جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اجارہ داری نظام کے ذریعے عوام کو دبایا جا رہا ہے۔
فاران کلب میں جماعت اسلامی کراچی حلقہ خواتین کے زیر اہتمام “کراچی کونیکٹ” سوشل میڈیا میٹ اپ سے خطاب میں حافظ نعیم نے کہا کہ عوام کے تعاون سے ملک میں انقلاب اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام ہر شعبے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے، خواہ وہ اخلاقیات، معیشت، معاشرت، تجارت، قانون، تعلیم، نجی و معاشرتی زندگی ہو یا حکومت اور ریاست۔ اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اسرائیل ٹیکنالوجی میں آگے ہیں لیکن ہم انہی کی ٹیکنالوجی سے انہیں شکست دیں گے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ظلم و ناانصافی کے خلاف تحریک چلائی جائے گی اور عادلانہ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو تیز کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں اجارہ داری نظام نے عوام کو مفلوج کر رکھا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو اس نظام کے خلاف بیدار اور متحد کرنا ہوگا۔ ہمارا مشن اتحاد و اتفاق پیدا کرنا، نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور نشے جیسے مسائل کے خلاف عوامی مہم شروع کرنا ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کی کوئی بات نہیں کرتا، لاکھوں خواتین دہاڑی کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں مگر انہیں بنیادی حقوق حاصل نہیں۔ ان کی آواز بلند کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کا نظام یکساں اور معیاری ہونا چاہیے، مگر پاکستان میں تعلیم بھی خریدی جاتی ہے۔ ہر بچے کو معیاری اور مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ عوام دہائیوں سے اپنے حقوق سے محروم ہیں، لیکن آنے والے دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے ہم درست سمت میں آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سوا کسی جماعت میں حقیقی جمہوریت نہیں، دیگر جماعتیں محض اقتدار کے لیے امریکا کے سامنے جھک جاتی ہیں اور انہیں جمہوری کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں خاندان یا وصیت کی بنیاد پر چل رہی ہیں، عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کچھ نہیں، جبکہ جماعت اسلامی میں امیر سے لے کر نچلی سطح تک مکمل انتخابی عمل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل کا اندازہ نہیں، انہیں نہیں معلوم گھر کی روزمرہ خریداری کتنے کی پڑتی ہے یا بجلی و گیس کے بل کتنے ہوتے ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ عوام کو ان لیڈروں کے دھوکوں سے بچنا ہوگا، نظام کو بدلنے کی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔
