پاکستان ایک عرصے سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، لیکن حالیہ دنوں میں دہشتگردی کے واقعات میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بنوں میں چھاؤنی پر دہشتگرد حملہ، افغان سرزمین کا دہشتگردوں کے لیے استعمال، افغانستان کی جانب سے کارروائی نہ کرنا اور وہاں موجود امریکی اسلحے کا دہشتگردوں کے ہاتھ لگنا، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ پورے خطے کے استحکام کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ بنوں میں فوجی چھاؤنی پر دہشتگرد حملہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ایک سنگین چیلنج تھا۔ اس حملے میں دہشتگردوں نے جدید اسلحہ اور منظم حکمتِ عملی کا استعمال کیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ عناصر نہ صرف تجربہ کار ہیں بلکہ انہیں بیرونی سرپرستی بھی حاصل ہے۔افغان سرزمین کا پاکستانی دہشتگردوں کے خلاف استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث تنظیمیں افغانستان میں پناہ لیتی رہی ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان گروہوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یا تو وہ ان گروہوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے یا پھر ان کے خلاف کارروائی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہاں موجود جدید امریکی اسلحہ مختلف عسکریت پسند گروہوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، جو خطے میں دہشتگردی کے بڑھنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ اسلحہ پاکستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک میں تخریب کاری کے لیے استعمال ہو رہا ہے، جو بین الاقوامی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ دہشتگرد تنظیمیں خود کو مذہبی رنگ میں پیش کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں یہ عناصر اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اسلام امن، رواداری، اور انسانی جان کے تحفظ کا درس دیتا ہےجبکہ یہ تنظیمیں قتل و غارت کو فروغ دیتی ہیں۔ فتنہ خوارج کے سدباب کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ نظریاتی جنگ: عوام کو آگاہ کیا جائے کہ دہشتگردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ علما اور دانشوروں کو متحرک کیا جائے تاکہ وہ ان شدت پسند نظریات کا علمی اور فکری بنیادوں پر جواب دیں۔ تعلیمی اصلاحات: مدارس اور سکولوں میں ایسے نصاب متعارف کرائے جائیں جو برداشت، رواداری اور امن کے اصولوں پر مبنی ہوں۔سوشل میڈیا پر مؤثر بیانیہ: دہشتگرد گروہ سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا جواب دینے کے لیے حکومت کو ایک مؤثر میڈیا پالیسی مرتب کرنی ہوگی، جس کے تحت مثبت اسلامی اور قومی بیانیہ کو فروغ دیا جائے۔قانونی کارروائی: جو افراد شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور ان کے مالی وسائل منقطع کیے جائیں۔پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف ایک جامع حکمتِ عملی اپنانا ہوگی جس میں عسکری، سفارتی اور داخلی سطح پر اقدامات شامل ہوں۔دہشتگردوں کے خلاف مؤثر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جائیں تاکہ ان کے نیٹ ورک کو توڑا جا سکے۔ پاک۔افغان سرحد کو مزید محفوظ بنایا جائے تاکہ دہشتگرد عناصر باآسانی نقل و حرکت نہ کر سکیں۔جو لوگ دہشتگردوں کو سہولت فراہم کرتے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر افغانستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشتگردوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ امریکہ، چین، روس اور دیگر ممالک کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے اور ان سے تعاون حاصل کیا جائے۔پاکستان، افغانستان اور دیگر علاقائی ممالک کے درمیان ایک مشترکہ فورم قائم کیا جائے جو دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کو مکمل طور پر نافذ کرنا ہوگاجس میں دہشتگردی کے خلاف تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ایک مستحکم معیشت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ بے روزگاری اور غربت دہشتگرد تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرتی ہیں، اس لیے حکومت کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے علما، سول سوسائٹی اور میڈیا کو متحرک کیا جائے۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے اور حالیہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ یہ چیلنج ابھی ختم نہیں ہوا۔ بنوں میں حملہ، افغان سرزمین کا دہشتگردوں کے لیے استعمال، اور امریکی اسلحے کا غلط ہاتھوں میں جانا، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو پاکستان کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔تاہم، اگر پاک فوج اور حکومت ایک جامع حکمتِ عملی اپنائیں جس میں عسکری، سفارتی اور داخلی سطح پر مربوط اقدامات کیے جائیںتو دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کو بھی اس جنگ میں شامل کیا جائے اور انہیں شدت پسندی کے خلاف متحد کیا جائے۔ پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے، اگر ہم مل کر اس ناسور کے خلاف جدوجہد کریں۔
سیاسی استحکام یا بے یقینی؟
پاکستان میں سیاسی استحکام کی بات کرنا ایک عجب مذاق سا لگتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت خود کو مضبوط، پائیدار اور غیر متزلزل قرار دیتی ہے، لیکن حقیقت ہمیشہ اس کے برعکس نکلتی ہے۔ موجودہ حکومت بھی کچھ ایسا ہی دعویٰ کر رہی ہے۔ اپنی سالگرہ کے جشن میں اشتہارات کی بھرمار، معیشت کی استحکام پسندی کے بلند و بانگ دعوے، اور کابینہ میں وسعت—یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت خود کو ایک طویل المدتی اقتدار کے لیے تیار سمجھتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی سب کچھ ٹھیک ہے؟
اگر سب کچھ واقعی ٹھیک چل رہا ہے، تو پھر اپوزیشن کے ایک عام سے سیمینار کو روکنے کے لیے اتنی تگ و دو کیوں کی گئی؟ پاکستان میں سیمینار منعقد کرنا کسی عام سرگرمی کی طرح ہوتا ہے، خاص طور پر اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی ہوٹل میں تقریری نشست ہو رہی ہوتی ہے۔ مگر اس بار، پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے دروازے بند کر دیے گئے۔ پہلے ایک جگہ انکار ہوا، پھر دوسری جگہ، پھر تیسری جگہ—یہاں تک کہ چوتھے مقام پر بھی عین وقت پر انتظامیہ نے “دل بدل لیا” اور ہال کو تالا لگا دیا۔
یہ حکومتی پالیسی کی واضح کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر واقعی حکومت کو اپنی کارکردگی پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا وہ ظاہر کرتی ہے، تو پھر اپوزیشن کی ایک عام تقریب سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ فیصلہ کسی طور پر ایک مستحکم حکومت کی علامت نہیں بلکہ ایک نروس حکومت کے خدشات کا عکاس ہے، جو خود اپنے فیصلوں سے غیر مطمئن نظر آ رہی ہے۔ یہاں ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ حکومت نے حال ہی میں عدلیہ میں کچھ “موزوں” تقرریاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں وہ ججز جنہیں “مشکل” سمجھا جاتا تھا، اب پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ یہ ایک اتفاق ہے یا ایک منصوبہ بند چال، اس پر بحث ہو سکتی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ عدلیہ کے چند مضبوط اور خودمختار ججز کو ایک طرف کر دیا گیا ہے، تاکہ “نرم گوشہ رکھنے والے” ججز معاملات سنبھالیں۔ دوسری طرف، حکومت میڈیا کو قابو میں رکھنے کے لیے پی ای سی اے جیسے قوانین پر زور دے رہی ہے، جس کے تحت خاص طور پر سوشل میڈیا پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ پنجاب میں نیا ہتک عزت قانون بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جبکہ “فائر وال” جیسی حکمت عملی بھی زیر غور ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی میڈیا تو پہلے ہی حکومت کی گرفت میں آ چکا ہے، اب واحد خطرہ سوشل میڈیا کو سمجھا جا رہا ہے، جس پر قابو پانے کے لیے نت نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت نے اپنی کابینہ میں توسیع کر دی ہے۔ دوستوں، اتحادیوں اور حتیٰ کہ مخالفین کو بھی مختلف عہدوں سے نوازا گیا ہے، تاکہ سیاسی توازن برقرار رکھا جا سکے۔ مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کئی دن گزر جانے کے باوجود، ان وزراء کو کوئی قلمدان ہی نہیں دیا گیا! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت کو ان کی ضرورت تھی تو کیا اس وقت یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ وہ کون سی وزارتیں سنبھالیں گے؟ یا پھر حکومت کے اندر ہی کوئی اندرونی چپقلش چل رہی ہے، جس کی وجہ سے فیصلے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں؟
یہ تمام صورتحال اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ بظاہر حکومت اپنے اقتدار کو مستحکم اور محفوظ سمجھ رہی ہے، لیکن حقیقت میں داخلی اور خارجی سطح پر غیر یقینی کی فضا قائم ہے۔ ایک طرف اپوزیشن کے جلسے جلوسوں سے خوف، دوسری طرف عدلیہ میں مداخلت، تیسری طرف میڈیا پر قدغنیں اور چوتھی طرف وزراء کے قلمدانوں پر غیر یقینی—یہ سب کچھ ایک ایسے اقتدار کی کہانی بیان کر رہا ہے جو اپنی طاقت کے باوجود نروس نظر آ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقتور حکومتیں اپنے مخالفین کی آواز دبانے کے بجائے ان سے مکالمہ کرتی ہیں۔ اپوزیشن کے سیمینار پر اس قدر بوکھلاہٹ کا مظاہرہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت خود اپنے استحکام کے دعوے پر مکمل یقین نہیں رکھتی۔ اگر واقعی “سب اچھا ہے”، تو اپوزیشن کو بولنے دیا جائے، عوام کو حقائق کا خود اندازہ لگانے دیا جائے، اور حکومت کو اپنی کارکردگی کے ذریعے اپوزیشن کو شکست دینی چاہیے، نہ کہ ہتھکنڈوں کے ذریعے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے بجائے، ان کو درست کرنے پر توجہ دے۔ بصورت دیگر، یہ غیر یقینی کی کیفیت حکومت کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ جو حکومت اپوزیشن کے ایک عام سیمینار سے خوفزدہ ہو، وہ خود اپنے مستقبل کے بارے میں کتنی پراعتماد ہو سکتی ہے؟
گرتی پیداوار
حالیہ دنوں میں حکومت نے ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اطلاعات نے فروری میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے 1.4 فیصد تک گرنے کو معیشت کی بہتری اور عوامی خوشحالی کی علامت قرار دیا۔ اگر گزشتہ سال کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا جائے تو یہ فرق واقعی حیران کن ہے: رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں مہنگائی 5.85 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال یہی شرح 27.96 فیصد تھی۔
یہ دعوے بظاہر خوش کن ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس کمی کا فائدہ واقعی عام عوام کو ہو رہا ہے؟ کیا عام آدمی کو اس “معاشی استحکام” کا کوئی عملی ثبوت مل رہا ہے، یا یہ صرف اعداد و شمار کی جادوگری ہے؟
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار اکثر حکومتی پالیسیوں کے مطابق ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں، اور یہی معاملہ اس بار بھی نظر آتا ہے۔ زیادہ تر سبسڈی والے نرخوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو مہنگائی میں کمی دکھائی گئی ہے، وہ عام مارکیٹ کی حقیقت سے خاصی مختلف ہے۔ بجلی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں عوام کے لیے اب بھی بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔
دوسری طرف، پاکستان میں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار (LSM) میں دسمبر 2024 میں 3.73 فیصد کمی دیکھی گئی، جبکہ جولائی تا دسمبر 2024 میں یہ شرح منفی 1.87 فیصد رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ کچھ غیر پیداواری شعبوں میں ترقی دیکھی گئی، لیکن اصل پیداوار میں کمی کا رجحان برقرار ہے۔ نتیجتاً، معیشت میں ترقی کی بجائے سکڑاؤ کا سامنا ہے، جو روزگار کے مواقع پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔
نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی صنعتی زوال کی تصدیق کی ہے۔ اس کمیٹی کے مطابق، 2024-25 کے پہلے سہ ماہی میں مجموعی ترقی کی شرح 0.92 فیصد رہی، جبکہ گزشتہ سال کے تخمینے 2.52 فیصد کو کم کر کے 2.50 فیصد کر دیا گیا۔ خاص طور پر، پاکستان میں صنعتی زوال کی شرح 2023-24 کی پہلی سہ ماہی میں 4.43 فیصد تھی، جو 2024-25 کی پہلی سہ ماہی میں 1.03 فیصد تک کم ہوئی۔
مزید برآں، کان کنی اور کھدائی کے شعبے میں 6.49 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جو کوئلے کی پیداوار میں 12.4 فیصد، گیس میں 6.7 فیصد اور خام تیل میں 19.8 فیصد کی کمی کا نتیجہ ہے۔
یہ اعداد و شمار معیشت کے اصل مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صنعتی پیداوار میں مسلسل کمی کا مطلب ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع بھی کم ہو رہے ہیں، اور روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام کو کوئی خاص ریلیف نہیں مل رہا۔
حکومت کی جانب سے جن ترقیاتی اشاریوں پر فخر کیا جا رہا ہے، ان میں خدمات کے شعبے کی 1.43 فیصد شرح نمو شامل ہے، جو کہ پچھلے سال کے 2.16 فیصد سے کم ہے۔ اس میں بھی زیادہ تر ترقی ان غیر پیداواری شعبوں میں ہوئی ہے جو عام عوام کے معیارِ زندگی پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے، جیسے:
خوراک اور ہوٹلنگ (4.58 فیصد)
اطلاعات و نشریات (5.09 فیصد)
رئیل اسٹیٹ (4.22 فیصد)
تعلیم (2.03 فیصد)
صحت و سماجی کام (5.60 فیصد)
حقیقت یہ ہے کہ ان شعبوں میں ترقی کا عوام کو کوئی براہِ راست فائدہ نہیں ہوا۔ اگر صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات میں حقیقی بہتری ہوتی تو عوام کو معاشی ریلیف محسوس ہوتا، لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔
حکومت نے رواں مالی سال کے لیے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا ہے، جبکہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے حالیہ اجلاس میں 2.5 سے 3.5 فیصد کی حد تجویز کی ہے۔ تاہم، معیشت میں جو رجحان نظر آ رہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہدف حاصل کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت 2019 سے مسلسل سخت مالیاتی اور مالی پالیسیوں کے شکنجے میں ہے، اور اس صورتحال کو کووڈ-19 کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی عارضی رعایت کے سوا کوئی وقفہ نہیں ملا۔ نتیجتاً، سرمایہ کاری میں کمی، صنعتوں کے بند ہونے، اور بے روزگاری میں اضافے کے باعث معیشت کا سکڑاؤ جاری ہے۔
حکومت کے حمایتی افراد اس پالیسی کا دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پانا ایک بڑی کامیابی ہے۔ تاہم، ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر صنعتی پہیہ رواں رکھا جاتا تو شاید اس کے نتائج بہتر ہوتے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی میں کمی کے باوجود بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جو عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق، ملک میں بے روزگاری کی شرح 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جبکہ غربت کی شرح 44 فیصد بتائی جا رہی ہے، جو سب صحارا افریقہ کے ممالک سے بھی زیادہ ہے۔
حکومت کے دعوے ایک طرف، مگر معاشی حقائق دوسری طرف ہیں۔ اگرچہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے، لیکن اس کے عوامی فلاح و بہبود پر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بے روزگاری اور صنعتی زوال نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے، اور معیشت کی مجموعی سمت اب بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔
اگر حکومت واقعی معاشی استحکام چاہتی ہے، تو اسے صرف مہنگائی کی شرح کم کرنے پر توجہ دینے کے بجائے پیداواری شعبوں کی بحالی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بھی کام کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، یہ “معاشی استحکام” صرف سرکاری بیانات اور اعداد و شمار کی حد تک محدود رہے گا، جبکہ عوام کی مشکلات جوں کی توں برقرار رہیں گی۔
نشتر ٹو: نیا ہسپتال یا بیوروکریسی کی ناکام حکمت عملی؟
ملتان میں صحت کے شعبے کی بہتری کے نام پر ایک اور متنازعہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ نشتر ہسپتال 2 (نشتر ٹو) کا منصوبہ، جس پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، اب انتظامی بدنظمی، غلط پالیسی سازی اور بیوروکریسی کی ضد کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نئی بھرتیوں کے بجائے پرانے نشتر ہسپتال 1 سے آرتھوپیڈک اور نیورو سرجری وارڈز کو نشتر ٹو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس نے نہ صرف مریضوں بلکہ ڈاکٹروں، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بھی شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ بظاہر نشتر ہسپتال 1 پر مریضوں کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں یہ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے طبی مرکز کو تباہ کرنے کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ نشتر ہسپتال 1 میں پہلے ہی مریضوں کا بے تحاشا دباؤ ہے، آپریشن کے لیے طویل انتظار معمول بن چکا ہے، اور اب ایک بڑے وارڈ کو ختم کر کے دور دراز مقام پر منتقل کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ مریضوں کو مزید مشکلات میں ڈال دیا جائے۔
