بہاول پور (کرائم سیل) چولستان میں موجود پینے کے صاف پانی کو مُلک کے امیر طبقے کی جیب بھرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا،چولستان کی عوام کا حق بیچ کر پینے کے پانی سے زراعت میں استعمال ہونے سے چولیستانیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ۔ایک مخصوص خاندان کے لیے غیر قانونی موگے چلتے رہے جن پر فوری چھاپے مارکر غیر قانونی موگے بند کرنے کا مطالبہ۔تفصیلات کے مطابق 1985-86 میں قومی خزانے سے خطیر رقم خرچ کر کے چولستانی نہروں کا منصوبہ (فیز II) مکمل کیا گیا تھا تاکہ عوام کو پینے اور زرعی دونوں مقاصد کے لیے منصفانہ پانی میسر آئے۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ محکمہ اریگیشن کے چند کرپٹ افسران نے عباسی خاندان کے چند وارثوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے جعلی فردِ ملکیت کے ذریعے ایس ٹی فارم منظور کروایا — اور آرڈی60000 کے اندر ایک بڑا موگہ نصب کر دیا گیا جس کے ذریعے نہری پانی کو غیرقانونی طور پر بیچا جا رہا ہے۔مقامی رہنماؤں نے کہا کہ جب جعلی فردِ ملکیت ثابت ہوئی تو ایس ٹی فارم مورخہ 15-9-1997 کو منسوخ کر دیا گیا، مگر عملی زندگی میں اس موگے کو کبھی ختم نہیں کیا گیا۔ 1997 سے آج تک ہزاروں ایکڑ اسٹیٹ لینڈ پر بااثر افراد اسی نہری پانی سے کاشت کاری کر رہے ہیں جبکہ عام چولستانیوں کے لیے پینے کا پانی دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔مزید یہ کہ صدارتی نوٹیفیکیشن مورخہ 18-5-2002 کے تحت مذکورہ پانی چولستان کے ساکنان کے لیے مخصوص قرار پایا، مگر دعویٰ ہے کہ محکمہ اریگیشن کی سرپرستی اور سہولت کاری کے ذریعے انہی بااثر افراد نے موگے لگا کر پانی فروخت کرنا جاری رکھا ہوا ہے — ایک ایسا عمل جس نے مقامی کسانوں اور عام لوگوں کے بنیادی حقِ حیات کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔حاجی عبدالکریم اور صاحبزادہ مجیب عباسی نے احتجاجی انداز میں مطالبہ کیا کہ:فوری طور پر تمام غیرقانونی موگے بند کیے جائیں اور ان موگوں کے ذریعے پانی فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔آرڈی60000 کے اندر بنائی گئی دیواریں اور غیرقانونی موگے ہٹائے جائیں تاکہ ایک شخص یا خاندان کی اجارہ داری ختم کی جا سکے۔محکمہ اریگیشن، کمشنر بہاول پور، ڈی سی بہاول پور، چیف سیکریٹری پنجاب، چیف لینڈ کمشنر، سیکریٹری اریگیشن اور ڈی جی نیب ملتان فوری طور پر نوٹس لیں اور شفاف تحقیقات کروائیں۔عوامی پینے کے پانی کو اصل حقدار یعنی چولستانی عوام کے لیے بغیر امتیاز ری اسٹور کیا جائے اور منصوبہ فیز II کو عوامی مفاد کے مطابق دوبارہ فعال کیا جائے۔مقامی رہنماؤں نے خبردار کیا کہ اگر فوری اور سخت قانونی کارروائی نہ کی گئی تو چولستانی علاقوں میں عوامی غم و غصّہ بڑھ سکتا ہے اور اس کا ذمہ دار وہ تمام ادارے ہوں گے جنہوں نے عوامی وسائل کو چند طاقتور ہاتھوں میں دینے میں خاموشی اختیار کی. چولستان کا پینے کا پانی اب محض گھرانے کی دولت نہیں یہ مسلّم انسانی حق ہے۔ مقامی آبادی نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ عباسی خاندان کے زیرِ کنٹرول موگے فوری طور پر ہٹائے جائیںاور جو بھی افسران یا شخصیات اس سازش میں شامل ہوں، ان کے خلاف قانونی و آئینی کارروائی انجام دی جائے تاکہ چولستانیوں کو ان کا بنیادی حق واپس مل سکے۔








