آج کی تاریخ

پولس نوں آکھاں آدم خور نے فیدہ کی

تحریر:میاں غفار

قیام پاکستان کے فوری بعد اس نوزائیدہ پاکستان میں پہلا مقدمہ قائداعظم محمد علی جناح اور نواب لیاقت علی خان پر قاتلانہ حملے کی کوشش کا اس وقت درج ہوا تھا جب ایک ’’معمولی‘‘ سرکاری ملازم نے پہلی صف میں کھڑے ہو کر قیام پاکستان پر شکرانے کے نوافل ادا کرنے کی ضد کی تھی اور اسے قائداعظم کی آمد سے پہلے ہی اٹھا لیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ بدین کے معمولی سرکاری اہلکار پر 18 اگست 1947 کو درج ہوا اور اس میں اسے سزا ہوئی۔ پھر کہا جاتا ہے کہ فیض احمد فیض کی کوششوں سے وہ رہا ہوا اور مرتے دم تک گرفتاری سے قبل کا یہ پابند صوم و صلوۃ عقیدے کے اعتبار سے کنفیوز ہو کر دنیا سے گیا۔ پولیس کے نت نئے مظالم کی کہانیاں کوئی نئی نہیں۔ بطور اخبار نویس ایسے ایسے واقعات سے آگاہ ہوں کہ یہ وردی والے کیا کچھ کرتے ہیں کہ اتنا زہریلا سچ شائد ہی کسی کو ہضم ہو سکے۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مشہور پنجابی مزاحیہ شاعر بابا عبیر ابوزری کا ایک مشہور قطعہ کچھ یوں ہے
پولس نوں آکھاں رشوت خور نے فیدہ کی
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی
جھاڑو نال بنا دین مور تے فیدہ کی
بو تھی ہو جائے ہور دی ہور تے فیدہ کی
آج اگر بابا عبیر زندہ ہوتے تو ان کا یہی قطعہ کچھ اس طرح سے ہوتا
پولیس نوں آکھاں آدم خور نے فیدہ کی
ہڈیاں ساریاں دیون توڑ تے فیدہ کی
قتلوں بعد بنا دین چور تے فیدہ کی
کہانی گھڑ لین ہور دی ہور تے فیدہ کی
پنجاب پولیس کی یہی غیر تحریر شدہ پالیسی ہے کہ عوام میں سے اگر کوئی جرم کرے تو اس جرم کو دس سے ضرب دے کر اس پر لاگو کر دو اور چند نامعلوم مقدمات میں بھی اس کو رکھ لو تاہم اگر کوئی پولیس والا خواہ کتنا ہی قبیح یا گھنائونا جرم کر دے اور اس جرم پر مقدمہ درج کرنے کی بہت مجبوری ہو تو جرم کو دس پر تقسیم کرکے اس کے خلاف کارروائی کرو پھر چند ماہ بعد مدعیان کا جینا حرام کر دو کہ وہ صلح پر مجبور ہو جائیں اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کریں۔
نیو ملتان میں ناکے پر کھڑے نامعلوم باوردی پولیس والوں کی فائرنگ سے دو نوجوان قتل کر دیئے گئے کہ مقدمہ نامعلوم کے خلاف درج ہوا۔ مقتولین میں سے ایک تو پابند صوم و صلوۃ تھا اور دس روز اعتکاف سے اٹھ کر عید منا رہا تھا شاید اسے اعتکاف کا براہ راست اجر لینے اوپر بھیج دیا گیا۔میرے علم میں نہیں کہ مذکورہ ناکے کا ایس ایچ او کون تھا تاہم یقینی طور پر کہ سکتا ہوں کہ مذکورہ ایس ایچ او ‘ ڈی ایس پی‘ ایس پی، سی پی او اور دیگر حکام لازمی طور پر شریک جرم نہ تھے مگر معلوم کو نامعلوم کرکے از خود شریک جرم بن گئے۔ کتنا شوق ہے ان کو ناکردہ گناہ اپنے سر لینے کا اور کسی دوسرے کے جرم کی ’’نیاز‘‘ بطور تبرک آپس میں تقسیم کرنے کا۔قرآن مجید کا ترجمہ پڑھیں تو سینکڑوں مقامات ایسے آتے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جسم میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ جب اعمال نامے انسان کے سامنےلائے جائیں گے تو 50 ہزار سال پر مشتمل یوم حساب میں دنیاوی زندگی کے ایک دن کا حساب جو ھساب کرکے تقریباً سوا چھ سو دنوں پر مکمل ہو گا، اپنے اعمال نامے دیکھ کر لوگ کہیں گے، یہ کیا؟ یہ تو میں نے کیا ہی نہیں۔یہ کیا کیا لکھا ہے میرے کھاتے میں ۔ کیا کچھ تحریر ہے اس میں پھر جب انڈکس کھول کر تفصیل میں جائیں گے تو علم ہوگا یہ جرائم تو ہم سے سرزد ہی نہ ہوئے تھے تب یہ عقدہ کھلے گا کہ ہاں مگر ہم نے سرپرستی کی تھی، ہم نے تحفظ دیا تھا۔ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔ میرٹ کو مفاد کے بھاری بوجھ تلے دبائے رکھا تھا۔ اف میرے اللہ یونیفارم کے تکبر نے سوچنے ہی نہ دیا کہ قبریں جا دیکھیں تو پھر قرآن مجید کی صورت التکاثر کا مفہوم سمجھ آئے گا مگر وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھومتا کہ کھاتہ تو بند ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں