کربلا کا پیغام رکنے والا نہیں۔ یہ تاریخ کی ایک بند کتاب نہیں، بلکہ ہر لمحے زندہ رہنے والا شعور ہے۔ حسینؑ کی شہادت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ظلم کی بنیاد پر قائم ہونے والا کوئی بھی نظام دیرپا نہیں ہو سکتا۔ وہ سلطنتیں جو جبر پر قائم ہوں، وہ حکومتیں جو تعصب سے پنپیں، اور وہ اقتدار جو عوام کی آزادی چھین کر حاصل کیا جائے، آخرکار کربلا کی خاک پر بکھر جاتے ہیں۔ حسینؑ نے فقط یزید کو رد نہیں کیا، بلکہ آنے والے ہر یزید کے لیے معیارِ انکار قائم کر دیا۔
آج دنیا میں جو امن کے نعرے ہیں، وہ صرف تب مؤثر ہو سکتے ہیں جب ان کے ساتھ حسینؑ کی جرات بھی شامل ہو۔ فلسطین ہو یا کشمیر، شام ہو یا عراق، یمن ہو یا افغانستان — وہاں کی مظلوم عوام اگر صرف احتجاج پر اکتفا کریں، اور دنیا صرف بیانات جاری کرے، تو یہ کربلا کے فلسفے کی توہین ہو گی۔ حسینؑ ہمیں صرف آنسو بہانے نہیں، بلکہ کردار دکھانے کی دعوت دیتے ہیں۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی طاقتیں مظلوموں کی آواز دبانے کے لیے ظلم کا ساتھ دیتی ہیں، تب ہمیں یاد آتا ہے کہ کوفہ کے لوگ بھی دعوے بہت کرتے تھے، مگر عمل کے وقت خاموش رہے۔ حسینؑ نے کوفہ والوں سے نہیں، اللہ سے وفاداری کی۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ انصاف کا پیمانہ رائے عامہ نہیں، بلکہ رضائے الٰہی ہے۔
آج اگر دنیا میں امن درکار ہے، تو ضروری ہے کہ ہم نفرت کے اسباب کو ختم کریں۔ نسل پرستی، مذہبی تعصب، فرقہ واریت، اور سیاسی مفادات وہ یزیدی ہتھیار ہیں جو معاشروں کو تقسیم کرتے ہیں۔ حسینؑ کا پیغام وحدت ہے — ایسی وحدت جو رنگ، نسل، زبان، اور فرقے سے ماورا ہو۔
کربلا ہمیں رواداری سکھاتا ہے۔ امام حسینؑ نے مسیحی غلام، حبشی غلام، عرب نوجوان، بوڑھے اصحاب، حتیٰ کہ بچوں کو بھی اپنے کاروان میں جگہ دی۔ یہ محض اتفاق نہ تھا، یہ ایک شعوری اعلان تھا کہ “میرے کارواں میں صرف وفا دیکھی جاتی ہے، حسب نسب نہیں۔” اگر آج ہم اپنے ارد گرد ایسے ہی رویے اپنائیں، تو کوئی اقلیت خود کو تنہا نہ سمجھے گی، کوئی لسانی گروہ نفرت کا شکار نہ ہو گا، اور کوئی مذہبی اختلاف جنگ کا باعث نہ بنے گا۔
کربلا سے ہمیں یہ بھی سیکھنا ہے کہ تعصب صرف دشمنی نہیں، جہالت کی علامت ہے۔ آج جو معاشرے مذہب یا فرقے کے نام پر ایک دوسرے کو مارتے ہیں، وہ حسینؑ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ حسینؑ نے کسی کو کافر نہیں کہا، کسی کے ایمان کو کم نہیں تولا، بلکہ ہر انسان کو حق کا پیغام دینے کی کوشش کی۔
آج جو عالمی طاقتیں فلسطین کے مظلوموں کو دہشتگرد کہتی ہیں، یا کشمیریوں کی جدوجہد کو بغاوت قرار دیتی ہیں، وہ دراصل یزیدی منطق کی وارث ہیں۔ کربلا ہمیں سکھاتا ہے کہ سچائی کو دبا دینے سے وہ جھوٹ نہیں بنتی — اور مظلوم کو قتل کر دینے سے اس کی پکار ختم نہیں ہوتی۔
کربلا میں حسینؑ نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے حکومت یا ہتھیار ضروری نہیں، ایمان اور کردار کافی ہے۔ دنیا میں وہ تمام تحریکیں جو حق کے لیے اٹھی ہیں، اگر حسینؑ کے فلسفے کو اپنائیں، تو کامیابی ان کا مقدر ہو گی۔ کیونکہ حسینؑ کی کامیابی میدان میں جیتنے سے نہیں، بلکہ ضمیر کو جگانے سے ہوئی۔
مسلمانوں کے لیے کربلا صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں، بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جب تک ہم صرف عزاداری کے دائرے میں محدود رہیں گے، اور اس کے عملی تقاضے نظرانداز کریں گے، تب تک دنیا میں مظلوموں کا خون بہتا رہے گا۔ حسینؑ کا غم صرف رونے کا نہیں، جاگنے کا غم ہے۔
آج کے مسلمان معاشروں میں اگر ہم سچ بولنے سے ڈرتے ہیں، اگر ہم ظالموں کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے، اگر ہم تعصبات میں بٹے رہتے ہیں، تو ہم کربلا کے وارث نہیں۔ حسینؑ کا وارث وہی ہو سکتا ہے جو اپنے دل سے خوف نکالے، زبان سے حق بولے، اور عمل سے ظلم کو چیلنج کرے۔
دنیا کو آج جس امن کی ضرورت ہے، وہ اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں یا بین الاقوامی معاہدوں سے نہیں آئے گا۔ وہ صرف اس وقت ممکن ہے جب دنیا کے افراد امام حسینؑ کے اصولوں کو اپنائیں — سچ، صبر، قربانی، مساوات، اور آزادی۔
کربلا کی خاک سے اٹھنے والی صدا آج بھی فضا میں گونج رہی ہے: “کیا تم نے مجھے نہیں پہچانا؟ میں حسینؑ بن علیؑ ہوں، نواسہ رسولؐ۔ میں وہ ہوں جو تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں۔” یہ صدا آج بھی ہر ظالم سے ٹکرا رہی ہے، اور ہر مظلوم کے دل کو سہارا دے رہی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین آزاد ہو، کشمیر آزاد ہو، اور ہر مظلوم کو انصاف ملے، تو ہمیں صرف سیاسی نعروں سے آگے بڑھ کر عملی اقدام کرنے ہوں گے۔ یہ اقدام فقط حکومتوں کی نہیں، ہر فرد کی ذمہ داری ہیں۔ ہر حسینی دل یہ عہد کرے کہ وہ سچ کے ساتھ ہو گا، خواہ وہ سچ کسی مسجد میں ہو، کسی چرچ میں ہو، کسی مندر میں یا کسی گلی میں۔
کربلا ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ آزادی صرف سرحدوں کا نام نہیں، بلکہ سوچ کی آزادی، عقیدے کی آزادی، اور عزت سے جینے کا حق ہے۔ حسینؑ اسی آزادی کے لیے لڑے، اور اپنی جان دے دی۔ ہمیں بھی یہ حق صرف مانگنا نہیں، اس کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔
دنیا میں جتنا بھی ظلم ہے، وہ اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر حسینی کردار اپنائیں۔ ہمیں انصاف کو صرف عدالتوں تک محدود نہ کرنا ہو گا، بلکہ اپنے گھروں، دفاتر، بازاروں اور ذہنوں میں بھی انصاف قائم کرنا ہو گا۔
امام حسینؑ نے میدانِ کربلا میں ایک نظامِ حیات کی بنیاد رکھی۔ یہ نظام صرف نماز و روزہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ سچائی پر مبنی، انصاف پر قائم، اور قربانی پر استوار نظام ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس سے امن پیدا ہوتا ہے — نہ صرف مسلم معاشروں میں، بلکہ پوری دنیا میں۔
آج ہمیں صرف حسینؑ کی شہادت کا ذکر نہیں، بلکہ اُن کے فلسفہ زندگی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم واقعی دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں، تعصبات کا خاتمہ کر سکتے ہیں، اور مظلوموں کو ان کا حق دلا سکتے ہیں۔
اور تب ہی ہم پوری یقین، خلوص اور عمل کے ساتھ یہ کہنے کے قابل ہوں گے:
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین۔
