آج کی تاریخ

نیتن یاہو کی غزہ سے ایک اسرائیلی مغوی کو لانے پر 50 لاکھ ڈالر دینے کی پیشکش

اسرائیل کی منافقت

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حالیہ بیان بازی اور امریکی حمایت کے سائے میں ایران کے خلاف دی جانے والی دھمکیاں مشرق وسطیٰ میں امن کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی مذموم کوشش ہے۔ اسرائیل، جو خود خطے میں جارحیت، قبضے اور نسل کشی کی علامت بن چکا ہے، اب ایران پر “جارحیت” کا الزام لگا کر اپنی جنگی پالیسیوں کو جواز دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
نیتن یاہو نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد ایران کو ایک مشترکہ دشمن قرار دیا اور کہا کہ “آیت اللہ حکومت کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔” مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل خود جوہری ہتھیار رکھنے اور اسے مشرق وسطیٰ میں دھمکی کے طور پر استعمال کرنے کا جواز رکھتا ہے؟ اسرائیل کی اپنی جوہری ہتھیاروں کی پالیسی نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی خطے میں بڑھتی ہوئی جارحیت بھی عالمی برادری کے دوہرے معیار کی عکاس ہے۔
اسرائیلی قیادت مسلسل ایران کو دہشت گردی اور خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے، جبکہ خود اسرائیل نے گزشتہ 16 ماہ کے دوران غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا، جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ چھیڑی اور شام میں سینکڑوں اہداف کو نشانہ بنایا۔ نیتن یاہو کی طرف سے دی گئی “مقدس جنگ” کی یہ دلیل درحقیقت اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو چھپانے اور فلسطینیوں کے خلاف ظلم کو جاری رکھنے کی چال کے سوا کچھ نہیں۔
امریکی حمایت کے نشے میں اسرائیل کی جارحیت اب خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ روبیو نے یہاں تک کہہ دیا کہ “ہر دہشت گرد حملے کے پیچھے ایران ہے۔” یہ بیانیہ صرف اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے باعث اسرائیل کو اپنے جنگی جرائم کے احتساب کا کوئی خوف نہیں، اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا۔
نتین یاہو نے مزید دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “اگر ہمارے یرغمالی واپس نہ کیے گئے تو ہم غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دیں گے۔” کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل پہلے ہی غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے وہ جہنم سے کم ہے؟ کیا ہزاروں معصوم فلسطینیوں کی شہادت، غزہ کی تباہی، اور بے شمار انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کافی نہیں تھیں کہ اب مزید جنگ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں؟
امریکہ اور اسرائیل کی ایران کے خلاف مشترکہ مہم جوئی کا مقصد صرف خطے میں طاقت کا توازن خراب کرنا اور اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنا ہے۔ اگر عالمی برادری نے اسرائیل کی جنگی جنونیت کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے، تو مشرق وسطیٰ مزید تباہی کی طرف بڑھتا رہے گا، جس کا خمیازہ نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے خطے کو بھگتنا پڑے گا۔
اس وقت عالمی سیاست میں طاقتور ممالک کا دہرا معیار کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکہ، جو دنیا بھر میں انسانی حقوق، جمہوریت اور امن کے دعوے دار کے طور پر خود کو پیش کرتا ہے، وہی امریکہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی نہ صرف سرپرستی کر رہا ہے بلکہ ایران کو ایک “خطرہ” قرار دے کر خطے میں مزید بدامنی کو ہوا دے رہا ہے۔ یہ رویہ مشرق وسطیٰ میں جاری بحران کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
ایران پر الزامات عائد کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل نے خود پورے خطے کو ایک جنگی میدان میں تبدیل کر رکھا ہے۔ لبنان، شام اور غزہ پر ہونے والے اسرائیلی حملے کسی بھی عالمی فورم پر مذمت کے قابل نہیں سمجھے جاتے، کیونکہ انہیں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ جب اسرائیل کسی دوسرے ملک پر بم برساتا ہے، اسے “دفاع” کہا جاتا ہے، لیکن جب فلسطینی، لبنانی یا شامی اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں “دہشت گرد” قرار دیا جاتا ہے۔ یہ منافقت کب تک جاری رہے گی؟
امریکی پالیسی سازوں کا حالیہ مؤقف بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دینا چاہتے ہیں، تاکہ وہ خطے میں اپنی من مانی کارروائیاں جاری رکھ سکے۔ روبیو کا بیان کہ “ایران ہر دہشت گرد حملے کے پیچھے ہے” ایک گمراہ کن بیانیہ ہے جو اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر واقعی عالمی برادری کو دہشت گردی کی فکر ہوتی، تو وہ سب سے پہلے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے کٹہرے میں کھڑا کرتی، جہاں وہ دہائیوں سے فلسطینیوں کے قتل عام، زمینی قبضے، اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔
نیتن یاہو نے اپنے حالیہ بیان میں غزہ کے خلاف مزید جنگ کی دھمکی دے کر ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی صورت امن نہیں چاہتا۔ “ہم غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دیں گے”—یہ الفاظ کسی امن پسند یا مہذب ریاست کے سربراہ کے نہیں ہو سکتے، بلکہ یہ ایک ایسی قابض ریاست کے رہنما کے الفاظ ہیں جو طاقت کے نشے میں چُور ہو کر اپنے مظلوم پڑوسیوں کے حقوق غصب کر رہا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری اس کھلی جارحیت اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف آواز بلند کرے۔ ایران پر جھوٹے الزامات لگا کر اسرائیل کو مزید جنگ کی اجازت دینا نہ صرف خطے کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے، تو اسے اسرائیل کو لگام ڈالنی ہوگی، ورنہ مشرق وسطیٰ میں خونریزی کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ آگ ایک دن ان طاقتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جو آج اسے بھڑکانے میں شریک ہیں۔

