درہ بولان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ ایک افسوسناک سانحہ ہے جو نہ صرف بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتا ہے بلکہ بلوچستان میں جاری کشیدگی کی سنگینی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ بلوچستان میں امن، ترقی اور حقوق کے درمیان ایک پیچیدہ کشمکش جاری ہے، جہاں ریاست اور بلوچ مسلح تحریک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ نیا نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اس کی جڑیں نوآبادیاتی دور سے لے کر پاکستان کے قیام کے بعد کے حالات تک پھیلی ہوئی ہیں۔ بلوچ قوم پرست ہمیشہ سے یہ شکایت کرتے آئے ہیں کہ ان کے وسائل کا استحصال کیا گیا، ان کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا اور ان کی ثقافتی شناخت کو تسلیم کرنے میں ریاست نے پس و پیش سے کام لیا۔
بلوچ قوم پرستوں کا مؤقف ہے کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے وسیع مگر کم آبادی والا صوبہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ یہاں بنیادی سہولیات، صحت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع کی کمی ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔
دوسری جانب، ریاستی ادارے یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے حالیہ برسوں میں بے شمار اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں گوادر پورٹ، سی پیک، اور مختلف بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچ عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے، مگر چند مسلح گروہ بیرونی طاقتوں کے اشارے پر ریاستی استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ ریاست اور بلوچ تحریک کے درمیان جاری تنازعے کی ایک اور کڑی ہے۔ ایک طرف، حکومت اور سیکیورٹی ادارے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں اور اسے پاکستان کی سالمیت پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف، بلوچ مسلح تنظیمیں ان حملوں کو اپنے “مزاحمتی جدوجہد” کا حصہ قرار دیتی ہیں۔
یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے: کیا عام شہریوں پر حملے کسی بھی نظریے کے تحت جائز قرار دیے جا سکتے ہیں؟ کیا سیاسی جدوجہد کے لیے پُرتشدد راستہ ہی واحد حل ہے؟ اور کیا ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں پُرتشدد کارروائیوں کا زیادہ تر نقصان عام شہریوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ ریاستی آپریشنز میں بھی کئی بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوا ہے، اور مسلح تحریکوں کی کارروائیوں میں بھی معصوم لوگ مارے گئے ہیں۔ اس چکر میں بلوچستان مزید عدم استحکام کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
حکومت کی پالیسی دو رخ رکھتی ہے: ایک طرف ترقیاتی منصوبے، مذاکرات اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے، اور دوسری طرف طاقت کے ذریعے بغاوت کو کچلنے کی حکمت عملی۔ دونوں کے اپنے اپنے اثرات ہیں۔
ترقیاتی منصوبے یقیناً بلوچستان میں خوشحالی لا سکتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ عوام کو ان منصوبوں کا براہِ راست فائدہ پہنچ رہا ہے؟ کیا مقامی افراد کو روزگار کے بہتر مواقع دیے جا رہے ہیں؟ کیا ترقیاتی کاموں میں بلوچ عوام کی شراکت کو یقینی بنایا جا رہا ہے؟ اگر یہ اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو ریاست کے خلاف پایا جانے والا عدم اعتماد کم کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف، ریاستی ادارے کئی مواقع پر طاقت کا استعمال کر کے بلوچ بغاوت کو دبانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاہم، تاریخ گواہ ہے کہ صرف عسکری قوت کے استعمال سے کسی سیاسی تحریک کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں جب بھی طاقت کا بے دریغ استعمال ہوا، اس کا نتیجہ مزید مزاحمت اور شدت پسندی کی صورت میں نکلا۔ اس لیے ضروری ہے کہ طاقت کے بجائے سیاسی مذاکرات کو اہمیت دی جائے۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہیں، لیکن کیا واقعی مسلح جدوجہد بلوچ عوام کو وہ حقوق دلا سکی ہے جس کا وہ مطالبہ کر رہے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس مسلح جدوجہد کے نتیجے میں بلوچستان مزید مشکلات کا شکار ہوا ہے۔
ایک طرف ریاستی ادارے مزید سخت پالیسیاں اپناتے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف بلوچ عوام عدم استحکام کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اسکول، ہسپتال، سڑکیں، اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے نتیجے میں عام بلوچ شہری ہی نقصان اٹھا رہا ہے۔
اس کے علاوہ، بلوچ تحریک کے اندر بھی کئی دھڑے بن چکے ہیں۔ کچھ گروہ آزادی کی بات کرتے ہیں، جبکہ کچھ صرف اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس اندرونی تقسیم نے بھی بلوچ مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
