ہم زندہ قوم ہیں

پاکستان کی افغانستان پالیسی: تبدیلی کی ضرورت

پاکستان کی افغانستان پالیسی اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ افغان طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے، پاکستان کی جانب سے واضح اور موثر حکمت عملی کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی مسائل نے جنم لیا ہے۔ پاکستان کی پالیسی، جو بنیادی طور پر عسکریت پسندی اور سیکیورٹی کے گرد گھومتی ہے، نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس کی ناکامیوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ آصف درانی کی بطور افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے استعفے نے ان داخلی اختلافات کو مزید نمایاں کیا ہے جو کہ پاکستان کی افغان پالیسی میں موجود ہیں۔ یہ صورتحال فوری اور جامع تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔درانی کا استعفیٰ محض ایک انفرادی واقعہ نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ حکومتی اداروں کے مابین عدم اتفاق اور پالیسی کی سمت میں بنیادی تضادات موجود ہیں۔ درانی نے افغان مہاجرین کی ملک بدری اور دہشت گردی کے خلاف داخلی اقدامات کی حمایت کی، لیکن ان کے نظریات کو عسکری اداروں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی افغانستان پالیسی میں ایک بنیادی نظریاتی فرق موجود ہے، جو کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کے مابین ہم آہنگی کے فقدان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پالیسی کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام متعلقہ اداروں کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔افغان طالبان کی حکومت کے بعد سے پاکستان کی سیکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیاں ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ تاہم، صرف عسکریت پسندی پر توجہ مرکوز کرنا کافی نہیں ہے۔ پاکستان کی افغانستان پالیسی کو کثیر جہتی ہونا چاہئے، جس میں سفارتی، اقتصادی، اور انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی سازی کے عمل میں پارلیمنٹ، دفتر خارجہ، اور علاقائی امور کے ماہرین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات میں احتیاط برتنی ہوگی۔ افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی نے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کو بڑھایا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کابل پر زور دے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں، دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے تحت افغان حکومت کو یہ یقین دہانی کرانی چاہیے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرے گی جو پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔اس پالیسی کی اصلاح کے لیے، پاکستان کو اپنے موجودہ مرکزی ماڈل کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جس میں فوج کا غالب کردار ہے۔ اس کے بجائے، ایک متوازن اور شراکتی نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے جس میں سول حکومت، پارلیمنٹ، اور دیگر متعلقہ ادارے بھی شامل ہوں۔ اس سے نہ صرف پالیسی سازی کے عمل میں شفافیت اور جوابدہی آئے گی بلکہ اس سے ایک متفقہ اور یکجا حکمت عملی بھی تشکیل پائے گی جو کہ پاکستان کے قومی مفادات کو بہتر طور پر محفوظ رکھ سکے گی۔افغان شہریوں کے ساتھ پاکستان کا رویہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ افغان مہاجرین کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سلوک اور ان کی مناسب طریقے سے واپسی کو ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر پاکستان ان انسانی پہلوؤں کو نظرانداز کرتا ہے، تو اس سے نہ صرف دوطرفہ تعلقات مزید خراب ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کے مسائل کو انسانی حقوق کے احترام کے ساتھ حل کیا جائے، تاکہ پاکستان اپنے اخلاقی موقف کو برقرار رکھ سکے۔پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ صرف سکیورٹی پر توجہ مرکوز کرنا کافی نہیں ہوگا؛ اقتصادی تعاون، تجارتی تعلقات، اور ثقافتی تبادلوں کو بھی فروغ دینا ہوگا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط اور پائیدار تعلق قائم ہو سکے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اقتصادی منصوبوں کو فروغ دے، جیسے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ اور توانائی کے منصوبے، تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو اس تعلق سے فائدہ ہو سکے۔پاکستان کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ افغان پالیسی میں بہتری صرف داخلی سطح پر ہی ممکن نہیں ہوگی؛ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر، چین، روس، امریکہ، اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف افغانستان میں امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی بلکہ پاکستان کے لیے بھی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔پاکستان کی افغان پالیسی کو جامع بنانے کے لیے چند کلیدی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنی افغان پالیسی میں جامعیت لانے کی ضرورت ہے، جس میں سیکیورٹی، سفارتکاری، معیشت، اور انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کو شامل کیا جائے۔ پالیسی سازی کے عمل میں تمام متعلقہ اداروں، بشمول پارلیمنٹ، دفتر خارجہ، اور ماہرین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بحال ہو سکے۔ افغانستان کے ساتھ اقتصادی منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ ہو سکے۔ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ افغان مہاجرین کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سلوک کیا جائے اور ان کی واپسی کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔آخر میں، پاکستان کی افغانستان پالیسی کو ایک نئی سمت کی ضرورت ہے جو کہ موجودہ مسائل کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے ایک جامع، متوازن، اور شراکتی حکمت عملی پر مبنی ہو۔ اس کے لیے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت، اعتماد سازی کے اقدامات، اور علاقائی و بین الاقوامی شراکت داریوں کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ مستحکم اور تعمیری تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف پالیسی کی اصلاح تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک طویل المدتی وژن کا تقاضا کرتی ہے جس کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے درمیان نہ صرف سیکیورٹی بلکہ اقتصادی، سماجی، اور ثقافتی تعلقات کو بھی مضبوط کیا جا سکے۔

ایڈز کے پھیلتے بحران کی روک تھام

پاکستان کو اس وقت ایچ آئی وی اور ایڈز کے سنگین بحران کا سامنا ہے جس کی وجوہات میں حکومت کی طرف سے صحت عامہ کو نظرانداز کرنا، صحت کے کمزور نظام، اور طبی ماہرین میں آگاہی کی کمی شامل ہیں۔ 2019 میں لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کی شدید وبا کے باوجود پاکستان نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ اقوام متحدہ کے ایڈز پروگرام کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد 2010 میں 75,000 تھی جو 2022 میں بڑھ کر 2,70,000 ہو گئی ہے۔ جہاں عالمی سطح پر ایڈز کے کیسز میں کمی آ رہی ہے، وہاں ایشیا پیسیفک خطے میں پاکستان میں ایچ آئی وی کے کیسز میں اضافہ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس وائرس کے پھیلنے کی بڑی وجہ منشیات کے عادی افراد اور جنسی کارکنوں سے عام آبادی تک اس کا پھیلنا ہے جو کہ باہمی جنسی تعلقات کے نیٹ ورکس کے ذریعے ہو رہا ہے۔پاکستان کو عالمی فنڈ کی جانب سے 7.2 کروڑ ڈالر کی امداد موصول ہوئی ہے جو ایچ آئی وی کی روک تھام اور علاج کے لیے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نجی اداروں کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ دی لانسیٹ کے تخمینے کے مطابق، عام آبادی میں ایچ آئی وی کی شرح 0.1 فیصد سے کم رہے گی، تاہم ملک میں تقریباً 1,65,000 افراد اس وائرس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ گروپوں میں منشیات کے عادی افراد، مرد اور خواتین جنسی کارکن، خواجہ سرا افراد، اور ہم جنس پرست افراد شامل ہیں۔ یہ تشویشناک اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وسیع تر آبادی کو بھی خطرہ لاحق ہے کیونکہ صرف ایک چھوٹے سے حصے کو ہی اینٹی ریٹرو وائرل علاج کی سہولت مل سکی ہے جو کہ ان کے لیے ضروری ہے۔ایچ آئی وی اور ایڈز زیادہ تر آلودہ سرنجوں، غیر محفوظ خون کی منتقلی، اور جسمانی رطوبتوں کے ذریعے پھیلتا ہے، جس سے غریب طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ عالمی صحت تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری روک تھام کے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ پہلا قدم ایچ آئی وی سے منسلک بدنامی اور سماجی تعصب کو ختم کرنا ہے۔ اس کے بعد ایک جامع ٹیسٹنگ پروگرام کی ضرورت ہے جو کمزور اور متاثرہ گروہوں پر مرکوز ہو، تاکہ ان میں وائرس کی تشخیص کی شرح کو کم کیا جا سکے اور عوام میں رضاکارانہ ٹیسٹنگ کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاشرتی رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ لوگ بلا خوف و خطر صحت کی خدمات تک رسائی حاصل کر سکیں۔
پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز کی وبا کے سنگین سماجی اور معاشی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ وائرس نہ صرف مریض کی جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کی سماجی حیثیت، معاشی حالت اور خاندانی زندگی پر بھی گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ معاشرتی بدنامی کی وجہ سے متاثرہ افراد اکثر سماجی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں، انہیں ملازمتوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات تو انہیں اپنی رہائش بھی چھوڑنی پڑتی ہے۔ اس کا براہ راست اثر ان کی ذہنی صحت پر بھی پڑتا ہے اور وہ ڈپریشن، بے چینی، اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صحت عامہ کی پالیسیاں ایسی ہونی چاہئیں جو کمزور اور متاثرہ آبادیوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دیں۔ اس کے علاوہ صحت کی سہولتوں میں بہتری، عوامی آگاہی مہمات، اور تعلیمی اداروں میں ایچ آئی وی سے متعلق معلومات کی فراہمی کو فروغ دینا چاہیے۔ خاص طور پر، خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جائے تاکہ وہ اپنی صحت کے بارے میں بہتر فیصلے کر سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ، صحت کی سہولیات میں بہتری لانا اور ان میں رسائی کو آسان بنانا ضروری ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ صحت کی خدمات تک رسائی ان کا حق ہے اور اس میں کسی قسم کی شرم یا خوف محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت کی سہولیات، معلومات، اور وسائل فراہم کرے، نہ کہ افراد کو خود اپنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑا جائے۔آخر میں، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایچ آئی وی اور ایڈز کی روک تھام کے لیے ایک جامع اور ہمدردانہ حکمت عملی اختیار کرے۔ اس کے لیے صحت کی سہولیات کو محفوظ اور قابل رسائی بنانا، معاشرتی شعور بیدار کرنا، اور ایچ آئی وی سے منسلک سماجی تعصب کو ختم کرنا ضروری ہے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اس وبا پر قابو پا سکتا ہے اور اپنے شہریوں کے لیے ایک صحت مند مستقبل کو یقینی بنا سکتا ہے۔ یہ ایک طویل المدتی وژن کا تقاضا کرتی ہے جس کے ذریعے پاکستان نہ صرف اس بیماری کے پھیلاؤ کو روک سکتا ہے بلکہ اس کے متاثرین کو ضروری دیکھ بھال اور مدد فراہم کر سکتا ہے۔ معاشرتی مساوات کو یقینی بنا کر ہی پاکستان ایک محفوظ اور صحت مند معاشرہ قائم کر سکتا ہے۔

تجارت کی ملی جلی میراث

عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی جانب سے بین الاقوامی تجارت پر اپنے 30 سالہ اثرات کا جائزہ کچھ اہم حقائق سامنے لاتا ہے۔ اس جائزے میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ تجارت کے فوائد امیر اور غریب ممالک کے درمیان غیر مساوی طور پر تقسیم ہوئے ہیں۔ تاہم، تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اس کی کوششوں نے کم اور درمیانی آمدنی والی معیشتوں اور اعلیٰ آمدنی والی معیشتوں کے درمیان آمدنی میں قریباً 20 سے 35 فیصد تک تیز تر اضافہ ممکن بنایا ہے۔ڈبلیو ٹی او کے تجزیے کا اہم پہلو یہ ہے کہ تجارت نے غربت میں کمی اور مشترکہ خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جو انسداد عالمی تجارت کے اس بیانیے کو چیلنج کرتا ہے کہ عالمی ادارے عدم مساوات کو بڑھاتے ہیں اور غربت کو کم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈبلیو ٹی او کی رکنیت اور اس کے پیشرو جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرف اینڈ ٹریڈ (گیٹ) میں شمولیت نے ممبران کے درمیان تجارت کو اوسطاً 140 فیصد تک بڑھا دیا ہے، جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ تاہم، عالمی سطح پر آمدنی کی عدم مساوات اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو براہ راست تجارت سے نہیں بلکہ دیگر عوامل سے منسلک ہے۔ شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ممالک جہاں کم تجارت ہوئی، عمومی طور پر زیادہ مشکلات کا شکار رہے۔ڈبلیو ٹی او کے چیف اکانومسٹ کے مطابق، “کم تجارت شمولیت کو فروغ نہیں دے گی، اور نہ ہی تجارت اکیلے اس مقصد کو حاصل کر سکتی ہے۔” اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ تجارت کے فوائد کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے صرف تجارت پر انحصار کافی نہیں، بلکہ مضبوط ملکی پالیسیوں اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے اہم سبق موجود ہیں۔پاکستان جیسے ممالک، جو اپنی تجارتی صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار نہیں لا سکے، اس تجزیے سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ بہتر تجارتی پالیسیز کے نفاذ سے کیسے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او نے پاکستان جیسے ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پیشہ ورانہ تربیت، تعلیم، بیروزگاری الاؤنسز، اور مسابقتی بازاروں کی تشکیل جیسے اقدامات کریں تاکہ ایک ہنر مند اور متحرک افرادی قوت تیار ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور مالیاتی نظام کی فعالیت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔عالمی تجارتی تنظیم یہ تسلیم کرتی ہے کہ منصفانہ تجارتی طریقوں کو فروغ دینا اس کی بھی ذمہ داری ہے۔ تجارتی اخراجات میں کمی، ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا، اور تجارت سے متعلق قواعد و ضوابط کو جدید بنانا اہم اقدامات ہیں۔تجارت کی افادیت کو مزید بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے فوائد زیادہ مساوی طور پر تقسیم ہوں، خصوصاً کم آمدنی والے ممالک کے کمزور طبقے تک۔ جنوبی ایشیا ایک واضح مثال ہے، جہاں سیاسی رکاوٹوں نے علاقائی تجارت کو محدود کر دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی تجارت نہ صرف معاشی بہتری کا باعث بن سکتی ہے بلکہ منصفانہ فوائد کی تقسیم کے لیے فریم ورک کے قیام کو بھی فروغ دے سکتی ہے۔آخر میں، ڈبلیو ٹی او کی رپورٹ بتاتی ہے کہ تجارت معاشی ترقی کا ایک اہم محرک ہے، لیکن اسے مزید موثر بنانے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور مضبوط ملکی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور عالمی تجارتی فوائد کو اپنی عوام تک پہنچانے کے لیے ضروری اصلاحات کرے۔
اقدامات کیا ہوں؟
تجارت میں بہتری کیسے؟