پاک-امریکہ تناؤ

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی خارجہ پالیسی کی نئی سمت نے ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حالیہ واقعات اور بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن کی پاکستان کے بارے میں پالیسی میں سختی آ رہی ہے، جبکہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات مزید مستحکم ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اسلام آباد کو اپنی سفارتی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا ہوگا تاکہ قومی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ ملاقات کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اعلامیے میں پاکستان کو 2008 کے ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملے کے ملزمان کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کا کہا گیا ہے، جبکہ بھارتی ریاستی دہشت گردی اور خطے میں عدم استحکام کے لیے اس کے کردار کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس “یکطرفہ” مؤقف پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے “گمراہ کن” قرار دیا ہے۔
مزید برآں، امریکہ کی جانب سے بھارت کو جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی، بشمول ایف-35 طیاروں کی فروخت کی پیشکش، پاکستان کے لیے سنگین دفاعی خدشات پیدا کر رہی ہے۔ اسلحے کی یہ دوڑ خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ سکتی ہے اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مفادات کو براہ راست متاثر کر سکتی ہے۔ بھارت پہلے ہی اپنی دفاعی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، اور اگر امریکہ اسے مزید جنگی سازوسامان فراہم کرتا ہے تو یہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔
امریکی انتظامیہ میں پاکستان مخالف شخصیات کی شمولیت بھی اسلام آباد کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے ایس پال کپور کو جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے، جو اپنے سخت گیر نظریات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی تقرری کو کئی ماہرین پاکستان کے بارے میں واشنگٹن کے سخت مؤقف کی علامت سمجھ رہے ہیں۔
مزید برآں، امریکہ میں موجود بعض پاکستانی نژاد گروہ بھی اسلام آباد کے خلاف امریکی پالیسی کو مزید سخت کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران بعض پاکستانی تارکین وطن نے ان کی حمایت کی اور اب وہ نئی انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی داخلی پالیسیوں کے خلاف مزید سخت اقدامات کرے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ ان عناصر کی سرگرمیاں پاکستان کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت اپنے معاشی اثر و رسوخ کو استعمال کر کے اپنی ریاستی دہشت گردی اور بیرونی مداخلتوں سے توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا عالمی قتل و غارت گری میں کردار اب کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن امریکہ سمیت مغربی ممالک اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف، بھارت عالمی سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کو اس صورتحال کا مؤثر جواب دینا ہوگا۔ اسلام آباد کو بین الاقوامی سطح پر بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک جارحانہ سفارتی پالیسی اپنانی چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان قربانیوں کو عالمی سطح پر وہ تسلیم نہیں کیا جا رہا جو ہونا چاہیے تھا۔
اس تمام صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایسی تبدیلیاں لائے جو عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد دے، جبکہ قومی مفادات کو بھی مقدم رکھا جائے۔ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اگرچہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں، لیکن پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو امریکہ پر مکمل انحصار سے نکال کر دیگر طاقتوں کی طرف بھی بڑھانا چاہیے، خصوصاً چین، روس، ترکی اور خلیجی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کو مزید فروغ دینا ہوگا۔
بھارت کے خلاف ایک مربوط سفارتی مہم شروع کی جائے، تاکہ عالمی برادری کو یہ باور کرایا جا سکے کہ خطے میں عدم استحکام کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، اور دیگر عالمی فورمز پر بھارتی دہشت گردی، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو بے نقاب کرنا ہوگا۔
پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنا بھی ایک ضروری قدم ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اکثر پاکستان پر اقتصادی دباؤ ڈال کر اپنی شرائط منوانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا ایک خودمختار خارجہ پالیسی کے لیے ہمیں اپنی معیشت کو بیرونی امداد پر کم انحصار کے قابل بنانا ہوگا۔
