہے۔ترمیم میں اہم تبدیلیاں شامل ہیں، جیسے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیارات کو محدود کرنا، چیف جسٹس کی مدت کو تین سال تک مقرر کرنا، اور چیف جسٹس کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو اختیار دینا۔ ان تبدیلیوں کا مقصد عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں توازن پیدا کرنا ہے تاکہ ملک میں ایک منظم اور شفاف عدالتی نظام قائم ہو۔حکومت کی جانب سے اس ترمیم کو ایک “تاریخی کامیابی” قرار دیا گیا ہے، اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ترمیم جمہوریت کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ اس سے نہ صرف عدلیہ کی اصلاحات میں مدد ملے گی بلکہ ملک میں انصاف کی فراہمی کو بھی تیز تر اور موثر بنایا جا سکے گا۔ سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیارات کو محدود کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عدالت خود مختار رہتے ہوئے اپنی توجہ ان مقدمات پر مرکوز کرے جو عوامی مفاد میں ہوں، اور حکومت کے انتظامی معاملات میں غیر ضروری مداخلت سے بچا جائے۔چھبیسویں آئینی ترمیم کو جمہوری عمل کی مضبوطی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک اہم قدم ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی تقرری کا نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عدالتی نظام میں شفافیت ہو اور تمام تقرریاں ایک جامع اور متوازن طریقے سے ہوں۔ یہ عمل نہ صرف حکومت کو عدلیہ کے معاملات میں شراکت دار بناتا ہے بلکہ پارلیمنٹ کو بھی زیادہ فعال کردار دیتا ہے، جو جمہوریت کی بنیاد ہے۔یہ ترمیم اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ حکومت عدالتی اصلاحات کے لیے سنجیدہ ہے اور وہ نظام میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تاکہ عوام کو بہتر انصاف فراہم کیا جا سکے۔ انصاف کی فراہمی کا نظام تیز اور شفاف ہوگا، جو ایک مضبوط جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔اگرچہ چھبیسویں آئینی ترمیم ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جمہوری عمل کا تسلسل اور مضبوطی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اپوزیشن کو ساتھ لے کر نہ چلا جائے۔ اپوزیشن کا کردار جمہوریت میں اہم ہوتا ہے، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے خدشات کو سنجیدگی سے سنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔قانون سازی میں اپوزیشن کی شمولیت جمہوریت کو مزید مضبوط بناتی ہے اور عوام میں اعتماد پیدا کرتی ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے اور سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر ملک کے مفاد میں فیصلے کرے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر کام کریں گے تو پاکستان میں نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوگی بلکہ ملک میں سیاسی استحکام بھی پیدا ہوگا۔آخر میں، چھبیسویں آئینی ترمیم کا مقصد پاکستان میں ایک منظم اور مستحکم عدالتی نظام قائم کرنا ہے، اور حکومت کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے چاہیے تاکہ ملک میں ایک مضبوط اور متحرک جمہوری عمل کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مل جل کر کام کیا جائے۔

معاشی استحکام یا جال؟

پاکستان کی وفاقی حکومت نے رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں بجٹ کی معاونت کے لیے مقامی قرضے میں لیا گیا ایک کھرب روپے سے زائد کا قرض ادا کیا ہے، جس کا سہرا صحت مند غیر ملکی مالیاتی بہاؤ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ریکارڈ منافع کو جاتا ہے۔ اس مالیاتی اقدام کو ملک کی معیشت میں استحکام کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ استحکام پائیدار ہے یا پھر یہ معیشت کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کا سبب بن رہا ہے؟ اس ادائیگی کے پیچھے کیا چیلنجز اور مواقع پوشیدہ ہیں، اور ان کا عام آدمی پر کیا اثر پڑے گا؟ ان سوالات کا جواب دینا ضروری ہے تاکہ ہم ملکی معیشت کی مجموعی تصویر کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔وفاقی حکومت کے مطابق، موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ملکی قرض کی سروسنگ کے لیے 8736 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، جو کہ نظرثانی شدہ 7211 ارب روپے سے 21 فیصد زیادہ ہے۔ یہ اضافہ ملکی قرض کی سروسنگ کی بڑھتی ہوئی لاگت کی عکاسی کرتا ہے، اور اس کا براہ راست تعلق حکومت کے اخراجات میں اضافے سے ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ ایک کھرب روپے کی ادائیگی وہ رقم تھی جو ٹریژری بانڈز کی میچورٹی کی وجہ سے ادا کی گئی تھی یا یہ رقم غیر متوقع طور پر ادا کی گئی، جس سے بجٹ کے قرض سروسنگ کے اخراجات پر مثبت اثر پڑا۔یہ مالیاتی حکمت عملی حکومت کے لیے ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف، حکومت کا مقامی قرض کی واپسی پر انحصار بجٹ کے استحکام کو ظاہر کرتا ہے، لیکن دوسری طرف، مقامی قرضے کے لیے کی گئی بڑی ادائیگیوں کے باعث حکومت کو دیگر شعبوں میں کٹوتی کرنی پڑ سکتی ہے، جیسے عوامی بہبود کے منصوبے یا بنیادی سہولیات کی فراہمی۔یہ دعویٰ کہ قرض کی ادائیگی میں مددگار ثابت ہونے والے بیرونی مالیاتی بہاؤ نے حکومت کو استحکام فراہم کیا، ملکی ماہرینِ معاشیات کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ یہ مالیاتی بہاؤ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کیے گئے قرضوں پر مشتمل ہے، جن میں چین، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے لیے گئے نقدی ذخائر اور قرضے بھی شامل ہیں۔بیرونی قرضے ہمیشہ ڈالر میں ادا کیے جاتے ہیں، جس کی سروسنگ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر منحصر ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق، موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف ڈھائی ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں، جبکہ عالمی معیار تین ماہ کی درآمدات کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے، مگر یہ واضح ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی تاریخ قریب آنے پر یہ ذخائر ناکافی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کو مزید قرضوں کی ضرورت پڑے گی، جو پہلے سے ہی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کریں گے۔یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ حکومت کی یہ مالیاتی حکمت عملی عام آدمی پر کیا اثر ڈال رہی ہے؟ پاکستان میں عمومی طور پر معاشی پالیسیاں اوپر سے نیچے کی جانب اثر ڈالتی ہیں، یعنی حکومت کے مالیاتی فیصلوں کے اثرات بالآخر عوام تک پہنچتے ہیں۔ اس تناظر میں، قرض کی ادائیگی اور مزید قرضوں کے حصول کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا بڑھنا لازمی امر ہے۔بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت کو زیادہ تر ملکی محصولات پر انحصار کرنا پڑے گا، اور اس کا براہ راست اثر عوامی زندگی پر ہوگا۔ حکومت کی آمدنی میں اضافے کے لیے زیادہ تر ٹیکس لگائے جائیں گے، جس سے پہلے ہی مہنگائی کی مار جھیلنے والے عوام پر مزید بوجھ پڑے گا۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سب عام آدمی کی جیب پر براہ راست اثر ڈالتے ہیں۔ایک اہم مثال بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے کی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومت کو بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑا تاکہ توانائی کے شعبے میں ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔ تاہم، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو بھاری بلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت نے سستی توانائی کے ذرائع، جیسے قابل تجدید توانائی، پر انحصار کرنے کی کوشش کی، لیکن آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوا۔ جیسے جیسے طلب میں کمی ہوئی، حکومت کو اپنے معاہدوں کی شرائط کے مطابق زیادہ نرخ وصول کرنے پڑے تاکہ بجلی کے شعبے میں پوری لاگت کی وصولی ہو سکے۔یہاں پر سب سے زیادہ متاثر وہ افراد ہوتے ہیں جو کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے لیے بجلی، گیس، اور دیگر ضروریات زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں، حکومت کی جانب سے لیے گئے مالیاتی فیصلوں کے اثرات براہ راست عوام کی زندگی کے معیار پر پڑتے ہیں۔بیرونی قرضوں کی ادائیگی ملک کی معاشی ترقی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر حکومت مزید قرضے لیتی ہے تو اسے لازمی طور پر ایسے منصوبے بنانے ہوں گے جن سے ملکی معیشت میں زرمبادلہ کی آمدن ہو۔ برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکومت کو صنعتوں اور زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہو گی تاکہ ملکی مصنوعات کی عالمی منڈیوں تک رسائی میں اضافہ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو ترسیلات زر میں اضافے کے لیے بیرون ملک پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ترسیلات زر معیشت کے لیے اہم ذریعہ ہیں اور ان کے ذریعے ملکی معیشت میں زر مبادلہ کا بہاؤ بہتر کیا جا سکتا ہے۔معاشی استحکام کے حصول کے لیے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے، اور اس کے لیے حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ سیاست میں مفاہمت اور مشاورت جمہوری عمل کو مضبوط کرتی ہے۔ اپوزیشن کا کردار حکومت کی پالیسیوں پر نظر رکھنے اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے اہم ہوتا ہے، اس لیے حکومت کو اپوزیشن کے خدشات کو سنجیدگی سے سننا چاہیے اور انہیں شامل کرنا چاہیے۔حکومت کی جانب سے کی جانے والی ہر قسم کی معاشی اصلاحات کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں، اس لیے اپوزیشن کو بھی ان اصلاحات میں شامل کرنے سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوتا ہے بلکہ اس سے معاشی پالیسیوں کی کامیابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر معاشی پالیسیوں پر کام کریں تو اس سے ملک میں نہ صرف معاشی استحکام آئے گا بلکہ عوام کو بھی ریلیف ملے گا۔وفاقی حکومت کی جانب سے مقامی قرضوں کی واپسی اور بیرونی قرضوں کے استعمال سے وقتی طور پر معاشی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ استحکام اس وقت تک پائیدار نہیں ہو سکتا جب تک معیشت کو خود انحصاری کی راہ پر نہ ڈالا جائے۔ قرضوں کے جال سے بچنے کے لیے حکومت کو اپنے مالیاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہوگا اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں۔معاشی استحکام کی طرف بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ملکی معیشت میں بنیادی تبدیلیاں لائے، عوامی بہبود کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرے، اور روزمرہ کی ضروریات کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں تاکہ سیاسی اور معاشی استحکام کے ذریعے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

سعودی عرب میں تارکین وطن کا استحصال

سعودی عرب، جہاں لاکھوں پاکستانی اور دیگر ممالک کے مزدور کام کرتے ہیں، اپنی معاشی ترقی میں ان غیر ملکی کارکنوں کے کردار کا معترف ہے۔ لیکن، اس ترقی کے پیچھے تارکین وطن مزدوروں کی محنت اور قربانیوں کی ایک تلخ حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے، جنہیں عموماً استحصال، نامناسب حالات اور حقوق کی پامالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ اور فرانسیسی سپر مارکیٹ ریٹیلر کیریفور کی جانب سے اپنے سعودی شراکت دار “ماجد الفطیم” کے ساتھ کام کرنے والے تارکین وطن مزدوروں کے حالات کی جانچ پر جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں سعودی عرب میں کیریفور اور ماجد الفطیم کے اسٹورز میں کام کرنے والے نیپالی، پاکستانی، اور بھارتی مزدوروں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 2021 سے 2024 کے درمیان، ریاض، دمام اور جدہ میں کام کرنے والے ان مزدوروں کو کم اجرت، طویل کام کے اوقات، اور مناسب آرام کے بغیر کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ مزدور زیادہ تر لیبر سپلائی کمپنیوں کے ذریعے ماجد الفطیم کے لیے کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے، جو انہیں استحصال کا شکار بناتی ہے۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مزدوروں کو اکثر 60 گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، اور انہیں اوور ٹائم کی ادائیگی بھی نہیں کی جاتی تھی، جو سعودی لیبر قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ قانون کے مطابق سعودی عرب میں زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہے، لیکن ان مزدوروں کے حالات اس قانون کے بالکل برعکس ہیں۔پاکستان سے سعودی عرب جانے والے مزدوروں میں سرائیکی وسیب کے افراد کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، جو غربت اور روزگار کے مواقع کی کمی کے باعث بیرون ملک مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ سرائیکی وسیب کے مزدور سعودی عرب میں عموماً کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور بھرتی کے عمل میں فریب اور دھوکہ دہی کا سامنا کرتے ہیں۔ اکثر اوقات، انہیں ایسے معاہدے دکھائے جاتے ہیں جو سعودی عرب پہنچنے پر بدل جاتے ہیں، اور وہ مزید استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔کفالہ نظام بھی ان مزدوروں کے لیے ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ اس نظام کے تحت مزدور اپنے آجر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور بغیر اجازت ملازمت تبدیل نہیں کر سکتے یا وطن واپس نہیں جا سکتے۔ اس غلامانہ نظام کے باعث سرائیکی وسیب اور دیگر علاقوں کے مزدور خود کو بے بس اور محکوم پاتے ہیں۔کیریفور نے ایمنسٹی کی رپورٹ کے بعد فوری طور پر ماجد الفطیم سے اندرونی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور ایک آزاد ماہر کو انسانی حقوق کے حوالے سے تحقیقات کے لیے مقرر کیا۔ یہ ردعمل قابل تعریف ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا یہ اقدامات حقیقت میں مزدوروں کے مسائل حل کرنے میں کارگر ثابت ہوں گے؟ کیریفور جیسے بڑے ادارے کو اس بات کا یقین کرنا ہوگا کہ نہ صرف براہ راست ملازمین بلکہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے مزدوروں کو بھی تحفظ حاصل ہو۔سعودی حکومت کے میڈیا آفس نے فوری طور پر اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جو ایک سنگین سوال اٹھاتا ہے کہ کیا سعودی حکومت مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کر رہی ہے؟ سعودی عرب میں مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی خبریں پہلے بھی سامنے آ چکی ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی کمی دکھائی دیتی ہے۔پاکستانی حکومت، بالخصوص وفاقی وزارت محنت و افرادی قوت، کا کردار بھی اس مسئلے میں خاصا غیر مؤثر رہا ہے۔ تارکین وطن، خاص طور پر سرائیکی وسیب کے مزدور، غیر قانونی بھرتی ایجنسیوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں، اور ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ وفاقی وزارت کو سعودی حکومت کے ساتھ مشترکہ کوششوں کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ بھرتی کے عمل میں شفافیت، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ، اور انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔سعودی عرب اور پاکستانی حکمران خاندانوں کے درمیان قریبی تعلقات اور سعودی اثر و رسوخ بھی ایک اہم وجہ ہے جس کے باعث تارکین وطن کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت کا پاکستانی حکمران خاندانوں اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، جس کے باعث ان مسائل پر پردہ ڈالا جاتا ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات متاثر نہ ہوں۔ مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اکثر سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، اور ان مسائل کو عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا۔سعودی عرب میں پاکستانی مزدوروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستانی حکومت کو اپنے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو مزید فعال بنانا ہوگا تاکہ وہ مزدوروں کے مسائل کو فوری اور مؤثر انداز میں حل کر سکیں۔ مزدوروں کو قانونی حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔وفاقی وزارت محنت و افرادی قوت کو سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ سعودی حکومت کے ساتھ کفالہ نظام کے خاتمے کے لیے مذاکرات کیے جائیں، اور مزدوروں کو نوکریوں کی تبدیلی اور وطن واپسی کے لیے آزادی فراہم کی جائے۔سعودی عرب میں پاکستانی تارکین وطن کا استحصال ایک سنگین مسئلہ ہے جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ نہ صرف سعودی معیشت کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستانی معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ہے، کیونکہ یہ مزدور اپنی محنت کے ذریعے ترسیلات زر کے ذریعے پاکستانی معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔حکومت پاکستان، سعودی حکومت، اور بین الاقوامی اداروں کو مشترکہ طور پر ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا تاکہ مزدوروں کو ان کا جائز حق مل سکے اور ان کے ساتھ ہونے والے استحصال کو روکا جا سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں