چند دوستوں نے جنرل( ر)پرویز مشرف کے دور کی انتظامی اور پولیس اصلاحات کے حوالے سے سوالات کھڑے کئے ہیں کہ انہوں نے تجاویز کیوں نہیں مانی اور پولیس کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ساتھ خود مختاری دے کر ضلعی انتظامیہ پر ہاتھ کیوں سخت رکھا؟ کہا جاتا ہے کہ انہیں ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے سخت چڑ تھی اور وہ تمام اصلاحات کی آڑ میں ضلعی انتظامی نظام کو کمزور اور مفلوج کرنا چاہتے تھے۔ رولا کوئی ذاتی نفرت کا بھی یار لوگ بتاتے ہیں۔ مزید وضاحت میں جائے بغیر ایک لطیفہ عرض کئے دیتا ہوں۔ ایک گاؤں میں سالہا سال کا بے کار شخص شدت کی سردی میں کمبل لے کر سو رہا تھا۔ باہر چور چور کی آوازیں آئیں اور سارا گاؤں باہر نکل آیا۔ اس شخص کی اہلیہ نے کہا کہ تم بھی باہر جاؤ ،جا کر دیکھو کیا مسئلہ ہے ؟انہوں نے کمبل لپیٹا اور آہستہ آہستہ گاؤں والوں کے پیچھے چلنے لگا۔ اسے اکیلا دیکھ کر ایک دیوار کی اوٹ میں چھپے چوروں کواورتو کچھ ہاتھ نہیں آیا، انہوں نے کمبل چھینا اور بھاگ گئے ۔ بےکارشخص سردی میں ٹھٹھرتا گھر آیا، اہلیہ نے پوچھا کہ کیا مسئلہ تھا؟ وہ بولا بس کمبل کا مسئلہ تھا، ختم ہو گیا۔ تو حضور اس فیصلے میں دلائل پر جذبات غالب تھے لہٰذا دیر پا ثابت نہ ہوا۔
پاکستان کے ساتھ المیہ ہی یہ رہا کہ ہماری ذات اجتماعیت پر غالب رہی۔ ہم نے ایک سیب کی خاطر باغ اجاڑے۔ 1955 میں ملتان میں پیرا ںغائب روڈپر تھرمل بجلی گھر بنا جس کی استطاعت 260 میگا واٹ تھی \2003 تک کامیابی سے چلتا رہا پھر اس پر ایک سیاستدان کا مفاد حاوی ہو گیا اور بلاوجہ اسے بند کر دیا گیا ۔اس100 ایکڑ سے زائد رقبے پر 350 رہائش گاہیں تھی جو اجڑ چکی ہیں۔ اگر کسی نے سرکاری اداروں کی بربادی دیکھنی ہے تو اس سے بڑی مثال پنجاب میں کوئی نہیں۔ اربوں روپوں کا سٹرکچر برباد ہے اور موت کا منظر پیش کر رہا ہے۔ گزشتہ 17 سال سے چوروں کا ’’رزق‘‘ لگا ہوا ہے۔ ریلوے کی پٹریاں بھی چوری کی جا رہی ہیں جو فیول لانے کیلئے بچھائی گئی تھیں ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس پاور پلانٹ کو پرائیویٹائز کرنے اور پھر ہتھیانے کیلئے بند کیا گیا تھا مگر سیاست دانوں کے بھی ہاتھ کچھ نہ آیا اور ملکی اثاثہ بھی اس طرح ختم ہوا جس طرح سٹیل مل کے ساتھ کیا گیا۔
بات ملتان کی ترقی اور بیوٹیفکیشن کی ہو رہی تھی تو یہاں قلعہ کہنہ قاسم باغ کے ارد گرد اچھا خاصا
گول باغ ہے جہاں ملتان کی دنیا بھر میں منفرد شناخت رکھنے والے آموں کے درخت لگائے جا سکتے ہیں اور ویسے بھی حضرت شاہ رکن الدین عالم کا مزار عالمی شہرت یافتہ عمارتوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ تمام قلعہ اور ٹیلہ آثار قدیمہ ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا آثار قدیمہ پر قبضہ ہو سکتا ہے؟ کیا وہاں پولیس کا آفس بن سکتا تھا؟ کیا وہاں دیگر عمارات قائم رہ سکتی ہیں؟ جب سرکاری ادارے ہی قانون کو پاؤں تلے روندنے لگ جائیں اور قانون کی چھتری تلے لاقانونیت کا بازار گرم کر لیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
ذرا چشم تصور میں دیکھیں کہ قلعہ کہنہ کے اوپر اور اعتراف میں نرسریوں میں 10 فٹ اونچائی تک پالے گئے آموں کے پودے لگے ہوں تو کیا ہی خوبصورت منظر ہوگا مگر ہمارے ہاں حکومتیں کسی ایسے اقدام بارے تصور کرنا بھی گناہ گردانتی ہیں جن میں فوری رزلٹ نہ ملے کہ وہ دور گزر گئے جب کسی بادشاہ نے ضعیف العمر شخص کو درخت لگاتے دیکھ کر پوچھا کہ تم تو اس کا پھل نہیں کھا سکو گے پھر اتنی محنت کس لئے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے بچپن میں جن درختوں کے پھل کھائے وہ تو میں نے نہیں لگائے تھے۔ بادشاہ لاجواب ہو گیا۔ مگر کیا کیا جائے یہ صدقہ جاریہ کا دور نہیں، فوری رزلٹ کا زمانہ ہے۔
ملتان مخیر حضرات سے بھرا پڑا ہے بس انہیں فلاحی نیٹ ورک میں لانے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل گبزفوڈ کے مالک اور پاکستان کے منفرد صنعت کار چوہدری ذوالفقار کہ جنہیں ایک مرتبہ میاں نواز شریف نے حیرت زدہ ہو کر سوال کیا کہ سنا ہے آپ کے بسکٹ اور دیگر پراڈکٹس یورپ، امریکا اور دیگر ملکوں میں جاتی ہیں ؟چو ہدری صاحب نے اثبات میں سر ہلایا تو نواز شریف نے سوال کیا کہ ہماری چینی، میدہ اور بجلی تو بہت مہنگی ہے پھر آپ عالمی منڈی کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں ۔چو ہدری ذوالفقار انجم نے جواب دیا کہ’’ کوالٹی برقرار رکھ کر ‘‘انہوں نے حال ہی میں کوالٹی ہی برقرار رکھتے ہوئے جدید ترین واٹر فلٹریشن پلانٹ لگوایا ہے۔ اسی طرح شہر میں مختلف مقامات وقف کر کے ملتان کے معروف تاجروں ،صنعت کاروں اور مخیر حضرات کو واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور دیکھ بھال دی جا سکتی ہے۔ کم از کم وقت پر فلٹر تو لازمی تبدیل ہوں گے ورنہ جو سرکاری فلٹریشن پلانٹس کا ماضی میں حال ہوا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔
قلعہ کہنہ پر سٹیڈیم غیر ضروری اور آثار قدیمہ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ نشئیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اس کا بہت ہی خوبصورت استعمال کیا جا سکتا ہے اب یہ محض جلسہ گاہ بن کر رہ گیا ہے اور سوشل میڈیا کے دور میں جلسوں کی اہمیت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ کامران لاشاری نےلاہور کے بدبودار گندی نالیوں سے اٹے ہوئے اندرون شہر کو ا ٓارکیالوجیکل پوائنٹ بنا کر سیاحوں کی دلچسپی کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ بادشاہی مسجد سے ملحقہ فوڈ سٹریٹ دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا چکی ہے۔ کامران لاشاری نے جس خوبصورت آنکھ سے لاہور کو دیکھا ،کیا کوئی خوبصورت آنکھ ملتان کو بھی میسر ہوگی ؟کیا یہاں کسی تاریخی دروازے کے ساتھ کوئی ماضی کی عکاسی کرتا ہوا تفریحی اور فوڈ پوائنٹ بن سکتا ہے؟ لاہور کی اکلوتی نہر نے شہر کو خوبصورت بنا رکھا ہے تو لاہور پر سالہا سال سے حکمرانی کرنے والے جنوبی پنجاب کے اکابرین نے ملتان شہر کے وسط سے گزرتی تین نہروں کو اپنے موت آپ مار دیا۔ دو نہروں کی موت تو میں نے چند ہی سال میں دیکھی ہے جن میں سے ایک نوا ب پور روڈ والی اور دوسری قاسم بیلہ جو چند سال قبل پختہ ہوئی اور پختہ ہونے کے صرف چار سال بعد بند کر دی گئی۔ اب وہاں فلتھ ڈپو بن رہا ہے۔ وہاں ایک جج بھی رہائش پذیر ہیں جو روزانہ اس نہر کو فلتھ ڈپو میں تبدیل ہوتے دیکھتے ہیں مگر توجہ نہیں دیتے۔ دنیا بھر میں اگر نہریں آبادیوں میں ا ٓبھی جائیں تو ان کو بند نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا پانی گھما پھرا کر دوبارہ کسی بڑی نہر میں واپس ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ صرف ایک چھوٹی سی نہر سینکڑوں ایکڑ زیر زمین واٹر کی قدرتی صفائی کرتی رہتی ہے ۔
مجھے بہت امید ہے کہ دہائیوں سے جاری اندرون شہر ملتان کا غنڈہ راج اور گینگ وار ختم ہوگی اور اندرون شہر بھی سیا حوں کو اپنی تاریخ بتانے کیلئے جلد یا بدیر تبدیل ہو جائے گا۔ تنگ گلیوں سے گزر کر تاریخی ماحول میں کسی احاطے میں بیٹھ کر فیملیز کلاسیکل میوزک کے تڑکے سے بھنا ہوا ملتان کا روایتی کنہ گوشت اور دیگر ناپید ہوتے ذائقے دوبارہ انجوائے کرنے لگ جائیں گے۔ نہ جانے کیوں مجھے امید ہے کہ کمشنر ملتان عامر کریم اندرون شہر کے آلودہ ماحول سے اعلیٰ قسم کی کریم کشید کرنے میں کامیاب ہو نگےکہ مٹی بھی زرخیز ہے اور نم بھی۔