نشتر ٹو کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے، لیکن اسے فعال بنانے کے لیے نہ تو مناسب فنڈز مختص کیے گئے ہیں اور نہ ہی مطلوبہ عملہ بھرتی کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت اور بیوروکریسی نے نئی بھرتیاں کرنے کے بجائے پرانے نشتر ہسپتال سے عملہ ادھر ادھر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نشتر 1 میں موجود ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو ان کی مرضی کے بغیر نشتر ٹو بھیج دیا جائے گا، جہاں پہلے سے درکار سہولیات موجود نہیں۔
حکومتی نااہلی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ نشتر ٹو کے لیے ضروری مشینری تو خرید لی گئی ہے لیکن اس کے آپریشن کے لیے درکار عملہ یا وسائل دستیاب نہیں۔ دوسری طرف، جن لوگوں نے اس منصوبے میں مالی فوائد حاصل کرنے تھے، وہ کک بیکس لے کر اپنی جیبیں بھر چکے ہیں، جبکہ ہسپتال کے حقیقی اخراجات کی ذمہ داری لینے والا کوئی نہیں۔
نشتر ٹو شہر سے 25 سے 30 کلومیٹر دور ہے، جو ایک عام مریض کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مریض پہلے ہی لمبا سفر طے کر کے ملتان پہنچتے ہیں، اور اب اگر انہیں نشتر ہسپتال کے بجائے نشتر ٹو بھیجا جائے گا تو یہ ان کے لیے ایک اور امتحان ہوگا۔
اس کے علاوہ، ڈاکٹروں اور نرسز کے لیے بھی نشتر ٹو میں کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ نہ وہاں رہائش کے مناسب انتظامات ہیں اور نہ ہی سفری سہولیات۔ جو سینئر ڈاکٹر پہلے ہی نشتر 1 میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انہیں نشتر ٹو میں زبردستی بھیجنے سے ان کے کام کے معیار پر بھی اثر پڑے گا۔
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر حکومت واقعی صحت کے شعبے میں بہتری لانا چاہتی ہے تو وہ نشتر ٹو کو ایک مکمل طور پر خودمختار ہسپتال کے طور پر کیوں نہیں چلا رہی؟ اگر اسے فعال بنانے کی نیت ہوتی تو نئی بھرتیاں کی جاتیں، مکمل سٹاف فراہم کیا جاتا، اور اسے ایک مکمل طبی سہولت کے طور پر متعارف کروایا جاتا۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے حکومت نے پرانے ہسپتال کو کمزور کرنے کا راستہ اپنایا ہے، جو کسی بھی طرح عوام کے مفاد میں نہیں۔
نشتر ہسپتال 1 میں پہلے ہی مریضوں کو آپریشن کے لیے کئی دنوں یا ہفتوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر آرتھوپیڈک اور نیورو سرجری وارڈز کو نشتر ٹو منتقل کر دیا جاتا ہے تو نشتر 1 میں طبی سہولیات مزید محدود ہو جائیں گی۔ دوسری طرف، نشتر ٹو میں سہولیات کی کمی کے باعث مریضوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
یہ واضح ہے کہ نشتر ٹو کو فعال بنانے کے لیے جو طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے، وہ نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ عوام کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔ اگر اس منصوبے کا مقصد واقعی جنوبی پنجاب کے عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کرنا ہوتا تو اس پر مزید تحقیق اور پلاننگ کی جاتی، نہ کہ پہلے سے چلتے ہوئے ایک ہسپتال کو کمزور کر کے ایک نیا تجربہ کیا جاتا۔
حکومت اور بیوروکریسی کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس فیصلے پر نظرثانی کرے، نشتر 1 کے وارڈز کو ختم کرنے کے بجائے نشتر ٹو کے لیے نئے وسائل مختص کرے، اور وہاں تمام ضروری بھرتیوں کو مکمل کرے۔ بصورتِ دیگر، یہ نیا ہسپتال عوام کے لیے سہولت فراہم کرنے کے بجائے ایک اور ناکام حکومتی تجربہ بن کر رہ جائے گا، جس کا خمیازہ جنوبی پنجاب کے لاکھوں مریضوں کو بھگتنا پڑے گا۔