آج کی تاریخ

مہاجر شناخت کی سیاست- ڈاکٹر ریاض احمد

گزشتہ دنوں جوش اکیڈمی کراچی کے اکتار ہال میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ایک اسٹڈی سرکل میں شرکت کی۔ ایک موضوع مہاجر سوال پر مارکسی نکتہ نظر  کا تھا جس پر کامریڈ پارس جان نے اپنی تنظیم کی طرف سے مہاجر قومی سوال پر ایک بحث کا آغاز کرتے ہوئےتاریخی حقائق کا جائزہ لیا۔مہاجر شناخت، قوم اور آزادی پر گزشتہ پچاس سال سے تنظیم، تحریک اور سیاست ہو رہی ہے۔مشرق وسطی میں لبیا کے بعد اب شام میں ریاست کا خاتمہ اور پاکستان کی مخدوش صورتحال یہاں بھی بالکنائیزیشن کی بحث لے آئی ہے۔ لیفٹ ریاست بچانے اور بچ نہ پانے کے منظر نامے پر بحث بھی کر رہا ہے۔ سندھ کی سیاست میں بالکنائزیشن کی بحث میں مہاجر سندھی کشمکش ایسے دور میں سامنے آرہی ہے جب کراچی میں ۲۰۱۶ سے جاری فوجی آپریشن نے ایم کیو ایم کو تقسیم اور پسپاء کر کے جو خلاء چھوڑا ہے اسے پُر کرنے کی جماعت اسلامی کی کوششوں کے ساتھ لیفٹ کے لیے بھی مواقع ہیں۔ یہ سب وہ اسباب ہیں جو ہمیں اس موضوع کی طرف لاتے ہیں۔ کراچی دو ڈھائی کروڑ کا شہر ہے اور انقلابی سیاست کا مرکزہ رہا ہے اس لیے بھی جائزہ ضروری ہے۔

اس مضمون میں کوشش یہ ہے کہ قوم پرستی اور شناخت پرستی پر مارکسی نکتہ نظر پیش کیا جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ شناخت کی سیاست کیسے سرمایہ دارانہ تبدیلیوں سے ابھرتی ہے، کیسے کسی قوم کی اشرافیہ بدلتی صورتحال میں کنارے لگتی ہے تو اس کی دانشورانہ پرت اس کا اظہار کرتی ہے اور مزدور طبقہ سمیت عوام الناس کو اس شناخت کے گرد موبیلائیز کرتی ہے۔ کیسے کسی ایک ہی وحدت میں دیگر شناختوں سے علاقے، زبان، مذہب کی تفریق کے باوجود جڑت پیدا کرتی ہے اور ایک طویل کشمکش کے بعد یا تو سرمایہ دارانہ تبدیلی انہیں اپنے اندر سمو لیتی ہے اور یہ شناخت ثقافتی اظہار  تک محدودہو جاتی ہے یا پھر صورتحال اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ یہ قوم پرستی اور قومی آزادی کی طرف آجاتے ہیں۔ اور یہ عمل آزادی سے شناخت تک واپسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسے مزدور طبقہ کی جدوجہد پر شناخت کی سیاست کا اثر ہوتا ہے، کیسے مزدور طبقہ کی تحریک کی کمزوری نسلی تعصب کی شناخت کو دائیں جانب اور کیسے مزدور طبقہ کی جدوجہد کا تیز ہونا اسی شناخت کو بائیں جانب لے آتا ہے۔ شناخت کی تحریک ریاست کے جبر کا بھی شکار ہوتی ہے تو اس کا ردعمل مختلف ہو سکتا ہے، یہ ریاست کا آلہ کار بن کر مزدور طبقہ کی جدوجہد کو پسپا کر دیتی ہے۔

سرمایہ داری سے پیدا شناخت

کہنے کو تو قوموں کا وجود سرمایہ داری کے ابھار سے ہی وابستہ ہے۔جدید ریاست کا تصور بھی سرمایہ داری کی دین ہے۔ لیکن سرمایہ داری کا اولین پھیلائو نوآبادیات سے ہوا۔ انگریز، آسٹرین، فرانسیسی، اطالوی نوآبادیات اپنے راج کے لیے زمینوں کی ازسر نو تقسیم کرتے۔ ہندوستان میں یہ سٹلمنٹ کہلاتی کہ اس کے زریعہ باضابطہ پرانے اور نئے زمیندار جاگیردار پیدا کئے گئے۔ اس سبب نئی اشرافیہ محض طاقت کے اظہار میں سامنے نہ آئی بلکہ اس نے نئے محکوم بھی پیدا کیے جن سے مذہب، زبان، ثقافت تک کی بنیاد پر احساس محرومی پیدا ہوا۔ قوم پرستی کی ایک شکل اسی صورت پشتونخوا، بنگال ، پنجاب اور سندھ میں ابھر کر سامنے آئی جس کا اظہار مسلم قوم پرستی میں ہوا۔ تقسیم کے بعد سرمایہ دارانہ تبدیلیوں میں ایک بڑا بحران ۶۰ کی دہائی میں آیا۔ ریاستی پشت پناہی سے اب جاگیردار کے بجائے سرمایہ دار بنانے کا عمل ریاستی وسائل انہیں کھڑا کرنے میں لگائے جانے لگے، چھوٹے بڑے اور بڑے بہت بڑے ٹائیکون بننے لگے۔لیکن عالمی کساد بازاری اور برصغیر میں اس سرمایہ داری کا عالمی نظام سے جڑت بحران میں تباہ کن ثابت ہوا۔وہ ڈوبی تو یہ ڈوبے۔ اس سبب تمام ہی ترقی پزیر ممالک سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں نیشنل آئیزیشن کا عمل ریاستی سرپرستی میں ہوا۔ اب نئے سرمایہ دار کیا ابھرتے ریاست ہی سرمایہ کاری میں پھولنے لگی۔ اس نوآبادیاتی (نو آباد کا مطلب نئی زمینوں کو آباد کرنا ہے) عمل کا نتیجہ طبقاتی پرتوں میں نئے مسائل لے آیا۔ میرا ماننا ہے کہ مہاجر قوم پرستی یا شناخت اسی ریاستی سرمائے کے پھل پھولنے کا نتیجہ ہے۔

قوم پرستی کا تصور

قوم پرستی ، جیسا کہ اس مضمون میں ہم نے دکھانے کی کوشش کی ہے ،ایک جامد تصور نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام قومی جبر کا سبب ہے۔ اور سرمایہ داری بحران کا شکار ہو تو یہ ریاست کے زریعہ قومیانہ اور نجکاری کے عمل کے نظام کو بچانےکے لیے کرتی ہے۔ قوم ہونے کا احساس براہ راست سرمایہ داری سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ داری کسی خطہ کو اپنے اندر انٹی گریٹ (اپنا حصہ بنا لے) کر لے تو یہ احساس کم ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری کسی خطے میں سکڑنے لگے تو یہ احساس اجاگر ہونے لگتا ہے۔ پشتونخوا کی اشرافیہ آج پنجاب اور اسلام آباد سے انٹی گریٹڈ ہے، موٹر ویز اور نیٹوکی جنگ نے ان کے کاروبار کو کئی گنا فروغ دیا ہے اور یہ اشرافیہ اب پاکستان کے مرکز پر اقتدار کی سیاست کرتی ہے نہ کہ پشتونخوا کی آزادی کے لیے۔ پشتونخوا میں دیہی و شہری غریب کے لیے یہ اشرافیہ کوئی متبادل نہیں پیش کرتی بلکہ نجکاری کوفروغ، نجی اسکول، ہسپتال اور سروسز کی بھرمار کررہی ہے۔ دیہی و شہری غریب میں البتہ اس مہنگائی اور بے روزگاری پر قومی احساس ایک تحریک یعنی پی ٹی ایم کی شکل میں موجود ہے۔ یہی صورت بلوچستان کی ہے جہاں وسائل پرقبضہ میں بلوچ اشرافیہ ریاست کی آلہ کار ہے جبکہ نوجوان بہتر مستقبل کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے قومی سوال دراصل پہلا سوال یہ اٹھاتا ہے کہ جس قوم کی بات ہو رہی ہے اس قوم میں اشرافیہ و سرمایہ داروں کو قومی آزادی کی ضرورت ہے یا ریاست میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے یہ قومی شناخت کی سیاست کر رہے ہیں۔

شناخت کا تصور

شناخت پر مارکس وادی شیرن اسمتھ لکھتی ہیں کہ بائیں بازو کی سیاست میں نئے سرگرم افراد کے لیے یہ تنظیمی طریقہ کار عام فہم لگ سکتا ہے: یہ کہ مظلوم افراد کو اپنی مظلومیت کے خلاف لڑنا چاہیے۔ مزید برآں، معاشرے میں جنسی تعصب، نسلی تعصب اور ہم جنس پرستی کے مخالف خیالات کی موجودگی کبھی کبھار ایسا تاثر دیتی ہے کہ وہ نفرت جو لوگوں کو تقسیم کرتی ہے، اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مایوس کن خیال شناختی سیاست کی نظریاتی بنیاد بناتا ہے۔ اس میں یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ ایک خاص تحریک میں صرف وہی لوگ شامل ہونے چاہئیں جو کسی مخصوص قسم کے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں۔ دیگر تمام افراد کسی نہ کسی طرح مسئلے کا حصہ ہیں، کیونکہ وہ ظلم سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ہر مظلوم گروہ کا اپنا الگ اور خود مختار تحریک ہونی چاہیے۔ اس طرح کی تحریکیں عموماً “آزادی” یا خود مختاری کی بنیاد پر منظم کی جاتی ہیں، جو ایک دوسرے اور سوشلسٹ تحریک سے آزاد ہوتی ہیں، اور یہ تحریکیں طبقاتی بنیاد سے بھی آزاد ہوتی ہیں۔البتہ شناخت کی ایسی توجیح غلط بھی ہے. موجودہ دور میں پوسٹ مارڈن ازم نے اپنے اپنوں کے لیے ایسی سوچ کو نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ اور قومی تحریکوں میں نطریاتی بنیاد فراہم کر دی ہے.(۱)

جو لوگ ظلم کے خلاف ہیں، وہ امتیاز اور متعصب پسند قوم پرستی کے خلاف لڑتے ہیں۔ مختلف نظریات رکھنے والے لوگ ان لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جو نسل، جنس یا دیگر وجوہات کی بنا پر نشانہ بنتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ معاشرتی ظلم سے نفرت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اتحاد ہی ہمیں طاقتور تعصبات کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن اس اتحاد میں کچھ اختلافات ہیں جو تحریک کو مختلف راستوں پر لے جا سکتے ہیں۔ سوشلسٹوں کے اس بارے میں اپنے نظریات ہیں۔

سوشلسٹوں کا  آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ ہمیں ظلم کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ مثبت طریقے سے جڑنا چاہیے، مگر اس میں نظریاتی اختلافات کو چھپانا مددگار نہیں ہے۔ اس لیے ہم شناخت کو مارکسی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتے ہیں تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ ہم کیوں مختلف ہیں۔ ہم یہ دلیل دیتے ہیں کہ شناخت پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا، جو انفرادی تعلقات پر زور دیتا ہے بجائے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم پر، لوگوں کو اجتماعی یکجہتی کی طرف نہیں لے جاتا جو ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے ضروری ہے۔

شناخت کی برصغیر میں تاریخ

شناخت کی سیاست یوں تو دنیا بھر میں ایک عرصے سے جاری ہے۔ البتہ یہ بھی ہوا ہے کہ شناخت کی سیاست سرمایہ دارانہ و نوآبادیاتی تبدیلیوں اور ان میں ریاست کے کردار کو حاوی رکھنے کے سبب جبر کا شکار ہو کر قومی آزادی کی تحریک میں بدل گئیں۔ اس کی دو مثالیں تو ہماری اپنی تاریخ سے ہی جڑی ہوئی ہیں۔ ایک ہندوستان میں ہندوستانیوں کی انگریز تسلط سے نکلنے کی تحریک جو کانگریس کے علاوہ سبھاش چندر بوس ، باچا خان، امبیدکر اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی صورت میں ابھریں اور پھر انہی کے بیچ شناخت کی ایک اور تحریک جو آخیر تک علیحدگی پسند نہ تھی یعنی مسلم لیگ ایک بہت بڑی تحریک بن گئی۔ اسی طرح خلافت تحریک تو پین اسلام ازم کی پہلی سیاسی تحریک کے طور پر بھی دیکھی جاتی ہے مگر یہ شناخت قائم کرنے کی ابتداء تو تھی مگر اس کی انتہاء کو پاکستان کا قیام بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح تقسیم ہندوستان کے ۲۵ سال بعد ہی مشرقی پاکستان میں ۱۹۵۵ سے چلنے والی شناخت کی سیاست عوامی لیگ اور پھر مکتی باہنی کی صورت ایک شہری و دیہی خانہ جنگی سے گوریلا جنگ اور پھر آزادی پر منتج ہوئی،اتفاق سے الیکشن جیتنے کے بعد اور فوجی آپریشن سے پہلے تک شیخ مجیب بنگالی شناخت پر حقوق کے باوجود آزادی کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے۔

پاکستانی سیاست پر شناخت سے قومی آزادی کا سفر اب تک صرف بنگالی شناخت نے ہی کیا ہے۔ اور گزشتہ ۵۵ سال کی قوم پرستی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بعد ازاں روایتی پاکستانی سیاست میں انٹی گریٹ ہو جانے والی قومی تحریکیں ہوں یا وقتا فوقتا بلوچ، سندھی،پشتون اور مہاجر قومی تحریکیں ان سب کے مدنظر دراصل عوامی لیگ کی شناخت سے آزادی کا ماڈل ہی سب میں موئثر مانا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مہاجر شناخت و قوم پرستی کے جائزے سے پہلے ہم بنگالی نیشنل ازم کا ایک مختصر جائزہ لے لیں۔

بنگال: شناخت سے آزادی کا سفر

بنگال میں نوآبادیاتی زمینوں کی تقسیم نے ہندومسلم تفریق کی بنیاد ڈالی۔ مسلمان دیہی اور غریب تھے جبکہ پہلے سے موجود ہندو اشرافیہ کی تعداداور غلبہ میں زمینوں کی اجارہ داری نے اضافہ کیا۔ یوں پہلے بنگلہ مسلم شناخت ۱۸ ویں صدی میں ابھری اور پھر ایک دانشورانہ تحریک نے علیحدہ مسلم ریاست کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر تحریک پاکستان بنی(۲)۔تقسیم ہند کے بعد مشرقی بنگال کو بیوروکریسی میں مہاجر اور پنجابی اشرافیہ کے غلبے کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ غیر بنگالی صنعتکاروں کو ریاستی سرپرستی دی گئی۔ اس سے مشرقی بنگال میں مسلم قومیت کی سیاست تبدیل ہو کر بنگالی سیکولر قوم پرستی میں ڈھل گئی، جو عوامی لیگ کے سیاسی منشور کا مرکزی نکتہ بن گئی۔1970 سے پہلے، عوامی لیگ کی سیاست بنگالی شناخت کے گرد مرکوز تھی، جو مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کی سیاسی، معاشی، اور ثقافتی محرومی کے خلاف ردعمل کے طور پر ابھری۔ عوامی لیگ نے لسانی اور ثقافتی یکجہتی پر زور دیا، خاص طور پر بنگالی زبان کی تحریک کے ذریعے، اور بنگال کی پیداوار پر مغربی پاکستان کو چلائے جانے کے پہلو کو اجاگر کیا، مشرق و مغرب کی تقسیم کو مادی اور علامتی دونوں طور پر پیش کیا۔ شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکاتی پروگرام نے خودمختاری کا ایک منشور بنا دیا، طبقاتی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر بنگالی قوم پرستی ایک چیلنج بن گئی۔شناخت کی سیاست کے تناظر میں، عوامی لیگ کا یہ طریقہ مختلف گروہوں کو متحد کرنے میں کامیاب رہا، لیکن اس نے بنگالیوں میں طبقاتی نابرابریوں کو نظرانداز کیا۔ اس نے بنگالی شناخت کو سیاسی متحرک ہونے کی بنیاد بنایا، جو بالآخر آزادی کی تحریک اور بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کر گیا۔

پاکستان میں بنگالی قوم پرستی اپنے سے پیش رو مسلم قوم پرستی اور ہندوستانی قوم پرستی کی طرح موجود ریاست میں اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ عوامی امنگوں کا اظہار دراصل بنگالی قوم میں اشرافیہ کے مفادات کی ترجمانی کے لیے کیا جاتا ۔ لیکن یہ پاکستانی ریاست کے اندر اپنے آپ کو محدود رکھتا۔ ت 1949 میں عوامی مسلم لیگ کے طور پر قائم ہونے والی اس جماعت نے ابتدا میں پاکستان کے اندر مشرقی بنگال کے مفادات کے تحفظ پر توجہ دی۔ تاہم، وقت کے ساتھ اس نے مذہبی شناخت کی بجائے ایک وسیع بنگالی قوم پرستی کی سیاست اختیار کی۔1955 میں “مسلم” کا لفظ جماعت کے نام سے ہٹا دیا گیا، جس سے سیکولرازم اور انکلوسیونس کی طرف اس کی تبدیلی کی عکاسی ہوئی۔ یہ تبدیلی بنگالی زبان بولنے والے تمام افراد، چاہے ان کا مذہب کچھ بھی ہو، کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش تھی۔-1966 میں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکاتی پروگرام سے خودمختاری  کا ایجنڈا پیش کیا جسمیں ٹیکس، خارجہ تجارت، اور کرنسی جیسے مسائل شامل تھے، جو مشرقی پاکستان کے استحصال کو اجاگر کرتے تھے۔اور ۱۹۷۰ کے انتخابات میں اکثریت نے پہلے عوامی لیگ کو پاکستان بھر میں سرکار بنانے کا حق مانگنے پر لاکھڑا کیا اور فوجی آپریشن بعد یہ علیحدگی کی تحریک بن گئی۔ یوں دیکھیں تو شناخت کی سیاست کا سفر نوآبادیاتی یا ریاستی سطح پر تسلط کے خلاف ایک اظہار ہے جو وقت کے ساتھ اس لیے بدلتا ہے کہ قوم کی اشرافیہ انٹی گریٹ نہ ہو تو یہ شناخت سے خود مختاری اور علیحدگی تک چلی جاتی ہے۔

سندھی قوم پرستی: آزادی سے شناخت کا سفر

موجودہ دور میں پاکستان میں قومی آزادی کی ایک تحریک یعنی بلوچ تحریک ہے جبکہ پشتون تحفظ تحریک اپنے طور پر جنگ مخالفت کے روپ میں پشتون شناخت کے ساتھ حقوق اور وسائل پر دسترس کے ساتھ ایک علیحدگی کی تحریک بننے کی کوشش میں بھی نظر آتی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے  سندھ میں اپنی ۱۷ سالہ حکومت کے زریعہ سندھی اشرافیہ کو بڑی حد تک پاکستان میں انٹی گریٹ کر کے اس قوم پرستی کے تصور کو شناخت کی سیاست کے زیادہ قریب اور علیحدگی پسندی سے دور کر دیا ہے۔ کراچی اور شہری سندھ میں البتہ اس سیاست کا اثر شہری یا مہاجر آبادی پر پڑا ہے۔دیہی سندھ یا کراچی کے علاوہ دیگر شہروں سے کراچی آنے والے سندھیوں کی معیشت اور معاشرت بھی بدل رہی ہے۔ یہ قوم کی ایک نئی شکل میں ابھر رہے ہیں۔ دیکھنے میں تو سندھی بولنے والے کراچی کو فتح کر رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ سندھ میں زراعت کی تباہ کاری  کا سرمایہ دارانہ عمل ہے جو دیہی سندھ سے مڈل کلاس کو کراچی منتقل کر رہی ہے اور یہاں اثر رسوخ سے کچھ تو سرکاری ملازمتوں میں چھاتے جا رہے ہیں لیکن ان سے کئی سو گنا بڑی تعداد ان سندھیوں کی ہے جو بے پناہ محنت کر کے سیلز، ٹریڈ، وکالت، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور دھاڑی فیکٹری و تعمیراتی مزدور کی صورت ویسے ہی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جیسے ۱۹۴۷ اور پھر ۱۹۷۱ میں ہندوستان/مشرقی پاکستان سے اردو بولنے والے اور پھر بعد ازاں کئی لہروں میں پشتونخوا اور پنجاب سے کراچی آن بسنے والے مہاجرین کر رہے تھے۔ ان کی محنت، لگن اور کم اجرت پر بحالت مجبوری کام کرنا انہیں سرمایہ داری میں جگہ بنانے کا موقع دیتا ہے، اب یہ کراچی وال یا شہری سندھی ہی ہیں۔ ان کا اور دیگر زبان بولنے والوں کا طبقاتی مفاد ایک ہی ہے جو بہت جلد سرمایہ داروں کو کھلنے لگے گا۔

پاکستانی قوم پرستی میں کراچی /مہاجر شناخت کاسفر

 کراچی میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی پیپلز پارٹی پر لسانی تعصب کا ایک جیسا الزام لگا کر کراچی کے ساتھ ہونے والے ظلم کوشناخت کی سیاست کے طور پر پیش بھی کر رہے ہیں اور دیہی شہری کی تفریق کو بہت سختی سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ حالیہ انٹر بورڈ کے نتائج میں کراچی بورڈ سے ۳۰ فیصد طلبہ پاس ہوئے جو اس شہر کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے جبکہ سندھ کے دیگر بورڈز میں ۸۰ سے زائد طلبہ پاس ہوئے۔ اس عجیب و غریب نتیجے کو پیپلز پارٹی کی کراچی یا مہاجر دشمنی سے تعبیر کر کے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی ایک ہی انداز میں پیش کر رہے ہیں ۔ یہاں بھی سرکاری انرولمنٹ کا نجی اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں منتقل ہونا اور نجی بورڈز کا قیام ایک اہم محرک ہے  جو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ ان پارٹیوں کا طبقاتی مفاد نجی مالکان کے ساتھ ہے۔یوں بورڈ نتائج  کو کراچی/مہاجر دشمنی سے تعبیر کر کے جو حل پیش کیا جا سکتا ہے وہ نجی مالکان کے عین مفاد میں یعنی کراچی کے لیے ایک اور نجی بورڈ کا قیام  بھی ہو سکتا ہے۔ اس تحریک کا بظاہر رخ مہاجر قوم پرستی کی جانب ہے لیکن یہاں بھی کراچی کے ساتھ شناخت (مہاجر، شہری جو بھی کہہ لیں) کی بنیاد پر تعصب کو ہی ایک سیاسی شکل دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اور یہ تحریک آگے بڑھی تو یہ قوم پرستی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ (۳)

شناخت جدید دور میں

جدید دور میں قومی پرستی  اور قومی آزادی کی جگہ اب قومی شناخت نے لے لی ہے۔آج شناخت کے اظہار پر پاکستانی ریاست کو ویسے ہی کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے جیسے یورپ، امریکہ، انڈیا میں نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کی ایک شکل نیو لبرل ازم اور اس کے بحران زدہ ہونے سے پاپولزم کے ابھار نے امریکی شناخت پر ٹرمپ، ہندو شناخت پر مودی، فرانسیسی شناخت پر میکرون اور پاکستانی شناخت پر عمران خان جیسے پاپولسٹ رہنماوں کو مقبول کیا ہے۔ فلسطینیوں کو بھی گزشتہ ۴۰ سال سے یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ وہ ایک شناخت تو ہیں مگر نہ خود مختار ہو سکتے ہیں نہ ہی اسرائیلی ظلم و تشدد کو ظلم و تشدد کہنے کی اجازت ہے۔ یورپ اور امریکہ میں میڈیا پر حاوی لبرل ازم بھی ڈائورسٹی کے نام پر عورت، جینڈر، اقلیت اور شناخت کو ایک غیر سیاسی عمل کے طور پر لیتی ہے۔ شناخت کی تحریکیں ان مطالبات کے حل کے لیے جمہوری نظام کے بجائے ریاستی اداروں سے براہ راست گڈ گورننس کے نام  پر مطالبات پیش کرتے ہیں۔  یونیورسٹیوں میں اب قومی جبر کے خلاف قوم پرست تنظیموں کی جگہ اب قومی اسٹوڈنٹس کونسلوں نے لے لی ہے۔ قومی سوال اب سیاسی میلان سے دور اور شناخت کے میلان میں چلا گیا ہے۔ اب آزادی کی جدوجہد نہیں بلکہ شناخت قائم رکھنا اور اس بنیاد پر ثقافت سے جڑنا ایک مشن ہے۔ ساتھ ہی ریاستی سطح پر بے روزگاری سے نمٹنے اور وسائل پر کنٹرول کے لیے فوجی آپریشن قومی جبر کو خوفناک شکل میں پیدا کرتے جاتے ہیں۔ ریاستی ادارے ہزاروں افراد گمشدہ کرتے ہیں، ماورائے عدالت قتل ہوتے ہیں اور شناخت کو سیاست میں یعنی انتخابات میں لے جانے کے کسی بھی عمل کو سختی سے کچل دیا جاتا ہے۔ یوں شناخت کی سیاست اس ریاستی جبر کے سامنے قومی حقوق سے دستبردار ہو کر ایک ہی قوم کے تمام طبقات کو یکجا کر کے پیش کرنے تک محدود ہے۔ ایسے میں مہاجر قوم کا سوال بھی دراصل مہاجر شناخت کا سوال ہے۔

ہجرت اور قومیت / شناخت کا سوال

مہاجر قوم ہوں یا نہ ہوں یہ اب ایک حقیقت ہے کہ مہاجر اب ایک سیاسی شناخت ضرور ہیں۔ یہ سماجی، ثقافتی شناخت ہیں یا نہیں اس پر کچھ دیر میں آتے ہیں۔ گزشتہ ۷۰ سالوں سے بقول جید قوم پرستوں کے یہ ملک دراصل مظلوم قوموں کا قبرستان ہے۔ اور اب اگر ایک اور گروہ اپنے آپ کو ظلم کی بنیاد پر شناخت کی صورت منوانا چاہتا بھی ہے تو اس میں ہرج بھی کیا ہے۔ ایک طرح سے ہماری نسل کے سامنے مہاجر قومیت کا سوال تو ۴۰ سال سے چل ہی رہا ہے۔ سندھ میں سندھی قوم پرست اپنی ابتداء سے مہاجر قومیت کو سندھ کی اکائی پر حملہ سمجھتے رہے ہیں اور کبھی انہیں قوم مانے بناء ان کے ساتھ دیگر مزاحمت و اقتدار کا حصہ بھی بنتے رہے ہیں۔ جس طرح سے پیپلز پارٹی کی سیاست گزشتہ ۴۰ سال سے چل رہی ہے اس میں مجھے بھی یہ پارٹی سندھی قوم پرست پارٹی ہی نظر آتی ہے۔ پارس کی گفتگو میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ سال ۲۰۲۴ میں دنیا بھر سے ایک کروڑ سے زائد افراد جنگ، دہشت، آفات کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے جو ایک ہولناک تعداد ہے۔ ہجرت کرنے والوں کی اکثریت کم ازکم پاکستانیوں کی تو ویسے بھی چالیس سال تک اپنی شناخت پاکستانی اور رواج ایشیائی یا اسلامی بتاتی رہتی ہے۔ یوں ہجرت کرنا آپ سے آپ کی شناخت نہیں چھینتا ۔ میرے بچپن میں ہمیں بھی ہندوستانی کہا جاتا تھا، یہ وہ پرامن دور تھا کہ جس میں مہاجر شناخت نہ بنی تھی! ایسے ہی آج روہنگیا کے مسلمان ارکان میں اور ارکان کے لوگ روہنگیا میں مہاجر ہیں اور فلسطین کے مسلمان، عیسائی اور یہودی تو دنیا کے نہ جانے کون کون سے ملک میں مہاجر ہیں۔ شام میں بشر الاسد کی آمریت کے دور میں ہی سوا دو کروڑ کی آبادی کے ۷۰ لاکھ تو صرف ترکی میں اور سب ملا کر ایک کروڑ سے زائد لوگ ریاستی و گوریلا جنگ کے سبب ہجرت پر مجبور ہوئے۔ یوں تاریخی طور پر تو ہزاروں مثالیں ہیں۔ خود ہمارے کراچی کے اندر اور باہر آبادی میں بلوچ، براہوی بھی سندھ کے اندر کئی سو سالوں سے بسے ہوئے ہیں، ان کی زبان تو شاید گھر سے باہر مختلف ہو، رہن سہن بھی بدلا ہو مگر انکے رواج، زبان اور سماجی کیفیت اب بھی بلوچ ہے۔

اتنی تفصیل کا مقصد یہ تھا کہ ہجرت تو سرمایہ داری اور اسکی جنگوں نے اب فطری بنا دی ہے۔ تو کیا ہجرت کرنے والے اپنے رواج یا زبان ایک دو نسل میں مقامی کر لیتے ہیں۔یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ سندھی قوم پرست یہی گلہ کرتے ہیں کہ ہندوستان سے سندھ ہجرت کرنے والے مہاجرین نے سندھ کو نہیں اپنایا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گڈاپ کے بلوچ، کلمتی اب سندھی بولتے ہیں اور یہاں کے دانشور اب سندھی میں خطاب اور تحاریر و شاعری تک کرتے ہیں، یعنی انہوں نے اڈاپٹ/اپنا  تو لیا لیکن  یہ کراچی حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر آنےوالے ہندوستانیوں نے کیوں یہ شناخت نہ اپنائی ؟۔ظاہر ہے اسی سوال کا جواب ہی دراصل اس سیاسی کشمکش میں نظر آتا ہے جو مہاجروں کو قوم تسلیم کروانے والوں اور نہ ماننے والوں کے بیچ ہے۔

قومیت کا مارکسی تصور

روسی مارکسی لیون ٹراٹسکی ایک جگہ لکھتا ہے کہ قوموں کی تعریف معاشی، جغرافیائی اور لسانی پیمانے پر کرنا دراصل سرمایہ دارانہ طریقہ ہے جس میں جبر اور مشترکہ احساس کا پہلو چھپا دیا جاتا ہے۔ روسی انقلابی لینن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے قومی سوال کو سب سے موئثر طور پر سوشلسٹ انقلاب کے لیے اپنایا۔ یعنی قومی جبر کے مسئلہ میں اور اس تضاد میں جو پوشیدہ سیاسی پہلو ہے اسے گرفت میں لیا۔ لینن کے ِخیالات کو امریکہ میں سیاہ فام پر جبر پر لاگو کرتے ہوئے ٹراٹسکی نے قوم ہونے نہ ہونے پر ایک دلچسپ دلیل دی کہ اس سوال میں معاشی، جغرافیائی یا لسانی پیمانہ فیصلہ کن نہیں ہوتا بلکہ یہ لوگوں کا تاریخی شعور، انکے احساسات اور انکی دھڑکنیں ہوتی ہیں جنہیں اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔(۴) ریاست کا جبر اسے شکار افراد میں قومی شعور پیدا کرتا ہے۔ جبر کا شکار کو زبردستی قوم نہیں بنایا جا سکتا لیکن اگر وہ جبر کی صورتحال میں اپنے آپ کو قوم سمجھنے لگیں اور اس کے لیے کوشاں ہوں تو جبر اُنہیں ایک قومی اتحاد کی سیاسی شکل میں بدل سکتا ہے۔ یوں سوشلسٹ انقلاب کے حامیوں کے پاس کوئی خاص چوائس ہے نہیں۔ جبر تو سرمایہ داری اور اسکی ریاست کرتی ہے، سوشلسٹ تو نہیں، اس لیے اس جبر سے پیدا صورتحال پر توجہ دینا لازمی ہے۔ اب اس بات کو سمجھنے کے لیے کچھ سطور۔

سرمایہ داری عالمگیر نظام ہے۔ایک کُل کے طور پر سرمایہ داری نظام استحصال اور جبر کا نظام ہے۔  سرمایہ دار بقول مارکس  ایک دوسرے سےمتحارب مگر بھائی ہیں۔ اس لیے کہ یہ ایک دوسرے سے مقابلے پر بھی ہیں لیکن مزدور طبقہ کے استحصال میں سرمایہ دار متحد بھی  ہیں۔ سرمایہ دار یا سرمایہ دارانہ ریاست مزدور رکھتے ہوئے یہ تمیز نہیں کرتے کہ قوم یا زبان کیا ہے، انہیں تو مطلب محنت کروانا ہے اور وہ بھی کم سے کم اجرت میں۔ البتہ سرمایہ دار صرف استحصال ہی نہیں کرتے۔  یعنی محنت کروا کر پوری اجرت نہ دینا ہی نہیں ان کا کام نہیں ۔ بلکہ سرمایہ داری کا لازم جز ریاست ہے۔ریاست جبر کرتی ہے۔ استھصال منافع بنانے کے لیے۔ جبر وسائل جمع کرنے کے لیے۔ قوموں پر جبر جدید دور میں وسائل پر کنٹرول کے لیے ہے۔جبر واضع ہوتا ہے۔ استحصال مخفی۔ جبر فوجی آپریشن، مسنگ پرسنز، تشدد کے زریعہ نستبا واضع ہے۔ جبکہ استحصال کروانا تو مزدور کی مجبوری ہے کہ وگرنہ بھوکوں مرے۔ تو یوں استحصال چھپا ہوا، فطری نظر آتا ہے۔ جبکہ جبر کھلا اور غیر فطری نظر آتا ہے ۔ جبر ریاستی قوت سے ہوتا ہے۔  فوج کسی علاقے کے تیل گیس معدنیات گزرگاہوں پر کنٹرول کرنے کے لیے مقامی پر تشدد اور انہیں دربدر کرتی تو  بہت واضع نظر آتی ہے۔ اسی لیے قومی جبر کا شکار عوام جن میں بڑی تعداد مزدوروں کی ہوتی ہے انہیں فوری حل جبر کے خاتمے میں نظر آتا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ جبر کا شکار قوم کے ہی سرمایہ دار اشرافیہ اپنی قوم کا استحصال عین اسی وقت کربھی  رہے ہوتے ہیں تب بھی مزدور کو یہ اشرافیہ یہی احساس دلاتی ہے کہ یہ تو فطری ہے۔ یہ کہتے ہیں جس نے سرمایہ لگایا، اس نے رسک لیا، سرمایہ دار کا حق ہے کہ محنت کروائے تو اپنا منافع رکھ لے، رسک مزدور نے نہیں سرمایہ دار نے لیا۔ یہ وہ جعلی نظریہ ہے جس کا استعمال تمام ریاستیں اور سرمایہ دار اپنی ہی قوم کو مغلوب رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ یوں استحصال فطری نظر آتا ہے جبکہ یہ ہے نہیں۔

ہجرت اور اردو گجراتی بولنے والوں کی بالادستی

 جبر کی کئی صورتیں ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم نے ایک بہت بڑا جبر کیا، بے دخلی۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمانوں کو تقسیم کر دیا اور صدیوں ایک ہی علاقے میں رہنے والے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ان کے ساتھ موقع کی تلاش والے بھی ضرور آئے۔ لیکن بنیادی محرک انگریزوں کاتقسیم ہند تھا۔ اس جبر نے ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان میں لا بسایا۔ یہ اپنے آپ کو پاکستانی کہتے اور اس امید میں تھے کہ ہندوستان آنا جانا لگا رہے گا۔ یوں انکی ثقافتی بنیادیں کچھ عرصے قائم رہیں۔ بعد ازاں انڈیا سے دو جنگوں نے انہیں کمزور کر دیا۔ البتہ اسی دور میں بنگالیوں میں احساس محرومی ایک علیحدہ وطن کی گوریلا جنگ میں بدل گیا، جسے کچلنے کے لیے ایک خونی آپریشن پاکستانی فوج نے کیا، مگر ناکام ہوئی۔ بچے ہوئے پاکستان میں بھٹو برسراقتدار آئے تو دنیا بھر میں مزدور طبقہ، طلبہ و کسان ایک بہت بڑے انقلابی دور سے گزر رہے تھے کہ ساتھ ہی عالمی کساد بازاری ایک بہت بڑا بحران لیے کھڑی تھی۔ ہر ریاست اپنے اندر نجی سرمایہ داروں کو ریاستی تحفظ دینے کی انتہاء تک  پہنچ چکی تھی۔ شرقی پاکستان پر آپریشن سرچ لائٹ اس کی بہت بڑی مثال تھا۔ وسائل پر قبضہ رکھنے کے لیے ۲۵ لاکھ بنگالیوں کا خون بہا مگر وسائل پھر بھی ہاتھ سے کیا نکلے پورا خطہ مشرقی بنگال ہی نکل گیا۔ یہی صورت مغربی پاکستان میں بھی تھی اور دنیا بھر کی سرمایہ دار ریاستیں اب قومیانے کی پالیسی پر گامزن تھیں۔

مارکس ازم کی ایک بنیادی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ کسی نظریہ اور نہ کسی نظام کو جامد نہیں سمجھتی۔ تبدیلی حرکت میں ہے اور سرمایہ داری کیونکہ ایک حرکی نظام ہے اس لیے دنیا کے کسی خطے میں تبدیلی کا محرک سرمایہ داروں کے مفاد یا مزدور و محکوم کا ان سے نبردآزما ہونے پر کنسیشن یعنی چھوٹ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ سرمایہ داری میں بنیادی محرک سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے اور معاشی تبدیلی کے کا یہ اثر ہوتا ہے یا معاشی تبدیلی کی خواہش سیاست کو جنم دیتی ہے۔ سماج میں معاشی معاملات نئی سیاست، شناخت کی سیاست سمیت، جنم دیتے ہیں اور یوں معاشرت اور ثقافت بدلتی ہے۔اور اسی کی سمجھ مارکس وادیوں کو ابھرتے چیلنجز جیسے قومی سوال سے نمٹنے میں مدد دیتی ہے۔

نجی سے ریاستی ملکیت اور مہاجر قومی شناخت کا ابھار

سن 70ء کے اولین سالوں میں پاکستانی ریاست اپنے بحران سے نکلنے اوربچے کچھے ملک کو قائم رکھنے کے لیے مزید فوجی آپریشن بھی کرتی ہے ، یہ مزدور طبقہ کو مراعات بھی دیتی ہے ، یہ ڈوبتے سرمایہ داروں کو بچانے کے لیے نجی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے کر اپنا معاشی استحکام حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ویسے ہی جیسے آج کل بتایا جاتا ہے کہ نجکاری ہی معاشی استحکام کی ضمانت ہے!، تب قومیانا استحکام کی ضمانت تھا۔ یوں وہ بنک، انشورنس کمپنیاں،ملیں، کیمیکل کارخانے، اسکول، کالج اور زندگی کے کئی شعبہ جات میں نجی کاروبار کے ادارے جو معاشی طور پر ڈوب چکے تھے یا انکی افادیت سرمایہ داروں کے اپنے مفاد میں نہ تھی انہیں سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ایک محرک یقینا مزدوروں اور طلبہ کی ۱۹۶۹ کی تحریک بھی تھی کہ جس کے سبب  مزدور طبقہ کی ملازمتیں مستقل ہوئیں، انہیں یونین کے حقوق ملے۔ البتہ اداروں پر ریاستی کنٹرول ایک بیوروکریسی کی صورت سامنے آیا۔ اور یہی وہ سیاسی تبدیلی تھی جو آئندہ کے بحران سے نمٹنے میں ریاست کے کام آئی۔

نجی اداروں کا ریاستی کنٹرول  اپنے ساتھ میں ملازمتوں کو بھی ریاستی کنٹرول میں لے آیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کوٹہ سسٹم آیا۔ اب ملازمتیں قومیائے گئے سرکاری اداروں اور پہلے سے سرکاری اداروں جیسے واپڈا، ایگریکلچر،مواصلات وغیرہ میں صوبائی آبادی کی بنیاد پر دی جانے لگیں۔ مہاجر احساس محرومی اسی قومیانے کے عمل کا ایک بڑا سیاسی نتیجہ ثابت ہوئی۔

قومیائے جانے سے قبل بھی کراچی مغربی پاکستان کا ایک بہت بڑا صنعتی و سروسز کا مرکز تھا، یہ ۱۹۵۷ تک ملک کا دارالحکومت تھا۔ تقسیم کے بعد پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے مہاجر پاکستانی قومیت کی بنیاد پر کراچی ہی آن بسنا اس لیے فطری تھا، کہ ان کی یہاں ضرورت اس لیے تھی کہ یہاں پیشوں میں ہندو اکثریت اب ہجرت کر چکی تھی۔

مہاجر شناخت کے بغیر نجی سرمایہ کے ساتھ مقام!

جناح کا گجراتی مسلم بورژوازی سے تعلق ان کی سیاسی زندگی اور ہندوستان میں مسلم قوم پرستی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گجراتی مسلم بورژوازی، جو تاجر، صنعتکار اور پیشہ ور افراد پر مشتمل تھی، ایک معاشی طور پر اثرورسوخ رکھنے والا طبقہ تھا ۔اس کی حمایت جناح نے اپنی سیاسی جدوجہد میں حاصل کی۔ یہ گروہ خاص طور پر بمبئی اور کراچی جیسے شہری مراکز میں تجارت اور کاروبار میں کامیاب رہا تھا۔ہجرت کرنے والوں کا ملکی معیشت میں غالب کردار تقسیم کی تاریخ اور ہندوستان میں مذہبی تفریق سے وابستہ ہے۔ جناح کا گجراتی مسلم بورژوازی سے تعلق ان کی سیاسی زندگی اور ہندوستان میں مسلم قوم پرستی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جناح کے لیے یہ تعلق سیاسی صف بندی میں اہم تھا۔ انہوں نے گجراتی مسلمانوں کی معاشی طاقت کو پہچانا اور ان کے سیاسی حمایت کو اپنے مقاصد کے لیے اہم سمجھا، خاص طور پر جب وہ ہندوستانی نیشنل کانگریس میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے تھے اور بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما بنے۔گجراتی مسلم بورژوازی نے جناح کے علیحدہ مسلم ریاست کے وژن کی حمایت کی، کیونکہ وہ ہندوستانی اکثریتی طبقے کی حکمرانی سے تشویش میں مبتلا تھے۔ ان کے اقتصادی مفادات جناح کے مسلم اقلیتوں کے لیے سیاسی خودمختاری اور تحفظات کے مطالبے سے ہم آہنگ تھے، جو آخرکار پاکستان کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔عامر حسینی اس پہلو پر کہتے ہیں کہ گجراتی بورژوازی  دیگر ممالک سے کاروبار ، خاندان پاکستان لائے اور ریاست نے انہیں  کراچی میں املاک اور صنعتیں لگانے کے لیے زمینیں، گرانٹس اور قرضے بھی فراہم کیے -کراچی   دارالحکومت تو تھا ہی یہ صنعتی و تجارتی سرمائے کا مرکز بنا اور وسائل کا سارا رخ کراچی کی طرف موڑا گیا – بیوروکریسی میں یوپی بہار کے مہاجر چھائے اور تنخواہ دار پرت بھی انہی پر مشتمل تھی۔ پاکستانی قومیت ان کا فطری اثاثہ تھا اور ۱۹۷۰ تک یہ سیاست میں مذہب اور اردو کو مرکزیت بخش کر بالادست رہ سکے۔ ( ۵)

قومیانے کا عمل اور مہاجر شناخت کا ابھار

 ریاستی پالیسی کا اہم عنصر کراچی اس لیے بھی تھا کہ یہ پورٹ سٹی تھا۔ اس لیے بنک، انشورنس، اسٹاک مارکیٹ، ہول سیل مارکیٹ ، ایڈورٹائزنگ، صحافت اور ان کے لیے کالج، ٹیکنیکل،یونیورسٹی کے گریجویٹس کی ایک وسیع تعداد کی ضرورت نے نجی ادارے بنوائے۔ سرکاری ملازمتوں میں تو مہاجر تھے ہی یہ نجی اداروں میں چھائے ہوئے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ  دیگر صوبوں کے پروفیشنلز بھی کراچی میں ملازمت کو اعلی سمجھتے کہ یہاں اجرتیں زیادہ تھی اور مواقع بھی۔ البتہ قومیانے کے. عمل نے جب سرکاری اور قومیائے گئے اداروں میں ملازمتوں کو تمام صوبوں میں پھیلا دیا تو یہ پہلی بار تھا کہ اب کراچی والوں کے لیے ڈومیسائل اور کوٹہ سرکاری ملازمتوں میں رکاوٹ بن گئے۔ دنیا بھر میں ۶۰ کی دہائی کا معاشی بحران ہر ہی ملک میں نجی سرمایہ داروں کو بحران میں لایا۔ مضبوط ریاستوں نے تحفظ دیا جبکہ کمزور نے انکی ملکیت اپنا لی۔ سرمایہ داری ایک حرکی نظام ہے تو قومیانے کا عمل بحیثیت عمومی سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے میں ریاستی تحویل میں لینے سے کارآمد ثابت ہوا۔ سرمایہ داری کایہ  اہم سیاسی پہلو ہے کہ جہاں ملازمتیں کوٹے سے کم ہوئیں وہیں پروفیشنل و یونیورسٹی تعلیم کے ادارے جو فزیکلی کراچی میں تھے اور اب قومیانے کی وجہ سے ان میں فیسیں بھی کم تھیں تو یہ پیداوار کراچی میں جاری رہی۔لیکن ملازمتوں میں کمی کا بہت گہرا اثر ہوا۔ بھٹو حکومت میں ہی کراچی میں لسانی فسادات کی ابتداء بھٹو کے کزن اور وزیر متاز بھٹو  کی سندھی لسانی سیاست کی وجہ سے ہوئی۔ اور یہ احساس جو اب ملازمتوں کے ساتھ ایک کھوئے ہوئے مقام کا احساس بن چکا تھا وہ تیز تر ہوا۔” پاکستان مہاجروں نے بنایا تھا، مہاجر بانی پاکستان تھے، ہجرت میں قربانیاں پاکستان کے لیے دیں” جیسے احساسات کو سیاسی شکل ملنا شروع ہوئی۔ صرف الطاف حسین ہی نہیں اس دور میں لیفٹ کی قریب ہر سیاسی پارٹی و طلبہ تنظیم میں یہ فکر موجود تھی کہ شہری نوجوان ایلینیٹ یعنی کنارے لگایا جا رہا ہے۔

لیفٹ اور کوٹا سسٹم کے اثرات

 ڈاکٹر ظفر عارف کو جب ۱۹۸۴ میں یونیورسٹی سے مارشل لاء کی مخالفت میں نکالا گیا تو انہوں نے کراچی شہری محاذ قائم کیا اور اس کا ایک شاہکار کتابچہ کراچی میں بلدیات، صحت، تعلیم، روزگار جیسے مسائل پر ایک جاندار  انداز میں نوجوان کی محرومی کا ترجمان بنا، البتہ اس میں شناخت مہاجر نہ تھی بلکہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے سندھ میں دیہی شہری تفریق  سے متاثر کراچی کا نوجوان زیر بحث تھا۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی محض اردو بولنے والوں کی محرومی نہ تھا بلکہ ملک بھر سے یہاں آئے اور بسے ہوئے لوگوں کا احساس محرومی لیے ہوئے تھا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ کیونکہ فوجی حکومت نمائندہ نہیں اس لیے مسائل ہیں اور لیفٹ اور دیگر سیاسی پارٹیاں جمہوریت کو حقوق میں ناانصافی کا علاج تصور  کرتی تھیں۔ لیفٹ میں ہر طرف یہ بات بھی عام تھی کہ مزدور طبقہ  کی اصل لڑائی سرمایہ دارانہ ریاست سے ہے نہ کہ کراچی میں بسے دیگر زبان بولنے والے یا کسی اور علاقے کے فرد سے۔ اور یہ سوچ بھی کراچی کے مسائل کو شناخت کا مسئلہ بنانے سے اجتناب کی ایک وجہ تھی۔ سوشل ازم سرمایہ داری سے نجات کا نظام ہے اور سرمایہ داری ہی قومی جبر کرتی ہے تو سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد تمام مزدوروں کی ہو گی نہ کہ کسی ایک علاقے کے مزدوروں کی۔ کراچی میں لوئیر مڈل کلاس جو مختلف نجی چھوٹے کاروبار یا اس میں ملازم  تھی یہ تبدیلی کا محرک ہی نہ تھی، اس کی کوئی ایسی شکل بھی نہ تھی _جبکہ ہنر مندوں کی ایک فوج اس شہر میں موجود بھی تھی اور بڑھتی ہوئی سرمایہ داری اس میں تیز تر اضافہ کر رہی تھی۔ یوں لیفٹ کا مدعامنظم مزدور تھے جو کارخانوں اور سروسز میں جہاں یونین سازی تھی موجود تھے. ابھی نیولبرل دور کی یونین حقوق کی پامالی کا دور شروع نہ ہوا تھا اور نہ ہی لوگ جاب سیکورٹی نہ ہونے کے عالم میں کام کرتے. لیفٹ مزدور یکجہتی کا علم بردار تھا، ایک مشترکہ قوت بننے کا جس کے رستے میں سرمایہ دار اورانکی فوج رکاوٹ تھے۔  یوں یہ مارشل لاء کے خاتمے سے انہی حاصلات کی امید رکھتا تھا جو ایوب خان مخالف کامیابی  سے ملی تھیں. لیکن تب جدوجہد کامیاب ہوئی اور اب یہ ناکام ہونے جا رہی تھی. الطاف حسین کی قیادت میں مہاجر قومی موومنٹ تو ۱۹۷۸ میں بن چکی تھی لیکن یہ ۱۹۸۳ اور پھر ۱۹۸۵ میں جب  سیاسی کارکنوں پرمارشل لاء کا جبر عروج پر تھا اور ان پارٹیوں کی قیادت بالائی طبقہ کی ہونے کی  وجہ سے اپنی جگہ  چاہتی تھی نہ کہ مارشل لاء کا خاتمہ، اس لیے تحریک بحالی جمہوریت پانچ دن میں ہی بری طرح ناکام ہو گئی ۔ اس ناکامی نے یہ احساس پیدا کیا کہ نہ جمہوریت بحال ہو گی نہ ہی نمائندگی ملے گی نہ وہ مزدور حقوق۔ اور یوں اپنے اپنوں کی سوچ کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ مہاجر قومی موومنٹ سے پہلے بھی الطاف حسین کی قیادت میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن موجود تھی  لیکن ان کی شناخت اور اس میں مضمر  مہاجروں کے اشرافیہ اور دیگر سے برتر ہونے کی سوچ اپنے طور آمریت پسند ہی تھی۔ ١٩٨٤ میں جنرل ضیاء نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تو تمام لیفٹ رائٹ اور قوم پرست طلبہ تنظیموں نے اتحاد بنایا اور ملک بھر میں چھ ماہ کالجز اور یونیورسٹیاں بڑی تعداد میں بند رہیں۔ کراچی یونیورسٹی اس جدوجہد کا مرکز تھا لیکن یہاں مہاجر تنظیم طلبہ اتحاد سے باہر رہی. ایک جانب طلبہ پر مارشل لاء کا جبر اور پکڑ دھکڑ وتشدد جاری تھا تو دوسری جانب یہ فوجی گورنر چانسلر سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ یوں جمہوریت بحالی کی تحریک جب جون ۱۹۸۵ میں ناکام ہوئی تو جو مایوسی پھیلی تو اس کا فائدہ ایم کیوایم نے اٹھایا اور ١٨ اگست۱۹٨۵ کو کراچی نشتر پارک میں بڑا جلسہ ہوا اور مہاجر قومیت، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور بنگلہ دیش سے بہاریوں کی واپسی جیسے مطالبات انکی سیاست کی بنیاد بنے۔

مہاجر قومیت سے کراچی کنٹرول کا سفر

نوے کی دہائی کا آغاز ہوا تو روس اور مشرقی یورپ اور افریقہ میں نام نہاد سوشل ازم کا انہدام بھی ہو گیا۔ دنیا بھر میں نیو لبرل ازم کے سائے تلے لیفٹ اور رائٹ کا فرق ختم ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی معاشی پالیساں اب عوام دوست بمقابلہ سرمایہ دوست نہ رہیں، یہ سب سرمایہ داری کے پھیلاو کے لیے نجکاری کے حامی بنے۔ یہ وہی دور ہے کہ جب عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنے بحران سے کچھ باہر نکلنے میں کامیاب بھی ہو رہی تھی۔ نجکاری کا سلسلہ بے نظیر بھٹو نے شروع کیا اور اگلے دس سالوں میں کئی لاکھ سرکاری ملازمین ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ٹیکسٹائل کو فروغ ملا اور امریکہ دوستی نے ایک بڑی مارکیٹ افغان حہاد کے بدلے یورپ اور امریکہ میں ٹیکسٹائل اور دیگر اشیاء کی برآمد کے لیے کھول دی۔ معاشی استحکام عارضی ہی سہی مگر اس کا اثر یہ ہوا کہ اب بنک، انشورنس، اسکول تعلیم ، ایڈورٹائزمنٹ اور صحافت کا جیسے ایک بوم یعنی تیز بازاری آگئی۔ کراچی میں نجی ملازمتیں ،گو کہ سرمایہ داروں کے استحصال کا آلہ کار تھیں،  تیزی سے بڑھیں اور ڈوبی ہوئی نجی سرمایہ کاری کو ایک نئی زندگی ملی۔ اب ملازمتیں جو نجکاری سے پہلے ہی کم ہو رہی تھیں ان کا مرکزہ سرکاری ادارے نہ رہے بلکہ یہ نجی ادارے بن گئے۔ آبادی کے لیے سرکاری ہسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں نہ تھے تو بہت بڑے پیمانے پر سروس انڈسٹری پھیلتی  چلی گئی۔ نجی اسکول، ہسپتال، کلینکس کے ساتھ ساتھ شہری زندگی میں ٹرانسپورٹ سرکاری ختم ہوئی تو اسکی جگہ نجی آ گئی ۔ پورٹ تو تھا ہی تو کاروبار نجی سطح پر پھیلتا چلا گیا اور مہاجر ان ملازمتوں میں کھپتے چلے گئے۔ گو معیار زندگی اگر بڑھا نہِیں تو دیکھنے میں بڑھ گیا۔ جن والدین نے سرکاری اسکول میں پڑھا اب اس شہر کا ۷۰ فیصد نجی اسکولوں میں جا رہا تھا۔ نیولبرل ازم نے جیسے کراچی میں گھر کر لیا اور نجی تعلیم، صحت، کاروبار  جیسے فطری طور پر اپنا لیے گئے۔ معاشی ابھار نے شہروں کو وسیع اور دیہاتوں کو تباہ کر دیا لیکن کراچی کی عوام اس تباہی سے بہت دور تھی۔ یوں مہاجر قومیت منوانے کا معاملہ معاشی تبدیلی نے ایک بار پھر پیچھے کر دیا۔  احساس محرومی رہا کہ کوٹہ سسٹم رہا لیکن اب ایم کیوایم مہاجر قومیت، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور بنگلہ دیش سے بہاریوں کی واپسی جیسے مطالبات سے پیچھے ہٹتی گئی اور کراچی کی اشرافیہ، بلڈرز، فیکٹری مالکان اور کاروباریوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی لوئیر مڈل کلاس کی ترجمان بن گئی جو صنعتی مزدور نہ تھے۔نجی سرمائے کا فروغ ویسے ہی ہونے لگا جیسے ۱۹۵۰ کی دہائی میں ان نئے مہاجرین کے والدین کے سامنے ہو رہا تھا۔ کراچی ایک بار پھر ملازمتوں کا گڑھ بن گیا_گو کہ یہ ملازمتیں کافی نہ تھیں لیکن پھر بھی ۷۰ اور ۸۰ء کی دہائی سے بہت بہتر صورتحال تھی۔ ایم کیوایم مختلف قومی اتحادوں اور ان کے بکھرنے سے نئی حکومتوں کا حصہ بنی رہی_ یہ اب اس گلے سڑے نظام کا ویسے ہی حصہ تھی جیسے پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیاں ۔ اور یوں ان کی سیاست کا مرکز مہاجر شناخت کو کراچی پر ایم کیو ایم کے کنٹرول کی صورت میں بننے لگا۔ کراچی میں خونی ہڑتالیں مہاجروں کی دیگر غریب عوام پر بالادستی کا ثبوت ہوتیں اور ریاست کے اندر ریاست برقرار رکھنے کا سبب بنتی۔ مافیائیں کئی طرح کی انہی میں سے بنیں لیکن لینڈ گریبنگ، سرکاری اداروں جیسے بلدیات میں چند ہزار ملازمتوں کے زریعہ ایم کیو ایم کا اشرافیہ کی پسندیدہ جماعت ہونے کی حقیقت کو چھپاتا رہا.

شناخت اور مزدور طبقہ کی بدترین تقسیم

کراچی پر کنٹرول نے کراچی میں مزدور طبقہ کی جدوجہد پر قیامت خیز اثر ڈالا۔ اور جتنا زیادہ قتل و غارت بڑھتی اتنا ہی زیادہ کام کی جگہ چاہے سرکاری ہو یا نجی مہاجر مزدور اپنے ساتھی مزدوروں سے فاصلے پر ہوتے چلے گئے۔ یہ شہر میں اسی تنظیم کے زریعہ علاقے میں دیگر اقوام پر حاوی تھے. سیکٹر آفس علاقائی تنازعات کی عدالت تھا. مہاجر مزدور اس نفسیاتی بالاتر ہونے کے احساس کو ہی ایم کیو ایم کی دین سمجھتے۔ لیکن کراچی کی سروس انڈسٹری ہو یا پروڈکشن انڈسٹری اس میں اجرتوں کو کم رکھنے، ملازمتوں کو کچا اور غیر محفوظ رکھنے اور یونین سازی کے مکمل خاتمے پر ایم کیو ایم کا وہی رویہ ہوتا جو طلبہ یونین کی بحالی کی ۱۹۸۳ کی تحریک میں تھا، یعنی اس جمہوریت سے ہمیں کیا فائدہ۔جنرل ضیاء کی نسبت جنرل مشرف دور میں ایم کیو ایم آمریت کی نہ صرف حواری بنی بلکہ ایک فاشسٹ قوت کا دست و بازو بنی جس کی مثال ۱۲ مئی ۲۰۰۷ کا کراچی وکلاء تحریک پر حملہ تھا۔کراچی  پاکستان میں بنگال کے بعد شناخت کی سب سے بڑی تحریک کی پہچان بنا مگر یہی مہاجر شناخت قتل عام کی دہشت انگیز علامت بن گئی۔   ایم کیو ایم مہاجر شناخت کی علامت تو تھی لیکن کام کی جگہ پر محنت کش کو اس کے حقوق کی ترجمانی کرنے سے صاف انکاری رہتی۔ جن سرکاری اداروں میں ان کی یونین ایسوسی ایشن ہوتی وہاں یہ برسرعام تعصب کی بنیاد پر ووٹ لے کر ان اداروں کی انتظامیہ کے آلہ کار بنے رہتے، جہاں نجکاری ہوتی یہ نجکاری مخالف تحریک کا حصہ نہ بنتے۔ جہاں ورلڈ بنک کی تباہ کن مداخلت ہوتی جیسے نجی اسکولوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں کو فروغ تو وہاں  یہ خاموش رہتے کہ ان کی بالا پرت جانتی تھی کہ سرکاری ادارے ختم ہونگے تو وہی انکی جگہ نجی ادارے قائم کریں گے. یہ اچھی طرح جانتے تھے  کہ جتنا زیادہ  شہری سہولیات جیسے تعلیم صحت، بلدیات کاروبار بنیں گے اتنا زیادہ فائدہ مہاجر کاروباریوں کو ان شعبوں میں اسکول کالج، یونیورسٹی، ہسپتال کھولنے سے ملے گا۔ یوں جسے ایم کیو ایم مہاجر قوم کی سیاست کہتی رہی وہ دراصل مہاجر شناخت کی سیاست تک محدود رہی اور مزدور و محکوم مہاجر اور سرمایہ پرست مہاجر کی تفریق پر پردہ پڑا رہا۔ اس دور میں مہاجر شناخت کی سیاست دراصل سرمایہ داری کے حواری کی سیاست تھی۔ اسی لیے ریاستی سطح پر جب تک نجکاری کا فروغ ہو رہا تھا ایم کیو ایم کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کی چھوٹ دراصل سرمایہ داروں کے مفاد میں تھی۔ (٦)

ملک میں معاشی بحران کی ابتداء یوں تو سنہ ۲۰۰۰ سے شروع ہوئی لیکن  اس کے لیے کراچی کے سرمایہ داروں کو اب ریاستی تحفظ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ایم کیو ایم سنہ ۲۰۱۰ تک ایک دہشت گرد تنظیم کی شکل اختیار کر چکی تھی جو ایک جانب مہاجروں کے گرتے معیار زندگی پر کوئی توجہ نہ دیتی اور دوسری جانب ریاست کے لیے اب اتنی کارآمد نہ رہی کہ سروسز اور صنعتوں میں اب بہت بڑی تعداد میں دیگر علاقوں کے لوگ ایک بار پھر شامل ہونے لگے۔ سرمایہ داروں میں سے الکرم کے مالک نے ایک بیان میں کہا کہ اب کراچی کسی ایک تنظیم سے کنٹرول نہیں ہو سکتا۔ وجہ یہ تھی کہ حقوق کی جدوجہد اب ایم کیو ایم کے باہر سے چلنا شروع ہو چکی تھیں۔ فوجی آپریشن ۲۰۱۳ یوں تو کراچی کے لیاری کے لیے شروع ہوا لیکن یہ چند سالوں میں ایم کیو ایم مخالف آپریشن میں بدل گیا۔  سرمایہ دار یہ جان گئے تھے کہ کراچی میں صنعتی امن کے لیے اب فوج کی ضرورت ہے۔ اسی لیے گزشتہ ۸ سالوں میں ایکسپورٹ کی صنعتوں نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی جس کا تصور ایم کیو ایم کے  دور میں ممکن نہ تھا۔ موجودہ مہنگائی ، بے روزگاری کے دور میں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے پاس کوئی معاشی متبادل نہِیں ماسوائے اس کے کہ یہ اسی نجی سرمایہ داری کے پھیلاو کی بات کرتے ہیں جو کام کی جگہ پر مہاجر محنت کشوں کو نہ حقوق دیتا ہے، نہ جاب سیکورٹی بلکہ ان کا بدترین استحصال کر کے انہیں غریب سے غریب تر ویسے ہی بنا رہا ہے جیسے دیگر زبان بولنے والوں کو۔

نمائندگی سے محروم شہر اور شناخت

آج کراچی کے عوام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اس نظام میں نمائندگی سے محروم ہیں۔مہاجروں کو کھل کر اپنے مسائل پر سیاست کی آزادی نہیں کہ ریاست کو خدشہ ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کی کوشش شہری کاروبار کو برباد کر دے گی۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہری نمائندگی کا فقدان مہاجر نوجوانوں میں ایک بار پھر احساس محرومی پھیلا رہا ہے۔ ۲۰۲۴ کے الیکشنز کے بعد یہ احساس اب ملک گیر سطح پر بھی ہے۔ البتہ دیکھنا یہ ہو گا کہ شناخت کی سیاست کیسے کراچی میں مزدور طبقہ کی جڑت اور طلبہ کی ایک قوت کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔

شناخت کی سیاست اور مارکس وادیوں کے مسائل

پاکستان میں جہاں عورت، جینڈر، اقلیتوں کے مسائل اور تحریکوں پر مارکس وادی نسبتا انکلوسیو نکتہ نظر رکھتے ہیں لیکن نئی شناختوں اور خاص کر مہاجر شناخت پر سندھی قوم پرستی کا گہرا اثر ہے۔ عالم یہ ہے کہ یہاں افغان مہاجرین کی جبری افغانستان منتقلی کی وکیل اگر پاکستانی ریاست ہے تو اس کے حواری سندھی قوم پرست تو ہیں ہی مگر ان کے ساتھ لیفٹ کا اچھا خاصہ حصہ بھی ہے۔ اسی طرح کراچی پر پیپلز پارٹی کی سیاست کے جو اثرات ہیں اس سے یکسر آنکھ چرا کر لیفٹ کی سیاست کی جاتی ہے۔ بحریہ ٹاون کا سندھ کی زمین پر قبضہ ہو یا ملیر ایکسپریس وے جو کراچی کے قریب یا کراچی کے اندر ہی بن رہے ہیں لیکن یہاں اسے بلوچ و سندھیوں کی زمین سے بے دخلی کے طور پر تحریک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یہی گروپس کراچی کے مہاجر علاقوں میں بے دخلیوں کا کام اردو بولنے والے لیفٹ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس بھارت میں مارکس وادیوں کا کہنا ہے کہ شناخت کی سیاست اکثر نظامی معاشی استحصال اور طبقاتی تضادات کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔- تاہم، وہ ذات، جنس اور دیگر شناختوں کو طبقاتی جدوجہد میں شامل کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں تاکہ ایک جامع فریم ورک تیار کیا جا سکے۔بھارت میں شناخت کی سیاست مختلف ظلم و جبر کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ مارکسی نقطہ نظر اس بات پر زور دیتا ہے کہ بھارت کی گہری جڑوں والی عدم مساوات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے طبقے اور شناخت کی جدوجہد کو یکجا کرنا ضروری ہے۔البتہ بھارت میں بھی جب کشمیر یا خالصتان کی علیحدگی کی تحریک آگے بڑھتی ہے تو لیفٹ کی بڑی اکثریت بھارتی ریاست کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ہے۔ یوں شناخت سے قوم پرستی اور یہاں سے قومی آزادی کا سفر یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ بھی ہے اور مہاجر یا کراچی شناخت بھی اسی سرمایہ دارانہ ترقی کے عمل کے اثرات سے ابھرتی اور ڈوبتی ہے۔مارکس وادیوں کے لیے ضروری یہ ہے کہ شناخت اور قوم کا سرٹیفیکیٹ دینے کے بجائے ان سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کو اجاگر کریں جو طبقاتی تفریق کے ساتھ لسانی و قومی تفریق کو ابھارتا ہے اور مزدور طبقہ کی جدوجہد کو کمزور کرتا ہے۔

نوٹس:

  1. شناخت سے نسل پرستی

مثال کے طور پر، اگر یورپ میں فاشزم کے خلاف جدوجہد صرف ان نسلی گروپوں تک محدود ہو جائے جو فوراً فاشسٹوں کی طرف سے نشانہ بن رہے ہیں، تو یہ تباہ کن ہو گا۔آج فلسطین جینوسائڈ دنیا میں قتل عام  پر پورا عالمی میڈیا اس کا حامی ہے اور اس انسانیت سوز عمل پر پاکستان میں شناخت و قوم کے علم بردار یہی کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم پر زیادہ ظلم ہو رہا ہے یا یہ کہ عرب عرب کا ساتھ دیں ہمارا کیا کام ہم اپنے اسرائیل سے نمٹیں. یہی بے اعتنائی افغان مہاجرین کی بے دخلی اور پشتون افغان نسل پرستانہ ریاستی پروفائلنگ پر بھی نظر آتی ہے. شناخت کے علم بردار مارکس وادی تو یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ افغانوں اور دیگر کو سندھ میں دوسرے درجے کا شہری قرار دیا جائے کیونکہ سندھی نچلے درجے پر ہیں. نسل پرستی اور فاشسٹ تحریک کا بڑھنا صرف ‘غیر ملکی پیدا ہونے والے’ کارکنوں کے لیے نہیں، بلکہ تمام کارکنوں کے لیے خطرہ ہے۔ یورپ میں فاشسٹوں کے حالیہ عروج کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے، ان تمام افراد کو جو انتہائی دائیں بازو کے مخالف ہیں، ان کی نسل کے فرق کے بغیر، فاشزم مخالف تحریک میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ظلم کے خلاف کوئی بھی جدوجہد کامیاب ہونے کے لیے سب سے مضبوط ممکنہ تحریک کی تشکیل پر مبنی ہونی چاہیے، اور یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک تحریک مختلف گروپوں کے کارکنوں کو ایک مشترکہ جدوجہد میں متحد کرے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی خاص ظلم کا سامنا کرنے والے افراد ہی اس ظلم کے خلاف لڑیں، جیسے یہ ضروری نہیں کہ غربت کے خلاف لڑنے کے لیے خود غربت کا سامنا کرنا پڑے۔ جو لوگ کسی خاص ظلم کا شکار نہیں ہیں، وہ ان افراد سے ہمدردی محسوس کر سکتے ہیں جو اس کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں ایک مشترکہ جدوجہد میں اتحادی کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔

http://isj.org.uk/mistaken-identity-can-identity-politics-liberate-the-oppressed/

۲۔مسلم بنگلہ شناخت کی تاریخ

1850 سے 1940 کے دوران مسلمان بنگالیوں کی شناختی سیاست نوآبادیاتی حکمرانی، سماجی عدم مساوات، اور اقتصادی پسماندگی کے زیر اثر تشکیل پائی۔ 1793 کے مستقل بندوبست کے نتیجے میں زمینداری نظام ہندو اشرافیہ کے حق میں ہوگیا، جبکہ مسلمان بنگالی زیادہ تر دیہی علاقوں میں چھوٹے کاشتکار یا مزدور کے طور پر رہ گئے۔ اس عدم مساوات نے فرقہ وارانہ تناؤ کو جنم دیا۔انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہندو ثقافتی احیاء اور اصلاحی تحریکوں کے ردعمل میں مسلمان بنگالیوں نے اپنی مذہبی شناخت کو مضبوط کیا۔ فرائضی اور وہابی جیسی اصلاحی تحریکوں نے اسلام کی پاکیزگی اور مسلم روایات پر زور دیا، جس سے ایک اجتماعی شناخت ابھری۔ تعلیم، جو ابتدا میں ہندو اشرافیہ تک محدود تھی، مسلمانوں کے لیے ایک اہم مسئلہ بن گئی۔ انیسویں صدی کے آخر تک سر سید احمد خان اور نواب سلیم اللہ جیسے رہنماؤں نے مسلمانوں کو تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا، جس میں کلکتہ کی علیا یونیورسٹی کا قیام قابل ذکر ہے۔1905 میں بنگال کی تقسیم نے مسلمان بنگالیوں کو اقتصادی اور سیاسی خودمختاری کی امید دلائی، لیکن 1911 میں اس کی منسوخی نے مایوسی اور دھوکہ دہی کا احساس پیدا کیا۔ 1906 میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے قیام نے مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی طور پر متحرک کیا۔ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قوم پرستی کی تحریک کے اندر مسلمان بنگالیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔دیہی اور شہری بنگالی مسلمانوں کے مسائل مختلف تھے۔ شہری اشرافیہ سیاسی معاملات میں مصروف تھی، جبکہ دیہی مسلمان زمین، کرایہ داری، اور اقتصادی انصاف پر توجہ دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مسلمان بنگالی مصنفین اور دانشوروں نے اپنی ادبی اور صحافتی کوششوں کے ذریعے ثقافتی اور مذہبی شناخت کو مستحکم کیا۔1940 کی دہائی تک، مسلمان بنگالیوں کے اندر علیحدہ ریاست کے مطالبے نے زور پکڑ لیا، جو 1947 میں مشرقی پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔ یہ دور مسلمان بنگالیوں کی مذہبی، سماجی، اور سیاسی خواہشات کے امتزاج سے ایک منفرد اجتماعی شناخت کے ارتقا کا عکاس ہے۔مشرقی بنگال میں اقتصادی پسماندگی، ہندو اشرافیہ کا غلبہ، اور مسلم اکثریتی کسان طبقے کی محرومی نے سماجی و سیاسی تقسیم کو جنم دیا۔ نوآبادیاتی بیوروکریسی اور مغربی بنگال کے ہندو متوسط طبقے کی اجارہ داری نے مشرقی بنگال میں مسلم قوم پرستانہ سیاست کو فروغ دیا۔ حسین شہید سہروردی نے مسلم شناخت کی نمائندگی کی، جبکہ ہندو نیشنلسٹ سیاست کی قیادت تلک کر رہے تھے۔مسلم لیگ اور فضل الحق کی کرشک پرجا پارٹی نے مشرقی بنگال کی علیحدگی اور الگ صوبے کے قیام کی وکالت کی، جو مسلم بورژوازی، اشرافیہ، اور تنخواہ دار طبقے کے مفادات کی عکاس تھی۔

۳-کراچی انٹر بورڈ نتائج اور تعصب کا اصل مقصد

ایک بڑا شفٹ ہوا تعلیمی نظام میں پچھلے 20 سالوں میں. اسکول اور یونیورسٹی تعلیم کا بہت بڑا انرولمنٹ، بڑے شہروں میں سرکاری سے نجی میں چلا گیا. سرکاری یونیورسٹی میں بے پناہ ریگولیشن لائی گئی، داخلہ، امتحان، دورانیہ سب یونیورسٹی کے اوپر سے کنٹرول. نجی یونیورسٹیوں کو کھلی چھوٹ. ایسے ہی نجی اسکولوں پر سرکاری کنٹرول کا یکسر خاتمہ. یوں نجی میٹرک کا انرولمنٹ پرائیویٹ بورڈز جیسے آغا خان، ضیاالدین میں منتقل ہوا. آغا خان اشرافیہ کے لیے جو کیمبرج فیس افورڈ نہیں کر سکتے. ضیاالدین نچلے درجہ والے نجی اسکولوں کے لیے جہاں بورڈ کا کام رجسٹریشن و امتحانی فیس جمع کرنا  اور نمبر بانٹنا. سرکاری میٹرک بورڈ درمیانہ درجہ کے نجی اسکولوں و کوچنگ سینٹروں کے مالکان کی رشوتوں سے گریڈ بیچنے والے بن گئے. رہ گیا انٹر بورڈ تو یہاں  نجی کالج انرولمنٹ اب سرکاری کے مقابلے میں 30 فیصد ہو گیا ہے. شہر میں مڈل کلاس کا سائز گزشتہ 10 سال سے کم ہو رہا ہے. اور حالیہ انٹر بورڈ نتائج میں کراچی کے طلبہ کے ساتھ زیادتی حقیقی بھی ہے اور متعصبانہ بھی. لیکن اس کا حل بھی انٹر کے نجی بورڈز قائم کرنے کی اجازت سے ہو گا اور سرکاری کالجوں کو ان نجی بورڈز سے الحاق کرنے پر مجبور کیا جائے گا. سرکاری بورڈز نہ رہے تو تعلیم لوئر مڈل کلاس کے ہاتھ سے نکل جائے گی.

مہاجر شناخت کی سیاست پر یہ مضمون اپنی نوعیت کا منفرد مضمون ہے

گزشتہ دنوں جوش اکیڈمی کراچی کے اکتار ہال میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ایک اسٹڈی سرکل میں شرکت کی۔ ایک موضوع مہاجر سوال پر مارکسی نکتہ نظر  کا تھا جس پر کامریڈ پارس جان نے اپنی تنظیم کی طرف سے مہاجر قومی سوال پر ایک بحث کا آغاز کرتے ہوئےتاریخی حقائق کا جائزہ لیا۔مہاجر شناخت، قوم اور آزادی پر گزشتہ پچاس سال سے تنظیم، تحریک اور سیاست ہو رہی ہے۔مشرق وسطی میں لبیا کے بعد اب شام میں ریاست کا خاتمہ اور پاکستان کی مخدوش صورتحال یہاں بھی بالکنائیزیشن کی بحث لے آئی ہے۔ لیفٹ ریاست بچانے اور بچ نہ پانے کے منظر نامے پر بحث بھی کر رہا ہے۔ سندھ کی سیاست میں بالکنائزیشن کی بحث میں مہاجر سندھی کشمکش ایسے دور میں سامنے آرہی ہے جب کراچی میں ۲۰۱۶ سے جاری فوجی آپریشن نے ایم کیو ایم کو تقسیم اور پسپاء کر کے جو خلاء چھوڑا ہے اسے پُر کرنے کی جماعت اسلامی کی کوششوں کے ساتھ لیفٹ کے لیے بھی مواقع ہیں۔ یہ سب وہ اسباب ہیں جو ہمیں اس موضوع کی طرف لاتے ہیں۔ کراچی دو ڈھائی کروڑ کا شہر ہے اور انقلابی سیاست کا مرکزہ رہا ہے اس لیے بھی جائزہ ضروری ہے۔

اس مضمون میں کوشش یہ ہے کہ قوم پرستی اور شناخت پرستی پر مارکسی نکتہ نظر پیش کیا جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ شناخت کی سیاست کیسے سرمایہ دارانہ تبدیلیوں سے ابھرتی ہے، کیسے کسی قوم کی اشرافیہ بدلتی صورتحال میں کنارے لگتی ہے تو اس کی دانشورانہ پرت اس کا اظہار کرتی ہے اور مزدور طبقہ سمیت عوام الناس کو اس شناخت کے گرد موبیلائیز کرتی ہے۔ کیسے کسی ایک ہی وحدت میں دیگر شناختوں سے علاقے، زبان، مذہب کی تفریق کے باوجود جڑت پیدا کرتی ہے اور ایک طویل کشمکش کے بعد یا تو سرمایہ دارانہ تبدیلی انہیں اپنے اندر سمو لیتی ہے اور یہ شناخت ثقافتی اظہار  تک محدودہو جاتی ہے یا پھر صورتحال اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ یہ قوم پرستی اور قومی آزادی کی طرف آجاتے ہیں۔ اور یہ عمل آزادی سے شناخت تک واپسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسے مزدور طبقہ کی جدوجہد پر شناخت کی سیاست کا اثر ہوتا ہے، کیسے مزدور طبقہ کی تحریک کی کمزوری نسلی تعصب کی شناخت کو دائیں جانب اور کیسے مزدور طبقہ کی جدوجہد کا تیز ہونا اسی شناخت کو بائیں جانب لے آتا ہے۔ شناخت کی تحریک ریاست کے جبر کا بھی شکار ہوتی ہے تو اس کا ردعمل مختلف ہو سکتا ہے، یہ ریاست کا آلہ کار بن کر مزدور طبقہ کی جدوجہد کو پسپا کر دیتی ہے۔

سرمایہ داری سے پیدا شناخت

کہنے کو تو قوموں کا وجود سرمایہ داری کے ابھار سے ہی وابستہ ہے۔جدید ریاست کا تصور بھی سرمایہ داری کی دین ہے۔ لیکن سرمایہ داری کا اولین پھیلائو نوآبادیات سے ہوا۔ انگریز، آسٹرین، فرانسیسی، اطالوی نوآبادیات اپنے راج کے لیے زمینوں کی ازسر نو تقسیم کرتے۔ ہندوستان میں یہ سٹلمنٹ کہلاتی کہ اس کے زریعہ باضابطہ پرانے اور نئے زمیندار جاگیردار پیدا کئے گئے۔ اس سبب نئی اشرافیہ محض طاقت کے اظہار میں سامنے نہ آئی بلکہ اس نے نئے محکوم بھی پیدا کیے جن سے مذہب، زبان، ثقافت تک کی بنیاد پر احساس محرومی پیدا ہوا۔ قوم پرستی کی ایک شکل اسی صورت پشتونخوا، بنگال ، پنجاب اور سندھ میں ابھر کر سامنے آئی جس کا اظہار مسلم قوم پرستی میں ہوا۔ تقسیم کے بعد سرمایہ دارانہ تبدیلیوں میں ایک بڑا بحران ۶۰ کی دہائی میں آیا۔ ریاستی پشت پناہی سے اب جاگیردار کے بجائے سرمایہ دار بنانے کا عمل ریاستی وسائل انہیں کھڑا کرنے میں لگائے جانے لگے، چھوٹے بڑے اور بڑے بہت بڑے ٹائیکون بننے لگے۔لیکن عالمی کساد بازاری اور برصغیر میں اس سرمایہ داری کا عالمی نظام سے جڑت بحران میں تباہ کن ثابت ہوا۔وہ ڈوبی تو یہ ڈوبے۔ اس سبب تمام ہی ترقی پزیر ممالک سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں نیشنل آئیزیشن کا عمل ریاستی سرپرستی میں ہوا۔ اب نئے سرمایہ دار کیا ابھرتے ریاست ہی سرمایہ کاری میں پھولنے لگی۔ اس نوآبادیاتی (نو آباد کا مطلب نئی زمینوں کو آباد کرنا ہے) عمل کا نتیجہ طبقاتی پرتوں میں نئے مسائل لے آیا۔ میرا ماننا ہے کہ مہاجر قوم پرستی یا شناخت اسی ریاستی سرمائے کے پھل پھولنے کا نتیجہ ہے۔

