قیدی کی طرف سے دی گئی اس انفارمیشن کا دوسرا حصہ میں نے ایک پولیس آفیسر کو بتایا کہ جیل میں کسی کاغذ پر تعویذ لکھ کر بھجوائے جاتے ہیں کہ روزانہ ہر نماز کے بعد ایک پانی میں
گھول کر پینا ہوتا ہے مگر اصل میں اس تعویذ کی دوسری جانب کسی ایسی سیاہی سے تحریر لکھی جاتی ہے کہ جو استری سے گرم کرکے پڑھی جاتی ہے۔ مذکورہ پولیس آفیسر جن کا اب انتقال ہو چکا ہے، نے اس انفارمیشن پر کام شروع کیا تو انہوں نے ایک نیٹ ورک پکڑا جو ایک ہمسایہ ملک سے آپریٹ ہوتا تھا۔ یہ آج سے 23 یا 24 سال پہلے کی باتیں ہیں جو مجھے آج بھی یاد ہیں تاہم انہوں نے بتایا تھا کہ جو تحریر انہوں نے پکڑی وہ منشیات کے الزام میں قید ایک شخص کی تھی مگر وہ میرا بہت ہی احترام کرتے تھے کہ میں نے انہیں ایک اچھا لنک دیا تھا۔
ملتان میں سیف اللہ چھٹہ بہت متحرک ڈپٹی کمشنر رہے ہیں ایک مرتبہ ایک ملاقات میں سوال کیا کہ ملتان بارے یہ جملہ مشہور ہے۔ میٹھے آموں کا شہر، کاٹن کا خطہ اور صوفیائے کرام کا شہر، مگر شہر میں درخت تو ایک بھی دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کو بہاولپور رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کے کئی شہروں بھی آپ کو گھنے پرانے اور سایہ دار درخت دکھائی دیں گے مگر ملتان میں شاید ہی کوئی قدیم اور گھنا درخت بچا ہو حالانکہ یہ دنیا کا قدیم ترین آباد شہر ہے۔ چھٹہ صاحب سے طے ہوا کہ ملتان کی کسی ایک سڑک کو مینگو روڈ کا نام دیا جائے۔ میرا موقف یہ تھا کہ ایک شخص ائیر پورٹ سے شہر میں داخل ہوتا ہے تو اسے شہر سے گزرتے ہوئے آموں کی مختلف اقسام کے درخت نظر آئیں۔ کسی چوک میں شیشے کے بڑے بکس میں کپاس کے آرٹیفیشل پودے ہی لگا دیں کہ کاٹن بیلٹ کے سب سے بڑے مرکز کا تعارف ہو۔ تجویز پسند کی گئی اور سڑک بھی تلاش کر لی گئی مگر اس دوران سیف اللہ چھٹہ ٹرانسفر ہو گئے اور میجر شکیل اپنی “پوری ذہانت‘‘ کے ساتھ اس شہر میں وارد ہو گئے تو انہوں نے جس طرح کی کمپنی اپنے اردگرد چند ہی دنوں میں جمع کر لی مجھے آنے والے حالات کا اندازہ ہوا اور میں نے کنارہ کش ہونے ہی میں ہی عافیت سمجھی۔ پھر انہوں نے ابدالی روڈ پر جشن بہاراں منعقد کرایا اور مینگو روڈ کے خوبصورت آئیڈیے کا جنازہ کچھ اس طرح نکالا کہ ابدالی روڈ پر دونوں اطرف کے کھمبوں کے ساتھ پلاسٹک کے نیلے، پیلے، ہرے اور سرخ آم لٹکا کر ان میں برقی قمقمے روشن کر دیے اور اس طرح ایک خوبصورت آئیڈیے کا کباڑا نکال دیا۔ پھر چند ہی دنوں میں کوئی بلب بجھ گیا تو کوئی آم گرمی کی حدت سے خود بخود ہی چوسا گیا اور کوئی اندونی اور بیرونی حرارت کی شرمندگی سے پانی پانی ہو کر کھمبے کے نیچے شبنم کے قطروں کی طرح گر گر کر زمین پر ہی جم گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب چار پانچ سو میں آم کا اچھا خاصا پودا کسی بھی نرسری سے مل جاتا تھا مگر سنا تھا کہ وہ پلاسٹک کا آم ملتان سرکار کو 6 ہزار روپے فی پیس کے حساب سے پڑا تھا۔ بس پھر فیصلہ کیا کہ اب کسی کو بھی مشورہ دینے کی “حماقت” نہیں کرنی کہ عقلمند کو ضرورت نہیں ہوئی اور کم عقل سنتا نہیں اور سالہا سال سے اپنے اس فیصلے پر قائم رہنے کیلئے فیصلہ کن ہستیوں کے دوری اختیار کرنے میں ہی عافیت پائی کہ “نہ رہے بانس نہ بجے بانسری”۔
وقت گزرتا گیا کہ جنرل تنویر نقوی کا انتظامی فارمولا لاگو ہو گیا جس میں پولیس کو انتظامیہ کی چھتری سے مکھن سے بال کی طرح الگ کر لیا گیا اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کرکے ڈی سی اوز بنا دیئے گئے۔ پولیس آڈر 2002 کو دو تین مرتبہ پڑھایا اور سینئر وکلا ء سے رائے بھی لی۔ بعض نے جو نقشہ کھینچا وہ آج کی آزاد، خود مختار اور’’ چادر چار دیواری‘‘ کی محافظ پولیس کو دیکھتے ہوئے کر بہت حد تک درست ثابت ہو رہا ہے۔ آج ضلعی پولیس سرے سے ضلعی انتظامی سربراہ کو جواب دہ ہی نہیں اور خود مختاری سی خود مختاری سے کہ بیان ہی سے باہر ہے۔ میرے ایک سیاستدان دوست مجھے اس وقت کے ڈی سی او میجر اعظم سلیمان کے پاس لے گئے۔ حسب عادت ’’حس مشورہ‘‘ بھڑک اُٹھی مگر بعد میں اس مشورے کا انجام دیکھ کر پھر سے توبہ کر لی۔ اور وہ توبہ اب عامر کریم خان کے بطور کمشنر چارج لینے کے بعد خود بخود ہی ٹوٹ گئی ہے۔ سوچا کہ چشم تماشا میں محفوظ مناظر کو پھر سے قرطاس پر بکھیر دیا جائے۔ نہ جانے کیوں یہ یقین ہے کہ مجھے اس مرتبہ توبہ کے توڑنے کا نہ تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا اور نہ ہی دوبارہ توبہ کرنی پڑے گی کیونکہ ’’ گربہ کشش روز اول‘‘ کے مصداق انہوں نے رکاوٹیں پیدا کرنے والی بلی کو پہلے دور چار دنوں میں مار دیا ہے۔ بات ہو رہی تھی میجر اعظم سلیمان کی تو ان کے ’’پروفیشنل ازم‘‘ کے حوالے سے ایک واقع یاد آ گیا۔ وہ حکومت پنجاب میں سیکرٹری جنگلات تھے۔ بطور سیکرٹری جنگلات نہری پانی میں اضافے کیلئے سیکریٹری انہار کو انہوں نے مفصل رپورٹ بھیجی اور بتایا کہ پنجاب میں زیر زمین واٹر لیول کم ہونے کی وجہ سے محکمہ جنگلات کے درخت سوکھ رہے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان شیشم کے درخت کا ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے سیکرٹری انہار کے نام یاد دہانی کے خطوط بھی لکھے مگر شنوائی نہ ہوئی۔ اسی دوران اعظم سلیمان سیکرٹری انہار تعینات ہو گئے تو محکمہ جنگلات کے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ وفد کی صورت میں پھول اور عرضداشت لے کر مبارکباد دیئے گئے اور انہیں یاد دہانی کرائی کہ اب تو جنگلات کیلئے مطلوبہ مقدار کے پانی کی فراہمی آپکے محض ایک دستخط کی مار ہے۔ ان افسران کی بات سن کر اعظم سلمان نے کہا کہ اب مجھے محکمہ انہار کے مفادات کو ترجیح دینا ہے۔ وہ اپنے ہی اصولی موقف سے دو ہی دن میں ہٹ چکے تھے ۔
سول ڈیفنس کا محکمہ جو کہ سرکاری محکموں میں کسی کھاتے میں ہی نہیں ہوا کرتا تھا مگر گذشتہ چند سال کے دوران اس کے کھاتے اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ یہ سول سوسائٹی کا ڈیفنس کرنے کی بجائے سماج دشمن عناصر، ملاوٹ مافیا اور جعلی کاروبار کرنے والوں کی پہلی ڈیفنس لائن بن چکا ہے۔ سول ڈیفنس کے بہت سے ماسٹر مائنڈ قسم کے افسران ملاوٹ مافیا کیلئے سہولت کاری کے حوالے سے نت نئی کارروائیاں ڈالتے ہیں اور یہ اس محکمے کی ملاوٹ مافیا کو دی گئی آشیر باد ہی ہے کہ ملتان میں گیس سلنڈر پھٹنے کے درجنوں واقعات اور ان گنت اموات ہونے کے باوجود ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس محکمے میں چند ’’گورکن‘‘ ایسے ہیں جن کا رزق ہی حادثاتی واقعات سے وابستہ ہے۔ ملتان میں ناقص ایل پی جی سلنڈر پھٹیں یا 30 ٹن کے باوزر۔ ایل پی جی میں ملاوٹ سے سلنڈروں کا اندرونی پریشر پڑھے اور وہ پھٹ جائیں۔ ایس او پیز کے منافی ڈبہ پٹرول اسٹیشن اور ایل پی جی کی ملاوٹ جیسے مکروہ دھندے کے پیچھے سول ڈیفنس ہی کا ہاتھ نظر آتا ہے مگر پہلی مرتبہ موجودہ کمشنر عامر کریم خان نے ہاتھ ڈالا ہے اور انہوں نے چند ہی دنوں میں از خود وجوہات کا جائزہ لے کر ہنگامی اقدامات اور فیصلے کرائے ہیں جن کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ رہا معاملہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا تو پہلی مرتبہ اس شہرکے بعض علاقے وسیع لگنے لگے ہیں (جاری ہے)
