(قسط 2 )کار جہاں میاں غفار
ڈاکٹر رفیق احمد نے درجنوں صفحات پر مشتمل تقریباً دس سال پرانی فائل کا مطالعہ شروع کیا تو عقدہ کھلا کہ یونیورسٹی کا ایک ملازم فوت ہو گیا تھا تو پنجاب یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن کی طرف سے مرحوم کی قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں تھیں جن کا بل 600 روپیہ ادا کرنے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ کو ایسوسی ایشن کی طرف سے درخواست دائر کر دی گئی۔ اکاونٹس سیکشن کا اعتراض لگا کہ ایسی کوئی مثال موجود نہیں لہٰذا یہ رقم نہیں دی جا سکتی۔ درخواست گزار جو کہ خود بھی اکائونٹس برانچ میں تھا‘ نے ریفرنس نکال کر دوبارہ 600 روپے ادا کرنے کیلئے درخواست دے دی اور پھر خیر سے کام چل نکلا۔ درخواست گزار تو شاید بھول گیا مگر فائل چلتی رہی اور حیران کن طور پر چار مرتبہ وائس چانسلر کے دفتر کا بھی دیدار کرکے واپس آ گئی۔ ڈاکٹر رفیق احمد پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو انہیں بھی وہی فائل بھیجی گئی ڈاکٹر صاحب نے چند دن بعد پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں یونیورسٹی کے تمام سٹاف اور اساتذہ کرام کو جمع کیا۔ فائل کی ساری کہانی سنائی اور اپنی جیب سے 600 نکال کر کہا کہ اسے جمع کرا دیں مگر مجھے افسوس اس بات ہے کہ اس فائل پر اعتراض در اعتراض اور نوٹنگ ڈرافٹنگ پر یونیورسٹی ملازمین کے سینکڑوں گھنٹے ضائع ہوئے وہ یونیورسٹی کو لاکھوں میں پڑے ہوں گے اس کا کون جواب دے گا۔ ڈاکٹر رفیق ماہر معاشیات تھے۔ کیا ہی خوبصورت انداز میں انہوں نے یونیورسٹی ملازمین کو وقت کی اہمیت اور ریڈ ٹیپ ازم بارے بتایا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں اور پھر صاحب بصیرت لوگوں کا سوچنے کا انداز بھی مثبت اور مختلف ہی ہوا کرتا ہے۔
وائس چانسلر حضرات کی باتیں یاد آنے لگیں تو مجھے یہ سطور لکھتے ہوئے ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری کی یاد بہت ستا رہی ہے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ پروفیسر ڈاکٹر رائو محمد آصف کی طرح وہ بھی سرزمین خانیوال ہی کے سپوت تھے۔ 14 اگست کی ایک شام میں پروفیسر خواجہ القمہ کے ہمراہ ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری صاحب کی سرکاری رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کیلئے گیا۔ قیام پاکستان اور احوال پاکستان کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ القمہ نے بہت ہی خوبصورت تقابلی جائزہ پیش کیا تو اچانک ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری کی ہچکی بندھ گئی اور باوجود ضبط کی پوری کوشش کے وہ اپنے آنسو نہ روک سکے۔ کہنے لگے قیام پاکستان کی ایک نشانی ہر وقت میرے گھر میں دنیا جہاں سے بے خبر میری ذہنی معذور بہن ہے جو میرے پاس ہی ہوتی ہے۔
بمشکل اپنے آنسو روکتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ پیدل قافلے کی صورت میں مشرقی پنجاب سے پاکستان کیلئے روانہ ہوئے تو میری چھوٹی بہن جو چند ماہ کی تھی۔ وہ شدید بیمار ہو گئی اور اس کا جسم کوئلے کی طرح جل رہا تھا۔ وہ نیم بے ہوش اور بے سدھ ہو گئی تو میری والدہ نے محسوس کیا کہ اس کی آخری سانسیں چل رہی ہیں۔ والدہ نے اسے ایک درخت کے سائلے تلے لٹایا اور قافلے کے ساتھ شامل ہو گئی۔ میری ماں نے میری شیر خوار دم توڑتی بہن کو لٹا تو دیا مگر اس کے دو قدم آگے کی طرف اٹھتے تو وہ رک کر پیچھے دیکھنے لگ جاتی اور زار و قطار روتے ہوئے واپس میری بہن کی طرف چل پڑتی۔ قافلے کے آگے پیچھے فوج تھی جو کسی کو بھی رکنے نہیں دیتی تھی۔ مجھ سے والدہ کی حالت دیکھی نہ گئی۔ میں چپکے سے قافلے سے نکل بھاگا اور اپنی بہن کو درخت کے نیچے سے اٹھا لیا جب میں نے اسے ماں کے حوالے کیا تو ماں دیوانہ وار اسے چومنے لگی اور مجھے ڈھیروں دعائیں دیں۔ میں نے بہن کو اٹھا لیا اور ہم دو دن بعد پاکستان پہنچ گئے میری بہن کی زندگی تو بچ گئی مگر تیز بخار نے اس کے دماغ کو مفلوج کر دیا۔ وہ آج بھی قیام پاکستان کی نشانی کے طور پر دنیا سے بے خبر زندہ تو ہے مگر اسے تو اپنا بھی پتہ نہیں۔ رندھی ہوئی آواز میں ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری مرحوم کہنے لگے۔ میرے گھر میں تو آج بھی سن 47ء ہی چل رہا ہے۔ ہماری تو ہر خوشی اداسی اور غم میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔کیا محبت اور احترام تھا ان کے دل میں پاکستان اور شیر ملتان کا۔ ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری دنیا سے تو چلے گئے مگر یادوں اور دعائوں میں زندہ اور بھرپور انداز میں موجود ہیں ( جاری ہے )