آج کی تاریخ

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

Let him die in the chair

کار جہاں (میاں غفار) ساتویں قسط

این ایف سی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر علی ملک کالرو سے میری کوئی ذاتی لڑائی نہیں مگر بعض لوگوں کا تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑتی اور ایسے لوگوں پر اعلیٰ ترین تعلیم سے زیادہ اثر ان کی ابتدائی تربیت اور ماحول کا ہوتا ہے جسے وہ ساری زندگی نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی کوشش کرتے ہیں اور ڈاکٹر کالرو بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے ہیں جس کا اعلی تعلیم، عہدے اور تبدیل شدہ ماحول نے کچھ بھی نہیں بگاڑا۔ شیخ سعدی شیرازی کا قول ہے کہ بعض لوگوں پر تربیت بھی اثر نہیں کرتی بلکہ ان کی تربیت پر زندگی بھر جبلت حاوی رہتی ہے۔
ہم نبی پاک کی زندگی کو ہی دیکھ لیں جسے خود نبی پاک نے ہمارے لیے نمونیہ قرار دیا۔ اور رول ماڈل کا کسی بھی انسان کے لئے اس دنیا میں اگر کوئی واحد پیمانہ ہے تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہی ہے کہ جن کی تعلیم تو نہیں تھی بلکہ صرف اور صرف تربیت تھی۔ ویسے بھی ایسی اس دنیا میں کوئی ایسی شخصیت کوئی ہو ہی نہیں سکتی جسے نبی کریم کا استاد ہونے کا درجہ مل سکتا اس لیے تو نبی پاک خود کو امی کہتے تھے۔ اب تعلیم تو نبی پاک کے پاس نہ تھی مگر حیات طیبہ پر غور فرمائیں تو 63 سالہ زندگی میں 40 سال یعنی تقریباً دو گنا یا زندگی کے دو حصے تربیت اور ایک حصہ عمل درآمد اور نتیجہ یہ کہ 23 سالوں میں نبی کریم نے 40 سالہ تربیت کے بل پر دنیا کو بدل کر رکھ دیا اور اعلیٰ ترین اخلاق کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا کے لیے قیامت تک مشعل راہ ہیں۔
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے پیدائشی طور پر بہت سے اوصاف کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں اور کدورتیں لے کر پیدا ہوا تاہم نبی پاک کی زندگی میں 2 مرتبہ ان کے دل مبارک کو آب زمزم سے دھویا گیا اور اس مکمل صفائی نے انسانی جبلت کی تمام کمزوریوں کو گویا دھو کر نکالا اور نبی کریم کے دل مبارک کو پاک اور صاف کر دیا گیا۔ یہ اعلیٰ ترین عمل صرف نبی پاک ہی کے ساتھ کیا گیا۔ اب نبی پاک کے اعلان نبوت سے لے کر قیامت تک یہ حضرت انسان پر چھوڑ دیا گیا کہ اپنے اوپر مثبت تعمیری ، غریب پروری اور کمزوروں پر رحم کے احساسات اور جذبات کو اپناتا ہے یا پھر بنی نوع انسان کے لیے مسائل ازیتوں اور رکاوٹوں کا سبب بنتا ہے۔ یہی ہر انسان کا امتحان ہے۔ کاش ہم قرآن مجید کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھ لیں۔ جس کی آج کے دور میں شاید دو چار فیصد لوگوں کو بھی توفیق نہیں ہوئی ۔ قرآن مجید کے ترجمے سے ایک بات تو عیاں ہوتی ہے کہ اس اعلی ترین کتاب میں معاشرتی بہتری، دوسروں سے حسن سلوک، سماجی اخلاقی معاشرتی رہنمائی ہی غالب نظر آتی ہے ۔
بد قسمتی سے ڈاکٹر کالرو نے دوسری قسم کی جبلتیں اپنے اوپر طاری کر لیں اور موصوف کمزور ماتحتوں کے لیے 12 سال سے ایک عذاب کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں جس طرح 4 حلقے کھولنے کی بات پوری حکومت کو لے ڈوبی تھی۔ اس طرح صرف 4 سوالات کے جوابات مانگنے پر ڈاکٹر کالرو آپے سے اتنے باہر ہوئے کہ علمی اخلاقیات سے باہر نکل کر انہوں نے پنجابی فلمی کریکٹر کا روپ دھار لیا اور قلم کو ایک طرف رکھ کر گنڈاسا نکال لیا۔ جی ہاں وہی گنڈاسا جو دریا کے کناروں پر آباد قدیمی اقوام کا پسندیدہ ہتھیار ہے۔ وہ قلم کے ہتھیار کا مقابلہ مال، پانی اور دھونس کے ہتھیار سے کرنے لگے جو کہ جائز بھی اور مبینہ طور پر ناجائز بھی ان کے پاس وافر ہے۔
