آج کی تاریخ

پیکا ایکٹ 2025: کیا پاکستان میں آزادی صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے؟

نیا سائبر کرائم ترمیمی بل: آزادی اظہار پر سنگین حملہ؟

پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ میں 29 جنوری 2025 ایک اور سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس روز ایوان صدر میں بیٹھے سربراہ نے “انسدادِ سائبر کرائمز ترمیمی ایکٹ 2025” پر دستخط کیے، جسے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور آزادیِ اظہار کے علمبرداروں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ بل دراصل پیکا ایکٹ 2016 کی مزید سخت شکل ہے، جو سائبر کرائمز کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن مخالف آوازوں کو دبانے، سچ بولنے والوں کو خاموش کرانے اور میڈیا پر کنٹرول بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

آصف زرداری 1998 کی اس فائل فوٹو میں ایک عدالت سے باہر جاتے ہوئے۔ ایک پاکستانی عدالت نے 13 ستمبر 2002 کو سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، قید میں موجود آصف علی زرداری کو بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں سخت مشقت کے ساتھ سات سال قید کی سزا سنائی۔رائٹرز/زاہد حسین

کیا ہم واپس آمریت کے دور میں جا رہے ہیں؟

:پاکستان میں میڈیا پر قدغن کی تاریخ نئی نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے پریس سنسرشپ مختلف طریقوں سے مسلط کی گئی ہے، جن میں شامل ہیں
📌 پبلک سیفٹی ایکٹ 1948 – صحافیوں اور اخبارات کی جبری بندش
📌 پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1963 – سخت سنسرشپ قوانین
📌 ڈیفنس آف پاکستان رولز (DPR) اور مارشل لا قوانین – آزادی صحافت کا گلا گھوٹنے کے اقدامات
📌 پیکا ایکٹ 2016 – آن لائن اظہار رائے کو جرم بنانے کی شروعات

یہ نیا پیکا ایکٹ 2025 اسی تسلسل کی کڑی ہے، جس میں صحافیوں، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف کارروائیاں مزید آسان بنا دی گئی ہیں۔

پیکا ایکٹ 2025: یہ کتنا خطرناک ہے؟

اس ترمیمی بل کے بعد حکومت اور ریاستی ادارے کسی بھی صحافی یا سوشل میڈیا صارف کو بغیر وارنٹ گرفتار کر سکتے ہیں، ان پر جھوٹا پروپیگنڈا یا ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات لگا سکتے ہیں، اور ان کی ڈیجیٹل سرگرمیوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔

🔴 اہم نکات

بغیر وارنٹ گرفتاری ممکن
عدالتی کارروائی کے بغیر مواد ہٹایا جا سکتا ہے
آن لائن اظہارِ رائے کے جرائم کی سزائیں مزید سخت
صحافیوں کے خلاف جعلی کیسز میں اضافہ

یہ وہی ہتھکنڈے ہیں جو ماضی میں پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس، مارشل لا کے سخت قوانین، اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے ذریعے اپنائے گئے تھے۔

پاکستانی صحافیوں کی جدوجہد: ماضی سے حال تک

پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر دباؤ ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔

🔹 فیض احمد فیض اور سبط حسن جیسے صحافیوں کو قید کیا گیا
🔹 نواۓ وقت اور روزنامہ امروز پر پابندیاں لگائی گئیں
🔹 ایوب خان، ضیاء الحق، اور مشرف کے دور میں اخبارات بند اور صحافی گرفتار کیے گئے
🔹 جنرل ضیاء کے مارشل لا میں صحافیوں کو کوڑے مارے گئے
🔹 مشرف دور میں صحافیوں کی جبری گمشدگی کا آغاز ہوا
🔹 پیکا ایکٹ 2016 کے بعد، ڈیجیٹل سنسرشپ میں اضافہ دیکھا گیا

یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ایک منظم پالیسی ہمیشہ سے موجود رہی ہے، اور پیکا ایکٹ 2025 اسی تسلسل کی ایک اور خطرناک کڑی ہے۔

صحافیوں کے خلاف سنسرشپ: ایک منظم مہم

:پاکستان میں آزاد صحافیوں کو دبانے کے لیے منظم مہمات چلائی جاتی ہیں، جن میں شامل ہیں
📌 ڈیپ فیک نیوز اور پروپیگنڈا – صحافیوں کے خلاف جھوٹی خبریں اور کردار کشی
📌 سوشل میڈیا مانیٹرنگ – تنقیدی پوسٹس پر مقدمات اور دھمکیاں
📌 یوٹیوبرز اور بلاگرز کی گرفتاریاں – سچ بولنے والوں پر پابندیاں

یہ تمام حربے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ پیکا ایکٹ جیسے قوانین آزادیِ اظہار کے لیے ایک خطرہ ہیں۔

اب کیا کیا جائے؟ صحافتی برادری کو متحرک ہونا ہوگا!

پاکستانی صحافی برادری کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ محاذ بنانا ہوگا۔

🔹 “آل پاکستان جرنلسٹس فرنٹ فار پریس فریڈم” کے نام سے ایک نیا اتحاد تشکیل دیا جائے
🔹 ملک گیر سطح پر آزادیِ صحافت کے لیے تحریک چلائی جائے
🔹 انٹرنیشنل پریس فریڈم آرگنائزیشنز کو متحرک کیا جائے
🔹 سوشل میڈیا پر بیداری مہم چلائی جائے

نتیجہ: پیکا ایکٹ 2025 ایک نیا آمرانہ حربہ ہے

پاکستان میں آزادی صحافت پہلے ہی خطرے میں تھی، اور پیکا ایکٹ 2025 نے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ یہ بل دراصل پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1963، ڈیفنس آف پاکستان رولز، اور مارشل لا کے سخت قوانین کی نئی ڈیجیٹل شکل ہے۔

💡 آزادیِ صحافت کے لیے یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ متحد ہو کر جدوجہد کرنے کا ہے!

شیئر کریں

:مزید خبریں