بلوچستان میں جاری اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے صرف فوجی کارروائیاں یا مسلح جدوجہد کافی نہیں۔ دونوں فریقوں کو ایک ایسا راستہ اختیار کرنا ہوگا جو خطے میں مستقل امن کا ضامن ہو۔
مذاکرات کا آغاز
ریاست اور بلوچ علیحدگی پسند قیادت کے درمیان سنجیدہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ماضی میں ہونے والے مذاکرات اعتماد کی کمی کے باعث کامیاب نہیں ہو سکے، لیکن اگر خلوصِ نیت سے کوشش کی جائے تو ایک قابلِ قبول حل نکالا جا سکتا ہے۔
بلوچستان کے وسائل پر مقامی اختیار
بلوچ عوام کی سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ ان کے وسائل کا کنٹرول باہر کے لوگوں کے پاس ہے۔ اگر انہیں ان کے وسائل پر زیادہ اختیار دیا جائے، تو ان کی محرومیاں کم ہو سکتی ہیں۔
سیاسی عمل میں شرکت
بلوچ قوم پرست جماعتوں کو سیاسی عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ اگر وہ انتخابات میں حصہ لے کر اپنے مسائل کو سیاسی طور پر اجاگر کریں، تو یہ مسئلہ پُرامن طریقے سے حل ہو سکتا ہے۔
طاقت کے غیر ضروری استعمال سے گریز
جب بھی کسی تحریک کے خلاف حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے، تو اس کے اثرات الٹ نکلتے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ طاقت اور سیاسی اقدامات کے درمیان توازن برقرار رکھے تاکہ بلوچ عوام ریاست سے مزید دور نہ ہوں۔
جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ ایک افسوسناک واقعہ ہے، مگر یہ ہمیں یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کیا بلوچستان کے عوام ہمیشہ اسی کشمکش کا شکار رہیں گے؟
یہ وقت ہے کہ تمام فریقین اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی کریں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ طاقت کے بجائے سیاسی اور معاشی اقدامات کو ترجیح دے، جبکہ بلوچ مسلح تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔
اگر صحیح معنوں میں امن اور ترقی مطلوب ہے، تو ریاست اور بلوچ عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا۔ محض طاقت، مسلح جدوجہد، یا بیرونی مداخلت سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ مذاکرات، حقوق کی فراہمی، اور انصاف کے ذریعے ایک نیا راستہ نکالا جائے تاکہ بلوچستان اور پاکستان دونوں کو ایک پُرامن اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جایا جا سکے۔
نجی میڈیکل کالجز: تعلیم یا کاروبار؟
تعلیم، خاص طور پر طبی تعلیم، کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن جب یہی تعلیم ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو جائے اور اسے چند مخصوص طبقات کی اجارہ داری میں دے دیا جائے، تو یہ نہ صرف طلبہ بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جاتی ہے۔ پاکستان میں نجی میڈیکل کالجز کی بڑھتی ہوئی فیسیں اور ان کی من مانی پالیسیاں اس وقت ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔
حالیہ دنوں میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میں نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں میں بے پناہ اضافے کا معاملہ زیر بحث آیا، جہاں یہ واضح ہوا کہ نجی ادارے طلبہ سے من مانی فیسیں وصول کر رہے ہیں اور متعلقہ حکام بے بسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے جب نجی میڈیکل کالجز سے فیسوں میں اضافے کی وضاحت طلب کی تو ان کا جواز غیر تسلی بخش پایا گیا۔ اس کے باوجود ان اداروں نے نہ صرف بھاری فیسیں وصول کیں بلکہ آئندہ سال کی فیس بھی پہلے ہی جمع کر چکے ہیں۔ کمیٹی کے اراکین، خاص طور پر سینیٹر عرفان صدیقی اور پلوشہ خان، نے اس معاملے پر سخت تشویش کا اظہار کیا مگر سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل خود ان کالجوں کے جواز سے مطمئن نہیں تھا تو یہ فیسیں وصول ہونے کیسے دی گئیں؟
یہ معاملہ صرف ایک انتظامی نااہلی نہیں بلکہ ایک مکمل نظامی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔ تعلیم، جو بنیادی طور پر ایک عوامی خدمت ہونی چاہیے، کو ایک کاروباری منڈی میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں سرمایہ دار طبقہ اپنی من مانی شرائط پر طلبہ اور ان کے والدین کو لوٹ رہا ہے۔
