ملتان (کورٹ رپورٹر) عدلیہ کی تاریخ میں ملتان کی عدالت اپنی نوعیت کا میں ایک انوکھا دعویٰ سامنے ایا ہے جس کے مطابق محمد یوسف ولد محمد افضل قوم لاشاری بلوچ نے 2 ستمبر 2025 کو سینئر سول جج ملتان منزہ عاصم کی عدالت میں ایک غیر معمولی استقرارِ حق (declaration) کا دعویٰ نادرا کے چیئرمین، ریجنل منیجر نادرا ملتان اور اپنے سابق شوہر مہران احمد خان کے خلاف دائر کیا ہے۔ یہ مقدمہ قانونی اور طبی حلقوں میں حیرت اور بحث کا مرکز بن گیا ہے۔دعویٰ کے متن کے مطابق محمد یوسف 1997 میں بطور خاتون پیدا ہوا، شادی کے بعد دو بیٹوں کی ماں بنا اور دونوں بیٹے بھی حیات ہیں اور اس کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہیں۔ محمد یوسف کے مطابق سال 2022 میں ان کے جسم میں حیرت انگیز جنیاتی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہوئیں جن کے نتیجے میں اس کے جسم سے زنانہ اوصاف قدرتی طور پر ختم اور مردانہ خصوصیات نمایاں ہونے لگیں۔ علاج معالجہ کی کوشش کے دوران صحت کی خرابی کے باعث علاج روک دیا گیا، مگر فطری عمل کے نتیجے میں نہ صرف داڑھی مونچھیں اگ آئیں بلکہ مردانہ اعضا اور مردانہ جنیاتی کروموسوم بھی مکمل طور پر ظاہر ہو گئے۔اس تبدیلی کے بعد مدعی نے اپنے خاوند مہران احمد خان (مدعا علیہ نمبر 3) سے علیحدگی اختیار کر لی اور بارہا مطالبہ کیا کہ نکاح نامہ منسوخ یا طلاقِ ثلاثہ دے کر اس کی شرعی و قانونی پہچان واضح کرائی جائے، مگر اس کا خاوند مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ دعویٰ کرنے والے کا کہنا ہے کہ میڈیکل رپورٹس میں ماہر ڈاکٹروں نے باقاعدہ تصدیق کر دی ہے کہ محمد یوسف اب عورت نہیں رہا بلکہ فطری طور پر مردانہ صفات کا حامل ہے۔ مدعی نے اس بنیاد پر نادرا حکام سے مردانہ جنس اور نئے نام کے ساتھ قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کی درخواست کی، لیکن نادرا کے چیئرمین اور ریجنل منیجر ملتان نے عدالتی ڈگری کے بغیر شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کر دیا تو نتیجتاً محمد یوسف نے عدالت سے استقرارِ حق کی استدعا کی ہے تاکہ اس کی نئی قانونی حیثیت بطور مرد تسلیم کی جا سکے اور شناختی کارڈ میں جنس اور نام کی تبدیلی ممکن ہو سکے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے دعوے صرف ذاتی شناخت کے لیے نہیں بلکہ نکاح، وراثت اور سرکاری ریکارڈ کی درستگی جیسے بنیادی قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کیے جاتے ہیں۔ عدالت سے استقرارِ حق کا فیصلہ شہری کو آئینی اور قانونی پہچان کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور مستقبل کے سماجی و قانونی مسائل سے بچاؤ کا ذریعہ بنتا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جس میں کوئی عورت بچے پیدا کرنے کے بعد مرد بن گیا ہو البتہ مغرب میں کئی مثالیں ہیں کہ ٹرنس مین (trans men) نے بچپن یا شادی کے بعد بچے پیدا کیے اور بعد میں جراحی یا ہارمون تھراپی کے ذریعے مردانہ جسمانی شناخت اختیار کی۔ مثال کے طور پر تھامس بیٹی (Thomas Beatie) امریکا میں میڈیا میں کافی مشہور ہوا؛ اس نے بطور خاتون بچے جنم دیے اور بعد میں قانونی و طبی طور پر مرد کے طور پر زندگی گزار رہا ہے۔ میڈیکل سائنس میں جینڈر ٹرانزیشن کے لیے ہارمون تھراپی (Hormone therapy) اور سرجری (Gender-affirming surgery) کے ذریعے جسمانی ساخت اور خصوصیات (جیسے آواز، جسم کے بال، چھاتی وغیرہ) بدلی جا سکتی ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ایک عورت میڈیکل سائنس کی مدد سے اپنی ظاہری اور قانونی شناخت مرد کے طور پر اختیار کر سکتی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے پہلے سے بچے ہوں۔ لیکن وہ حیاتیاتی طور پر مکمل طور پر مرد نہیں بن سکتی اور نئے بچوں کے لیے مرد کی طرح باپ بننے کی صلاحیت نہیں حاصل کر سکتی۔ اگر کسی عورت نے اپنی زندگی میں پہلے سے بچے پیدا کیے ہوں، تو یہ اس کے پیدائشی تولیدی نظام کے فعال ہونے کا ثبوت ہے۔ جینڈر ٹرانزیشن کے بعد بھی اس کا سابقہ ریکارڈ نہیں مٹتا، اس نے واقعی بطور عورت بچے پیدا کیے تھے۔ تبدیلی کے بعد وہ قانونی یا سماجی طور پر مرد کہلا سکتی ہے لیکن حیاتیاتی سطح پر اس کے بچے اسی وقت پیدا ہوئے جب وہ عورت تھی۔ وکلا کا موقف یہ ہے کہ ہم مدعی کی نیت یا کردار کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے، مگر عام طور پر ایسے معاملات میں لالچ یا ذاتی فائدے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ اب عدالت، شواہد اور مکمل حقائق دیکھ کر ہی فیصلہ صادر کرے گی۔