میرے 4 سوال کچھ اس طرح سے تھے۔
1۔ اگر آپ کے پاس امریکی یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے تو پھر یہ ڈگری بھی متعلقہ یونیورسٹی اور متعلقہ ریکارڈ پر کیوں موجود نہیں؟
2۔ گزشتہ 7 سال سے یعنی 2017 سے آپ کس حیثیت سے وائس چانسلر این ایف سی یونیورسٹی ملتان کی آسامی پر قابض ہیں؟
3۔ اگر آپ کے پاس کوئی عدالتی حکم نامہ ہے تو دکھا دیں۔ اور اگر کسی بھی متعلقہ ادارے ، محکمہ تعلیم یا صدر مملکت کی جانب سے آپ کو 2017 سے تا دم تحریر کوئی توسیعی خط جاری ہوا ہے تو وہ ہمیں دکھائیں نہ دکھائیں متعلقہ شعبوں اور محکموں کو تو دکھا دیں؟
4۔ بطور وائس چانسلر 2017 کے بعد آپ کے تمام تر احکامات، تنخواہوں کا حصول، آپ کی طرف سے سینڈیکیٹ ممبران کی تقرری، تمام انتظامی عہدوں پر قائم مقام تعیناتیاں جو کہ صرف 6 ماہ کے لیے ہوتی ہیں وہ کیسے آپ کے زیر سایہ دس دس سال سے مسلسل چل رہی ہیں ۔ آپ کس حیثیت سے گزشتہ 7 سال سے وائس چانسلر کے معزز عہدے پر بیٹھ کر یونیورسٹی کو پرچون کی دکان کی طرح چلا رہے ہیں اور کیسے کسی بھی قسم کا جائز حق مانگنے والے اساتذہ پر ہراسمنٹ کے جھوٹے مقدمات درج کرا رہے ہیں ۔
میرے معزز پڑھنے والے، ان سوالات کو پڑھ کر مجھے صرف یہ بتائیں اور رہنمائی فرمائیں کہ میں نے روزنامہ قوم کے پلیٹ فارم سے کونسا سوال غلط کیا اور وائس چانسلر چونکہ ایک معزز اور تعظیمی عہدہ ہے تو ایسے عہدے پر بیٹھے شخص کو ان امور بارے زیادہ محتاط ہونا چاہیے اور ان سوالات کا جواب جبلت کی روشنی میں نہیں بلکہ حقیقت کے تناظر میں دیے جانے چاہئیں ۔
میری طرح ڈاکٹر اختر کالرو بھی زندگی کے وقت عصر کو گزار کر اپنے سائے اچھے خاصے لمبے کروا چکے ہیں بس اتنی سی گزارش ہے کہ دن میں دو چار مرتبہ قرآن مجید کی صورت التکاثر کا ترجمہ اور تشریح پڑھ لیا کریں۔ بعض اوقات ہمارا کیا دھرا ہماری اولاد اور ہماری نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے میں اپنی تین دہائیوں پر مشتمل صحافتی زندگی کے مشاہدات اور ازخود دیکھے واقعات کی روشنی میں اس طرح کی درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں ۔ ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے مگر سانحہ بہاولنگر پر لکھنا ہے۔ اس لیے کالموں کی اس سیریز کے عنوان کی تشریح پر فی الحال اس سلسلے کو روک رہا ہوں۔
ذوالفقار علی بھٹو بہت ذہین اور فطین حکمران تھے ان کا مطالعہ بھی بہت اعلیٰ پائے کا تھا اور انگریزی پر عبور اس سے بھی کہیں بڑھ کر۔ جب بھٹو وزیراعظم تھے تو سندھ سے چند اراکین قومی اسمبلی ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر کے سفارشی بن کر ان کی ملازمت میں توسیع کے لیے ان کے پاس گئے اور مزکورہ آفیسر کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کی سفارش کی ۔ بھٹو نے درخواست منظور کرتے ہوئے ایک سال کی توسیع دے دی ۔ سال گزرا تو قومی اسمبلی کے وہی اراکین دوبارہ بھٹو مرحوم کے پاس اسی آفیسر کی ملازمت میں مزید توسیع کی درخواست لے آئے تو بھٹو نے درخواست پر توسیع کے لیے ایسا جملہ لکھا کہ مذکورہ آفیسر شرم کے مارے خود ہی ریٹائرمنٹ لے گئے ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب شرم وحیا ، بھرم اور اخلاقیات سرکاری مشینری میں بہت حد تک ذندہ تھیں۔ اب تو ان جملہ خواص کی ہر طرف موت ہی موت اور زوال یہ زوال ہے۔ بھٹو نے فائل پر جو جملہ لکھا تھا وہ کچھ یوں تھا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں