افغانستان کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد اور بحرانوں سے بھرپور ہے۔ خاص طور پر سوویت یونین کی مداخلت کے بعد سے، یہ ملک کبھی بھی مکمل امن اور استحکام حاصل نہیں کر سکا۔ ۱۹۷۹ء میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد، افغانستان ایک طویل اور خونی جنگ میں مبتلا ہو گیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے اور ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔سوویت یونین کے انخلاء کے بعد، افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ مختلف مجاہدین گروپوں نے اقتدار کے لیے جنگ لڑی، جس کے نتیجے میں ملک مزید تباہ ہو گیا۔ ۱۹۹۶ء میں طالبان نے اقتدار سنبھالا اور اسلامی امارت افغانستان کے نام سے اپنی حکومت قائم کی۔ طالبان نے شرعی قوانین نافذ کیے اور ایک سخت گیر حکومت قائم کی۔ ۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے حملوں کے بعد، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا۔دو دہائیوں تک امریکہ کی موجودگی کے باوجود، افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا۔ طالبان نے ایک بار پھر سے مزاحمت شروع کر دی اور بالآخر ۲۰۲۱ء میں دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔ اب جبکہ طالبان ایک بار پھر افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں، ملک ایک نئے بحران کا شکار ہے۔اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، طالبان کی حکومت میں دہشت گرد گروپوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان نے اگرچہ کچھ استحکام حاصل کیا ہے، لیکن دہشت گردی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ، اور دولت اسلامیہ خراسان جیسے گروپ افغانستان میں سرگرم ہیں اور ان کی موجودگی سے خطے کی سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔تحریک طالبان پاکستان نے پچھلے سال پاکستان میں ۱۲۰۰ سے زائد حملے کیے، جو پاکستان کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی عدم توجہ یا ناکامی سے یہ گروپ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ اسی طرح القاعدہ اور دولت اسلامیہ خراسان بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور پڑوسی ممالک کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔طالبان حکومت نے اگرچہ معمولی حد تک بدعنوانی کم کی ہے اور پوست کی کاشت میں کمی لائی ہے، لیکن یہ کامیابیاں ناکافی ہیں۔ افغانستان کی معیشت بدستور نازک حالت میں ہے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ طالبان حکومت کو اگر عالمی برادری سے مکمل تسلیم کروانا ہے، تو انہیں انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہتری لانا ہو گی اور ایک جامع حکومت قائم کرنی ہو گی جو بنیادی آزادیوں کی ضمانت دے۔عالمی برادری کو بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے محتاط رہنا ہو گا۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر، افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنی ہو گی اور طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنا ہو گا کہ وہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ طالبان کو یہ واضح پیغام دینا ہو گا کہ سفارتی تسلیم اور تجارتی تعلقات کا دارومدار ان کی دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر ہو گا۔افغانستان کی صورتحال نہ صرف اس ملک کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک چیلنج ہے۔ طالبان حکومت کے تحت دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر، عالمی برادری کو ایک جامع اور مربوط حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک، خصوصاً پاکستان، ایران، اور وسط ایشیائی ریاستوں کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔طالبان حکومت کو اپنے حامی دہشت گرد گروپوں جیسے تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے خلاف بھی کارروائی کرنی ہو گی اور اپنے مخالف گروپ دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف بھی۔ اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور طالبان کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔طالبان کی حکومت کے ابتدائی دور میں، کچھ مثبت اقدامات دیکھنے میں آئے، جیسے کہ چھوٹی سطح کی بدعنوانی میں کمی اور پوست کی کاشت میں کمی۔ لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں، کیونکہ افغانستان کی معیشت بدستور مشکلات کا شکار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت نے عوام کی زندگیوں کو مزید دشوار بنا دیا ہے۔ طالبان حکومت کو اقتصادی بحالی کے لیے عالمی امداد کی ضرورت ہے، لیکن اس کے لیے انہیں انسانی حقوق کے احترام اور جامع حکومت کی تشکیل پر زور دینا ہوگا۔خواتین کے حقوق کی پامالی اور تعلیم کے مواقع کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندیاں عائد کی ہیں اور خواتین کی معاشرتی اور اقتصادی شرکت کو محدود کیا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف افغانستان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں بلکہ عالمی برادری کے ساتھ تعلقات میں بھی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ طالبان کو اگر بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنا ہے تو انہیں خواتین کے حقوق اور تعلیم کے مواقع میں بہتری لانا ہوگی۔بین الاقوامی برادری کو بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک متفقہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ سفارتی تعلقات اور تجارتی معاملات کو طالبان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے مشروط کرنا ہوگا۔افغانستان کے موجودہ بحران کا حل ایک جامع اور مربوط حکمت عملی میں مضمر ہے۔ طالبان حکومت کو داخلی اور خارجی سطح پر اصلاحات کرنی ہوں گی اور عالمی برادری کو اس عمل کی نگرانی کرنی ہوگی۔ افغانستان کی بہتری اور استحکام کے لیے ایک مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے تاکہ یہ ملک دوبارہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
زراعت پر ٹیکس
پاکستان کی معیشت میں زراعت کی اہمیت ناقابل تردید ہے۔ ہمارے ملک کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر مبنی ہے، جہاں لاکھوں لوگ اس شعبے سے روزگار حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، بدقسمتی سے، زراعت کا شعبہ ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے، جو کہ پاکستان کی مالی مشکلات کی ایک بڑی وجہ ہے۔زراعت پر ٹیکس نہ لگانے کی ایک اہم وجہ سیاسی مصلحت ہے۔ زمیندار اور بڑے کاشتکار سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور ان کے مفادات کو نقصان پہنچانا کسی بھی حکومت کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، زراعت کے شعبے میں ٹیکس لگانے کی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔پاکستان میں ٹیکس کا نظام انتہائی غیر متوازن ہے۔ حکومت کی زیادہ تر آمدنی درمیانی اور نچلے طبقے سے حاصل ہوتی ہے، جبکہ زراعت جیسے بڑے شعبے ٹیکس کے دائرے سے باہر رہتے ہیں۔ اس عدم توازن کی وجہ سے حکومت کے پاس مالی وسائل کی کمی ہوتی ہے، جو کہ ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں۔زراعت پر ٹیکس لگانے کے فوائد بے شمار ہیں۔ اس سے حکومت کو اضافی آمدنی حاصل ہو گی، جو کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ مزید برآں، یہ اقدام ٹیکس کے نظام میں شفافیت اور انصاف کو فروغ دے گا۔ جب ہر شعبے کو ٹیکس دینا پڑے گا، تو یہ نظام زیادہ متوازن اور منصفانہ ہو گا۔زراعت پر ٹیکس لگانے کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہو گا کہ اس سے زراعت کے شعبے میں بہتری آئے گی۔ جب زمینداروں کو ٹیکس دینا پڑے گا، تو وہ اپنی پیداوار میں اضافہ کرنے اور جدید ٹیکنالوجی اپنانے کی کوشش کریں گے۔ اس سے نہ صرف زراعت کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، بلکہ کسانوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی۔زراعت پر ٹیکس لگانے کے لیے حکومت کو ایک جامع پالیسی مرتب کرنی ہو گی۔ سب سے پہلے، زراعت کے شعبے کا تفصیلی جائزہ لینا ہو گا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتنے زمیندار اور کاشتکار ٹیکس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے بعد، ایک منصفانہ ٹیکس نظام وضع کرنا ہو گا جو کہ زمینداروں اور کاشتکاروں کی مالی حالت کے مطابق ہو۔حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ زراعت پر ٹیکس لگانے سے کسانوں پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کے نظام میں رعایتیں اور سہولتیں فراہم کی جائیں۔ مثلاً، چھوٹے کسانوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے یا ان کے لیے کم شرح پر ٹیکس مقرر کیا جا سکتا ہے۔زراعت پر ٹیکس لگانے کے لیے عوامی شعور اور آگاہی بھی ضروری ہے۔ حکومت کو میڈیا کے ذریعے زراعت پر ٹیکس کے فوائد اور اس کی ضرورت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ، زمینداروں اور کاشتکاروں کے ساتھ مشاورت کرنی ہو گی تاکہ ان کے خدشات اور تحفظات کو دور کیا جا سکے۔زراعت پر ٹیکس لگانے کے لیے بین الاقوامی مثالیں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں زراعت پر ٹیکس کا نظام کامیابی سے نافذ کیا گیا ہے، اور ان ممالک کی تجربات سے سیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً، برازیل، بھارت اور چین جیسے ممالک میں زراعت پر ٹیکس کا نظام موجود ہے، اور ان ممالک کی کامیابیاں پاکستان کے لیے مشعل راہ ہو سکتی ہیں۔زراعت پر ٹیکس کے نظام کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت کو کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ بھی کرنا ہو گا۔ ٹیکس کے نظام میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ ٹیکس کی رقم صحیح طریقے سے جمع ہو اور عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔زراعت پر ٹیکس کا نظام نافذ کرنے کے بعد، حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ حاصل ہونے والی آمدنی کو صحیح منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔ اس آمدنی کو زراعت کی ترقی، جدید ٹیکنالوجی کے فروغ، اور کسانوں کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس سے نہ صرف زراعت کی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ ملک کی معیشت بھی مستحکم ہو گی۔حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ زراعت پر ٹیکس لگانے کے بعد کسانوں کو مراعات اور سہولتیں فراہم کی جائیں۔ مثلاً، انہیں جدید زراعتی ٹیکنالوجی اور بہتر بیجوں کی فراہمی، آبپاشی کے نظام کی بہتری، اور مارکیٹ تک رسائی میں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس سے نہ صرف کسانوں کی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ ان کی مالی حالت بھی بہتر ہو گی۔آخر میں، زراعت پر ٹیکس کا نظام نافذ کرنے کے لیے حکومت کو سیاسی عزم اور ارادہ دکھانا ہو گا۔ زمینداروں اور بڑے کاشتکاروں کے دباؤ کے باوجود، حکومت کو اپنے فیصلے پر قائم رہنا ہو گا اور اس نظام کو کامیابی سے نافذ کرنا ہو گا۔زراعت پر ٹیکس کا نظام نہ صرف حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرے گا بلکہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ اس سے ٹیکس کے نظام میں شفافیت اور انصاف کا فروغ ہو گا، اور زراعت کے شعبے میں بہتری آئے گی۔ حکومت کو اس اہم اقدام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی اور عوامی شعور و آگاہی کی مہم چلانی ہو گی۔ صرف اسی صورت میں پاکستان کی معیشت مستحکم ہو سکے گی اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
سرمایہ کاروں پر تنقید
پاکستان میں آزاد بجلی پیدا کرنے والوں اور خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت آنے والے منصوبوں پر تنقید ایک معمول بن چکا ہے، جو ممکنہ سرمایہ کاروں کو غلط پیغام دے رہا ہے۔توانائی کا شعبہ، خاص طور پر بجلی، موجودہ شکل میں غیر مستحکم ہے۔ تاہم، اس بحران کے ذمہ دار ہمارے اپنے حکام اور فیصلے ساز ہیں۔ چینی سرمایہ کاروں کو مورد الزام ٹھہرانا، جنہوں نے اس وقت سرمایہ کاری کی جب کوئی اور سرمایہ کار نظر نہیں آ رہا تھا، سراسر ناانصافی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ایک گیم چینجر قرار دیا اور سخت معاہدوں کو خفیہ رکھا۔ بدقسمتی سے، وہی لوگ اب کہہ رہے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے بجلی کے شعبے کو غیر مستحکم بنا رہے ہیں۔۲۰۱۳ میں آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی اور صنعتیں مہنگے خود مختار پلانٹس پر انحصار کر رہی تھیں۔ ان کے ایسوسی ایشنز کا نعرہ تھا کہ “کوئی بجلی مہنگی نہیں، کسی بھی قیمت پر بجلی سب سے قیمتی ہے”۔اب جبکہ بجلی دستیاب ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے اور کچھ اپنی خود مختار پیداوار پر قائم رہنے کی درخواست کر رہے ہیں۔مسئلہ منصوبہ بندی کی کمی اور بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت کے ساتھ نمٹنے کے لیے مناسب سرمایہ کاری کی عدم موجودگی ہے۔ مثال کے طور پر، زیادہ تر اقتصادی پلانٹس (نیوکلیئر اور تھر کوئلہ) جنوب میں نصب ہیں، جبکہ 80 فیصد طلب سندھ صوبے میں گڈو کے شمال میں ہے۔تاہم، مناسب ٹرانسمیشن نیٹ ورک نصب نہیں کیا جا رہا اور اس کے بجائے مہنگے شمالی پلانٹس کو چلایا جا رہا ہے جبکہ سستے جنوبی پلانٹس بیکار پڑے ہیں۔میرٹ آرڈر کی پیروی میں ناکامی چینیوں کی غلطی نہیں ہے۔ نیوکلیئر پلانٹس، جو پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ نہیں ہیں لیکن چینی قرض رکھتے ہیں، تقریباً صفر مارجنل لاگت رکھتے ہیں، لیکن ٹرانسمیشن کی پابندیوں کی وجہ سے ان کا مکمل استعمال نہیں ہو رہا۔یہ اہم ہے کہ چینیوں نے جولائی ۲۰۲۳ سے جون ۲۰۲۵ تک نیوکلیئر پلانٹس کے پرنسپل قرض کی ادائیگی پر دو سال کی موقوفی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے مالی سال ۲۰۲۳-۲۴ میں اس حصے کی ادائیگی نہیں کی۔ تاہم، یہ ابھی بھی ٹیرف میں ظاہر ہو رہا ہے کیونکہ ریگولیٹر اس کی منظوری نہیں دے رہا، کیونکہ ان کے خیال میں دو سال کے لیے زیادہ سودی لاگت کی ادائیگی اضافی خرچ بناتی ہے۔ ریگولیٹر شاید پیسے کی وقت کی قیمت کو نہیں سمجھتا۔یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ صرف گیس سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے ہی شامل نہیں ہو رہے تھے، بلکہ ہائیڈل منصوبے بھی آ رہے تھے، حالانکہ ہمارے متعلقہ حکام یا فیصلہ ساز پہلے ہی نیوکلیئر پلانٹس کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ لہذا، ان سوالات کا جواب درکار ہے کہ حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت درآمد شدہ کوئلے پر پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیوں کیا۔دوسرا سوال جو بھی معقول جواب کا منتظر ہے: درآمد شدہ کوئلے کا پلانٹ شمال میں کیوں نصب کیا گیا، جو کہ دونوں نقل و حمل اور ماحولیاتی اخراجات بڑھا رہا ہے؟ یہ چینیوں کی غلطی تھی یا ہمارے لوگوں کی؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ پاکستان کو چینیوں کا شکرگزار ہونا چاہیے جنہوں نے تھر کوئلہ خواب کو حقیقت میں بدلا، جو ملک کو سستی اور مقامی بنیاد پر بجلی فراہم کرتا ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چینی اپنے طور پر یہاں نہیں آئے تھے۔ ہم نے انہیں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کیا۔ واضح طور پر یہ ایک باہمی مفاد یا ایک فائدہ تھا جو کچھ دینے کے بدلے میں حاصل کیا گیا۔چینیوں نے قدیم ریشم روڈ کو دوبارہ قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی اور بدلے میں ہم نے انہیں پاور انفراسٹرکچر نصب کرنے کی درخواست کی۔ وہ درست طور پر ہمارے سخت پاور ریگولیٹری نظام پر متضاد تھے جہاں حکومت مرکزی کھلاڑی ہے، اور مشہور گردشی قرضہ۔ پھر ۲۰۱۵ کے آزاد بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کا ٹیرف، ۲۰۰۲ کی پالیسی کے برعکس، ابتدائی طور پر دیا گیا تھا۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں، نیپرا نے ٹیرف میں ترمیم کی اور اسے پہلے سے متصور کردہ سطح سے کم کیا۔ اور اگر ابھی بھی کوئی اوور انوائسنگ ہو رہی ہے، تو کیا ہم اپنے ریگولیٹر کو الزام نہیں دیں گے جس نے اسے اپنی ناک کے نیچے ہونے دیا؟ کیا نیپرا اس وقت سو رہی تھی؟پیداوار کے شعبے میں مسئلہ یہ ہے کہ بہت زیادہ منصوبے بہت کم وقت میں اور بڑے پیمانے پر کرنسی کی ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے، گنجائش کی لاگت ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ منصوبے کی مفید زندگی ۲۵ سے ۴۰ سال ہے اور ایکویٹی پر واپسی منصوبے کی لاگت کا ۲۰ فیصد ہے۔باقی ۸۰ فیصد قرض ہے جو ۱۰ سے ۱۲ سال میں واپس کیا جانا ہے۔ یہ ان منصوبوں کی اقتصادی قدر کو متاثر کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قرض کی پروفائلنگ کی جائے، جو کہ جزوی طور پر ٹیرف کو کم کر دے گی۔ پھر ٹرانسمیشن اور تقسیم کے مسائل کو حل کرنا ہو گا تاکہ سسٹم کی صلاحیت کو لوڈ مراکز تک بجلی پہنچانے کے لیے یقینی بنایا جا سکے۔اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی موجودگی کو اس شعبے میں کم کرنا ہو گا۔ ایسا کیے بغیر، کسی بھی مذاکرات سے بجلی تھوڑی دیر کے لیے سستی ہو سکتی ہے۔یہ نہ بھولیں کہ ہم نے ماضی میں دو مذاکرات کیے ہیں اور اب بھی شعبہ بحران کا شکار ہے کیونکہ حکام حکومت کے نقش قدم کو توانائی کے شعبے میں حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