وزیرِاعظم شہباز شریف نے جدہ میں منعقد ہونے والی نویں ’’مستقبل سرمایہ کاری کانفرنس‘‘ سے خطاب میں یہ حقیقت پسندانہ مگر تکلیف دہ بات کہی کہ پاکستان مزید قرضوں کے سہارے نہیں چل سکتا کیونکہ مسلسل قرض لینا معیشت کو کمزور کرتا ہے۔ یہ جملہ اگرچہ کسی اقتصادی اصول کا خلاصہ نہیں، لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں اس کی معنویت ناقابلِ انکار ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کے ممالک قرض لیتے ہیں — فرق صرف یہ ہے کہ وہ قرض کا استعمال کس مقصد کے لیے کرتے ہیں۔ اگر قرض پیداواری سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے، صحت، تعلیم اور توانائی کے شعبوں میں صرف کیا جائے تو یہ مستقبل کی آمدنی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس طرح قرض اپنی ادائیگی کا ذریعہ بھی پیدا کرتا ہے۔ لیکن اگر قرض پرانے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی یا غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے لیا جائے تو یہ ایک ایسے چکر میں بدل جاتا ہے جو بالآخر معاشی خودمختاری کو نگل جاتا ہے۔ پاکستان کی صورتحال یہی ہے۔
وزیرِاعظم کا کہنا درست ہے کہ اب قرضوں پر انحصار ملک کے لیے تباہ کن ہو چکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس حالت تک پہنچانے والے عوامل کیا ہیں؟ سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہماری حکومتیں دہائیوں سے قرض کو علاج کے بجائے نشہ بنا چکی ہیں۔ بیرونی قرض ہو یا اندرونی، اس کا زیادہ حصہ غیر پیداواری مقاصد کے لیے استعمال ہوا۔ ترقیاتی منصوبوں پر سرمایہ کاری کم ہوئی، جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات — یعنی سرکاری انتظامی مشینری، سبسڈیوں، غیر ضروری اداروں، اور سیاسی منصوبوں پر — بڑھتے گئے۔
قرض خود برا نہیں ہوتا۔ وہ تب نقصان دہ بنتا ہے جب اسے پیداواری صلاحیت بڑھانے کے بجائے وقتی سہارا بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ دنیا کی بڑی معیشتیں بھی قرض لیتی ہیں لیکن ان کے ادارے شفاف ہیں، پالیسی تسلسل موجود ہے، اور سرمایہ کاری سے معیشت میں حقیقی نمو پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں قرض لینے کے بعد ترقی کے بجائے قرض واپس کرنے کی صلاحیت کم ہوتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کو پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے نئے قرض لینے پڑ رہے ہیں — یہ ایک ایسا چکر ہے جس سے نکلنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
پاکستان کا مجموعی قرضہ اب معیشت کے حجم کے 87 فیصد کے قریب ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے نہ زرِمبادلہ کے ذخائر کافی ہیں اور نہ برآمدات میں وہ اضافہ ہو رہا ہے جو پائیدار ادائیگیوں کو ممکن بنا سکے۔ داخلی طور پر حکومت نے کمرشل بینکوں سے ریکارڈ حد تک قرض لیا ہے۔ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے اجرا سے حاصل شدہ رقم بھی زیادہ تر بجٹ خسارہ پورا کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نجی شعبے کے لیے سرمایہ کی دستیابی سکڑ گئی ہے — یعنی وہی نجی شعبہ جسے ہر حکومت ’’ترقی کا انجن‘‘ کہتی ہے، خود حکومت کی قرض کی بھوک سے دب چکا ہے۔
یہ پالیسی دوہرا نقصان پہنچا رہی ہے۔ ایک طرف نجی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے، دوسری طرف حکومت کے بھاری قرضوں نے مارکیٹ میں نقدی کی فراہمی بڑھا دی ہے جو مہنگائی کو مزید تیز کر رہی ہے۔ اس کے برعکس اگر حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرے — جیسا کہ کم از کم دو کھرب روپے کی فوری کٹوتی — تو بجٹ خسارہ کم ہوگا اور مہنگائی میں بھی کچھ کمی آسکے گی۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے — موڈیز، فچ، اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز — کسی بھی ملک کے قرض لینے کی صلاحیت کا تعین ان کی کریڈٹ ریٹنگ سے کرتے ہیں۔ پاکستان کی درجہ بندی کم ہونے کے باعث عالمی منڈیوں سے قرض لینے کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، 2020ء میں یونان کا قرض اس کی قومی پیداوار کے 250 فیصد تک پہنچ چکا تھا، لیکن اسے یورپی یونین کی مدد حاصل رہی۔ اس کے برعکس پاکستان، جس کا قرض تناسب یونان سے کہیں کم ہے، عالمی منڈیوں سے سستے قرض حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ہمارے اداروں پر اعتماد کم ہے اور پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔
پاکستان کے تین بڑے دوست ممالک — چین، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات — طویل عرصے سے مالی مدد فراہم کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن اب وہ بھی محتاط ہو گئے ہیں۔ ان ممالک نے قرض کے رول اوور کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری پروگرام سے مشروط کر دیا ہے۔ اس شرط کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کے مالیاتی نظم و نسق پر مکمل اعتماد نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں آئی ایم ایف کا نگرانی فریم ورک کم از کم ایک ضمانت فراہم کرتا ہے کہ پاکستان بنیادی اصلاحات سے انحراف نہیں کرے گا۔
یہ صورتحال پاکستان کے لیے باعثِ تشویش ہے، لیکن اسے موقع میں بدلا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت واقعی اپنے مالی ڈھانچے کو درست کرنے کے لیے پرعزم ہے، تو اسے صرف قرض کے انتظام پر نہیں بلکہ اصلاحات کے نظام پر توجہ دینی ہوگی۔ اس مقصد کے لیے کچھ فوری اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
اول، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی — سرکاری محکموں کے بجٹ، بے مقصد ترقیاتی اسکیمیں، اور حکومتی اداروں کی فضول سبسڈیاں ختم کی جائیں۔
دوم، محصولات کے نظام میں شفاف اصلاحات — طاقتور طبقوں کو دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے اور معیشت کے غیر دستاویزی حصے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
سوم، سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری اور نجکاری — خسارے میں چلنے والی سرکاری کمپنیاں جیسے پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، اور بجلی تقسیم کار کمپنیاں قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔
چہارم، طویل مدتی پالیسی تسلسل — معاشی پالیسیوں کو سیاسی تبدیلیوں سے آزاد کیا جائے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔
وزیرِاعظم کا بیان اس وقت آیا ہے جب پاکستان کا زرِمبادلہ دباؤ میں ہے، قرض کی قسطیں قریب ہیں، اور اندرونی سیاسی استحکام کمزور ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ’’قرض کے سہارے‘‘ کے بجائے ’’اصلاحات کے سہارے‘‘ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنے تین بڑے دوست ممالک سے تعلقات کو محض مالی امداد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ انہیں طویل المدتی معاشی شراکت داری میں تبدیل کرنا چاہیے۔ چین کی سرمایہ کاری، سعودی عرب کے توانائی منصوبے، اور یو اے ای کے مالیاتی روابط کو ایسے منصوبوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کی برآمدی صلاحیت میں اضافہ کریں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے دوران صرف شرائط پوری کرنے تک محدود نہ رہے بلکہ اپنی مالیاتی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ’’متبادل فریم ورک‘‘ بھی پیش کرے۔ ماضی میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے 2023ء میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے براہِ راست ملاقات کر کے تعطل زدہ مذاکرات بحال کیے تھے۔ اسی نوع کی سفارت کاری اب دوبارہ درکار ہے — مگر اس بار مقصد صرف قسط کی منظوری نہیں بلکہ پائیدار اصلاحات کے لیے اعتماد سازی ہونا چاہیے۔
پاکستان کے مالی بحران کا حل قرض نہیں بلکہ وسائل کے منصفانہ استعمال میں ہے۔ جب تک حکومت اپنے اخراجات کو قابو میں نہیں لاتی اور معیشت کے طاقتور طبقات پر بوجھ ڈالنے کا حوصلہ پیدا نہیں کرتی، قرضوں کا جال پھیلتا ہی جائے گا۔ ہم یونان کی طرح ایک وقتی بیل آؤٹ تو لے سکتے ہیں، مگر یہ وقتی ریلیف اس وقت تک بیکار رہے گا جب تک ہم اپنے مالی ڈھانچے میں شفافیت، جوابدہی اور کفایت شعاری پیدا نہیں کرتے۔
آخرکار، مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں بلکہ نیت کا ہے۔ اگر سیاسی قیادت واقعی یہ طے کر لے کہ ’’ہم اب قرض کے سہارے نہیں، محنت کے سہارے جئیں گے‘‘، تو یہ فیصلہ محض ایک تقریر نہیں بلکہ قومی خودمختاری کی بحالی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ وزیرِاعظم کا بیان امید کی کرن ہے — بشرطیکہ اسے محض بیان نہیں، پالیسی کا رخ بنایا جائے۔ کیونکہ قومیں قرض سے نہیں، وژن سے ترقی کرتی ہیں۔








