ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان کی مبینہ جعلی تجربے کی حامل پرو وائس چانسلر و عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی ہدایات کے مطابق چیف سکیورٹی آفیسر عرفان حیدر نامی سینئر ڈپٹی رجسٹرار ایڈمن کی جانب سے نکالے گئے نوٹیفکیشن کے بعد چیف سکیورٹی آفیسر عرفان حیدر نے گارڈز کے ساتھ مل کر خواتین پروفیسرز اور ایڈمن سٹاف کے ساتھ بد تمیزی شروع کر دی۔ جس پر جب ٹیچرز اور سٹاف نے چیف سیکورٹی آفیسر کو شکایت کا بولا تو چیف سیکورٹی آفیسر عرفان حیدر کا کہنا تھا کہ ان کو عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ روز سابقہ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر شگفتہ حسین جو کہ یونیورسٹی کی واحد پروفیسر آف ایمریٹس کے عہدے پر فائز ہیں ان کو بھی لیٹ آنے کی پاداش میں عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی ہدایات کے مطابق یونیورسٹی کے مین گیٹ پر روک لیا گیا جس پر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ حسین نے معذرت کر کے اگلی بار ٹائم پر آنے کا وعدہ کیا تو ان کو اندر آنے دے دیا گیا اور ان کی ویڈیو ثبوت بمعہ درخواست عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو مہیا کر دی گئیں۔ اسی طرح ایڈمن آفیسر کامران رجوانہ کے ساتھ بھی گارڈز نے لیٹ آنے پر بد تمیزی کی تو کامران رجوانہ نے اپنی موٹر سائیکل مین گیٹ کے بیرئیر پر لگا دی کہ اگر مجھے اندر نہ جانے دیا تو کوئی بھی اندر نہیں جائے گا۔ جس پر مین گیٹ پر رش کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ بعد ازاں سینئر سٹاف کی مداخلت سے رفع دفع کر کے ایڈمن آفیسر کامران رجوانہ کو اندر جانے دیا گیا۔ اسی طرح ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی فی میل ٹیچر ڈاکٹر سعدیہ طالب کو 10 منٹ لیٹ آنے پر چیف سیکورٹی آفیسر نے کہا کہ آپ رکشے سے اتر جائیں ۔ 9 بجے کے بعد رکشہ اندر نہیں جائے گا۔ جس پر ڈاکٹر سعدیہ طالب کو سب سٹاف اور گارڈز کے سامنے نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا مگر چیف سیکورٹی آفیسر عرفان حیدر نے الٹا ان کی شکایت عارضی وائس چانسلر سے کر دی جس پر بد تمیزی کرنے والے چیف سیکورٹی آفیسر کے خلاف کاروائی کی بجائے عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے ڈاکٹر سعدیہ طالب کو ڈانٹ دیا۔ ایک ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ویڈیو بنائے جانے سے ہماری پرائیویسی خراب ہوتی ہے اور یونیورسٹی کی ایک خاتون ٹیچر چیف سیکورٹی آفیسر عرفان حیدر اور عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے خلاف workplace harassment کے تحت کاروائی کے لیے درخواست صوبائی محتسب کو بھجوا چکی ہیں۔ یاد رہے کہ چیف سیکورٹی آفیسر عرفان حیدر نے نکالے گئے نوٹیفکیشن میں اپنا عہدہ سینئرڈپٹی رجسٹرار تحریر کیا ہے جبکہ یونیورسٹی ایکٹ میں سینئر ڈپٹی رجسٹرار کا عہدہ موجود ہی نہ ہے۔ اور ان کی غیر قانونی تعیناتی پر آڈٹ پیرا بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سیکورٹی انچارج کے موبائل کے فرانزک کے دوران بہت سی ٹیچرز اور طالبات کی ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہو چکی ہیں۔ اس بارے میں موقف کے لیے جب خواتین یونیورسٹی ملتان کی پی آر او سے بات کی گئی اور ان سے پوچھا گیا کہ 1. ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے دی؟ 2. کیا ڈاکٹر کلثوم پراچہ بھی وقت 9 سے 3:30 کی پابندی کر رہی ہیں۔ 3. کیا خواتین پروفیسرز سے بد تمیزی کرنے والے چیف سیکورٹی آفیسر کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا؟ تو ان کا موقف تھا کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔انہوں نے واضح کیا کہ تدریسی و انتظامی ماحول کو شفاف رکھنے کے لیے یونیورسٹی موثر اقدامات کے مطابق کام کر رہی ہے۔ وقت کی پابندی کے حوالے سے بتایا گیا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ خود بھی اس اصول کی پابندی کرتی ہیں۔ وہ روزانہ صبح 9 بجے شعبہ اسلامیات میں تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں اور اس کے بعد وائس چانسلر آفس میں آ کر شام تک موجود رہتی ہیں تاکہ انتظامی معاملات کی براہِ راست نگرانی کر سکیں۔ یونیورسٹی میں خواتین پروفیسرز سے مبینہ بدسلوکی کے حوالے سے اٹھائے گئے سوال پر یونیورسٹی انتظامیہ نے مؤقف دیا کہ کسی بھی خاتون فیکلٹی ممبر کی جانب سے چیف سکیورٹی آفیسر کے خلاف کوئی تحریری شکایت موصول نہیں ہوئی ۔یونیورسٹی حکام کا کہنا ہے کہ ویمن یونیورسٹی تدریس کے ساتھ ساتھ ڈسپلن اور شفافیت کے اصولوں پر یقین رکھتی ہے اور ہر شکایت کو ضابطہ کار کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔ اس بارے میں موقف کے لیے جب چیف سیکورٹی آفیسر عرفان حیدر سے رابطہ کیا گیا اور پوچھا گیاآپ کو لیٹ آنے والی خواتین پروفیسرز کی ویڈیو ریکارڈنگ کی ہدایات کا اختیار کس نے دیا۔ یونیورسٹی میں سی سی ٹی وی کیمرے ہونے کے باوجود وائس چانسلر کی ہدایات کے بغیر خواتین پروفیسرز کی ویڈیو بنانا قانوناً جرم ہے تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی لیٹر اتھارٹی کی اجازت کے بغیر نہیں نکالا جا سکتا۔ کسی بھی لیٹ آ نے والی خواتین پروفیسر کی کوئی بھی ویڈیو نہیں بنائی گئی۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کی طرح ہماری یونیورسٹی میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ ان کیمراز کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں کیا جائے گا میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ یہ خبر بالکل غلط فراہم کی گئی ہے۔ تمام خواتین پروفیسر ہمارے لے انتہائی قابل احترام ہیں ۔اس طرح کا عمل کرنا تو کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
