آج کی تاریخ

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

Let him die in the chair (قسط 4)

تحریر : میاں غفار ، کار جہاں

میں جس سکول میں پڑھتا تھا اس زمانے میں اس کی فیس بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اگر آج کے زمانے کو دیکھا جائے تو میں مفت ہی میں پڑھ رہا تھا میری پنجاب یونیورسٹی کی سالانہ فیس 1250 روپے تھے آج نرسری کے بچے کی ماہانہ فیس میری سالانہ فیس کے کم از کم 3 گنا زیادہ ہوچکی ہے تب گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس ایڈوانس دی جاتی تھی اور شاید آج بھی ایسا ہی ہے ۔ ہوا یوں کہ میرے ایک کلاس فیلو کی چھٹیاں شروع ہونے کے آخری ہفتے جس روز تمام طالب علموں نے تین ماہ کی اکٹھی فیس جمع کرانی تھی کی فیس کسی نے چوری کر لی۔ معاملہ پرنسپل صاحب تک پہنچا وہی پرنسپل جنہوں نے مجھے تسمے باندھنے سکھائے تھے ۔ سکول میں چوری پر پرنسپل صاحب خود ہماری کلاس میں آ گئے اور انہوں نے صرف ایک جملہ کہا لگتا ہے کہ میری تربیت اور کوششوں میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد پی ٹی ماسٹر رشید صاحب کلاس میں آ گئے۔ کمزور جسم سانولا رنگ چھوٹا قد مگر بلا کا کانفیڈینس تھا ان میں۔ تھوڑی دیر خاموش بیٹھے پھر تمام طالب علموں سے کہا کہ سب بچے میری طرف دیکھیں اور وہ ایک ایک طالب علم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھتے رہے اور یہ عمل یونہی تین چار منٹ جاری رہا پھر انہوں نے کہا جس لڑکے نے چوری کی ہے میں نے اسے پہچان لیا ہے اب دو ہی راستے ہیں یا تو میں سب کے سامنے اس کا نام لے دوں اس کو سکول سے نکال دیا جائے اور اس کے والد کو سکول بلا کر بتایا جائے کہ اس کے بیٹے کو کیوں نکالا گیا ہے مگر اس طرح اس طالب علم کی زندگی تباہ ہو جائے گی دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر ڈیسک پر ایک ایک کاپی رکھ دی جائے تمام طلبہ باہر برآمدے میں چلے جائیں ایک ایک طالب علم اندر آئے کسی بھی ڈیسک پر کاپی کو کھولے، ورق الٹے اور واپس باہر چلا جائے۔ جس طالب علم نے چوری کی ہے اور میں نے اسے پہنچان بھی لیا ہے مگر اس کی زندگی تباہ نہیں کرنا چاہتا وہ بھی کسی ڈیسک پر رکھی کاپی میں پیسے رکھ کر چپ چاپ باہر چلا جائے ۔
تمام طالب علم باری باری اندر آئے ماسٹر رشید صاحب کرسی کا منہ دوسری طرف کرکے بیٹھ گئے ہر طالب علم نے ڈیسک پر پڑی ہوئی کسی نہ کسی کاپی کو کھولا اور باہر چلا گیا جب تمام طلبہ یہ عمل مکمل کرچکے تو ماسٹر رشید صاحب نے تمام طالب علموں کو کلاس روم میں واپس بلا لیا مجھے یاد ہے کہ دائیں طرف کے آخری ڈیسک پر پڑی کاپی میں کوئی طالب علم پیسے واپس رکھ گیا تھا۔ ہم سالہا سال تک یہی سمجھتے رہے کہ ماسٹر رشید صاحب کے پاس کوئی جادو تھا کہ انہیں فیس چوری کرنے والے طالب علم کا پتہ چل گیا مگر بہت سالوں بعد عقدہ کھلا کہ انہوں نے طلبہ کو نفسیاتی طور پر اپنے حصار میں لے لیا اور چوری بھی پکڑی گئی بھرم بھی رہ گیا کسی طالب علم کی تلاشی بھی نہ لینی پڑی آجکل شعبہ تعلیم میں حالات اس حد تک پست ہو چکے ہیں کہ یونیورسٹی رجسٹرار سٹاف کے موبائل چیک کرتے پھرتے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ ویسے تو ہر شعبہ میں آئی ہے مگر تعلیم کے شعبے کی پستی تو ناقابل بیان ہے۔ سمسٹر سسٹم نے بعض استادوں کو درندہ بنا کر رکھ دیا ہے جو اب روحانی باپ نہیں رہا شیطانی پاپ کا روپ دھار چکا ہے۔
میرا چھوٹا بھائی ڈاکٹر حنان احمد کنیڈا کی یارک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کرچکا ہے وہ لاہور کے ایک سرکاری سکول میں پڑھتا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں اسے لاہور کے علاقے ٹمر مارکیٹ میں ایک ٹیچر کے پاس ٹیوشن رکھوا دی وہ دس بجے ٹیوشن بڑھنے جاتا اور 2 بجے واپس آتا۔ ایک ماہ بعد میں نے محسوس کیا وہ روزانہ نئے نئے انڈین گانے گھر آ کر گنگنانے لگا ہے ایک دن کہنے لگا “آنکھیں تو کھولو سوامی” ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ گھر میں تو نئی بھارتی فلمیں چلتی نہیں اس کا مزاج شروع ہی سے بہت شرارتی ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ جھوٹ بالکل نہیں بولتا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ لڑکوں نے ماسٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ جس طرح سکولوں میں گرمیوں کی تین ماہ کی فیس اکٹھی لی جاتی ہے آپ بھی اکٹھی فیس لے لیں اور رنگین ٹی وی ، وی سی آر خرید لائیں اس دور میں رنگین ٹی وی اور وی سی آر کوئی 30 سے 35 ہزار کا نسخہ تھا تمام طلبہ سے ایڈوانس فیس لے لی گئی اور ماسٹر صاحب ٹی وی اور وی سی آر خرید لائے ایک فلم دو دن میں دیکھی جاتی۔ ڈیڑھ گھنٹہ فلم چلتی اور ڈھائی گھنٹے پڑھائی۔ پھر طلبہ کو سب کم اور گانے زیادہ یاد رہنے لگے۔ ( جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں