آج کی تاریخ

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

Let him die in the chair

(چھٹی قسط)کارجہاں۔ میاں غفار احمد۔

این ایف سی یونیورسٹی کے وی سی آفس میں دو گھنٹوں پر محیط انٹرویو کے دوران جب وائس چانسلر ڈاکٹر کالرو صاحب کا اردلی چائے اور کچھ بیکری کا سامان لے کر کمرے میں داخل ہوا تو ڈاکٹر اختر علی کالرو نے جن الفاظ میں اس کی گوشمائی کی اور جس قسم کے الفاظ کا چنائو کیا وہ کم از کم ایک علمی ادبی شخصیت اور خاص طور پر وائس چانسلر جیسے طیب عہدے کے شایان شان نہ تھے۔ تعلیم اور کچھ سکھائے نہ سکھائے، مگر نشت و برخاست خفظ و مراتب اور انداز تکلم کے حوالے سے انسان کو پالش ضرور کر دیتی ہے ۔ ڈاکٹر کالرو کا معاملہ تو ان کے دعوے کے مطابق وہ امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لیڈ کے پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ میں چشم تصور میں ڈاکٹر کالرو کا نقابلی جائزہ ان پروفیسر حضرات سے کرنے لگا جنہوں نے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ خود میرے اپنے گھر میں میرا بھائی کینیڈا کی یارک یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی سکالر ہے اور میرے بھائی نے یارک یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی کر رکھی ہے جبکہ میری بہن نے بھی پی ایچ ڈی کے بعد اسی کئنیڈین یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ میں متعدد ایسے پروفیسر ڈاکٹر حضرات سے رابطے میں ہوں جو فارن کوالیفائیڈ ہیں مگر ڈاکٹر اختر کالرو کی غیر ملکی تعلیم مجھے زرا “وکھری ٹائپ‘‘ کی لگی اور ذہن میں سوال اُٹھنے لگے کہ کہیں یہاں بھی وہی ایف ایس سی والا معاملہ تو نہیں کہ ایک ہی نام والا بندہ ڈاکٹر بن رہا ہے اور اس نام اور ولدیت والا ایڈیشنل میتھ کا امتحان دے کر انجینئر بن رہا تھا اور پھر دونوں نے بہت عزت سے اپنی اپنی فیلڈ میں نوکری کی اور باعزت ریٹائرمنٹ بھی پائی۔
یہ بات میں پچھلے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ شیخ سعدی شیرازی کہتے ہیں کہ جب تک کوئی آدمی بات نہیں کرتا اس کے عیب و ہنر، خوبیاں اور خامیاں چھپی رہتی ہیں اور ان کی یہ بات سو نہیں بلکہ دس ہزار فیصد درست ہے کہ بندہ بول پڑے تو وہ اندر سے کھل کر سامنے آ جاتا ہے، بس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان ہونے چاہیں، دو گھنٹے کے بے ربط انٹرویو ، سوال جو اور جواب چنا کے ماحول نے مجھے الجھا کر رکھ دیا کہ کسی اعلیٰ پائے کی غیر ملکی اور خصوصی طور پر امریکی یونیورسٹی کے سکالر اس طرح سے ہوتے تو نہیں۔ ہم تینوں کو بہت اچھے طریقے سے رخصت کرنے کے لئے لابی میں ڈاکٹر کالرو جب تشریف لائے تو وہاں بھی انہوں نے عملے کو بغیر کسی معقول وجہ کے ڈانٹ پلا دی۔ واپسی پر محترمہ گلناز نواب صاحبہ کہنے لگیں کہ انٹرویو سمجھ نہیں آیا۔ وہ کیا کہنا چاہتے تھے شاید انہیں خود بھی علم نہ تھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اردو لکھنے اور اردو زبان بارے معلومات رکھنے کے حوالے سے میڈم گلناز کی گرفت مجھ سے کہیں زیادہ بہتر ہے حالانکہ وہ مجھ سے بہت ہی چھوٹی ہیں مگر ان کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں نوائے وقت لاہور میں آفاقی صاحب جیسے قد آور میگزین ایڈیٹر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں خود بھی اپنے بہت سے کالموں میں ان سے اصلاح لیتا تھا۔ گلناز نواب صاحبہ کہنے لگی سر دو گھنٹے کی اس تشت میں انہوں نے کام کی تو کوئی بات نہیں کی البتہ یہ دو کلو مطبوعہ کاغذات کا پلندہ تھما دیا ہے ان کی باتوں سے انٹرویو کیسے لکھا جائے گا۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر کالرو کی شدید خواہش پر یہ انٹرویو کیا ہے اور مجھے بھی پورا اندازہ ہے کہ انہوں نے کوئی رہنمائی والی یا کوئی انتظامی پالیسی کے حوالے بات ہی نہیں کی اور کوئی بھی وژن کا حامل ایک جملہ دو گھنٹے کی نشست میں ان کے منہ سے نہیں نکلا۔ میں چشم تصور میں ان کا مقابلہ ڈاکٹر رفیق احمد، ڈاکٹر منیر الدین چغتائی، ڈاکٹر مجاہد کامران ، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چوہدری، ڈاکٹر محمد آصف رائو اور ڈاکٹر خواجہ القمہ جیسے وائس چانسلروں سے کرتا رہا تو یہ تو مقابلے ہی میں نظر نہیں آ رہے تھے بہرحال بمشکل کھینچ تان کر نوائے وقت کیلئے سفارشی انٹرویو تیار ہو گیا جس میں ڈاکٹر کالرو کا کردار شاید 10 فیصد جبکہ نوائے وقت ملتان کی سابقہ میگزین ایڈیٹر محترمہ گلناز نواب صاحبہ اور ایجوکیشن رپورٹر بخاری صاحب کا کردار 90 فیصد تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی طرف سے فراہم کردہ دو کلو سے زائد کاغذات کے پلندے سے کچھ نہ کچھ نکال ہی لیا۔
میں نے اپنی صحافتی زندگی کے ابتدائی سالوں ہی میں طویل عرصہ قومی اخبارات کا اسٹیشن ہیڈ اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہنے کے باوجود رپورٹنگ اور خصوصی طور پر تحقیقاتی رپورٹنگ کو جاری رکھا۔ اب میری سوئی ڈاکٹر اختر علی یعنی پروفیسر ڈاکٹر محمد اختر کالرو کی امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ سے جاری کردہ پی ایچ ڈی کی ڈگری پر آ کر رک گئی میں نے زکریا یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج جہاں ڈاکٹر صاحب کئی سال پرنسپل رہے، کا ریکارڈ اپنے ذرائع سے چیک کرایا ڈاکٹر کالرو کی نہ تو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی نہ ہی ڈگری کی فوٹو کاپی ملی اور نہ ہی رجسٹرار آفس سے مجھے ڈگری کی کوئی کاپی یا ثبوت مل سکے حالانکہ ان کی پروفائل میں اس ڈگری کی موجودگی لازمی تھی۔ میں اس لئے بھی کنفیوژن کا شکار ہوں کہ پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے پی ایچ ڈی سکالر موجود ہیں جن کے نام کے ساتھ تو داکٹر لکھا ہوا ہوتا ہے مگر ان کے ریسرچ پیپرز غائب ہوتے ہیں اور کسی بھی ریکارڈ پر موجود نہیں ہوتے جی ہاں وہی ریسرچ پیپرز کہ جن کی بنیاد پر ان کے ناموں کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتا ہے اور ایسی مثالیں پاکستان کی سب سے قدیم اور تاریخی پنجاب یونیورسٹی می بھی موجود ہیں ( جاری ہے )

شیئر کریں

:مزید خبریں