ملتان (سٹاف رپورٹر)ملک بھر میں غیر مفید اور تعلیم برائے کمائی کے نام پر ہونے والی ریسرچ کے بارے میں مختلف ریسرچر اور پروفیسر حضرات نے غیر مفید ریسرچ پیپرز کی اشاعت اور پھر ان پیپرز کی بنیاد پر ملک کو کسی بھی طور پر نہ پہنچنے والے فائدے پر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔ ملتان سے تعلق رکھنے والی پروفیسرنے روزنامہ قوم کی خبر پر کہا کہ یہ حقیقت ہے (باقی صفحہ7بقیہ نمبر43)
روزنامہ قوم نے قابل افسوس حقائق کی نشاندہی کی ہے ایجوکیشن مافیا ایک عرصے سے لوٹ مار کر رہا ہے میری قوم کی بدقسمتی کہ جس کا استاد بھی بے رحمی سے طلباء کو لوٹ کر پیسہ بنانے میں مصروف ہے مجھے پتہ چلا ہے کہ وائیوا میں نمبر لگوانے کے لیئے ایک پروفیسر نے موبائل فون ڈیمانڈ کیا قوم اخبار نے سو فیصد درست لکھا ہے اس مافیا کو بے نقاب ہونا چاہئے جنہوں نے اس پیشے کو رسوا کر دیا۔ تھیسس کروانے میں مدد کے نام پہ لاکھ لاکھ روپے لیتے ہیں آرٹیکل چھپوانے کے اور بھی پیسے کمانے کے اتنے کھانچے کھولے ہوئے ہیں کہ اگر آپ یقین نہیں کر رہے تو سٹوڈنٹس سے ملیں کہ وہ کس کس مد میں اور کن بہانوں سے اس استاد نامی مافیا کو پیسے دے رہے ہیں۔ پاکستان کے علاقے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جنوبی کوریا کی رینکنگ کی یونیورسٹی میں تعینات پروفیسر نے کہا کہ آپ صرف نمبرز کی بات کرتے ہیں یہاں تو پروموشن کے لیے سٹوڈنٹس کے ریسرچ پیپر میں فرسٹ آتھر کے طور پر اپنا نام لکھوانے کا مکروہ دھندا عروج پر ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ دھندہ بہت پرانا ہے پیسے اور محنت سٹوڈنٹس کی اور فرسٹ آتھر ٹیچر، اس سے بڑھ کر کسی استاد کی اخلاقی گراوٹ اور کیا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا ذاتی تجربہ ہے میری بیٹی سے حال ہی میں یہی حالات گزارے ہیں۔ حال ہی میں پی ایچ ڈی کرنے والی ویمن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک لیکچرار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے آدھی پیمنٹ کی تو ٹیچر نے کہا کہ پوری پیمنٹ کرو پیپر کی جو نہ کرنے پر سیکنڈ آتھر کر دیا۔ باقی پیمنٹ فرضی آتھرز ڈال کر پوری کر لی اس پر روزنامہ قوم کی تحقیقاتی ٹیم نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کے 800 یا 1000 پیپرز لکھنے والے پاکستان کی کوئی اپنی پراڈکٹس بنا چکے ہیں یا وہ پیپر لکھ کر شائع ہوئے اور کام ختم؟ یہ کیسا نظام تعلیم ہے؟ کیا کسی ریسرچ کو پاکستان میں کہیں اپلائی کیا؟ کیا کوئی انٹرنیشنل لیول کی لیب تیار کی؟ پاکستان میں ریسرچ پیپر لکھنے کا لکھنے والے کی زاتی پروموشن میں فائدے کے علاؤہ کوئی فائدہ ہوا ہے؟ آخر ریسرچر حضرات ریسرچ پیپر لکھنے کا کوئی فائدہ تو بتائیں۔ جس پر نارووال یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ریسرچ پیپرز سب سے بڑا دھوکہ ہیں۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ کسی سے لکھوا کر پیپر خرید سکتے ہیں اور اسے شائع بھی کروا سکتے ہیں۔ اگرچہ حقیقی اور اصل تحقیق بھی موجود ہے، لیکن ایسے خالص اور سچے تحقیقی کاموں کی شرح بہت کم ہے۔ یہاں تحقیق کی بنیاد پر ترقی کا معیار اساتذہ اور طلباء دونوں کو اس گڑبڑ میں دھکیل رہا ہے۔ ریسرچ سیل کی جانب سے سوال کیا گیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ فلاں پیپر لکھ کر پاکستان کو یہ فائدہ ہوا؟ جس پر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر پروفیسر کا کہنا تھا کہ یہ حدیث دلبراں ہے یہ کمال دلبری ہے۔ یونیورسٹی آف نارووال کے ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ فیکلٹی ممبران طلباء کو نہ صرف ریسرچ پیپرز لکھنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ ان پیپرز کو شائع کروانے کی ذمہ داری بھی انہی پر ڈال دیتے ہیں، اور طلباء ریسرچ جرنلز کو پیسے دے کر انہیں شائع کرواتے ہیں۔ اسی طرح طلباء ماسٹرز سے لے کر پی ایچ ڈی سطح تک کے تھیسز بھی پیسے دے کر لکھواتے ہیں۔ بہت سے فیکلٹی ممبران اور سپروائزرز طلباء کے لکھے گئے ہر لفظ کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ ایسے اساتذہ واقعی ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ لیکن اُن افراد کا کیا جنہوں نے زبردستی یا پیسے دے کر ریسرچ پیپرز شائع کروائے؟ کیونکہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے 10 اور پروفیسر کے لیے 15 ریسرچ پیپرز کی شرط ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کہاں شائع ہوئے اور ان تحقیقی اشاعتوں کا معاشرے، اکیڈمیہ اور ملک پر کیا اثر ہوا۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ اگر آپ پاکستان میں بہت سے نام نہاد ممتاز محققین کی سی ویز کا جائزہ لیں تو حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں۔ آج کل جو تحقیق کی جا رہی ہے، اس کا بڑا حصہ صرف ترقی یا القابات کے حصول کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ حقیقی علم یا معاشرے کی بہتری کے لیے۔ کچھ طریقے شاید قانونی یا قابلِ قبول ہوں لیکن بہت سے طریقے نہ قانونی ہیں اور نہ ہی اخلاقی۔ چائنہ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ بہت حساس موضوع ہے لیکن اصل خرابی نظام میں ہے، افراد تو صرف وہی کر رہے ہیں جو یہ نظام ان سے تقاضا کرتا ہے۔ یہ نظام انہیں صرف اشاعت (پبلیکیشنز) کے ذریعے زندہ رہنے کی ہدایت دیتا ہے، چاہے ان کے پاس کوئی مضبوط لیب، ساز و سامان یا تحقیق کے لیے فنڈنگ نہ بھی ہو۔ لوگ بالکل وہی کر رہے ہیں جو یہ نظام چاہتا ہے۔ نارووال یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ کل رات مجھے ایک ریسرچ پیپر موصول ہوا تاکہ میں بین الاقوامی جرنل کی جانب سے کی گئی اصلاحات اور سفارشات کو دیکھ کر ان کی درستگی میں مدد کر سکوں۔ یہ پیپر ایک معروف ادارے کے پروفیسر نے لکھا تھا۔ جب میں نے پیپر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ اس میں کوئی حوالہ (references) سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ براہِ کرم وہ تحریریں یا پیپرز بھیج دیں جن کا ذکر انہوں نے in-text citations میں کیا ہے۔ جواب ملا: آپ کوئی بھی references add کر دیں”۔ یہ سن کر واقعی افسوس ہوا — جب تحقیق کا یہ معیار ہو، اور وہ بھی ایسے اداروں سے جو خود کو معیاری تعلیم اور تحقیق کے مراکز کہتے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ صرف ایک فرد کی بات نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی عکاسی ہے جو تحقیق کو صرف ایک رسمی خانہ پُری یا ترقی کا ذریعہ سمجھتا ہے، نہ کہ علم کے فروغ یا معاشرے کی بہتری کے لیے ایک سنجیدہ عمل جس پر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ بالکل درست! نظام واقعی قصوروار ہے، لیکن اسے چند کالی بھیڑوں نے یرغمال بنا لیا ہے، جنہوں نے تحقیق کو صرف اعداد و شمار کا کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ اصلی اور مخلص محققین ایک ایسے نظام میں جدوجہد کرتے رہ گئے ہیں جو معیار کے بجائے مقدار کو اہمیت دیتا ہے اور جب سسٹم ٹھیک ہو گیا تو بہت سے لوگ اپنی سی وی چھپانا شروع کر دیں گے۔ ملتان کی ایک یونیورسٹی این ایف سی ملتان کے 12 سال 4 ماہ بعد سپریم کورٹ آف پاکستان سے برطرف ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر کالرو جو کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے پروفیسر رہے تھے، بارے میں معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک سی وی کی بنیاد پر تعینات ہوئے۔ مذکورہ صاحب انگریزی کا ایک لیٹر لکھنے سے بھی عاری تھے۔ نارووال یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ کئی ایسے طلباء ہیں جو امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن وہ یہاں پاکستان میں پیسے دے کر اپنے اسائنمنٹس اور تھیسز لکھواتے ہیں۔ اگرچہ سب نہیں، لیکن ایک بڑا حصہ ایسے طلباء کا ہے جو ڈگری حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے خریدے گئے کام کا سہارا لیتے ہیں۔ مجھے خود بھی متعدد بار ایسے اسائنمنٹس اور تھیسز کے لیے پیسے کے عوض کام کرنے کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ بی زیڈ یو پروفیسر نے از راہ مذاق سب سے بڑی حقیقت بتا دی جب ایک صحافی نے سوال کیا “سر! عہدہ سنبھالنے کے بعد آپ کا پہلا قدم کیا ہو گا؟” تو افسر کا کہنا تھا کہ “سب سے پہلے میں اپنا سی وی اور پچھلا تمام ریکارڈ غائب کرواؤں گا!” یہ پاکستان میں کئی بار ہو چکا ہے۔ کئی لوگ دوسروں کے لیے لکھ لکھ کر خود ترقی پا گئے۔ کچھ معاملات میں ریکارڈ صرف غائب نہیں ہوا — بلکہ چوری کرا لیا گیا یا ملازمت کی سلامتی کے پیشِ نظر جلا دیا گیا۔ ملک بھر کی شاید ہی کوئی سرکاری یونیورسٹی ہو جس میں پروفیسرز کی پرسنل فائنل مکمل ہو اور اس میں تمام کاغذات موجود ہوں۔ جس پر خاتون پروفیسرنے کہا کہ یہ ہر سٹوڈنٹ کی الگ اور دردناک کہانی ہے آپ صحافی اسے اجاگر کر سکتے ہیں یقین کریں یہ جہاد ہے۔ یونیورسٹی کے جس ٹیچر سے بات کرو بتائے گا کہ میرے تو چالیس پچاس آرٹیکل ہیں پیسے بھی بنا رہی ہیں اور رہے ہیں ۔میں میل فیمیل کی بات کر رہی ہوں۔ غریب لوگ بچوں کو مصیبت سے پڑھا رہے ہیں۔ یہ بے ضمیر جانتے ہیں کیونکہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں مگر چونکہ مجبوروں سے کمانا بھی تو ان کے خمیر میں شامل ہے، وہ بھی کیا کریں۔ اقوام متحدہ کے پراجیکٹس میں کام کرنے والے ایک پاکستانی پروفیسر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں کی جانے والی زیادہ تر تحقیق فائلوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ چونکہ اس تحقیق کا کوئی عملی اطلاق نہیں ہوتا، اس لیے یہ لیبارٹری سے مارکیٹ تک نہیں پہنچتی۔ اس تحقیق کا عوام کی زندگی بہتر بنانے یا قومی معیشت پر بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا۔ اب تک، زیادہ تر معاملات میں یہ صرف ایک اعداد و شمار کا کھیل ہے، جو صرف پروفیسرز کی تعلیمی ترقی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ چند دن پہلے مجھے ایک فیکلٹی ممبر کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مبینہ طور پر:1- تھیسس لکھنے کے لیے ادائیگی لیتا ہے 2- وہی تھیسس اس کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ 3۔ اسی تھیسس سے ایک پیپر نکالا جاتا ہے۔ 4- پیپر متعدد مصنفین کے ساتھ شائع ہوتا ہے جو مناسب ادائیگی کرتے ہیں۔5- پیپر میں اس فیکلٹی ممبر کا بھی نام ہوتا ہے۔ 6- وہ یونیورسٹی سے نگرانی کا معاوضہ بھی وصول کرتا ہے۔ مطلب ایک تیر سے چھ چھ شکار۔ ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ سٹوڈنٹس کا کیا معیار ہوگا پیسے دے کر تھیسس آرٹیکل لکھواتے ہیں پھر ٹیچر کی خدمت کرکے وائیوا پاس کر لیتے ہیں اور کل کو یہی پروفیسر کہلائیں گے اور یہ مکروہ دھندہ جاری رہے گا۔








