آج کی تاریخ

خواتین یونیورسٹی: 3 عورتیں، 3 کہانیاں، مشکوک تجربے کی حامل ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی مشکوک سرگرمیاں

ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان کی مشکوک تجربے کی حامل پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ، جو نیئرٹیچر ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ملکہ رانی اور ریٹائرمنٹ کے باوجود بطور رجسٹرار کام جاری رکھنے والی ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کی ملی بھگت اور میرٹ کی پامالی یونیورسٹی میں جاری ہے۔ جس طرح ریٹائرڈ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان ریٹائرمنٹ سے پہلے یونیورسٹی انتظامیہ پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتی رہی ہیں اسی طرح اب بھی کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ 4 اپریل کو ریٹائر ہونے والی سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان نے 3 اپریل کو منعقد ہونے والی سینڈیکیٹ میں اپنا پروفیسر آف انگلش کا ایجنڈا منظوری کے لیے ٹیبل ایجنڈا کے طور پر پیش کیا جسے پوری سینڈیکیٹ نے مسترد کر دیا مگر اس کے باوجود اسلامیات ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے سینڈیکیٹ کے منٹس بھیجتے وقت ہیر پھیر کرتے ہوئے سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کا پروفیسر کا دوبارہ ملازمت کو منٹس میں APPROVED لکھ کر بھیج دیا۔ جسے روزنامہ قوم کے توجہ دلانے پر ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کی جانب سے سخت نا پسند کیا گیا اور اسی طرح ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے پوری سینڈیکیٹ کے منٹس میں دھوکہ دہی کی بابت خواتین یونیورسٹی ملتان کو خط لکھا جس میں واضح طور پر ایڈیشنل سیکرٹری نے شدید نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ایجنڈا مسترد کرنا اکثریتی ممبران سینڈیکیٹ کی خواہش تھی اور وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی ملتان نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کا دوبارہ ملازمت کا ایجنڈا مؤخر کیا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اسے آئندہ کسی اجلاس میں پیش کیا جائے گا، جس میں واضح طور پر ایکٹ/قوانین کی وہ متعلقہ دفعات درج ہوں گی جو اس دوبارہ تقرری کی حمایت کرتی ہیں۔ مگر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کھلی دھوکہ دہی کرتے ہوئے اجلاس کی کارروائی میں اسے متفقہ طور پر منظور شدہ ظاہر کر دیا۔ ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان، جو ویمن یونیورسٹی ملتان میں بطور رجسٹرار اور سیکریٹری سینڈیکیٹ خدمات انجام دے رہی تھیں، 04-04-2025 کو ریٹائر ہونے والی تھیں۔ سینڈیکیٹ کا 43 واں اجلاس 03-04-2025 کو ایچ ای سی سیکریٹریٹ کے تحت منعقد کیا گیا، یعنی ان کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل۔ اس اجلاس میں ان کی اپنی دوبارہ تقرری کے حوالے سے پالیسی کے تحت ایک ایجنڈا بطور “ٹیبل ایجنڈا” پیش کیا گیا، جو کہ مفادات کے تصادم (Conflict of Interest) کے مترادف ہے۔ پالیسیوں کی منظوری اور دوبارہ تقرری جیسے معاملات کو شفافیت اور مناسب غور و فکر کے لیے باقاعدہ ایجنڈا کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے نہ کہ ٹیبل ایجنڈا کے طور پر۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سینڈیکیٹ کی واضح ہدایت کے باوجود کہ اس ایجنڈے کو مؤخر کیا جائے، کارروائی میں اسے “منظور شدہ” دکھایا گیا، جو کہ ریکارڈ میں رد و بدل کے مترادف اور جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر تجویز دی گئی کہ 03-04-2025 کو منعقدہ سینڈیکیٹ کے اجلاس کے فیصلے کی غلط ترجمانی کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے ایک انکوائری کی جائے اور اس کے بعد پیڈا ایکٹ 2006 کے تحت متعلقہ افسران/اہلکاران کے خلاف انکوائری کی کارروائی شروع کی جائے اور درج بالا تمام مشاہدات کو اجلاس کی کارروائی (منٹس) میں شامل کیا جائے جبکہ نظرثانی شدہ منٹس تمام سینڈیکیٹ ممبران کو توثیق کے لیے ارسال کیے جائیں۔ جب تک تمام ممبران نظرثانی شدہ منٹس کی توثیق نہیں کرتے، سینڈیکیٹ کے فیصلوں پر کوئی عمل درآمد نہ کیا جائے گا۔ اس کے باوجود مشکوک تجربے کی حامل پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے پہلے یہ ایجنڈا ٹیبل ایجنڈا کے طور پر پیش کیا جسے نا منظور کئے جانے کے باوجود جعلسازی کرتے ہوئے منظور لکھ کر بھیج دیا۔ اور پھر اس دھوکہ دہی کے معاملات کو صحیح کرنے کی بجائے دوبارہ غیر قانونی طور پر سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کو ملازمت پر رکھ لیا۔ جن کی سینڈیکیٹ سے کوئی منظوری نہ ہے۔ جس میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے ساتھ ساتھ، نئی تعینات ہونے والی جو نیئر ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ملکہ رانی بھی ملوث نظر آتی ہیں۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ اور رجسٹرار ڈاکٹر ملکہ رانی کی آشیر باد سے ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کا یونیورسٹی کے معاملات میں پہلے کی طرح اثر انداز ہونا خواتین یونیورسٹی اور خود خواتین کے کنڈکٹ پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں