میرے سامنے قاسم اور فاطمہ نامی دو بزرگ سید بیٹھے ہوئے ہیں یہ دونوں آپس میں بہن بھائی ہیں، فاطمہ بیوہ اور ایک طلاق یافتہ سید زادی کی بے آسرا ماں ہے اور قاسم اس کا چھوٹا بھائی۔ حیران کن طور پر بے بسی اور کرب کی کیفیت نے بھی ان کے چہروں پر موجود قدرتی نور کو ماند نہیں پڑنے دیا، آخر آل رسول جو ٹھہرے۔ 1400 سال بعد ایک نسبت اور ناموں کے حیران کن ملاپ نے میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑا دیا ہے آج میں خود کو تیسرے درجے کا ہی نہیں بلکہ 300 ویں درجے کا بزدل کلمہ گو مسلمان سمجھ رہا ہوں کہ پاکستان میں آج کل کے حالات میں انصاف کی ارزانی سے خوفزدہ ہو کر پورا سچ لکھنے سے قاصر ہوں۔ ویسے بھی جہاں سال ہا سال انصاف کے لیے دھکے کھانے والا عاجز آ کر در انصاف پر آواز بلند کرنے پر توہین عدالت کا مرتب قرار پائے اور سالہا سال جیل کاٹے، وہاں میرے جیسا بزدل قلم کار کیسے پورا سچ لکھنے کی جسارت کرے، اس لیے میں آج بے نامی کا سہارا لینے پر مجبور ہوں کہ انصاف کی تابش میں راکھ کا ڈھیر ہی نہ بنا دیا جاؤں۔ فاطمہ،،،، پتہ نہیں ہے یہ نام لکھتے ہوئے آج ہاتھ کیوں کانپ رہے ہیں کہ ان کی داستان سننے کے بعد دل تو کرتا ہے کہ دھاڑیں مار مار کر اپنی بے بسی کا ماتم کروں مگر میں آج اپنے آنسو اپنے اندر ہی گرا رہا ہوں اور محض اس لیے کہ یہ دونوں بہن بھائی جس امید کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں ان کی وہ امید ٹوٹ نہ پائے۔ اوپر سے محرم الحرام کے دن ہیں اور یہ بزدل قلم کا مزدور ان کے شہر اور کیس کا حوالہ دئیے بغیر یہ واقعہ لکھنے پر اس لیے مجبور ہے کہ شاید کسی ایک کے لیے لکھنے پر اور بھی درجنوں کا بھلا ہو جائے۔ چند سال قبل فاطمہ کی بیٹی کی شادی ایک صاحب جائیدادزمیندار سے ہوتی ہے جسے شادیاں کرانے کے شوق کا اس کی ماں کو بعد میں علم ہوا۔ اوپر سے بیوہ کا پرابلم یہ بھی تھا کہ وہ سید خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے لہذا بیٹی کے لیے ڈھلتی عمر والے ہی کو قبول کر لیا کہ سید تو ہے مگر نکاح نامے میں بیٹی کے تحفظ کی خاطر گھر، زیورات اور زرعی اراضی کے علاؤہ قابل قبول ماہانہ خرچہ بھی لکھوا لیا۔اب بوڑھے کا دل بھرنے کے بعد طلاق ہو چکی ہے اور کئی سال عدالتوں کے دھکے کھانے کے بعد بنت فاطمہ کو دو کروڑ سے زائد کی ڈگری کی صورت میں کاغذ کا ایک پروانہ اس حکم کے ساتھ ملا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر ریکوری کروائی جائے اور ‘بنت فاطمہ کو اس کا حق دلوایا جائے مگر عدالتی حکم پر عمل درآمد کے راستے میں ایک ریڈر رکاوٹ بنا ہوا ہے جو کھلے عام کہتا ہے کہ 40، 50 لاکھ لے لو اور جان چھوڑو ورنہ عدالت سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ سات سال سے دھکے کھا رہی ہو اور میری ابھی ملازمت کے 17 سال باقی ہیں، تو تمہیں کم از کم 17 سال تو مزید دھکے کھانے ہی پڑیں گے۔ یہ رقم قبول کرو اور صلح نامہ لکھ دو۔ اب ریکوری کا معاملہ کئی ماہ سے لٹکا ہوا ہے دو مرتبہ فائل ہی گم ہو چکی ہے جو ایک دو پیشیاں ضائع ہونے کے بعد مل بھی جاتی ہے۔ انصاف کی بجائے فیصلوں میں مصروف متعدد جج حضرات ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے ریڈرز اور اہلمندوں کے کرتوتوں کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ اپنے 23 سال پرانے تجربے کی روشنی میں تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ جیت ریڈر ہی کی ہو گی کیونکہ میں پہلے اس قسم کا ایک کیس بھگت چکا ہوں اور اس دور میں ایک قومی اخبار میں نام اور حوالے کے بغیر رپورٹ بھی کر چکا ہوں۔ ہوا یوں کہ ضلع خانیوال کی ایک تحصیل میں ایک تعلیم یافتہ سکول ٹیچر بچی کی شادی تھی اور والدین بچی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ شادی سے ایک ہفتہ قبل انہیں ایک عدالتی نوٹس وصول ہوا جو حقوق زن شوئی کے متعلق تھا اور اس نوٹس کے مطابق مذکورہ سکول ٹیچر شادی شدہ تھی اور اپنے خاوند سے لڑ کر ماں کے گھر آئی ہوئی تھی جو عدالت سے رجوع کرنے والے کے گھر آباد نہیں ہو رہی تھی۔ سکول ٹیچر کی ماں پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ تحقیقات ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کے ایک اوباش محلے دار نے ایک عدالتی اہلکار کے ساتھ مل کر جعلی نکاح نامے کی بنیاد پر جھوٹا کیس دائر کرکے لڑکی والوں سے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر تین لاکھ روپیہ نہ دیا گیا تو وہ یہ شادی نہیں ہونے دے گا، یاد رہے کہ آج سے 25 سال قبل تین لاکھ روپیہ غریب خاندان کے لیے اچھی خاصی رقم تھی۔ خانیوال کی مذکورہ تحصیل کے کسی شہری نے ضیا شاہد مرحوم کو فون پر اس ظلم سے آگاہ کیا اور انہوں نے ملتان میں مجھے فوری طور پر مذکورہ خاندان سے رابطہ کرنے کا حکم دیا۔ میں نے جب مذکورہ خاندان سے رابطہ کیا تو ان کا موقف یہ تھا کہ خدا کے لیے خبر نہ شائع کریں ہماری عزت خراب ہو جائے گی، بس ہماری جان چھڑوا دیں ہم ایک لاکھ روپیہ دینے کو تیار ہیں۔ مزید معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ یہ چار لڑکوں پر مشتمل ایک گینگ ہے جو اس سے پہلے بھی کئی ملازم پیشہ خواتین کو بلیک میل کرکے پیسے بٹور چکا ہے اور ان کا سرغنہ ایک عدالتی اہلمند ہے۔ اس وقت ڈاکٹر امیر اے شیخ ایس پی خانیوال تھے۔ اس دور کے پولیس افسران عزتوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے جو آج کل کے پولیس افسران میں ناپید ہو چکا ہے۔ اس وقت کے ایس پی خانیوال نے اس گینگ کو نشان عبرت بھی بنایا اور جعلی نکاح نامہ تیار کرنے والے کو بھی اچھا خاصہ رگڑا دیا پھر الحمدللہ جہاں اس گینگ کا خاتمہ ہوا وہاں ایک روپیہ بھی بھتہ خوری کی مد میں دیے بغیر بچی کی بھی انتہائی عزت اور پردے کے ساتھ طے شدہ پروگرام کے مطابق رخصتی ہو گئی مگر میں اس منحوس اور مکروہ شکل کو آج تک بھول نہیں سکا جو عدالت کے سائے تلے اس گینگ کا سرغنہ تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ وہ ضلع ہی چھوڑ کر کسی اور ضلع میں چلا گیا مگر میں زندگی بھر ڈاکٹر امیر اے شیخ کی اس نیکی اور ذاتی دلچسپی کو بھول نہیں سکا جو آج کے افسران میں مجھے نظر نہیں آتی۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ڈاکٹر امیر شیخ اج کل کہاں تعینات ہیں کیونکہ میرا ان سے رابطہ گجرات میں ہوا تھا جہاں وہ ایڈیشنل ایس پی تھے اور شبیر نت قتل کیس کی تفتیش کر رہے تھے مگر میری دعاؤں میں وہ آج بھی وہ کبھی کبھار آ جاتے ہیں۔(جاری ہے)
