
عام فہم:سمعیہ فیض سیال مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو انتہائی کمر عمری میں ہی اس بات کا علم ہوتا ہے اور یہ بات انتہائی پختہ یقین کے ساتھ اس کے ذہن کے پردوں پر چسپاں ہوتی ہے کہ ماہ رمضان کے مقدس اور
عارفانہ :عارف حسین بیٹےکے لئے رشتے سے انکارپر چچا نے سگی بھانجی کو جنات سے بے آبرو کراکر کئی سال مسلسل اذیت دینے کے بعد قتل کروا دیا۔ شدت کی گرمی کی ایک دوپہر میں اپنے اخبار کے دفتر آکر خبریں لکھنا شروع ہوا ہی تھا
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کہ جو 50 سال قبل اپنے تمام تر معمولات اور معاملات کی فائل کے ساتھ اللہ پاک کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور آج بھی اکا دکا ٹرکوں پر ان کی تصویر کے ساتھ یہ جملہ لکھا ہوا نظر آتا
ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک سابق بیورو کریٹ کے انٹرویو پر مشتمل ایک کلپ بہت وائرل ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ رحیم یار خان اور بہاولپور کے صحرا میں جو خلیجی ممالک سے مہمان شکار کے لئے آتے ہیں ان کی کس کس’’
طارق قریشی دنیا بھر میں ہر ملک کا اپناعدالتی نظام ہوتا ہے۔یہ نظام ملک کے آئین و قانون کے ساتھ ساتھ ہر ملک کے معروضی حالات کے تحت قائم ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ہر معاشرے میں عدالت اور منصف کا ذکر ملتا ہے۔ عدالتی فیصلوں
قسط او ل کئی سال پرانی بات ہے تب افسران کرپشن اور ڈھٹائی کی اس ’’معراج‘‘ پر نہیں پہنچے تھے جس پر ان کی اکثریت آج فائز ہ بلکہ ڈھٹائی و سینہ زوری سے فائز ہے۔ پہلے انہیں شرم آیا کرتی تھی اور کوئی تھوڑا بہت
قسط دوئمملتان ڈویژن کے ایک ضلع میں اینٹی کرپشن کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ انہار کے ایک ایکسین کو رشوت لینے کے الزام میں رنگے ہاتھوں پکڑ کر اپنے دفتر لےآئے اور موقع پر ہی رقم برآمد کر لی۔ دفتر پہنچ کر اپنی کرسی پر براجمان ہوتے
ولی خان نے کہا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو۔ یعنی ذوالفقار علی بھٹو یا جنرل ضیا الحق میں سے کسی ایک کو قبر میں اترنا ہے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ قبریں بھی دو ہی تھیں بس ٹائمنگ کا فرق تھا۔ قبر
افتخار فخر چھاوڑی ان گنی چنی شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اس دور میں بھی پرانی روایات کو سینے سے لگایا ہوا تھا ۔ جی ہاں وہی روایات کہ جن میں رواداری، مہمان نوازی، وضعداری اور دوستوں کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش
آج بات کپتان کی تو پھر زبان بھی کھیل والی اور کھیل بھی اپنے کپتان ہی والا، کپتان جی آپ تو فاسٹ باؤلر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ آل راؤنڈر بھی تھے ۔ آپ سے زیادہ کس کو علم ہو گا کہ کب باؤنسر پھینکنا
افتخار فخر چھاوڑی سے میرا تعارف 1968ء میںاُس وقت ہوا جب میں گورنمنٹ ہائی سکول روہیلانوالی میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور ان کے والد مرحوم روہیلانوالی میں ایس ایچ او تعینات ہوئے تو وہ میری کلاس میں آئے۔ اس دور میں ایس ایچ