گراس روٹ لیول کی کرپشن نے اس ملک کا نظام تباہ و برباد کرکے رکھا ہوا ہے اور اس ملک کے اعلیٰ ترین افسران بھی کلیریکل مافیا کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے۔ میں نے اپنی زندگی میں درجنوں معاملات ایسے بھی دیکھے کہ افسران تو ایماندار ہیں مگر نیچے عملہ سر سے پاؤں تک کرپشن میں اٹا پڑا ہے اور فائلوں میں ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالتا ہے کہ افسران بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کے سینکڑوں مشاہدات میں نے اپنی سالہا سال پر محیط رپورٹنگ اور صحافت کے دوران کیے ہوئے ہیں حتیٰ کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی رشوت بھی دسویں جماعت میں لاہور ہی میں تعینات ایک سول جج خلیل احمد انور کے سیاہ رنگ، لمبے لمبے دانتوں اور دراز قد کے ریڈر کو دی تھی جو 30 روپے تھی اور جن کانپتے ہاتھوں سے میں نے وہ رشوت دی تھی 48 سال بعد بھی اسے بھول نہ سکا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ راوی روڈ لاہور پر ہماری دکانیں تھیں جن پر کرائے داروں نے قبضہ کر رکھا تھا اور نہ تو وہ کرایہ دیتے تھے نہ ہی قبضہ چھوڑتے تھے۔ بے دخلی کا کیس ہمارے وکیل چوہدری مجاہد احمد نے دائر کر رکھا تھا جو ہمارے ہی علاقے میں کوٹھی نمبر 62 راوی پارک میں رہتے تھے۔ وہ ایک مقدمے کے سلسلے میں فیصل آباد گئے تو انہوں نے مجھے کہا کہ عدالت میں پیش ہو کر پیشی لے لینا۔ ان دنوں میرے والد صاحب کی پوسٹنگ ساہیوال تھی۔ میں نے پرنسپل صاحب سے چھٹی لی اور لوئر مال روڈ لاہور پر واقع جوڈیشل کمپلیکس چلا گیا جہاں خلیل احمد انور صاحب کی عدالت تھی۔
میرے والد صاحب خدا انہیں غریق رحمت کرے، رے بن کا سنہری رنگ کا سیاہ شیشوں والا چشمہ استعمال کیا کرتے تھے جب وہ چشمہ خراب یعنی کھوچل ہو جاتا تو ہمیں مل جاتا۔ سکول کی کتابیں میرے ہاتھ میں تھی اور میں نے وہی ہلتےبازوئوں والاکھوچل چشمہ پہنا ہوا تھا۔ عدالت میں داخل ہوتے ہی عدالت کے ہرکارے نے مجھے قمیض کے کالر سے پکڑ لیا اور جج صاحب کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ توہین عدالت کر رہا ہے اس نے عینک پہنی ہوئی ہے۔ جج صاحب نے مجھے ڈانٹا اور حکم دیا کہ باہر جا کر عینک اتار کر واپس عدالت میں آؤ۔ شدید خوف کی کیفیت میں عدالت سے باہر گیا۔ چشمہ اتار کر جیب میں ڈالا واپس آیا تو جج صاحب اٹھ کر اپنے ریٹائرنگ روم میں جا چکے تھے۔ میں نے جج صاحب کے بائیں جانب بیٹھے اسی ریڈر کو ایک پرچی دے کر، جس پر کیس کا ٹائٹل لکھا ہوا تھا، کہا کہ ہمارے وکیل صاحب فیصل آباد گئے ہوئے ہیں، مجھے پیشی دے دیں اور میری حاضری لگا لیں۔ مجھے ریڈر صاحب کا جوابی جملہ زندگی بھر نہیں بھولا،، کہنے لگے پیشیاں ایویں ای مل جاندیاں نے؟ پھر میں نے چوہدری مجاہد احمد ایڈووکیٹ کی طرف سے دی گئی ہدایت کے مطابق جیب سے 30 روپے نکالے اور ریڈر صاحب کو دیئے جو انہوں نے رجسٹر کے نیچے رکھ لیے اور پیشی ڈال دی۔
یہ میری زندگی کی پہلی رشوت تھی جسے میں آج تک بھول نہیں سکا اور نہ اس ڈانٹ کو جو چشمہ لگانے پر جج صاحب نے مجھے پلائی تھی۔ اللہ جانتا ہے مجھے اس وقت چشمے اور عینک کا فرق نہیں معلوم تھا۔
بہت سالوں بعد میری رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں جناب خلیل احمد انور صاحب سے ایک تقریب میں اتفاقیہ ملاقات ہوئی تب وہ لیاقت پور میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے۔ میں نے انہیں ساری رام کہانی سنائی کہ کس طرح ان کی ایک بلاوجہ کی ڈانٹ نے مجھے تو شاید چند منٹ کے لیے بے توقیر کیا ہوگا مگر میرے تحت شعور میں بسے چند منٹ کے اس خوف کی وجہ سے زندگی بھر میری نظر میں پورے عدالتی نظام کی توقیر سوالیہ نشان ہی بنی رہی جسے میں باوجود کوشش بھول نہ سکا۔ دہائیاں گزر گئیں ۔کئی دور آئے اور کئی دور چلے گئے مگر گزشتہ 48 سال سے ریڈرز اور اہلمدوں کا دور آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے قائم ہے۔
آج بھی عدالتی نظام کے اس اہم کل پرزےجو ریڈرز اور اہلمدوں پر مشتمل ہیں کی وجہ سے ہزاروں مقدمات اور سائلین ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ آج کے جدید ترین مواصلاتی دور میں بھی سائلین کو پتہ ہی نہیں چلتا اور ان کے مقدمات کے یک طرفہ فیصلے ہو رہے ہیں۔ جائیدادیں بھی یک طرفہ طور پر ٹرانسفر ہو رہی ہیں اور پاکستان سے باہر بیٹھے لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی جائیدادوں کےنہ صرف فیصلے ہو چکے ہیں بلکہ دوسرے ناموں پرٹرانسفربھی ہوچکی ہیں۔ چند ماہ پہلے مجھےلاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایک جگہ پر لکھا ہوا تھا کہ کسی بھی ملازم کو بخشش دینا منع ہے مگر اتفاق یہ ہے کہ میں جس دوست کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ گیا ان کا تعلق لیہ سے تھا۔انکے مقدمے کے شارٹ فیصلے کا اعلان
ان کے حق میں ہو چکا تھا مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود فیصلہ لکھا نہیں جا رہا تھا ایسا کیوں ہوتا ہے اس پر الگ سے کالموں کی ایک سیریز بنتی ہے مگر فی الحال تو یہی بتانا چاہتا ہوں کہ جس روز میں اپنے لیہ والے دوست کےہمراہ مقدمے کے فیصلے کی کاپی لینے گیا تو چھ ہزار روپیہ ایک ہزار روپے فی کس کے حساب سے چھ ملازمین کو بخشش دینی پڑی جسے دور جدید میں مٹھائی کہا جاتا ہے اور یہ مٹھائی ہر کوئی دھڑلے سے لیتا ہے چاہے اس کا شوگر کا لیول 400 سے بھی زائد رہتا ہو مگر یہ مٹھائی اسے کچھ نہیں کہتی اور نقصان کے بجائے ہر روز فائدہ ہی دیتی ہے۔ کبھی یہ بخشش سو دو سو روپیہ ہوتی تھی مگر اب میرےایک ملتانی دوست کے مطابق ’’لالہ مہنگائی تھی گئی اے‘۔
