آج کی تاریخ

قومی سلامتی داؤ پر

پاکستان میں قومی سلامتی کے حوالے سے ہونے والی پارلیمانی جماعتوں کی کانفرنس ایک نہایت اہم موقع تھا جس میں ملک کی قیادت کو متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی طے کرنی تھی۔ مگر بدقسمتی سے، تحریک تحفظ آئین پاکستان (ٹی ٹی اے پی) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی غیر حاضری نے اس قومی مقصد کو نقصان پہنچایا۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باوجود سیاسی جماعتوں کا اس قدر منقسم ہونا لمحہ فکریہ ہے اور ملک کے لیے برا شگون ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ہم آج بھی دہشت گردی جیسے نازک ترین مسئلے پر ایک صفحے پر نہیں آسکتے تو پھر ہماری قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
گزشتہ چند ماہ میں پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جعفر ایکسپریس کا ہولناک واقعہ، نوشکی میں خودکش دھماکہ اور سیکورٹی فورسز پر مسلسل حملے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ دشمن پاکستان کے امن کو تہس نہس کرنے کے درپے ہے۔ ایسی صورت حال میں جب قومی سلامتی خطرے میں ہو، تمام سیاسی قوتوں کو ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر ملک کے وسیع تر مفاد میں سوچنا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے، اپوزیشن نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے نہ صرف اپنی سیاسی تنگ نظری کا ثبوت دیا، بلکہ دہشت گردوں اور دشمن قوتوں کو بھی یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر اتفاق رائے کا شدید فقدان ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کے اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے شرکت کی، جس میں دہشت گردی کے خلاف ریاستی طاقت کے مکمل استعمال پر زور دیا گیا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس موقع پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ملک کی سالمیت اور تحفظ سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا یا شخصیت اہم نہیں۔ ان کے الفاظ کہ ہم کب تک ایک کمزور ریاست کے طور پر قربانیاں دیتے رہیں گے؟ ہمیں اب پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانا ہوگا” پوری قوم کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وقت آ چکا ہے کہ ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کچلنے کے لیے آگے بڑھے۔
اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر فوری عمل درآمد، آپریشن عزمِ استحکام کو مزید فعال بنانے، اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف مؤثر کارروائیوں پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، دہشت گردوں کے لیے مالی معاونت کے راستے بند کرنے اور سوشل میڈیا پر ان کے پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے۔ دہشت گرد گروہ سوشل میڈیا کو اپنی بھرتیوں، پروپیگنڈے، اور حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اور اس کے سدباب کے لیے فوری اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یہ کانفرنس اس لیے بھی غیر معمولی تھی کہ یہاں حکومت اور فوج نے واضح کر دیا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، اجلاس میں شریک رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا عزم کیا اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ عزم محض اجلاس کے اعلامیے تک محدود رہے گا یا پھر عملی اقدامات میں بھی نظر آئے گا؟ اس کا جواب آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر تحریک انصاف اور ٹی ٹی اے پی کی جانب سے اجلاس کا بائیکاٹ افسوسناک ہے۔ تحریک انصاف نے پہلے تو اجلاس میں شرکت کی حامی بھری مگر بعد میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس کے بانی عمران خان کی غیر موجودگی میں کوئی اجلاس بے معنی ہے۔ اسی طرح، ٹی ٹی اے پی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی مطالبہ کیا کہ عمران خان کو اجلاس میں شامل کیا جائے، بصورتِ دیگر وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ کیا قومی سلامتی جیسے حساس معاملے کو بھی محض ذاتی اور پارٹی سیاست کی نظر کر دینا مناسب ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے سیاسی مفادات کو قومی سلامتی سے زیادہ اہم سمجھا اور یوں دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کر دیا۔
یہ رویہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ ملک کی داخلی سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کے دشمن ہمیشہ سے یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اندرونی اختلافات شدت اختیار کریں اور ہم داخلی طور پر اتنے کمزور ہو جائیں کہ ان کے مذموم عزائم کو روکنے کی سکت نہ رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا قومی سلامتی جیسے نازک ترین معاملے پر اجلاس کا بائیکاٹ کرنا براہ راست ان قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے جو پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔
