آج کی تاریخ

Let him die in the chair

Let him die in the chair

کار جہاں میاں غفار(قسط اول )

عزت کا معیار ہر کسی کے نزدیک الگ الگ ہی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اہل جنت کیلئے جنت اور دوزخ کا درمیانی علاقہ ہی دوزخ ہوتا ہے جبکہ اہل دوزخ کیلئے وہی جنت۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو دوراہے پر کھڑا کرکے اس کیلئے آپشن کھول دی ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ انسان کے نزدیک انسانیت کی خدمت کے حوالے سے ابو بن ادھم کا طریقہ بہتر ہے یا انسانوں کے لئے دکھ کا باعث بننے والے فرعون کا راستہ۔ انتخاب ہر کسی کا اپنا اپنا ہے اور اس انتخاب ہی نے اس کی اگلی منزل کا تعین کرنا ہے۔ کچھ لوگ دنیا میں درد بانٹنے تو کچھ دکھ درد میں اضافے کے لئے آتے ہیں۔ کسی کو اللہ عہدہ دیتا ہے تو وہ اس عہدے سے آسانیاں بانٹتا ہے اور کوئی اسی عہدے اور حیثیت کو نسل انسانی کے لئے اذیت بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہی اس کائنات کے رنگ ہیں اور یہی اس دنیا کا طریق بنتا جا رہا ہے۔ ملتان شہر میں سرکاری سطح پر 6 یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے ایک ایم این ایس زرعی یونیورسٹی ہے۔ میں عینی شاہد ہوں کہ جب ڈاکٹر محمد آصف راو نے اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا چارج سنبھالا تو اس کی 50 فیصد سے زائد اراضی پر مختلف لوگوں کا قبضہ تھا۔ دو منزلہ ایک چھوٹی سی عمارت میں یونیورسٹی کا کیمپس اور تمام شعبہ جات تھے اور یہ صرف 9 سال ہی کا عرصہ ہے کہ ڈاکٹر آصف راو نے قلیل ترین عرصے میں زرعی یونیورسٹی کو جنوبی پنجاب کی سب سے بہترین یونیورسٹی کا درجہ دلوا دیا اور پھر قدم بڑھاتے ہوئے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے بعد عالمی سطح پر ہی قلیل ترین مدت میں اپنی پہچان بنانے والی اس یونیورسٹی کی پیشانی پر ڈاکٹر راو آصف کا نام چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا رہے گا۔ اس زرعی یونیورسٹی کو جلالپور پیروالہ میں تجرباتی فارم کے لئے بنجر قدیم 50 ایکڑ اراضی دی گئی جسے انہوں نے اعلیٰ ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے قابل کاشت اراضی میں تبدیل کر دیا اور عوامی پارٹنر شپ کی ایسی روایت قائم کی کہ جنوبی پنجاب کے ہر ترقی پسند کاشتکار نے اس یونیورسٹی کو اپنا لیا اور اس کا ایسا حصہ بنے کہ اس میں رچ بس گئے۔ خانیوال میں جنم لے کر ساری زندگی فیصل آباد میں گزارنے والے ایم این ایس زرعی یونیورسٹی کے انتہائی عزت و وقار کے ساتھ رخصت ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد آصف رائو نے اہل ملتان کے دلوں میں ایسا گھر بنا لیا کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔وائس چانسلر شپ کے دو ادوار پورے کئے اور شہر ملتان کی ایک پرانی عمارت کو عالیشان یونیورسٹی میں تعلیمی‘ تدریسی اور تجرباتی لحاظ سے تبدیل کرکے اپنا سامان اٹھایا اور گھر کی راہ لی۔ ہیرے کی قدر تو گوہر شناس ہی جانتے ہیں اور گوہر شناسوں نے انہیں ملتان سے اسلام آباد بلا کر نیشنل سیڈ اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کر دیا۔ صرف ایک دہائی پہلے اکلوتا ڈاکٹر راو آصف ملتان آیا اور زرعی یونیورسٹی کے ہر شعبے میں اپنے جیسے بلند اور مثبت سوچ رکھنے والے سینکڑوں ڈاکٹر راو آصف تیار کرکے چلتا بنا۔ آج لکھنے بیٹھا تو مجھے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری یاد آ گئے۔ پنجاب یونیورسٹی اور زکریا یونیورسٹی ہی میں ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا بھی یادوں میں ہیں۔ کیا طیب لوگ تھے۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس کا عہدہ سنبھالا تو انہیں ورثے میں التوا میں پڑی ہوئی چند فائلیں ملیں جن میں ایک فائل خاصی بھاری تھی۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے اس کا مطالعہ شروع کیا مگر معاملہ سمجھ نہ آیا تو اردلی سے کہا یہ فائل میری گاڑی میں رکھ دو۔ میں اسے گھر جا کر پڑھوں گا۔ ( جاری ہے )

شیئر کریں

:مزید خبریں