آج کی تاریخ

سول ملٹری ٹرائل کیس: غیر متعلقہ شخص پر فوجی قوانین کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟ آئینی بینچ کا سوال

عدلیہ کی آزادی مجروح

عدلیہ کسی بھی جمہوری ریاست کا وہ ستون ہے جس پر قانون کی حکمرانی اور عوامی حقوق کی پاسداری کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کی غیرجانبداری اور خودمختاری، ریاستی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ مگر جب یہی عدلیہ دباؤ، مفادات اور مصلحتوں کے تابع ہو جائے، تو انصاف محض ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی ایک دیرینہ بحث رہی ہے، لیکن حالیہ واقعات اور عدالتی فیصلے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ آزادی رفتہ رفتہ ایک دھندلی تصویر میں بدلتی جا رہی ہے۔
آزاد عدلیہ وہ ہوتی ہے جو کسی بھی بیرونی دباؤ سے بے نیاز ہو، جو صرف اور صرف آئین اور قانون کی روشنی میں فیصلے کرے، اور جو عوام کے اعتماد کی امین ہو۔ لیکن اگر عدلیہ کے فیصلے مخصوص سیاسی یا غیرسیاسی مفادات کے تحت ہوں، ججز کی تقرری میں شفافیت نہ ہو، اور بینچز کی تشکیل میں جانبداری کے آثار نظر آئیں، تو یہ پورے عدالتی نظام پر ایک سنگین سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ آج پاکستان میں یہی کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں مخصوص ججز کو آگے لانے اور بعض کو نظرانداز کرنے کا رجحان، اہم کیسز کے لیے مخصوص بینچز کی تشکیل، اور دباؤ کے تحت دیے گئے فیصلے – یہ سب اس بات کی علامتیں ہیں کہ عدلیہ کی خودمختاری ایک چوراہے پر کھڑی ہے، جہاں سے یا تو اسے مزید کمزور کیا جائے گا یا پھر اسے حقیقی آزادی کی طرف لوٹایا جا سکتا ہے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ عدلیہ کو ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں سیاسی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ کبھی فوجی آمریتوں نے اسے اپنی توسیع اقتدار کے لیے استعمال کیا، تو کبھی جمہوری حکومتوں نے اپنی بقا کے لیے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ مگر جو بات آج کی صورتحال کو زیادہ تشویشناک بناتی ہے، وہ عدلیہ کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت، مخصوص نظریات کے حامل ججز کو آگے بڑھانے کا رجحان، اور آزادانہ فیصلے دینے والے ججز کو خاموش کرانے کی کوششیں ہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو عدلیہ محض ایک رسمی ادارہ بن کر رہ جائے گی، جس کے فیصلے پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق ہوں گے اور جس کے ججز محض کٹھ پتلیوں کی طرح مخصوص اشاروں پر فیصلے سنانے کے پابند ہوں گے۔
پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ جب بھی عدلیہ پر دباؤ بڑھا، اس کا نتیجہ عوامی اعتماد کی کمی اور نظام انصاف کے بگاڑ کی صورت میں نکلا۔ جب عوام یہ محسوس کریں کہ عدالتیں غیرجانبدار نہیں رہیں، تو وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے دوسرے غیرقانونی ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور یوں پورے سماج میں بداعتمادی اور انتشار جنم لیتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو دبانے کا مطلب صرف چند مخصوص فیصلوں کو متاثر کرنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب ایک ایسے معاشرے کو جنم دینا ہے جہاں طاقتور ہمیشہ محفوظ رہتا ہے اور کمزور ہمیشہ انصاف کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آج عدلیہ کو صرف حکومتی دباؤ کا سامنا نہیں، بلکہ کئی دیگر حلقے بھی اسے اپنی مرضی کے فیصلے دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے مخصوص ججز کے خلاف پروپیگنڈا، عدالتی فیصلوں پر بے جا تنقید، اور بعض اوقات عدلیہ کو عوام کے سامنے متنازع بنانے کی کوشش – یہ سب اس مقصد کے تحت کیا جا رہا ہے کہ عدلیہ اپنی اصل طاقت کھو بیٹھے۔ جب ایک جج کو یہ محسوس ہو کہ اگر اس نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا تو اس کے خلاف میڈیا مہم چلے گی، یا اس پر دباؤ بڑھایا جائے گا، تو یہ صورتحال نہ صرف عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ انصاف کے عمل کو بھی مشکوک بنا دیتی ہے۔
پاکستان میں عدلیہ کے اندرونی معاملات میں حالیہ تبدیلیاں بھی ایک نیا سوال کھڑا کر رہی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں بعض ججز کی تعیناتی اور اہم کیسز میں بینچز کی مخصوص تشکیل نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ عدلیہ کو مخصوص ایجنڈے کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف عدلیہ کے وقار کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے ملک کے آئینی نظام پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ کچھ مخصوص مقدمات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلکہ اس کا مطلب ایک پوری سوچ کو فروغ دینا ہے جس میں عدلیہ کو ایک آزاد ادارہ نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جو مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال ہو۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پہلے ہی قانون کی حکمرانی کو شدید چیلنجز درپیش ہیں، وہاں عدلیہ کی آزادی کو مزید محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر عدلیہ ایک حقیقی آزاد ادارہ نہ رہی، تو عوام کو انصاف کیسے ملے گا؟ اگر عدالتی فیصلے کسی دباؤ، خوف یا مفاد کے تابع ہوں گے، تو پھر قانون کی نظر میں سب برابر کیسے رہیں گے؟ اگر ججز کھلے دل اور آزاد ذہن کے ساتھ فیصلے نہیں کر سکیں گے، تو پھر وہ عدلیہ کس طرح عوامی اعتماد بحال رکھ سکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر باشعور شہری کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، اور ان کے جوابات تلاش کرنا صرف عدلیہ کا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا فرض ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ سب سے پہلے عدالتی تقرریوں کے نظام کو شفاف اور غیرجانبدار بنایا جائے، تاکہ کوئی بھی جج محض پسند یا ناپسند کی بنیاد پر ترقی نہ پائے بلکہ صرف اور صرف میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر عدلیہ کا حصہ بنے۔ بینچز کی تشکیل کے عمل میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے، تاکہ کسی بھی خاص کیس کے لیے مخصوص ججز کی نامزدگی کا رجحان ختم ہو سکے۔ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے، تاکہ ججز بلاخوف و خطر اپنے فیصلے دے سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر، عوام میں عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہوگا، تاکہ عوام خود بھی عدلیہ پر کسی بھی قسم کے دباؤ کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔
یہ محض ایک ادارے کی بقا کا سوال نہیں، بلکہ ایک پورے نظام کی سالمیت اور مستقبل کا معاملہ ہے۔ اگر عدلیہ واقعی آزاد ہوگی، تو عوام کا اعتماد اس پر بحال ہوگا، اور اگر عوام کا اعتماد بحال ہوگا، تو قانون کی حکمرانی مضبوط ہوگی۔ لیکن اگر یہی رجحان جاری رہا اور عدلیہ کو مخصوص مفادات کے تابع رکھنے کی کوششیں جاری رہیں، تو نہ صرف عدلیہ کا وقار داؤ پر لگے گا، بلکہ پورا جمہوری نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہ فیصلہ اب قوم کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ایک آزاد عدلیہ کے لیے کھڑی ہوگی یا پھر خاموشی اختیار کر کے عدالتی نظام کو مخصوص قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے دیکھے گی۔ مگر یاد رکھیں، اگر آج عدلیہ کی آزادی کے دفاع میں خاموشی اختیار کی گئی، تو کل یہی خاموشی پورے انصاف کے نظام کو دفن کر سکتی ہے۔

