سابق گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ نے 65 سال قبل 1960 میں غنڈہ ایکٹ نافذ کیا تب نہ تو دہشت گردی تھی نہ ہی جدید اسلحہ عام لوگوں کے پاس تھا، تب بڑے سے بڑا اسلحہ خنجر ہی ہوتا تھا اور نہ ہی آبادی اتنی زیادہ تھی مگر انہوں نے کمال کا کنٹرول کیا اور آج بھی لوگ انہیں یاد کرتے ہیں۔
آج دہشت گردی کا دور دورہ ہے لوگوں کے پاس جدید ترین اور مہلک ہتھیار ہیں، لاقانونیت انتہا پر ہے اور آبادی میں بے پناہ اضافہ۔ اس طرح کے حالات میں صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں بدمعاشوں، ڈکیتوں قاتلوں اور غنڈہ عناصر کو عملی طور پر نتھ ڈالنا ناقابل یقین ہے۔ اس حوالے سے میں نے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں سنگین نوعیت کے جرائم میں 40 سے 55 فیصد کمی آ چکی ہے۔ڈکیتیوں میں تو نمایاں کمی جبکہ ڈکیتی کے دوران ریپ کے کیسز تو عملاً ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر آج اس دور کا ملک امیر محمد خان کے دور گورنری سے مقابلہ کیا جائے تو بلا شبہ وزیراعلیٰ پنجاب اور سی سی ڈی کے سربراہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پاکستان میں کارکن صحافیوں، نمائندگان کی سب سے منظم اور بڑی صحافتی تنظیم کا صدر ہونے کے ناطے میرے پاس ملک بھر سے معلومات آتی رہتی ہیں اور پنجاب کے ہر ضلع، تحصیل حتیٰ کہ قصبے سے تعلق رکھنے والے میڈیا ورکرز بھی میرے رابطے میں رہتے ہیں جن سے میں گاہے بگاہے معلومات لیتا رہتا ہوں اور انہی معلومات کی روشنی میں مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ چند ہی ہفتوں میں خطرناک جرائم میں صوبہ بھر میں نصف کے لگ بھگ کمی آ چکی ہے جس کا کریڈٹ تو براہ راست سی سی ڈی کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ کو جاتا ہے مگر پنجاب بھر کے ضلعی پولیس سربراہان اور ان کا نان ٹیکنیکل میڈیا سیل اس کریڈٹ کو اپنے کھاتے میں ڈال کر حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھ رہا ہے۔ مجھے نمائندگان نے یہ بھی بتایا ہے بعض جگہوں پر سی سی ڈی اہلکاروں نے زیادتیاں بھی کی ہیں اور معمولی لڑائی جھگڑے میں ملوث افراد بھی اس کی بھینٹ چڑھا کر موت کے منہ میں اتار دیئے گئے ہیں ۔
اپنی 35 سالہ صحافتی زندگی میں باوجود اس کے کہ میں 27 سال میڈیا مینجمنٹ میں رہا اور میں روزنامہ جنگ کے ایک ٹرینی رپورٹر سے رب کریم کی عنایت سے اخبار چیف ایڈیٹر تک پہنچا مگر میں نے کبھی بھی رپورٹنگ نہیں چھوڑی، آج بھی خود خبر بناتا ہوں اسی لئے خبروں کے سورسز سے رابطے میں رہتا ہوں۔ انسانی رویوں کے ایک طالب علم کے طور پر میں یہ سمجھا کرتا تھا کہ سماج دشمن عناصر، قاتل،غنڈے اور ڈکیت ضرورت سے زیادہ حوصلے والے اور دلیری ہوتے ہیں اسی لئے عمومی طور پر میرا بنیادی سوال یہی ہوتا ہے مگر محترم شوکت جاوید، محترم حاجی حبیب الرحمان، محترم میاں جاوید اسلام، میرے بھائیوں جیسے دوست ایوب قریشی حتیٰ کہ کمانڈر منیر چشتی کا ہمیشہ ہی موقف مجھ سے مختلف رہا اور وہ کہا کرتے تھے کہ ڈاکو، غنڈے اور بدمعاش ہمیشہ بزدل ہوتے ہیں۔ کچھ اس سے کہیں بڑھ کر سخت قسم کا موقف سہیل ظفر چٹھہ کا ہوتا تھا جب میری ان سے رحیم یار خان میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ البتہ مبارک اطہر چوہدری صاحب کا موقف ذرا مختلف ہوتا تھا اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ان سماج دشمن عناصر میں سے 80 فیصد کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے مگر اس صورت میں کہ ان کے سہولت کار ان کو پناہ دینا اور انکی پیروی کرنا چھوڑ دیں۔