حکومت کے ناقدین اس دلیل کو پیش کر سکتے ہیں کہ اپوزیشن کے بعض مطالبات جائز تھے اور انہیں اجلاس میں شامل کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالا جا سکتا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جب معاملہ قومی سلامتی کا ہو، تو پھر ذاتی انا اور پارٹی سیاست کو پس پشت ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اگر اپوزیشن واقعی ملکی سالمیت کے لیے سنجیدہ ہوتی، تو اسے اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی اور اپنی تجاویز اجلاس کے اندر پیش کرنی چاہیے تھیں، نہ کہ اجلاس سے باہر بیٹھ کر سیاسی بیانات دیے جاتے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ یہ محض ایک صوبے یا ایک جماعت کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اگر اس موقع پر بھی سیاسی جماعتیں اپنی تقسیم ختم کر کے متحد نہیں ہو سکتیں، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کس وقت یکجا ہوں گی؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردوں اور دشمن عناصر کو شکست دینے کے لیے نہ صرف ایک مضبوط فوج اور سیکیورٹی فورسز کی ضرورت ہے، بلکہ ایک متحد اور مستحکم سیاسی قیادت بھی درکار ہے۔
اجلاس کے اختتام پر حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مشاورت جاری رکھے گی، تاکہ انہیں بھی اس قومی بیانیے کا حصہ بنایا جا سکے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے، مگر اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اپوزیشن مستقبل میں بھی ایسے اجلاسوں کا حصہ بنے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام قومی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرے اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد میں فیصلے کرے۔
یہ وقت سیاست کا نہیں، بلکہ یکجہتی کا ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر خون بہانے والے دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم کو ایک ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ جو بھی اس قومی بیانیے سے باہر رہے گا، وہ تاریخ کے صفحات میں اپنی شناخت ایک قومی مجرم کے طور پر درج کروائے گا۔ اب فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے کہ وہ تاریخ میں کن الفاظ کے ساتھ یاد رکھے جانا چاہتی ہے۔

سرائیکی وسیب کی جامعات: بدانتظامی اور زوال کی داستان

سرائیکی وسیب ہمیشہ سے علمی اور ثقافتی روایات کا مرکز رہا ہے، مگر آج اس خطے کی اعلیٰ تعلیمی درسگاہیں انتظامی بدنظمی، مالی بے ضابطگیوں اور ناقص پالیسیوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور محمد نواز شریف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی بہاولپور وہ دو بڑی جامعات ہیں جو جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کے ہزاروں طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں، مگر ان کا حال دن بدن بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دونوں جامعات نہ صرف تعلیمی بحران کا شکار ہیں بلکہ مالی اور انتظامی بدعنوانیوں نے بھی انہیں مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جو کبھی ایک شاندار علمی روایت کی حامل تھی، آج کرپشن، اقربا پروری، اور ناقص گورننس کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ وہ یونیورسٹی جو سرائیکی وسیب کے طالبعلموں کے لیے روشنی کی کرن سمجھی جاتی تھی، اب بے یقینی اور بے بسی کی علامت بن چکی ہے۔ دوسری جانب، محمد نواز شریف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی بہاولپور بھی شدید مسائل کا شکار ہے، جہاں تعلیم سے زیادہ کرپشن اور مالی بے ضابطگیاں حکمرانی کر رہی ہیں۔
حال ہی میں آڈیٹر جنرل پنجاب کی جانب سے کی گئی آڈٹ رپورٹ نے ان دونوں یونیورسٹیوں میں جاری بدعنوانی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ناقص مالیاتی نظام کے باعث اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں تاخیر کا شکار رہتی ہیں، طلبہ کو بنیادی سہولیات دستیاب نہیں، اور تحقیق و تدریس کے بجائے وسائل کی بندر بانٹ عروج پر ہے۔ یونیورسٹی کے کئی سابقہ اور موجودہ انتظامی افسران پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں، مگر کوئی احتساب نہیں ہو رہا۔ محمد نواز شریف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2017 سے 2024 تک ایک ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، مگر اس بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یونیورسٹی کے بجٹ کا بڑا حصہ انتظامی اخراجات پر ضائع ہو جاتا ہے، جبکہ تحقیق، لیبارٹریز اور تدریسی عملے کی بہتری کے لیے کوئی خاص سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی۔
دونوں یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور ملازمین کی حالت زار بھی تشویشناک ہے۔ وزٹنگ فیکلٹی کو سالہا سال سے مستقل نہیں کیا جا رہا، تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر معمول بن چکی ہے، اور کئی تجربہ کار پروفیسرز محض انتظامیہ کی نااہلی کے باعث اپنے عہدوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں کئی اساتذہ مستقل ملازمت کے لیے کئی سالوں سے انتظار کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب، محمد نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی میں تدریسی عملے کو مناسب سہولیات فراہم کرنے کے بجائے عارضی بنیادوں پر کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو سال میں کئی اساتذہ معاشی دباؤ اور ذہنی تناؤ کے باعث اپنی ملازمتیں چھوڑ چکے ہیں، جبکہ بعض بدقسمت افراد دوران ملازمت انتقال بھی کر چکے ہیں۔