پاک-امریکہ تعلقات اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ امریکہ کی بھارت نواز پالیسی، پاکستان مخالف بیانات، اور سخت گیر پالیسی سازوں کی تقرریاں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ آنے والے وقت میں واشنگٹن اسلام آباد کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کو اس صورتحال میں گھبرانے کے بجائے ایک متوازن اور دانشمندانہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی سفارتی، دفاعی اور معاشی پالیسیوں کو اس انداز میں ترتیب دینا ہوگا کہ کسی بھی بیرونی دباؤ کے بغیر ہم اپنے قومی مفادات کا دفاع کر سکیں۔ اگر پاکستان اپنی سفارت کاری کو مضبوط کرے، بھارت کے جھوٹے بیانیے کو مؤثر طریقے سے چیلنج کرے اور اپنی معیشت کو مستحکم کرے، تو کوئی بھی عالمی طاقت ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکے گی۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں دراڑیں کوئی نئی بات نہیں، لیکن حالیہ امریکی رویہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ واشنگٹن اب اسلام آباد کو صرف ایک سفارتی حلیف کے طور پر نہیں بلکہ ایک پریشانی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ بھارت کی جھولی میں جدید ہتھیار ڈال کر اور پاکستان پر یکطرفہ دباؤ بڑھا کر امریکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سفارتی و دفاعی حکمت عملی کو مزید مضبوط کرے اور امریکہ پر غیر ضروری انحصار سے گریز کرے۔
تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرتا ہے اور جب ان مفادات کی تکمیل ہو جاتی ہے تو وہ اپنے اتحادیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں پاکستان کو ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن جیسے ہی امریکہ نے اپنا ہدف حاصل کر لیا، اس نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں اور اسے سفارتی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اتحادی بنایا گیا، لیکن اس کے بدلے پاکستان کو کیا ملا؟ ہزاروں جانوں کا نقصان، معیشت کی تباہی اور بدنامی کا طوق!
آج ایک بار پھر تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ امریکہ خطے میں بھارت کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر بنا کر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنا چکا ہے۔ بھارتی جارحیت کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ صرف پاکستان سے یکطرفہ مطالبات کر رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس سے خطے میں مزید کشیدگی بڑھے گی۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ سفارتی محاذ پر مزید متحرک ہو اور عالمی سطح پر امریکہ کی جانبدارانہ پالیسی کو بے نقاب کرے۔ ہمیں چین، روس، ترکی اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہوگا تاکہ امریکہ کی طرف سے کسی بھی ممکنہ دباؤ کا سامنا مؤثر طریقے سے کیا جا سکے۔ مزید برآں، ہمیں اپنے داخلی نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا تاکہ کوئی بھی ملک ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کر سکے۔
ایک اور اہم نکتہ جو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، وہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری ہے۔ جب تک ہماری معیشت مضبوط نہیں ہوگی، ہم عالمی طاقتوں کے دباؤ میں آتے رہیں گے۔ امریکہ اکثر اقتصادی پابندیوں اور مالی امداد روکنے کی دھمکیاں دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر پاکستان اپنی معیشت کو خودکفیل بنا لے، تو کوئی بھی ملک ہم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکے گا۔ سی پیک جیسے بڑے منصوبے ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لیے نہایت اہم ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اندرونی سطح پر بھی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو ملکی معیشت کو مضبوط کریں۔
پاک-امریکہ تعلقات میں درپیش چیلنجز کے باوجود یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ دونوں ممالک کے مابین مکمل علیحدگی ممکن نہیں۔ پاکستان ایک اہم جغرافیائی محل وقوع رکھتا ہے اور عالمی سیاست میں اس کا کردار کسی سے کم نہیں۔ اس لیے امریکہ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ پاکستان کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکہ پر اندھا اعتماد کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی اپنائیں جو ہمارے قومی مفادات کے عین مطابق ہو۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی سفارتی، دفاعی اور اقتصادی پالیسیوں میں ایسی جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی جو اسے کسی بھی بیرونی دباؤ سے بچا سکے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو برابری کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا، اور اگر واشنگٹن ہمارے ساتھ جانبداری کا رویہ رکھے گا، تو ہمیں بھی اپنے اتحادیوں کا دائرہ وسیع کر کے ایک متبادل حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان ایک خودمختار، مستحکم اور باوقار قوم کے طور پر ابھرے، تاکہ کوئی بھی طاقت ہماری خودمختاری پر انگلی نہ اٹھا سکے۔

پاکستانی ٹیکسٹائل بحران

پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت ایک بار پھر شدید بحران کا شکار ہے، اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ملک بھر میں 40 فیصد اسپننگ ملز بند ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ اس بحران کی بنیادی وجہ برآمدی سہولت کاری اسکیم میں موجود خامیاں ہیں، جن کی وجہ سے مقامی صنعت شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ صورتحال ایک بار پھر حکومت کی پالیسیوں میں عدم توازن اور پالیسی سازوں کی نااہلی کو نمایاں کر رہی ہے۔
ایک طرف حکومت نے مقامی سپلائیز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے، جسے ٹیکس آمدن میں اضافے کے لیے ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف، برآمدی سہولت کاری اسکیم کے تحت بغیر ڈیوٹی کے روئی کی درآمد کی اجازت دی گئی ہے، جس سے نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے بلکہ مقامی کپاس کے کاشتکار بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ کیے، تو پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت مزید زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔
ٹیکسٹائل سیکٹر میں اسپننگ یونٹس ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اگر یہ یونٹس بند ہو گئے تو اس کے اثرات پوری انڈسٹری پر مرتب ہوں گے۔ دھاگہ بنانے والی صنعت سے لے کر کپڑے کی تیاری اور ملبوسات کی برآمدات تک، ہر شعبہ متاثر ہوگا۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلے گی، جو پہلے سے ہی زبوں حال معیشت کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی ہے۔
پاکستان کی کل برآمدات کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے، اور اس انڈسٹری کو نظر انداز کرنا ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت ایک طرف ریونیو بڑھانے اور برآمدات کو فروغ دینے کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس پالیسی نے مقامی پیداوار کو نقصان پہنچایا ہے۔ صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدی سہولت کاری اسکیم برآمدی صنعت کی مدد کے لیے متعارف کروائی گئی تھی، لیکن اس کے برعکس اس اسکیم نے ڈیوٹی فری روئی درآمد کرنے والوں کو غیر منصفانہ فائدہ پہنچایا ہے، جس کے باعث مقامی اسپننگ ملز مسابقتی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہیں۔
یہ حکومتی پالیسی کا ایک اور تضاد ہے کہ ایک طرف درآمدات کا متبادل پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور مقامی صنعت کو فروغ دینے کی بات کی جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف ملک کی معیشت کو بیرونی روئی پر مزید انحصار کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈال رہا ہے بلکہ پاکستان کے تجارتی خسارے کو بھی مزید سنگین بنا رہا ہے۔
گزشتہ مالی سال میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پہلے ہی کئی چیلنجز سے دوچار رہی، جن میں روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ، توانائی کے بڑھتے ہوئے نرخ اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ شامل تھا۔ اب حکومت کی ناقص ٹیکسیشن اور امپورٹ پالیسیز نے صنعت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مطالبات بالکل واضح ہیں: ڈیوٹی فری درآمدات کا فائدہ مقامی صنعت کے نقصان پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر حکومت برآمدی شعبے کو مضبوط کرنا چاہتی ہے تو اسے مقامی پیداوار کی بھی حفاظت کرنی ہوگی۔ اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ حکومت ڈیوٹی فری درآمدات کے لیے ایک کوٹہ سسٹم متعارف کرائے، جس کے تحت صرف اتنی مقدار میں روئی درآمد کی جا سکے جتنی برآمدی ضروریات کے لیے درکار ہو۔ اس سے نہ صرف درآمدی انحصار میں کمی آئے گی بلکہ ملکی کاٹن انڈسٹری کو بھی نقصان سے بچایا جا سکے گا۔
حکومت کی سست روی صرف معاشی نقصانات تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ اس کے سماجی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے، اور اگر مزید اسپننگ ملز بند ہو گئیں تو بیروزگاری میں اضافہ ہوگا، غربت بڑھے گی اور ملک میں سماجی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل کرے گی، جبکہ پاکستان کو اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت اس بحران کو مزید سنگین ہونے سے پہلے ضروری اصلاحات کرے۔ پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کا دارومدار متوازن پالیسیوں پر ہے، نہ کہ ایسی پالیسیاں بنانے پر جو ایک طرف صنعت کو نقصان پہنچائیں اور دوسری طرف ملک کو درآمدی انحصار میں دھکیل دیں۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو اسپننگ ملز کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں پاکستان مزید غیر ملکی مصنوعات پر انحصار کرنے پر مجبور ہوگا، اور پہلے سے کمزور معیشت مزید بحران کی طرف چلی جائے گی۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور ایسا فیصلہ کرنا ہوگا جو ملک کے برآمدی شعبے، مقامی صنعت اور اقتصادی استحکام کے لیے فائدہ مند ہو۔

شیئر کریں

:مزید خبریں