اپنی معلومات کی روشنی میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ جب اوباش عناصر، ڈکیتوں اور غنڈوں کو کسی کی پشت پناہی یا سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے تو پھر وہ کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیںمگر گزشتہ دو ماہ میں ساری تھیوریاں تلپٹ ہو گئیں کہ ابھی تک سہولت کاروں پر صحیح طریقے سے ہاتھ بھی نہیں ڈالا گیا اور ڈکیتی کی وارداتوں میںبہت حد تک کمی آ گئی جب کہ ڈکیتی کے دوران ریپ کیسز تو بالکل ہی ختم ہو چکے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ میں رات کے اندھیرے میں پولیس مقابلوں کے سخت خلاف ہوا کرتا تھا اور ہر پولیس مقابلے کے بعد اس کی تکنیکی کمزوریوں پر لکھتا اور ثابت کرنے میں لگا رہتا کہ پولیس نے بندہ گرفتار کرکے مارا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تو ہوتا نہیں تھا صرف اخبارات ہی معلومات کی فراہمی کا واحد مستند ذریعہ گردانے جاتےتھے۔
مجھے یاد ہے کہ لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ڈکیتی کی ایک کال چلی تو میں اپنے کرائم رپورٹر عارف حسین کے ہمراہ موقع پر پہنچ گیا کیونکہ اس دور میں سپاٹ کوریج لازم ہوتی تھی آج کی طرح واٹس ایپ پر معلومات نہیں لی جاتی تھیں۔ وہ ایک معروف آدمی کا گھر تھا، پولیس شواہد اکٹھے کر رہی تھی کہ باہر سے ایک کانسٹیبل لیڈیز شلوار اٹھا کر لے آیا تو گھر والے جس بات کو چھپا رہے تھے وہ عیاں ہو گئی کہ ڈکیتی کے دوران خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ گھر کا مالک منتیں کرنے لگا کہ اس کی خبر نہ چھاپیں جو کہ ویسے بھی شائع نہیں ہونا تھی۔ ان دنوں لاہور میں چند ہی ہفتوں میں اس قسم کی کئی وارداتیں منظر عام پر آ چکی تھیں جن میں اچھے اچھے گھروں میں ڈکیتی کے دوران خواتین کی بے حرمتی بھی کی گئی تھی۔ میں نے چونکہ موقع دیکھ رکھا تھا اس لئے مجھے اس کیس میں دلچسپی تھی۔ انہی دنوں غالباً نواں کوٹ کے ایک ڈی ایس پی کو یاد آیا کہ 13، 14 سال قبل جب وہ سب انسپکٹر تھے تو انہوں نے نواں کوٹ کے علاقے سید پور سے سفاک ڈاکوؤں کا ایک گروہ گرفتار کرکے جیل بھجوایا تھا جو ڈکیتی کے دوران ریپ کرتا تھا۔ وہ اگلے ہی روز جب کیمپ جیل گئے اور ریکارڈ چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ چار ماہ قبل 13 سال قید کاٹ کر رہائی پا چکے ہیں۔ مذکورہ ڈی ایس پی نے فوری طور پر سید پور میں ریڈ کیا اور ایک ڈاکو دودھ دہی کی دکان کے باہر ہی بیٹھا ہوا پکڑا گیا اور پھر اس نے باقیوں کو بھی پکڑوا دیا۔ قصہ مختصر کے وہ جیل نہیں گئے بس سیدھا اوپر بھیج دیئے گئے اور میں ان کے اوپر بھیجے جانے سے بہت مطمئن تھا کہ جو درندے 13 سال جیل کاٹ کر بھی راہ راست پر نہ آئے اور رہائی پاتے ہی وہی ظلم دوبارہ شروع کر دیا تو ایسے غنڈوں کا علاج موت کے علاوہ کچھ نہیں۔ پنجاب پولیس ڈکیتی کے دوران ریپ کے معاملے میں اتنی سخت کیوں ہے اس کے درجنوں اذیت ناک واقعات تو میرے علم میں بھی ہیں۔ حاجی حبیب الرحمان ایس ایس پی لاہور تھے تو انہی دنوں رائیونڈ کے علاقے میں ایک تاجر کی اکلوتی بیٹی کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔ قاتل پکڑے گئے جو اسی گھر کے نوکر تھے۔ جس ڈاکٹر نے اس بچی کا پوسٹ مارٹم کیا تو اس نے بتایا کہ بچی کی 206 میں سے 106 ہڈیاں ایسے ٹوٹی ہوئی تھی جیسے دو بندوں نے پکڑ کر اسے معصوم کو نچوڑا ہو اور ڈاکٹر صاحب مجھے یہ سب بتاتے ہوئے زار و قطار ہونے لگے۔ میں نے اس صورتحال سے حاجی صاحب کو اگاہ کیا۔ اگلے روز مجھے حاجی حبیب الرحمٰن نے فون کرکے کہا کہ آپ تھانہ رائیونڈ چلے جائیں اور ملزمان سے مل لیں، میں نے ایس ایچ او سے کہہ دیا ہے۔ میں نے تھانہ رائیونڈ کی حوالات میں ملزمان سے صرف ایک سوال کیا کہ آپ نے یہ ظلم کیوں کیا تو ان کا جواب تھا کہ بس ایک فحش فلم دیکھ لی تھی پھر برداشت نہیں ہوا۔ اسی رات وہ دونوں اگلے جہان بھجوا دیئے گئے تو حاجی حبیب الرحمٰن نے ایک انسپکٹر نور حسن اور پولیس گارد کو ہمارے سپرد کیا اور ہم لوگوں نے اخبار کے پلیٹ فارم سے لاہور شہر میں فحش فلموں کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں فحش فلمیں ایس ایس پی آفس کے سامنے جلائی جاتی تھیں۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہا اور پھر اس کا دائرہ کار پورے پنجاب میں پھیلا دیا گیا۔ ویڈیو شاپس میں اتنا خوف تھا کہ 20 روپے کرائے والی فلم کوئی 500 روپے پر بھی دینے کو تیار نہ تھا۔ اسی طرح کے متعدد واقعات ہیں جن پر پھر کبھی لکھوں گا لیکن میں وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور سی سی ڈی کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ کی موجودہ پالیسی سے پوری طرح متفق ہوں کیونکہ میں نے جو معلومات لی ہیں ان کے مطابق لودھراں، کہروڑ پکا، وہاڑی خانیوال، بہاولپور، بورے والا، میلسی حتیٰ کہ رحیم یار خان میں بھی ریپ کی وارداتیں تو مکمل ختم ہو چکی ہیں اور ڈکیتیوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ قصبوں کو جانے والی وہ سڑکیں جو نماز مغرب کے بعد ہی ڈاکوؤں کے تسلط میں آ جاتی تھیں اور وہاں سے گزرنے والا کوئی بھی ڈاکوؤں سے محفوظ نہیں تھا اب مکمل طور پر محفوظ ہیں اور معلوم ہی نہیں پڑتا کہ ڈاکو گئے کہاں۔ مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ فیصل آباد کا ایک بدمعاش ان دنوں ملتان میں ایک ڈیرے پر پناہ لئے ہوئے ہے اور اس پناہ کے عوض وہ جانوروں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس کی مونچھیں چھوٹی اور داڑھی بڑھ چکی ہے۔ جو کبھی مونچھوں کو تاؤ دے کر اکڑا پھرتا تھا آج اس کی گردن جھکی ہوئی ہے اور خوف کے مارے اسے نیند بھی نہیں آتی کیونکہ اس کے ساتھی مارے جا چکے ہیں۔ کہروڑ پکا سے مجھے اشرف سعیدی صاحب نے بتایا کہ بہت زیادہ امن ہو چکا ہے اور ڈکیت نہ جانے کہاں غائب ہیں۔ البتہ بعض ڈیرے دار اب بھی انہیں پناہ دیتے ہیں یہی رپورٹس مجھے کوٹ ادو، جھنگ ،فیصل آباد، چیچہ وطنی، ساہیوال اور قصور سے موصول ہوئی ہیں۔ اب تو مساجد میں معافیاں مانگی جا رہی ہیں۔ چند ہفتوں پہلے تک جو ہاتھ دوسروں پر اٹھائے جاتے تھے اب وہی ہاتھ دوسروں کے سامنے باندھے جا رہے ہیں اور میں اس تمام کاوش پر وزیراعلیٰ پنجاب اور سی سی ڈی کے سربراہ سمیت تمام ضلعی ذمہ داران کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر جو دوست اس کے خلاف لکھ رہے ہیں اور اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، میں ان سے دست بستہ درخواست کروں گا کہ وقت نکال کر ایسے گھروں میں جائیں جہاں ڈکیتیاں ہوئی ہیں اور پھر جہاں خواتین کی بے حرمتی بھی ہوئی۔ کئی کئی سال گزرنے کے باوجود پتہ بھی گرے تو وہ مارے خوف کے اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ جا کر ان سے ملیں اور ان کے حالات دیکھیں، مجھے یقین ہے کہ آپ لرزتے قدموں اور ڈبڈباتی آنکھوں سے واپس آئیں گے۔