جنوبی پنجاب کے ہزاروں نوجوان جو اعلیٰ تعلیم کے لیے ان جامعات میں داخلہ لیتے ہیں، ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہاسٹلز کی سہولیات ناکافی ہیں، لائبریریاں کتابوں سے خالی ہیں، لیبارٹریز میں جدید آلات کی کمی ہے، اور اساتذہ کی قلت نے تعلیمی معیار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، طلبہ کے لیے انٹرن شپ اور عملی تحقیق کے مواقع بھی محدود ہو چکے ہیں۔ ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ہونے کے باوجود، محمد نواز شریف یونیورسٹی میں صنعتی شعبے کے ساتھ روابط نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سرائیکی وسیب کی یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وائس چانسلرز اور دیگر اہم عہدوں پر تعیناتیوں میں سیاسی بنیادوں پر فیصلے کیے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان اداروں کی خودمختاری ختم ہو رہی ہے۔ یونیورسٹیوں کے بجائے بیوروکریسی اور سیاسی رہنما ان کے فیصلے کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ تعلیمی ترقی کے بجائے کرپشن، اقربا پروری اور ناقص گورننس پروان چڑھ رہی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) بھی ان مسائل پر خاموش ہے۔ دونوں ادارے مالی بدعنوانیوں، تدریسی مسائل اور طلبہ کے احتجاج کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی اور نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی کی حالت بہتر بنانے کے بجائے، ان مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اگر پنجاب کے دیگر بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں کو معیاری سہولیات دی جا سکتی ہیں، تو سرائیکی وسیب کی جامعات کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ لاہور، فیصل آباد، اور راولپنڈی کی یونیورسٹیوں میں ہر سال اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے، مگر بہاولپور کی یونیورسٹیوں کے لیے فنڈز کی کمی کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ کیا سرائیکی وسیب کے طلبہ کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں؟
مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ ضروری ہے اور تمام یونیورسٹیوں میں آزادانہ آڈٹ کروایا جائے اور کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اساتذہ کی ملازمتوں کو محفوظ بنایا جائے، وزٹنگ فیکلٹی کو فوری طور پر مستقل کیا جائے اور تنخواہوں کے اجرا میں تاخیر ختم کی جائے۔ تعلیمی سہولیات کو بہتر بنایا جائے، لائبریریوں، لیبارٹریز، ہاسٹلز اور دیگر بنیادی سہولیات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے۔ سیاسی مداخلت بند کی جائے، یونیورسٹیوں کو خودمختاری دی جائے اور وائس چانسلرز سمیت تمام اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں صرف میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں۔ حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور انہیں فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور محمد نواز شریف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی بہاولپور کی بدحالی محض ان دو اداروں تک محدود نہیں، بلکہ یہ سرائیکی وسیب کی تعلیمی زبوں حالی کا مظہر ہے۔ اگر ان مسائل کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا، تو نہ صرف ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا، بلکہ پورا جنوبی پنجاب تعلیمی پسماندگی کا شکار رہے گا۔ وقت آ چکا ہے کہ حکومت، اعلیٰ تعلیمی ادارے اور معاشرہ مل کر ان یونیورسٹیوں کو کرپشن اور نااہلی کے چنگل سے آزاد کرائیں تاکہ علم کی یہ شمعیں دوبارہ روشن ہو سکیں۔ اگر آج ہم نے اقدامات نہ کیے، تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ یہ وقت تعلیمی اداروں کو سیاست اور کرپشن سے پاک کرنے کا ہے، تاکہ تعلیم کے میدان میں حقیقی ترقی ممکن ہو سکے۔

آئی ایم ایف مذاکرات: معیشت کے گرد گھیرا تنگ

پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ 14 مارچ کو ختم ہونے والے 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے پہلے جائزہ مشن کے دوران آئی ایم ایف نے “اہم پیش رفت” کا عندیہ دیا ہے، جو اس عمل میں ایک بڑی کامیابی سمجھی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آئی ایم ایف کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی (آر ایس ایف) پروگرام پر بھی بات چیت جاری ہے، جس کے تحت پاکستان کو ممکنہ طور پر مزید مالی معاونت مل سکتی ہے۔ تاہم، اس پیش رفت کے باوجود کئی پیچیدہ سوالات اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں، جو پاکستان کی اقتصادی پالیسی اور آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے مزید وضاحت طلب کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں اگرچہ مذاکرات میں ہونے والی “نمایاں پیش رفت” کا ذکر کیا گیا، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا ای ایف ایف اور آر ایس ایف کو ایک ساتھ منسلک کیا جائے گا یا ان دونوں کے حوالے سے معاہدے الگ الگ طے پائیں گے۔ اس صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے تین اہم دوست ممالک – چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات – نے 10 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر اس شرط پر جمع کرائے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عمل درآمد نہ کر سکا تو ان قرضوں کا رول اوور بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے، جو کہ پہلے سے معاشی مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے ایک نیا دھچکہ ہوگا۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ مذاکرات کا اگلا مرحلہ اب تکنیکی کے بجائے پالیسی مذاکرات پر مشتمل ہوگا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب فیصلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے دائرہ اختیار میں آ گئے ہیں، اور تمام تر توجہ اقتصادی پالیسیوں پر ہوگی۔ اسی تناظر میں، 10 مارچ 2025 کو ہونے والے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، باوجود اس کے کہ فروری میں افراطِ زر کی شرح 1.5 فیصد رہی تھی۔ اس فیصلے کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے “سخت مالیاتی پالیسی کے تسلسل” پر زور دیا تاکہ مہنگائی کی شرح کو مزید کم کیا جا سکے۔
ایک اور بڑا مسئلہ محصولات کی کمی ہے، جس پر آئی ایم ایف نے براہ راست نشاندہی کی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مالی سال کے ابتدائی سات مہینوں میں 601 ارب روپے کے ٹیکس خسارے کا شکار رہا۔ حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافہ کر کے مجموعی طلب (Aggregate Demand) کو کم کرنے کی پالیسی اپنائی، جس نے اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب کیے، جبکہ وہ طبقات جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں، وہ اب بھی محفوظ ہیں۔ تاجر برادری کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے متعارف کرائی گئی “تاجر دوست اسکیم” کو ترک کر دیا گیا، ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس کے نفاذ میں رکاوٹیں برقرار ہیں، اور زرعی آمدنی پر ٹیکس کے قوانین اب بھی عملی نفاذ سے محروم ہیں۔ ان تمام مسائل کے نتیجے میں غربت کی شرح 44 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کا بنیادی مقصد عوام کو ریلیف دینا ہونا چاہیے، مگر اس کے برعکس، پٹرولیم لیوی میں اضافہ کر دیا گیا، جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک منتقل نہیں کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیے میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی رفتار تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ تاہم، اس حوالے سے وزیر اعظم آفس نے 15 مارچ کو یہ اعلان کیا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ بجلی کے نرخوں میں متوقع کمی کے لیے کیا جا رہا ہے، جس کا اعلان 23 مارچ کو کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی زیادہ فائدہ مند ہوگی، یا اگر حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کو براہ راست منتقل کرتی تو اس کا زیادہ فائدہ ہوتا؟
اس کے علاوہ، توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کا معاملہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گردشی قرضہ 2.5 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، اور حکومت 1.23 کھرب روپے کے مزید قرضے لے کر اس کا کچھ حصہ ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مقصد کے تحت، حکومت کمرشل بینکوں سے قرض حاصل کرنا چاہتی ہے، مگر بینک پہلے ہی توانائی کے شعبے میں زیادہ سرمایہ لگا چکے ہیں اور مزید قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اگر حکومت کمرشل بینکوں سے یہ قرض کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ (KIBOR) سے کم شرح پر حاصل کرنے میں ناکام رہی، تو اس منصوبے کی کامیابی بھی مشکوک ہو جائے گی۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اصلاحات کا بوجھ ہمیشہ عوام پر ڈالا جاتا رہا ہے۔ جیسے کہ پچھلے پروگراموں میں، اس بار بھی حکومت نے زیادہ تر محصولات انکم ٹیکس اور اشیاء و خدمات پر ٹیکسوں کی صورت میں وصول کیے ہیں، جبکہ اخراجات کو کم کرنے کے بجائے مسلسل بڑھایا گیا ہے۔ بجٹ میں غیر ضروری شعبوں پر اخراجات 21 فیصد تک بڑھائے گئے، جبکہ دفاعی اور دیگر مراعات یافتہ شعبوں پر کوئی کٹوتی نہیں کی گئی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عام شہری کے لیے زندگی مزید دشوار ہو جائے گی، جبکہ اقتصادی استحکام کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں حکومت ایک متوازن حکمت عملی اپنائے، جس میں عوامی ریلیف اور اقتصادی استحکام دونوں کو یکساں اہمیت دی جائے۔ ہر بار بحران کے وقت آئی ایم ایف سے قرض لینا اور پھر عوام پر بوجھ ڈال دینا کوئی دیرپا حل نہیں۔ اگر حکومت واقعی معاشی بہتری چاہتی ہے، تو اسے فوری طور پر حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی، غیر پیداواری شعبوں پر سبسڈی کا خاتمہ، کرپشن کی روک تھام، اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔
اگر یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، اور پاکستان کو ہر چند سال بعد نئے قرضوں کے لیے دوبارہ آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینی پڑے گی۔ ہمیں اس دائرے سے نکلنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے سنجیدہ اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور عوام دوست پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، اور اگر ہم نے آج بنیادی فیصلے نہ کیے، تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں