آج کی تاریخ

تیئس (23) مارچ قراردادِ پاکستان، قومی یکجہتی اور اتحاد کی تجدید کا دن

تیئس مارچ کا دن ہر سال ہمارے دلوں میں ایک نئی حرارت، ایک نیا جوش اور ایک نئی سوچ لے کر آتا ہے۔ یہ دن محض ایک یادگار تاریخ نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک عہد اور ایک خواب کی علامت ہے۔ وہ خواب جو ہمارے بزرگوں نے دیکھا، وہ عہد جو ہمارے رہنماؤں نے کیا، اور وہ نظریہ جس پر ایک پوری قوم نے اپنی جان، مال اور عزت قربان کر دی۔ 1940 کا وہ تاریخی دن جب برصغیر کے مسلمان منٹو پارک لاہور میں جمع ہوئے، ان کے دلوں میں صرف ایک ہی جذبہ تھا: اپنی الگ شناخت، اپنے دین کی آزادی، اور ایک ایسے خطے کی تلاش جہاں وہ سکون سے، آزادی سے، اپنی مرضی کے مطابق جی سکیں۔یہ دن ہمیں بار بار یہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں تھا۔ یہ کسی سیاسی چال یا وقتی فیصلہ کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ اس قوم کی صدیوں پر محیط جدوجہد، قربانیوں، اذیتوں اور جبر کے خلاف ایک طویل مزاحمت کا نتیجہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ایک عام مسلمان کے دل میں یہ احساس جاگا کہ اگر ہمیں اپنے عقیدے، تہذیب، ثقافت اور تشخص کو زندہ رکھنا ہے تو ہمیں ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی زمین جہاں اذان کی آواز دبائی نہ جا سکے، جہاں پردے پر طعنہ نہ دیا جائے، جہاں مسلمان ہونے کا فخر چھینا نہ جا سکے۔لیکن یہ خواب خواب ہی رہتا اگر اُس وقت ہماری قوم متحد نہ ہوتی۔ اگر وہ بنگالی کسان، پنجابی مزدور، پشتون تاجر، سندھی طالب علم اور بلوچی کارکن اپنے ذاتی مفادات کو قربان کر کے ایک مقصد کے لیے اکٹھے نہ ہو جاتے۔ ہم نے زبان، علاقے، نسل اور مسلک کی دیواریں توڑ کر ایک ملت بننے کا عہد کیا۔ اور یہی عہد تھا جس نے 1947 کو حقیقت میں بدل دیا۔ آج ہمیں وہی جذبہ، وہی اخلاص، وہی اتحاد پھر سے درکار ہے۔ کیونکہ آج ہم ایک مرتبہ پھر آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ آج کا پاکستان بہت سے چیلنجز کا شکار ہے۔ سیاسی محاذ آرائی، فرقہ واریت، لسانی تعصبات، معاشی بےچینی، اور ادارہ جاتی کمزوری جیسے مسائل نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن نہ بھارت ہے، نہ کوئی اور ملک — ہمارا سب سے بڑا دشمن ہماری تقسیم ہے۔ جب ایک پنجابی دوسرے بلوچ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جب ایک مہاجر سندھی کو دشمن سمجھتا ہے، جب ایک شیعہ سنی پر انگلی اٹھاتا ہے، تو دشمن کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ذرا رک کر سوچیں: وہ قوم جو ایک نظریے پر قائم ہوئی، آج مختلف نظریات میں کیوں بٹ گئی ہے؟ وہ قوم جو اتحاد کی علامت تھی، آج ٹکڑوں میں کیوں بٹ چکی ہے؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟ کیا یہ وہی وطن ہے جس کے لیے لاکھوں نے اپنی جانیں قربان کی تھیں؟ شاید نہیں۔لیکن مایوسی حل نہیں، نہ ہی یہ ہمارے دین کا مزاج ہے، نہ ہی ہماری تاریخ کا۔ جب قومیں بیدار ہوتی ہیں، اپنی غلطیوں کو پہچانتی ہیں اور دوبارہ سے جُڑنے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو وہ پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ اور یہی وہ موقع ہے جو 23 مارچ ہمیں ہر سال مہیا کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ ہم نے ایک نظریے پر ملک بنایا تھا، اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے، قائم رہے، تو ہمیں اسی نظریے پر واپس لوٹنا ہوگا۔ ہمیں اپنی پہچان، اپنی یکجہتی، اور اپنی وحدت کو پھر سے مضبوط کرنا ہوگا۔قومی یکجہتی صرف ایک نعرہ نہیں، یہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ جب ایک قوم اپنے تمام تر اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، جب وہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے کہ ہم ایک ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو شکست نہیں دے سکتی۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں، اپنے میڈیا میں، اپنے گھروں میں، اور اپنے دلوں میں وہی جذبہ پیدا کرنا ہوگا جو تحریکِ پاکستان کے دوران ہر پاکستانی کے اندر موجود تھا۔ ہمیں دوبارہ وہ بننا ہے جو ہم 1940 میں تھے: ایک قوم، ایک آواز، ایک دل۔اور اس سب میں سب سے اہم کردار نوجوان نسل کا ہے۔ وہ نوجوان جو آج یونیورسٹیوں میں ہے، جو آج یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر موجود ہے — اُسے سمجھنا ہوگا کہ وہ صرف تفریح کے لیے نہیں، بلکہ ایک قوم کی رہنمائی کے لیے بھی پیدا ہوا ہے۔ اُسے کتابیں پڑھنی ہوں گی، قائداعظم کے خطابات سننے ہوں گے، اقبال کی شاعری کو سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ جب تک ہماری نوجوان نسل شعور سے محروم رہے گی، تب تک ہم ایک مضبوط پاکستان کی جانب قدم نہیں بڑھا سکتے۔ہمیں سیاست میں بھی وہی اتحاد لانا ہوگا۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، مگر ذاتیات پر حملے، دشمنی، اور ملک کے مفاد کو قربان کر دینا کبھی بھی جمہوری نہیں ہو سکتا۔ ہمیں سیاستدانوں، میڈیا، سول سوسائٹی، اور عام شہریوں کو مل کر یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان کو بچانا ہے — اور پاکستان صرف اُسی وقت بچے گا جب ہم ایک قوم بن کر سوچیں گے۔23 مارچ ہمیں ایک اور پیغام دیتا ہے: قربانی۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب تک ہم اپنے آرام، اپنی انا، اور اپنے مفاد کی قربانی نہیں دیں گے، تب تک ہم ایک عظیم قوم نہیں بن سکتے۔ قربانی صرف جنگ میں جان دینے کا نام نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں دوسروں کا خیال رکھنے، اپنے حصے سے زیادہ سوچنے، اور اجتماعی بھلائی کو ذاتی فائدے پر ترجیح دینے کا نام ہے۔آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا پاکستان کو ایک پرامن، ترقی یافتہ اور باوقار ملک کے طور پر دیکھے، تو ہمیں پھر سے وہی وعدے، وہی قربانیاں، اور وہی اتحاد دہرانا ہوگا جن کی بنیاد پر یہ وطن حاصل کیا گیا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں۔ ایک جسم کے اعضا کی طرح، اگر ایک حصہ تکلیف میں ہے تو پورا جسم بے سکون رہتا ہے۔لہٰذا، آئیے اس 23 مارچ کو محض تقریبات تک محدود نہ کریں۔ ہم سب، چاہے طالبعلم ہوں، استاد ہوں، والدین ہوں، سیاستدان ہوں یا مزدور — اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ ہم سب دل سے یہ عہد کریں کہ ہم نفرت کو محبت میں بدلیں گے، تعصب کو قبولیت میں، اور بکھراؤ کو اتحاد میں۔ یہی وقت ہے کہ ہم دوبارہ ایک قوم بن جائیں۔کیونکہ اگر ہم نے اب بھی خود کو نہ بدلا، اگر ہم نے اپنے اندر وہی جذبہ پیدا نہ کیا جو 23 مارچ 1940 کو ہمارے بزرگوں کے دل میں تھا، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ لیکن اگر ہم نے آج عہد کر لیا کہ ہم ایک ہیں، تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان نہ صرف قائم رہے گا، بلکہ ترقی کرے گا — اور وہ بھی شان و شوکت سے۔

پاکستان زندہ باد

نئی یونیورسٹی یا نئی حکمتِ عملی؟ — قومی سرمایہ کاری کا بہتر مصرف پاکستان میں تعلیم، تحقیق اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرکاری سطح پر کی جانے والی ہر سرمایہ کاری بلاشبہ خوش آئند ہے، خصوصاً جب بات ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں مستقبل کی تیاری کی ہو۔ حالیہ خبر کے مطابق، حکومتِ پاکستان نے سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ £190 ملین کی رقم کو ایک نئی ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام پر صرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ نہایت مثبت معلوم ہوتا ہے، لیکن جب ہم زمینی حقائق، موجودہ تعلیمی ڈھانچے اور قومی ضروریات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں، تو یہ سوال لازماً ذہن میں آتا ہے: کیا یہی سب سے مؤثر اور دانشمندانہ راستہ ہے؟آج کی دنیا میں ترقی کی دوڑ صرف قدرتی وسائل کی بنیاد پر نہیں جیتی جا سکتی۔ آج کی معیشت ذہانت پر مبنی معیشت” (Knowledge Economy) ہے، جہاں انسانی وسائل، تحقیق، اختراعات اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اقوام کی ترقی کا تعین ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اب وقت آ چکا ہے کہ وہ ماضی کی فرسودہ حکمت عملیوں کو ترک کرے اور نئے عالمی رجحانات کے مطابق اپنے تعلیمی اور تحقیقی ماڈل کو اپنائے۔اس پس منظر میں، چین کی مثال ہمارے سامنے ہے — ایک ایسی قوم جس نے دو دہائیوں میں علم و تحقیق میں غیر معمولی ترقی کی۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں چینی سائنسدان، جب واپس جا کر اپنے ملک میں تحقیقی لیبارٹریاں قائم کرتے ہیں اور دنیا کو چونکا دینے والے نتائج پیش کرتے ہیں، تو یہ صرف مالی سرمایہ کاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جامع، مربوط اور مستقبل بین حکمتِ عملی کا ثمر ہوتا ہے۔دوسری طرف پاکستان کا حال دیکھیے۔ ملک میں پہلے سے کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں، جن میں جی آئی کے آئی، نسٹ، لمز، کوئٹہ کی بیوٹمز، سکھر آئی بی اے، ایف اے ایس ٹی، ہی جے، PIEAS اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ ان اداروں کے پاس ماہر فیکلٹی ہے، ریسرچ اسکالرز ہیں، بنیادی ڈھانچہ موجود ہے — مگر مسئلہ یہ ہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث ان اداروں کی استعداد پوری طرح بروئے کار نہیں آ رہی۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں موجودہ پالیسی پر سنجیدہ سوال اٹھتا ہے: کیا ایک نئی یونیورسٹی کا قیام — جس کے لیے زمین خریدی جائے گی، عمارتیں بنیں گی، مشینری درآمد ہوگی، فیکلٹی بھرتی کی جائے گی — واقعی وہ فوری اور مؤثر حل ہے جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے؟ یاد رہے کہ اس سارے عمل میں کم از کم چار سے پانچ سال لگیں گے، اور اس دوران عالمی ٹیکنالوجی تیزی سے آگے بڑھ چکی ہو گی۔مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ موجودہ اعلیٰ اداروں کی بہترین فیکلٹی، مراعات کی لالچ میں نئی یونیورسٹی کی طرف منتقل ہو سکتی ہے۔ اس طرح نہ صرف پرانے ادارے مزید کمزور ہوں گے بلکہ قومی سطح پر بھی کوئی نیا اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ایک “زیرو-سم گیم” کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔اس کے برعکس، اگر ہم £190 ملین کی خطیر رقم کو ایک وقف فنڈ کی شکل میں محفوظ کریں، اور اس کے منافع کو ملک بھر کی جامعات اور تحقیقی اداروں میں تحقیقی گرانٹس کی صورت میں تقسیم کریں، تو ہم بہت جلد اور بہت کم لاگت سے قومی استعداد کو بڑھا سکتے ہیں۔ ان گرانٹس کو کھلے مقابلے کے تحت، بین الاقوامی ماہرین کی جانچ کے بعد، مخصوص منصوبوں کے لیے مختص کیا جائے — جیسے مصنوعی ذہانت، مشینی تعلیم، حیاتیاتی ادویات، صنعتی روبوٹکس، زراعت میں خودکار نظام، اور دیگر جدید میدان۔اس ماڈل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ ادارے، جو فنڈز کی قلت کی وجہ سے اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ کام نہیں کر پا رہے، فوری طور پر تحقیق اور اختراع میں متحرک ہو جائیں گے۔ نئی لیبارٹریز، نیا عملہ یا نئی عمارتیں بنانے کی ضرورت نہیں ہوگی — بلکہ جو کچھ موجود ہے، اس سے ہی بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، گرانٹ حاصل کرنے والے محققین کو اپنے منصوبوں سے کمائی کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنے تحقیقی منصوبوں کو تجارتی حیثیت دے سکیں۔ اس عمل سے نہ صرف علم پیدا ہوگا بلکہ معیشت کو بھی نئی راہیں ملیں گی۔ یہی ماڈل دنیا کی اعلیٰ جامعات جیسے MIT اور Stanford میں کامیابی سے رائج ہے، جہاں تحقیق کا مقصد صرف علم نہیں بلکہ عملی اطلاق بھی ہوتا ہے۔تاہم ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اس فنڈ اور گرانٹس کو شفاف طریقے سے کون چلائے گا؟ پاکستان کے حالات میں بیوروکریسی کی مداخلت، سیاسی سفارشات، اور اقربا پروری کے خدشات ہمیشہ رہتے ہیں۔ لہٰذا ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک آزاد و خودمختار باڈی تشکیل دی جائے، جس میں اعلیٰ اخلاقی معیار رکھنے والے ملکی و غیرملکی ماہرین شامل ہوں۔ یہ باڈی HEC یا وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ تکنیکی سطح پر کام کرے، لیکن اس پر مکمل حکومتی کنٹرول نہ ہو۔ اس ادارے کے فیصلوں کی جانچ کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی نگرانی شامل کی جائے تاکہ مالی شفافیت برقرار رہے۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ محض تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ قومی ترقی کا مسئلہ ہے۔ جب ملک معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں سے گزر رہا ہو، تو وہاں پائیدار اور فوری نتائج دینے والی پالیسیوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم نے وقت اور وسائل ضائع کیے تو ہم دوبارہ اسی صف میں ہوں گے جہاں ہم دہائیوں سے کھڑے ہیں — اور دنیا بہت آگے نکل چکی ہو گی۔لہٰذا، حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اس فیصلے پر ایک بار پھر غور کرے، اور جذباتی وابستگی کے بجائے عقلی بنیادوں پر پالیسی ترتیب دے۔ تعلیمی ترقی صرف نئی عمارتوں سے نہیں آتی، بلکہ نئے نظریات، مؤثر حکمتِ عملی اور شفاف نظام سے آتی ہے۔£190 ملین کی یہ خطیر رقم ایک تاریخی موقع ہے — اس سے صرف ایک نئی یونیورسٹی نہیں، بلکہ ایک نیا تحقیقی کلچر، ایک نیا فکری انقلاب، اور ایک نیا پاکستان تشکیل دیا جا سکتا ہے۔فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے

ملتان میں جرائم کا طوفان، پولیس کی شاہانہ زندگی، عوام کا خون

دو ہزار پچیس (2025) کے آغاز میں ہی ملتان شہر پر جرائم کی ایسی خوفناک یلغار ہوئی ہے جس نے شہریوں کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ روزنامہ قوم ملتان کی رپورٹ کے مطابق صرف دو ماہ کے دوران 13 ہزار سے زائد سنگین جرائم رپورٹ ہوئے۔ اس میں قتل، ڈکیتی، رہزنی، چوری، منشیات، موٹر سائیکل و گاڑی چھیننے، اور دیگر وارداتیں شامل ہیں۔ عوام کی جان، مال اور عزت ہر لمحے خطرے میں ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے — بالخصوص پولیس — نہ صرف اس صورتحال پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں بلکہ خود بھی اس نظام کی بدحالی کا بڑا حصہ بن چکے ہیں۔جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پولیس کی نااہلی اور لاپروائی کا کھلا ثبوت ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات وہ دہری زندگی ہے جو ہمارے پولیس افسران اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف شہر میں عوام اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں، اور دوسری طرف اعلیٰ افسران کے دفاتر میں عیش و عشرت کا بازار گرم ہے۔ ائرکنڈیشنڈ دفاتر، قیمتی فرنیچر، غیر ضروری پروٹوکول، قافلوں میں گھومتی ہوئی قیمتی گاڑیاں اور افسران کے لیے جدید ماڈلز کی لگژری SUVs — یہ سب دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ دولت کہاں سے آتی ہے؟ اور اصل فرض یعنی عوام کا تحفظ کہاں غائب ہو چکا ہے؟پولیس کا بجٹ عوام کے ٹیکس سے آتا ہے، مگر اس بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں، مراعات، پروٹوکول، پٹرول، سرکاری رہائش، اور “غیرمعلنہ سہولیات” پر خرچ ہو رہا ہے۔ عام سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسر تک، اکثریت خود کو “نوکرِ ریاست” نہیں بلکہ “مالکِ اقتدار” سمجھتی ہے۔ دفاتر میں آنے والے سائلین سے ناروا سلوک، تھانوں میں سفارش اور رشوت کی حکمرانی، اور تفتیش کے نام پر ظلم و ستم — یہ سب اُس پولیس کلچر کی تصویر ہے جو عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ایسا کیوں ہے کہ ملتان میں روزانہ چوری، رہزنی اور ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں، لیکن افسران کا دھیان گاڑیوں کی تبدیلی، دفتر کی تزئین و آرائش، یا اگلے ترقیاتی تبادلے پر ہوتا ہے؟ کیا پولیس کا اصل کام صرف اپنے عہدے اور مراعات کو بڑھانا رہ گیا ہے؟ عوام سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کہ جن تھانوں میں ایف آئی آر تک درج کرانے کے لیے عام شہری کو سفارش یا رشوت کی ضرورت پڑتی ہے، اُن تھانوں کے انچارجز اور ڈی ایس پیز آخر کون سے کارناموں پر ترقیاں لیتے ہیں؟یہ بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ جہاں عام شہری اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے بھی محفوظ نہیں، وہاں پولیس کے اعلیٰ افسران کئی کئی گاڑیوں کے قافلے میں گھومتے ہیں، اور ان کے دفاتر میں روزانہ سینکڑوں لیٹر پٹرول کا استعمال ہوتا ہے — وہ بھی اس دور میں جب عام آدمی کے لیے چند لیٹر پٹرول خریدنا بھی ایک بوجھ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنی شاہ خرچی کے باوجود امن و امان کی صورتحال بدتر سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔منشیات کی بھاری مقدار برآمد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پولیس نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لی — بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پولیس عرصہ دراز سے ان نیٹ ورکس سے آگاہ تھی مگر آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ جب پانی سر سے اونچا ہوا، تو چند کلو ہیروئن اور چرس برآمد کر کے اپنے فرض کی ادائیگی کا راگ الاپنے لگے۔ اگر نظام میں کرپشن نہ ہو، اگر تھانوں میں ریٹ فکس” نہ ہوں، اگر افسران واقعی ایماندار ہوں — تو ایسے نیٹ ورکس پنپ ہی نہیں سکتے۔ملتان جیسے شہر میں جہاں تاریخ، ثقافت اور روحانیت کا امتزاج موجود ہے، وہاں عوام کی زندگی کو اس قدر غیر محفوظ بنا دینا صرف پولیس کی ناکامی نہیں، بلکہ پولیس قیادت کا جرم ہے۔ جب تک افسران اپنے آرام دہ دفاتر سے باہر نکل کر فیلڈ میں نہیں آئیں گے، جب تک پروٹوکول کی جھوٹی شان سے نکل کر حقیقی خدمت کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، اور جب تک کرپشن کے ناسور کو جڑ سے ختم نہیں کریں گے — تب تک امن کی بحالی صرف ایک خواب رہے گا۔حکومتِ پنجاب اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ ہے کہ وہ پولیس کلچر میں انقلابی تبدیلی لائیں۔ اعلیٰ افسران کے مراعات، پروٹوکول، اور لگژری اخراجات کو محدود کیا جائے۔ کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف عوامی سطح پر کارروائی کی جائے، اور ہر تھانے کی کارکردگی ماہانہ بنیادوں پر شائع کی جائے تاکہ عوام خود جان سکیں کہ کون کام کر رہا ہے اور کون صرف کرسی گرم کر رہا ہے۔اگر پولیس اپنی اصلاح نہ کر سکی تو عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا — اور پھر لوگ قانون سے نہیں، اپنی حفاظت کے لیے خود ساختہ راستے اختیار کریں گے۔ یہی وہ لمحہ ہو گا جہاں ریاست اپنی رٹ کھو دیتی ہے اور معاشرہ انارکی کی طرف بڑھتا ہے۔ملتان کو بچانا ہے تو صرف مجرموں کو نہیں، اس نظام کو بھی کٹہرے میں لانا ہوگا جو مجرموں کو تحفظ دیتا ہے، اور عوام کو بےبس۔

شیئر کریں

:مزید خبریں