قوم کی رہنمائی

پاکستان کی مسلح افواج ہمیشہ سے نہ صرف ملکی دفاع کی ضامن رہی ہیں بلکہ قومی یکجہتی، استحکام اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کا چولستان کا دورہ اسی قومی خدمت کا ایک اور روشن باب ہے۔ ان کا پیغام واضح اور مضبوط تھا: نوجوان بے بنیاد تنقید میں وقت ضائع کرنے کے بجائے خود ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، اپنے کردار کو پہچانیں، اور ملک کی ترقی میں عملی طور پر حصہ ڈالیں۔
یہ ایک ایسا پیغام ہے جو صرف طلبہ کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ معاشرے میں ترقی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام اپنی ذمہ داریوں کو کتنا سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اگر ہر فرد اپنی ذات اور معاشرے کے لیے بامقصد کردار ادا کرے، تو کوئی بھی قوت ملک کو ترقی سے نہیں روک سکتی۔ مگر بدقسمتی سے، آج کا دور ایسی بے بنیاد تنقید، بے مقصد مباحث اور سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے سے بھرا ہوا ہے، جو قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
جنرل عاصم منیر کا یہ پیغام کسی رسمی بیان سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ کو فروغ دینے کی کوشش ہے جو پاکستان کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ عملی اقدامات، مثبت طرزِ فکر، اور ذمہ دار شہری بننے کی روش اپنائی۔ پاکستان میں بھی اگر نوجوان تعمیری سرگرمیوں پر توجہ دیں، علم اور مہارت حاصل کریں، اور اپنی توانائیاں ملک کی بہتری میں صرف کریں، تو قوم کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
بہاولپور میں سی ایم ایچ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا افتتاح اس بات کی علامت ہے کہ فوج نہ صرف ملکی سرحدوں کی محافظ ہے بلکہ تعلیم، صحت اور ترقی کے دیگر شعبوں میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کا سب سے اہم زینہ ہے۔ جب ایک ملک کے نوجوان تعلیم اور تحقیق میں آگے بڑھتے ہیں، تو وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے ترقی کی راہیں کھولتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے اسی جانب توجہ دلاتے ہوئے طلبہ کو علمی برتری کے حصول کی ترغیب دی، تاکہ وہ مستقبل میں پاکستان کے استحکام اور خوشحالی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا پر غلط معلومات، جھوٹے بیانیے، اور منفی پراپیگنڈے کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آرمی چیف نے اس حوالے سے خبردار کیا کہ بعض عناصر اس پلیٹ فارم کو بے امنی پھیلانے اور افواجِ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ روش نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھیں۔ جذباتی نعروں اور افواہوں سے نکل کر ہمیں حقائق پر مبنی طرزِ فکر اپنانا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف نے طلبہ کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنی توجہ تعلیم، مہارت اور عملی جدوجہد پر مرکوز رکھیں اور اس قومی بیانیے کا حصہ نہ بنیں جو بے بنیاد تنقید اور افواہوں پر مبنی ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ، آرمی چیف نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ملک کے خلاف سرگرم بعض غیر قانونی نیٹ ورکس دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں، اور ان کے جھوٹے بیانیے عوام میں انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ جب ریاست ان عناصر کے خلاف کارروائی کرتی ہے، تو مخصوص قوتیں ان کے حق میں جھوٹا پروپیگنڈا کرتی ہیں تاکہ قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان مذموم سازشوں کو پہچانیں اور ان کا مؤثر جواب دیں۔
جنرل عاصم منیر کا چولستان کا دورہ اس بات کا عکاس ہے کہ فوج محض دفاعی معاملات تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شعبے میں بہتری لانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ تعلیم، تحقیق، صحت، اور قومی سلامتی کے منصوبوں میں فوج کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ہر ادارے کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے۔
یہ موقع ہے کہ ہم اس پیغام کو محض الفاظ تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے عملی جامہ پہنائیں۔ پاکستان کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ مثبت سوچ اپنائیں، اپنی توانائیاں درست سمت میں لگائیں، اور ملک کے استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ صرف نعرے لگانے اور دوسروں پر تنقید کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر ہم واقعی پاکستان کو ترقی یافتہ اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں خود بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی اس جانب راغب کرنا ہوگا۔
قوموں کی ترقی کا راز ہمیشہ محنت، دیانت داری اور اجتماعی شعور میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ آج اگر ہم اس سوچ کو اپنا لیں، تو پاکستان کے لیے ترقی اور کامیابی کی راہیں خود بخود کھل جائیں گی۔ جنرل عاصم منیر کا پیغام اسی حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے، اور اگر ہم اس پر عمل کریں، تو پاکستان کو ایک خوشحال اور مضبوط ملک بنانے کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

آبادی کا بحران

پاکستان میں آبادی میں تیز رفتار اضافہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو برسوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے حالانکہ اس کے اثرات ملکی معیشت سماجی ڈھانچے اور قدرتی وسائل پر تباہ کن حد تک ظاہر ہو رہے ہیں حالیہ پاکستان بینکاری اجلاس 2025 میں ماہرین نے جن مسائل کی نشاندہی کی وہ پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتے ہیں اجلاس کے سربراہ اور بینک الفلاح کے سربراہ عاطف باجوہ نے وزیر خزانہ کی اس بات سے اتفاق کیا کہ آبادی میں اضافہ اور موسم کی شدت پاکستان کے لیے وجودی چیلنج ہیں
موسمیاتی تبدیلی پر توجہ دینا بلا شبہ ضروری ہے لیکن آبادی میں بے قابو اضافہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے حکام مسلسل نظرانداز کرتے آ رہے ہیں پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش رکھنے والے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود حکومت کے پالیسی اقدامات اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ناکافی نظر آتے ہیں اس بے ہنگم اضافے نے ملک کو ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے جہاں بنیادی سہولیات جیسے تعلیم صحت رہائش اور روزگار فراہم کرنا شدید مشکل ہو چکا ہے
آبادی میں اضافے اور معاشی جمود کے درمیان تعلق کسی سے پوشیدہ نہیں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ وسائل کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اگر معیشت اسی رفتار سے ترقی نہ کرے تو نتیجہ غربت بے روزگاری اور معیار زندگی کی مسلسل گراوٹ کی صورت میں نکلتا ہے پاکستان کا ترقیاتی پروگرام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل پر مزید بوجھ بڑھتا جا رہا ہے
آبادی میں اضافے کا سب سے زیادہ اثر تعلیم اور صحت کے نظام پر پڑا ہے سرکاری اسکول پہلے ہی گنجائش سے زیادہ طلبہ کو سنبھالنے پر مجبور ہیں اور مزید بچوں کے داخلے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں دوسری جانب صحت کے شعبے میں بھی یہی صورتحال ہے ہسپتالوں میں بستروں کی کمی دواؤں کی عدم دستیابی اور ڈاکٹروں کی قلت ایک عام مسئلہ بن چکی ہے یہ بحران صرف بنیادی سہولیات تک محدود نہیں بلکہ معاشی شعبے پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک اور سنگین اثر روزگار کے مواقع کی قلت ہے پاکستانی معیشت میں سالانہ لاکھوں نوجوان ملازمت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں لیکن اقتصادی ترقی کی رفتار اتنی نہیں کہ وہ سب کے لیے باعزت روزگار فراہم کر سکے نتیجہ یہ ہے کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے غیر رسمی شعبے میں روزگار کا رجحان بڑھ رہا ہے اور معاشرتی عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے اس صورتحال کے نتیجے میں نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے جو سیاسی عدم استحکام کو ہوا دینے کا باعث بن رہی ہے بہت سے نوجوان بیرون ملک روزگار کی تلاش میں نکل پڑے ہیں جس کی وجہ سے ملکی معیشت کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک سے بھیجی گئی ترسیلات زر پر منحصر ہو چکا ہے لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں بلکہ ایک وقتی سہارا ہے
آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل پر دباؤ بھی ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے پاکستان پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہے اور مزید آبادی اس بحران کو مزید شدید کر رہی ہے زمینی وسائل توانائی کے ذرائع اور زراعت بھی اسی دباؤ کی زد میں ہیں ماحولیاتی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ آبادی میں بے قابو اضافے کی وجہ سے پاکستان کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے اور آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے موسمیاتی تبدیلی ان مسائل کو مزید سنگین بنا رہی ہے اور اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں پاکستان کو شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا
عاطف باجوہ نے بالکل درست نشاندہی کی کہ آبادی میں اضافے سے متعلق سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے بدقسمتی سے سیاسی اور نظریاتی حساسیت کی بنا پر حکومتیں اس مسئلے کو کھل کر زیر بحث نہیں لاتیں جس کا نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے پاکستان میں کوئی ایسا معاشی ماڈل نہیں جو کمزور بنیادی ڈھانچے بدانتظامی اور محدود مالی وسائل کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو سہارا دے سکے اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو معیشت شدید دباؤ کا شکار ہو جائے گی اور ترقیاتی اہداف حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا
حکومت کو فوری طور پر آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے لیے قومی سطح پر مہمات چلائی جائیں عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ محدود خاندانی نظام ہی خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے خواتین کی تعلیم اور خودمختاری پر سرمایہ کاری کی جائے تعلیم یافتہ خواتین زیادہ باشعور فیصلے کرتی ہیں اور اس کا براہ راست اثر آبادی کی شرح میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے مانع حمل ذرائع تک رسائی آسان بنائی جائے صحت کے مراکز اور دواخانوں میں ان کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہر شہری کو خاندانی منصوبہ بندی کے وسائل باآسانی میسر ہوں مذہبی اور سماجی حلقوں کو اس مہم کا حصہ بنایا جائے علماء اور دانشوروں کو شامل کر کے ایک مثبت بیانیہ تشکیل دیا جائے تاکہ عوام میں شعور پیدا ہو اور وہ اسے اپنے مذہبی اور سماجی اقدار کے خلاف نہ سمجھیں قانونی اور پالیسی سطح پر اقدامات کیے جائیں حکومت کو ایسے قوانین متعارف کرانے چاہئیں جو خاندانی منصوبہ بندی کو فروغ دیں اور بڑے خاندانوں کی حوصلہ شکنی کریں
پاکستان کا مستقبل براہ راست آبادی کی شرح پر قابو پانے سے جڑا ہوا ہے آبادی پر قابو پانے کو محض ایک ترقیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی معاشی بقا اور ماحولیاتی تحفظ کے مسئلے کے طور پر لینا ہوگا معاشی پالیسیاں بینکاری اصلاحات اور مالیاتی شمولیت جیسے اقدامات اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن اگر پاکستان ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نئی آبادی کا بوجھ اٹھاتا رہا تو ان تمام اصلاحات کے فوائد زائل ہو جائیں گے
یہ وقت محض گفتگو کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے اگر فوری طور پر سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان کو شدید معاشی سماجی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جن کے اثرات کئی دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے حکومت سیاسی رہنما مذہبی طبقہ اور عوام سب کو مل کر آبادی میں اضافے کے اس بحران پر قابو پانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ آنے والے وقت میں پاکستان کو ایک ناقابل سنبھال بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں