ملتان (سٹاف رپورٹر) ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں میں ناجائز کمائی کا ایک اہم حصہ ٹرانسپورٹ سے حاصل ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے جس میں روزنامہ قوم کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق مختلف یونیورسٹیوں کی بسیں مختلف ایوریج دینے لگیں اور یہ ایوریج2.7 سے 5.5 تک دیکھنے میں آئی ہے۔ 2.7 سے مراد ہے کہ ایک بس ایک لٹر ڈیزل میں شہر میں 2.7 کلومیٹر کا فیصلہ کرتی ہے۔ جبکہ 5.5 کا مطلب ہے کہ دوسرے ادارے کی بس ایک لٹر ڈیزل میں 5.5 کلومیٹر فاصلہ طے کرتی ہیں۔ جبکہ حیران کن طور پر نجی یونیورسٹیوں میں یہ ایوریج سب سے زیادہ 6.5 دیکھنے میں آئی ہے۔ چونکہ وہاں پیسہ سیٹھ کا ہوتا ہے اور سیٹھ کی اپنے پیسے پر بھرپور نظر ہوتی ہے۔ نجی یونیورسٹیوں کی بسوں میں ایک اور خاص بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ان میں ڈیزل بھی پورا ڈلتا ہے اور استعمال بھی پورا ہوتا ہے۔ کیونکہ سیٹھ کی بھرپور نظر ہوتی ہے۔ اسی طرح نجی یونیورسٹیوں کی بسوں میں جن ٹائرز اور بیٹریز کے بل منظور کروائے جاتے ہیں ان میں ٹائرز اور بیٹریز لازمی ڈالی جاتی ہیں تو وہ بل منظور کیے جاتے ہیں۔ پھر ایک اہم اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ نجی یونیورسٹیوں کی گاڑیوں میں مینٹیننس کے بل بنوائے جانے کے ساتھ واقعی مینٹیننس کروائی جاتی ہے اور نجی یونیورسٹیوں کے ٹرانسپورٹ انچارجز لاکھوں روپیہ بھی نہیں کما سکتے۔ جبکہ اس کے برعکس سرکاری یونیورسٹیوں میں تقریباً صورتحال اس کے الٹ ہے۔ ملتان کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے ڈیزل کا سالانہ بل تقریباً 15 کروڑ ہے جس میں صرف ڈیزل کی مد میں کمائی استعمال شدہ ڈیزل کے برابر ہے اور پھر مہینے کے آخر میں یہ تمام کمائی گریڈ کے حساب سے تقسیم کر دی جاتی ہے۔ملتان کی ایک چھوٹی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرانسپورٹ سپروائزر کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ ٹرانسپورٹ عملے کے صرف سپروائزر 6 لاکھ ماہانہ کما لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے انتظامیہ کی ادلے کے بدلے کی مہربانی اور فٹنس والوں کی ملی بھگت سے یونیورسٹی کی گاڑیوں کی ایوریج 2.7 کلومیٹر فی لیٹر فکس کروا رکھی ہے۔ گاڑی اگر 5.4 کلومیٹر کر جاتی ہے تو کمائی ڈبل ہو جاتی ہے۔