نجی میڈیکل کالجز کے قیام کا بنیادی مقصد ملک میں طبی تعلیم کے فروغ اور صحت کے شعبے میں بہتری لانا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارے منافع کمانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ دو ہزار دس میں ایک نجی میڈیکل کالج کی سالانہ فیس تقریباً پانچ لاکھ روپے تھی، مگر آج یہی فیس تیس سے پینتیس لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس دوران، مہنگائی اور معیشت میں اتار چڑھاؤ ضرور آیا مگر کیا اس اضافے کا کوئی معقول جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان میں اوسط درجے کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے اتنی بھاری فیس ادا کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ ایک میڈیکل طالب علم کو پانچ سال کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے تک خرچ کرنا پڑتے ہیں، جو ایک عام خاندان کی پوری زندگی کی جمع پونجی سے بھی زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں صرف وہی طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں جو پہلے سے مالی طور پر مستحکم خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ غریب اور متوسط طبقے کے ذہین طلبہ کے لیے یہ دروازے بند ہو چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور وزارت صحت جیسے ادارے موجود ہیں تو نجی میڈیکل کالجز کی اجارہ داری اور استحصالی پالیسیاں کیوں ختم نہیں کی جا سکتیں؟ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تجویز کردہ فیس ساڑھے بارہ لاکھ روپے سالانہ ہے، مگر اس کے باوجود نجی میڈیکل کالجز تین گنا زائد فیس وصول کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ حکومتی احکامات کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو کیا ریاست کے پاس اس پر کارروائی کرنے کا اختیار نہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ان اداروں کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی عملی طریقہ موجود نہیں، یا پھر بااثر افراد کی پشت پناہی انہیں ہر قانون سے بالاتر بنا دیتی ہے۔ یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ کئی سیاستدان اور کاروباری شخصیات خود ان نجی میڈیکل کالجز کے مالکان میں شامل ہیں، جو کہ احتساب کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
یہ صورتحال صرف طلبہ کے تعلیمی مستقبل پر ہی نہیں بلکہ والدین کی مالی حالت پر بھی سنگین اثرات ڈال رہی ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جسے چکانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ طلبہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بھاری فیسوں کی ادائیگی کے دباؤ میں بھی مبتلا رہتے ہیں، جو ان کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ، بہت سے قابل اور ذہین طلبہ مالی وسائل کی کمی کے باعث میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک بہترین ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔
یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک ریاست اور متعلقہ ادارے سخت اقدامات نہ اٹھائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام نجی میڈیکل کالجز کے لیے ایک مخصوص حد مقرر کرے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ جو نجی میڈیکل کالجز قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اضافی فیس وصول کریں، ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور ان کی رجسٹریشن معطل کی جائے۔ تمام میڈیکل کالجز کی فیس کا ڈھانچہ عوامی سطح پر جاری کیا جائے تاکہ کوئی ادارہ طلبہ سے غیر قانونی رقم نہ وصول کر سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے طلبہ کے لیے زیادہ سے زیادہ اسکالرشپ اور آسان قرضہ اسکیمیں متعارف کرائے جو مالی طور پر کمزور ہیں مگر تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
نجی میڈیکل کالجز میں فیسوں کی من مانی وصولی تعلیم کو ایک بنیادی حق کے بجائے ایک لگژری بنا رہی ہے، جو صرف چند مخصوص طبقات کے لیے مخصوص ہو چکی ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، تو نہ صرف غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگے گا بلکہ ملک کو بہترین ڈاکٹروں سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے اور اس غیر منصفانہ نظام کو روکے تاکہ میڈیکل تعلیم صرف دولت مندوں کی جاگیر نہ بنے بلکہ ہر اس محنتی اور قابل طالب علم کو میسر آئے جو ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔
بجلی کا بحران: قرضوں سے نہیں، پائیدار اصلاحات سے حل ممکن
پاکستان میں بجلی کے بحران نے ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر لی ہے، اور حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کھرب پچیس ارب روپے کے نئے قرضے لینے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ گردشی قرضے کا کچھ حصہ ادا کیا جا سکے۔ اس وقت گردشی قرضہ ڈھائی کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جس میں پچاس فیصد کی ادائیگی مذکورہ قرض سے کی جائے گی۔ لیکن کیا قرض لینا ہی اس مسئلے کا حل ہے، یا یہ صرف ایک وقتی مرہم ثابت ہوگا؟ حکومت کے اس اقدام کا بنیادی مقصد بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو دی جانے والی ادائیگیوں پر سود کی شرح کم کرنا ہے تاکہ بجلی کی لاگت میں کمی لا کر صارفین کو کچھ ریلیف دیا جا سکے۔ تاہم، یہ سہولت صرف پانچ سے چھ سال کے لیے ہوگی، جس کے بعد ایک بار پھر یہ مسئلہ سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ حکومت نے گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے بینکوں سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہو۔ دوہزار آٹھ سے لے کر اب تک مختلف حکومتیں نجی بینکوں سے قرض لے کر بجلی کے شعبے کی ناکامیوں کو سہارا دیتی رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرضوں کی ادائیگی ایک نیا مسئلہ بن گئی اور اصلاحات کی عدم موجودگی میں گردشی قرضہ دوبارہ بڑھتا چلا گیا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے دوہزار اکیس میں اپنی ایک رپورٹ میں گردشی قرضے کے پانچ بڑے اسباب کی نشاندہی کی تھی، جن میں بجلی کی مہنگی پیداوار، جس کی وجہ سے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹیرف کے تعین میں تاخیر اور پالیسی سازی میں کمزوریاں، ترسیل اور تقسیم کے دوران بجلی کی چوری اور نقصانات، صارفین سے وصولیوں میں ناکامی، حکومت کی جانب سے سبسڈی کی تاخیر یا نامکمل ادائیگی، خاص طور پر کراچی الیکٹرک اور دیگر تقسیم کار کمپنیوں کو، حکومت کے مہنگے قرضے اور تاخیر سے ادائیگیوں پر عائد بھاری جرمانے شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل بجلی کے شعبے کی کمزوریوں کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ حکومت قرضے لے کر وقتی سہارا دے، ضروری ہے کہ ان بنیادی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جائے۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے جو معاہدے ماضی میں کیے گئے، وہ بدقسمتی سے ملکی معیشت کے حق میں نہیں تھے۔ زیادہ تر معاہدے ایسے کیے گئے جن کے تحت حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے، اسے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ ماڈل آج کے معاشی حالات میں ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ چین کی کمپنیوں سمیت کئی نجی بجلی گھر اپنی شرائط پر سودے کر چکے ہیں اور حکومت ان سے دوبارہ مذاکرات میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ جب تک حکومت ان معاہدوں پر نظرثانی نہیں کرتی، گردشی قرضہ کم کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔
اب تک حکومتوں نے بجلی کے شعبے میں جو اصلاحات کی ہیں، وہ زیادہ تر عام صارف پر بوجھ ڈالنے تک محدود رہی ہیں۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ کر کے صارفین پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں عام شہری کی قوت خرید متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت غربت کی شرح چوالیس فیصد تک پہنچ چکی ہے اور مہنگی بجلی عام آدمی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ دوسری جانب، صنعتیں بھی مہنگی بجلی کے باعث عالمی مارکیٹ میں مسابقت کھو رہی ہیں۔ عالمی توانائی ایجنسی کے مطابق پاکستانی صنعتیں چین، بھارت، یورپی یونین اور امریکہ کے مقابلے میں دوگنا مہنگی بجلی خرید رہی ہیں، جس کی وجہ سے برآمدات پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
دنیا بھر میں توانائی کے شعبے میں سبز توانائی یعنی شمسی اور ہوائی بجلی کی طرف تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، لیکن پاکستان میں اس تبدیلی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ موجودہ معاہدے ہیں۔ اگر پاکستان زیادہ شمسی یا ہوائی بجلی پیدا کرنا شروع کرے تو نجی بجلی گھروں کو پرانے معاہدے کے تحت ادائیگی کرنی پڑے گی، جس سے مالی خسارہ مزید بڑھے گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ موجودہ بجلی گھروں کے معاہدوں کو تبدیل کیا جائے تاکہ حکومت صرف اتنی بجلی خریدے جتنی درکار ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی بجلی گھروں سے سخت مذاکرات کرے اور غیر منصفانہ شرائط پر نظرثانی کرے۔ بجلی کی چوری روکنے اور ترسیلی نقصانات کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ صنعتوں اور عام صارفین کے لیے بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے سبسڈی کے بہتر طریقے اپنائے جائیں۔ ہر بار بینکوں سے قرض لینا عارضی حل ہے، مستقل بہتری کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔ موجودہ معاہدوں میں تبدیلی کے بعد، پاکستان کو شمسی اور ہوائی توانائی کی طرف جانا چاہیے تاکہ سستی اور ماحول دوست توانائی حاصل ہو سکے۔
پاکستان کے توانائی بحران کا مستقل حل صرف قرضوں میں نہیں، بلکہ پائیدار اصلاحات میں ہے۔ جب تک حکومت بجلی کے شعبے میں موجودہ ناکامیوں اور خراب پالیسیوں کو درست نہیں کرے گی، تب تک گردشی قرضہ بڑھتا رہے گا اور عوام مہنگی بجلی کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے۔ وقت آ چکا ہے کہ بجلی کے شعبے میں سنجیدہ اور مستقل مزاج اصلاحات کی جائیں تاکہ ملک توانائی کے بحران سے باہر نکل سکے اور عوام کو سستی اور پائیدار بجلی فراہم کی جا سکے۔