قوم پرستی کا تصور

قوم پرستی ، جیسا کہ اس مضمون میں ہم نے دکھانے کی کوشش کی ہے ،ایک جامد تصور نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام قومی جبر کا سبب ہے۔ اور سرمایہ داری بحران کا شکار ہو تو یہ ریاست کے زریعہ قومیانہ اور نجکاری کے عمل کے نظام کو بچانےکے لیے کرتی ہے۔ قوم ہونے کا احساس براہ راست سرمایہ داری سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ داری کسی خطہ کو اپنے اندر انٹی گریٹ (اپنا حصہ بنا لے) کر لے تو یہ احساس کم ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری کسی خطے میں سکڑنے لگے تو یہ احساس اجاگر ہونے لگتا ہے۔ پشتونخوا کی اشرافیہ آج پنجاب اور اسلام آباد سے انٹی گریٹڈ ہے، موٹر ویز اور نیٹوکی جنگ نے ان کے کاروبار کو کئی گنا فروغ دیا ہے اور یہ اشرافیہ اب پاکستان کے مرکز پر اقتدار کی سیاست کرتی ہے نہ کہ پشتونخوا کی آزادی کے لیے۔ پشتونخوا میں دیہی و شہری غریب کے لیے یہ اشرافیہ کوئی متبادل نہیں پیش کرتی بلکہ نجکاری کوفروغ، نجی اسکول، ہسپتال اور سروسز کی بھرمار کررہی ہے۔ دیہی و شہری غریب میں البتہ اس مہنگائی اور بے روزگاری پر قومی احساس ایک تحریک یعنی پی ٹی ایم کی شکل میں موجود ہے۔ یہی صورت بلوچستان کی ہے جہاں وسائل پرقبضہ میں بلوچ اشرافیہ ریاست کی آلہ کار ہے جبکہ نوجوان بہتر مستقبل کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے قومی سوال دراصل پہلا سوال یہ اٹھاتا ہے کہ جس قوم کی بات ہو رہی ہے اس قوم میں اشرافیہ و سرمایہ داروں کو قومی آزادی کی ضرورت ہے یا ریاست میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے یہ قومی شناخت کی سیاست کر رہے ہیں۔

شناخت کا تصور

شناخت پر مارکس وادی شیرن اسمتھ لکھتی ہیں کہ بائیں بازو کی سیاست میں نئے سرگرم افراد کے لیے یہ تنظیمی طریقہ کار عام فہم لگ سکتا ہے: یہ کہ مظلوم افراد کو اپنی مظلومیت کے خلاف لڑنا چاہیے۔ مزید برآں، معاشرے میں جنسی تعصب، نسلی تعصب اور ہم جنس پرستی کے مخالف خیالات کی موجودگی کبھی کبھار ایسا تاثر دیتی ہے کہ وہ نفرت جو لوگوں کو تقسیم کرتی ہے، اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مایوس کن خیال شناختی سیاست کی نظریاتی بنیاد بناتا ہے۔ اس میں یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ ایک خاص تحریک میں صرف وہی لوگ شامل ہونے چاہئیں جو کسی مخصوص قسم کے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں۔ دیگر تمام افراد کسی نہ کسی طرح مسئلے کا حصہ ہیں، کیونکہ وہ ظلم سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ہر مظلوم گروہ کا اپنا الگ اور خود مختار تحریک ہونی چاہیے۔ اس طرح کی تحریکیں عموماً “آزادی” یا خود مختاری کی بنیاد پر منظم کی جاتی ہیں، جو ایک دوسرے اور سوشلسٹ تحریک سے آزاد ہوتی ہیں، اور یہ تحریکیں طبقاتی بنیاد سے بھی آزاد ہوتی ہیں۔البتہ شناخت کی ایسی توجیح غلط بھی ہے. موجودہ دور میں پوسٹ مارڈن ازم نے اپنے اپنوں کے لیے ایسی سوچ کو نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ اور قومی تحریکوں میں نطریاتی بنیاد فراہم کر دی ہے.(۱)

جو لوگ ظلم کے خلاف ہیں، وہ امتیاز اور متعصب پسند قوم پرستی کے خلاف لڑتے ہیں۔ مختلف نظریات رکھنے والے لوگ ان لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جو نسل، جنس یا دیگر وجوہات کی بنا پر نشانہ بنتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ معاشرتی ظلم سے نفرت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اتحاد ہی ہمیں طاقتور تعصبات کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن اس اتحاد میں کچھ اختلافات ہیں جو تحریک کو مختلف راستوں پر لے جا سکتے ہیں۔ سوشلسٹوں کے اس بارے میں اپنے نظریات ہیں۔

سوشلسٹوں کا  آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ ہمیں ظلم کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ مثبت طریقے سے جڑنا چاہیے، مگر اس میں نظریاتی اختلافات کو چھپانا مددگار نہیں ہے۔ اس لیے ہم شناخت کو مارکسی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتے ہیں تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ ہم کیوں مختلف ہیں۔ ہم یہ دلیل دیتے ہیں کہ شناخت پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا، جو انفرادی تعلقات پر زور دیتا ہے بجائے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم پر، لوگوں کو اجتماعی یکجہتی کی طرف نہیں لے جاتا جو ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے ضروری ہے۔

شناخت کی برصغیر میں تاریخ

شناخت کی سیاست یوں تو دنیا بھر میں ایک عرصے سے جاری ہے۔ البتہ یہ بھی ہوا ہے کہ شناخت کی سیاست سرمایہ دارانہ و نوآبادیاتی تبدیلیوں اور ان میں ریاست کے کردار کو حاوی رکھنے کے سبب جبر کا شکار ہو کر قومی آزادی کی تحریک میں بدل گئیں۔ اس کی دو مثالیں تو ہماری اپنی تاریخ سے ہی جڑی ہوئی ہیں۔ ایک ہندوستان میں ہندوستانیوں کی انگریز تسلط سے نکلنے کی تحریک جو کانگریس کے علاوہ سبھاش چندر بوس ، باچا خان، امبیدکر اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی صورت میں ابھریں اور پھر انہی کے بیچ شناخت کی ایک اور تحریک جو آخیر تک علیحدگی پسند نہ تھی یعنی مسلم لیگ ایک بہت بڑی تحریک بن گئی۔ اسی طرح خلافت تحریک تو پین اسلام ازم کی پہلی سیاسی تحریک کے طور پر بھی دیکھی جاتی ہے مگر یہ شناخت قائم کرنے کی ابتداء تو تھی مگر اس کی انتہاء کو پاکستان کا قیام بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح تقسیم ہندوستان کے ۲۵ سال بعد ہی مشرقی پاکستان میں ۱۹۵۵ سے چلنے والی شناخت کی سیاست عوامی لیگ اور پھر مکتی باہنی کی صورت ایک شہری و دیہی خانہ جنگی سے گوریلا جنگ اور پھر آزادی پر منتج ہوئی،اتفاق سے الیکشن جیتنے کے بعد اور فوجی آپریشن سے پہلے تک شیخ مجیب بنگالی شناخت پر حقوق کے باوجود آزادی کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے۔

پاکستانی سیاست پر شناخت سے قومی آزادی کا سفر اب تک صرف بنگالی شناخت نے ہی کیا ہے۔ اور گزشتہ ۵۵ سال کی قوم پرستی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بعد ازاں روایتی پاکستانی سیاست میں انٹی گریٹ ہو جانے والی قومی تحریکیں ہوں یا وقتا فوقتا بلوچ، سندھی،پشتون اور مہاجر قومی تحریکیں ان سب کے مدنظر دراصل عوامی لیگ کی شناخت سے آزادی کا ماڈل ہی سب میں موئثر مانا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مہاجر شناخت و قوم پرستی کے جائزے سے پہلے ہم بنگالی نیشنل ازم کا ایک مختصر جائزہ لے لیں۔

بنگال: شناخت سے آزادی کا سفر

بنگال میں نوآبادیاتی زمینوں کی تقسیم نے ہندومسلم تفریق کی بنیاد ڈالی۔ مسلمان دیہی اور غریب تھے جبکہ پہلے سے موجود ہندو اشرافیہ کی تعداداور غلبہ میں زمینوں کی اجارہ داری نے اضافہ کیا۔ یوں پہلے بنگلہ مسلم شناخت ۱۸ ویں صدی میں ابھری اور پھر ایک دانشورانہ تحریک نے علیحدہ مسلم ریاست کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر تحریک پاکستان بنی(۲)۔تقسیم ہند کے بعد مشرقی بنگال کو بیوروکریسی میں مہاجر اور پنجابی اشرافیہ کے غلبے کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ غیر بنگالی صنعتکاروں کو ریاستی سرپرستی دی گئی۔ اس سے مشرقی بنگال میں مسلم قومیت کی سیاست تبدیل ہو کر بنگالی سیکولر قوم پرستی میں ڈھل گئی، جو عوامی لیگ کے سیاسی منشور کا مرکزی نکتہ بن گئی۔1970 سے پہلے، عوامی لیگ کی سیاست بنگالی شناخت کے گرد مرکوز تھی، جو مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کی سیاسی، معاشی، اور ثقافتی محرومی کے خلاف ردعمل کے طور پر ابھری۔ عوامی لیگ نے لسانی اور ثقافتی یکجہتی پر زور دیا، خاص طور پر بنگالی زبان کی تحریک کے ذریعے، اور بنگال کی پیداوار پر مغربی پاکستان کو چلائے جانے کے پہلو کو اجاگر کیا، مشرق و مغرب کی تقسیم کو مادی اور علامتی دونوں طور پر پیش کیا۔ شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکاتی پروگرام نے خودمختاری کا ایک منشور بنا دیا، طبقاتی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر بنگالی قوم پرستی ایک چیلنج بن گئی۔شناخت کی سیاست کے تناظر میں، عوامی لیگ کا یہ طریقہ مختلف گروہوں کو متحد کرنے میں کامیاب رہا، لیکن اس نے بنگالیوں میں طبقاتی نابرابریوں کو نظرانداز کیا۔ اس نے بنگالی شناخت کو سیاسی متحرک ہونے کی بنیاد بنایا، جو بالآخر آزادی کی تحریک اور بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کر گیا۔

پاکستان میں بنگالی قوم پرستی اپنے سے پیش رو مسلم قوم پرستی اور ہندوستانی قوم پرستی کی طرح موجود ریاست میں اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ عوامی امنگوں کا اظہار دراصل بنگالی قوم میں اشرافیہ کے مفادات کی ترجمانی کے لیے کیا جاتا ۔ لیکن یہ پاکستانی ریاست کے اندر اپنے آپ کو محدود رکھتا۔ ت 1949 میں عوامی مسلم لیگ کے طور پر قائم ہونے والی اس جماعت نے ابتدا میں پاکستان کے اندر مشرقی بنگال کے مفادات کے تحفظ پر توجہ دی۔ تاہم، وقت کے ساتھ اس نے مذہبی شناخت کی بجائے ایک وسیع بنگالی قوم پرستی کی سیاست اختیار کی۔1955 میں “مسلم” کا لفظ جماعت کے نام سے ہٹا دیا گیا، جس سے سیکولرازم اور انکلوسیونس کی طرف اس کی تبدیلی کی عکاسی ہوئی۔ یہ تبدیلی بنگالی زبان بولنے والے تمام افراد، چاہے ان کا مذہب کچھ بھی ہو، کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش تھی۔-1966 میں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکاتی پروگرام سے خودمختاری  کا ایجنڈا پیش کیا جسمیں ٹیکس، خارجہ تجارت، اور کرنسی جیسے مسائل شامل تھے، جو مشرقی پاکستان کے استحصال کو اجاگر کرتے تھے۔اور ۱۹۷۰ کے انتخابات میں اکثریت نے پہلے عوامی لیگ کو پاکستان بھر میں سرکار بنانے کا حق مانگنے پر لاکھڑا کیا اور فوجی آپریشن بعد یہ علیحدگی کی تحریک بن گئی۔ یوں دیکھیں تو شناخت کی سیاست کا سفر نوآبادیاتی یا ریاستی سطح پر تسلط کے خلاف ایک اظہار ہے جو وقت کے ساتھ اس لیے بدلتا ہے کہ قوم کی اشرافیہ انٹی گریٹ نہ ہو تو یہ شناخت سے خود مختاری اور علیحدگی تک چلی جاتی ہے۔

سندھی قوم پرستی: آزادی سے شناخت کا سفر

موجودہ دور میں پاکستان میں قومی آزادی کی ایک تحریک یعنی بلوچ تحریک ہے جبکہ پشتون تحفظ تحریک اپنے طور پر جنگ مخالفت کے روپ میں پشتون شناخت کے ساتھ حقوق اور وسائل پر دسترس کے ساتھ ایک علیحدگی کی تحریک بننے کی کوشش میں بھی نظر آتی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے  سندھ میں اپنی ۱۷ سالہ حکومت کے زریعہ سندھی اشرافیہ کو بڑی حد تک پاکستان میں انٹی گریٹ کر کے اس قوم پرستی کے تصور کو شناخت کی سیاست کے زیادہ قریب اور علیحدگی پسندی سے دور کر دیا ہے۔ کراچی اور شہری سندھ میں البتہ اس سیاست کا اثر شہری یا مہاجر آبادی پر پڑا ہے۔دیہی سندھ یا کراچی کے علاوہ دیگر شہروں سے کراچی آنے والے سندھیوں کی معیشت اور معاشرت بھی بدل رہی ہے۔ یہ قوم کی ایک نئی شکل میں ابھر رہے ہیں۔ دیکھنے میں تو سندھی بولنے والے کراچی کو فتح کر رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ سندھ میں زراعت کی تباہ کاری  کا سرمایہ دارانہ عمل ہے جو دیہی سندھ سے مڈل کلاس کو کراچی منتقل کر رہی ہے اور یہاں اثر رسوخ سے کچھ تو سرکاری ملازمتوں میں چھاتے جا رہے ہیں لیکن ان سے کئی سو گنا بڑی تعداد ان سندھیوں کی ہے جو بے پناہ محنت کر کے سیلز، ٹریڈ، وکالت، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور دھاڑی فیکٹری و تعمیراتی مزدور کی صورت ویسے ہی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جیسے ۱۹۴۷ اور پھر ۱۹۷۱ میں ہندوستان/مشرقی پاکستان سے اردو بولنے والے اور پھر بعد ازاں کئی لہروں میں پشتونخوا اور پنجاب سے کراچی آن بسنے والے مہاجرین کر رہے تھے۔ ان کی محنت، لگن اور کم اجرت پر بحالت مجبوری کام کرنا انہیں سرمایہ داری میں جگہ بنانے کا موقع دیتا ہے، اب یہ کراچی وال یا شہری سندھی ہی ہیں۔ ان کا اور دیگر زبان بولنے والوں کا طبقاتی مفاد ایک ہی ہے جو بہت جلد سرمایہ داروں کو کھلنے لگے گا۔

پاکستانی قوم پرستی میں کراچی /مہاجر شناخت کاسفر

 کراچی میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی پیپلز پارٹی پر لسانی تعصب کا ایک جیسا الزام لگا کر کراچی کے ساتھ ہونے والے ظلم کوشناخت کی سیاست کے طور پر پیش بھی کر رہے ہیں اور دیہی شہری کی تفریق کو بہت سختی سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ حالیہ انٹر بورڈ کے نتائج میں کراچی بورڈ سے ۳۰ فیصد طلبہ پاس ہوئے جو اس شہر کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے جبکہ سندھ کے دیگر بورڈز میں ۸۰ سے زائد طلبہ پاس ہوئے۔ اس عجیب و غریب نتیجے کو پیپلز پارٹی کی کراچی یا مہاجر دشمنی سے تعبیر کر کے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی ایک ہی انداز میں پیش کر رہے ہیں ۔ یہاں بھی سرکاری انرولمنٹ کا نجی اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں منتقل ہونا اور نجی بورڈز کا قیام ایک اہم محرک ہے  جو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ ان پارٹیوں کا طبقاتی مفاد نجی مالکان کے ساتھ ہے۔یوں بورڈ نتائج  کو کراچی/مہاجر دشمنی سے تعبیر کر کے جو حل پیش کیا جا سکتا ہے وہ نجی مالکان کے عین مفاد میں یعنی کراچی کے لیے ایک اور نجی بورڈ کا قیام  بھی ہو سکتا ہے۔ اس تحریک کا بظاہر رخ مہاجر قوم پرستی کی جانب ہے لیکن یہاں بھی کراچی کے ساتھ شناخت (مہاجر، شہری جو بھی کہہ لیں) کی بنیاد پر تعصب کو ہی ایک سیاسی شکل دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اور یہ تحریک آگے بڑھی تو یہ قوم پرستی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ (۳)

شناخت جدید دور میں

جدید دور میں قومی پرستی  اور قومی آزادی کی جگہ اب قومی شناخت نے لے لی ہے۔آج شناخت کے اظہار پر پاکستانی ریاست کو ویسے ہی کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے جیسے یورپ، امریکہ، انڈیا میں نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کی ایک شکل نیو لبرل ازم اور اس کے بحران زدہ ہونے سے پاپولزم کے ابھار نے امریکی شناخت پر ٹرمپ، ہندو شناخت پر مودی، فرانسیسی شناخت پر میکرون اور پاکستانی شناخت پر عمران خان جیسے پاپولسٹ رہنماوں کو مقبول کیا ہے۔ فلسطینیوں کو بھی گزشتہ ۴۰ سال سے یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ وہ ایک شناخت تو ہیں مگر نہ خود مختار ہو سکتے ہیں نہ ہی اسرائیلی ظلم و تشدد کو ظلم و تشدد کہنے کی اجازت ہے۔ یورپ اور امریکہ میں میڈیا پر حاوی لبرل ازم بھی ڈائورسٹی کے نام پر عورت، جینڈر، اقلیت اور شناخت کو ایک غیر سیاسی عمل کے طور پر لیتی ہے۔ شناخت کی تحریکیں ان مطالبات کے حل کے لیے جمہوری نظام کے بجائے ریاستی اداروں سے براہ راست گڈ گورننس کے نام  پر مطالبات پیش کرتے ہیں۔  یونیورسٹیوں میں اب قومی جبر کے خلاف قوم پرست تنظیموں کی جگہ اب قومی اسٹوڈنٹس کونسلوں نے لے لی ہے۔ قومی سوال اب سیاسی میلان سے دور اور شناخت کے میلان میں چلا گیا ہے۔ اب آزادی کی جدوجہد نہیں بلکہ شناخت قائم رکھنا اور اس بنیاد پر ثقافت سے جڑنا ایک مشن ہے۔ ساتھ ہی ریاستی سطح پر بے روزگاری سے نمٹنے اور وسائل پر کنٹرول کے لیے فوجی آپریشن قومی جبر کو خوفناک شکل میں پیدا کرتے جاتے ہیں۔ ریاستی ادارے ہزاروں افراد گمشدہ کرتے ہیں، ماورائے عدالت قتل ہوتے ہیں اور شناخت کو سیاست میں یعنی انتخابات میں لے جانے کے کسی بھی عمل کو سختی سے کچل دیا جاتا ہے۔ یوں شناخت کی سیاست اس ریاستی جبر کے سامنے قومی حقوق سے دستبردار ہو کر ایک ہی قوم کے تمام طبقات کو یکجا کر کے پیش کرنے تک محدود ہے۔ ایسے میں مہاجر قوم کا سوال بھی دراصل مہاجر شناخت کا سوال ہے۔

ہجرت اور قومیت / شناخت کا سوال

مہاجر قوم ہوں یا نہ ہوں یہ اب ایک حقیقت ہے کہ مہاجر اب ایک سیاسی شناخت ضرور ہیں۔ یہ سماجی، ثقافتی شناخت ہیں یا نہیں اس پر کچھ دیر میں آتے ہیں۔ گزشتہ ۷۰ سالوں سے بقول جید قوم پرستوں کے یہ ملک دراصل مظلوم قوموں کا قبرستان ہے۔ اور اب اگر ایک اور گروہ اپنے آپ کو ظلم کی بنیاد پر شناخت کی صورت منوانا چاہتا بھی ہے تو اس میں ہرج بھی کیا ہے۔ ایک طرح سے ہماری نسل کے سامنے مہاجر قومیت کا سوال تو ۴۰ سال سے چل ہی رہا ہے۔ سندھ میں سندھی قوم پرست اپنی ابتداء سے مہاجر قومیت کو سندھ کی اکائی پر حملہ سمجھتے رہے ہیں اور کبھی انہیں قوم مانے بناء ان کے ساتھ دیگر مزاحمت و اقتدار کا حصہ بھی بنتے رہے ہیں۔ جس طرح سے پیپلز پارٹی کی سیاست گزشتہ ۴۰ سال سے چل رہی ہے اس میں مجھے بھی یہ پارٹی سندھی قوم پرست پارٹی ہی نظر آتی ہے۔ پارس کی گفتگو میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ سال ۲۰۲۴ میں دنیا بھر سے ایک کروڑ سے زائد افراد جنگ، دہشت، آفات کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے جو ایک ہولناک تعداد ہے۔ ہجرت کرنے والوں کی اکثریت کم ازکم پاکستانیوں کی تو ویسے بھی چالیس سال تک اپنی شناخت پاکستانی اور رواج ایشیائی یا اسلامی بتاتی رہتی ہے۔ یوں ہجرت کرنا آپ سے آپ کی شناخت نہیں چھینتا ۔ میرے بچپن میں ہمیں بھی ہندوستانی کہا جاتا تھا، یہ وہ پرامن دور تھا کہ جس میں مہاجر شناخت نہ بنی تھی! ایسے ہی آج روہنگیا کے مسلمان ارکان میں اور ارکان کے لوگ روہنگیا میں مہاجر ہیں اور فلسطین کے مسلمان، عیسائی اور یہودی تو دنیا کے نہ جانے کون کون سے ملک میں مہاجر ہیں۔ شام میں بشر الاسد کی آمریت کے دور میں ہی سوا دو کروڑ کی آبادی کے ۷۰ لاکھ تو صرف ترکی میں اور سب ملا کر ایک کروڑ سے زائد لوگ ریاستی و گوریلا جنگ کے سبب ہجرت پر مجبور ہوئے۔ یوں تاریخی طور پر تو ہزاروں مثالیں ہیں۔ خود ہمارے کراچی کے اندر اور باہر آبادی میں بلوچ، براہوی بھی سندھ کے اندر کئی سو سالوں سے بسے ہوئے ہیں، ان کی زبان تو شاید گھر سے باہر مختلف ہو، رہن سہن بھی بدلا ہو مگر انکے رواج، زبان اور سماجی کیفیت اب بھی بلوچ ہے۔

اتنی تفصیل کا مقصد یہ تھا کہ ہجرت تو سرمایہ داری اور اسکی جنگوں نے اب فطری بنا دی ہے۔ تو کیا ہجرت کرنے والے اپنے رواج یا زبان ایک دو نسل میں مقامی کر لیتے ہیں۔یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ سندھی قوم پرست یہی گلہ کرتے ہیں کہ ہندوستان سے سندھ ہجرت کرنے والے مہاجرین نے سندھ کو نہیں اپنایا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گڈاپ کے بلوچ، کلمتی اب سندھی بولتے ہیں اور یہاں کے دانشور اب سندھی میں خطاب اور تحاریر و شاعری تک کرتے ہیں، یعنی انہوں نے اڈاپٹ/اپنا  تو لیا لیکن  یہ کراچی حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر آنےوالے ہندوستانیوں نے کیوں یہ شناخت نہ اپنائی ؟۔ظاہر ہے اسی سوال کا جواب ہی دراصل اس سیاسی کشمکش میں نظر آتا ہے جو مہاجروں کو قوم تسلیم کروانے والوں اور نہ ماننے والوں کے بیچ ہے۔

قومیت کا مارکسی تصور

روسی مارکسی لیون ٹراٹسکی ایک جگہ لکھتا ہے کہ قوموں کی تعریف معاشی، جغرافیائی اور لسانی پیمانے پر کرنا دراصل سرمایہ دارانہ طریقہ ہے جس میں جبر اور مشترکہ احساس کا پہلو چھپا دیا جاتا ہے۔ روسی انقلابی لینن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے قومی سوال کو سب سے موئثر طور پر سوشلسٹ انقلاب کے لیے اپنایا۔ یعنی قومی جبر کے مسئلہ میں اور اس تضاد میں جو پوشیدہ سیاسی پہلو ہے اسے گرفت میں لیا۔ لینن کے ِخیالات کو امریکہ میں سیاہ فام پر جبر پر لاگو کرتے ہوئے ٹراٹسکی نے قوم ہونے نہ ہونے پر ایک دلچسپ دلیل دی کہ اس سوال میں معاشی، جغرافیائی یا لسانی پیمانہ فیصلہ کن نہیں ہوتا بلکہ یہ لوگوں کا تاریخی شعور، انکے احساسات اور انکی دھڑکنیں ہوتی ہیں جنہیں اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔(۴) ریاست کا جبر اسے شکار افراد میں قومی شعور پیدا کرتا ہے۔ جبر کا شکار کو زبردستی قوم نہیں بنایا جا سکتا لیکن اگر وہ جبر کی صورتحال میں اپنے آپ کو قوم سمجھنے لگیں اور اس کے لیے کوشاں ہوں تو جبر اُنہیں ایک قومی اتحاد کی سیاسی شکل میں بدل سکتا ہے۔ یوں سوشلسٹ انقلاب کے حامیوں کے پاس کوئی خاص چوائس ہے نہیں۔ جبر تو سرمایہ داری اور اسکی ریاست کرتی ہے، سوشلسٹ تو نہیں، اس لیے اس جبر سے پیدا صورتحال پر توجہ دینا لازمی ہے۔ اب اس بات کو سمجھنے کے لیے کچھ سطور۔

سرمایہ داری عالمگیر نظام ہے۔ایک کُل کے طور پر سرمایہ داری نظام استحصال اور جبر کا نظام ہے۔  سرمایہ دار بقول مارکس  ایک دوسرے سےمتحارب مگر بھائی ہیں۔ اس لیے کہ یہ ایک دوسرے سے مقابلے پر بھی ہیں لیکن مزدور طبقہ کے استحصال میں سرمایہ دار متحد بھی  ہیں۔ سرمایہ دار یا سرمایہ دارانہ ریاست مزدور رکھتے ہوئے یہ تمیز نہیں کرتے کہ قوم یا زبان کیا ہے، انہیں تو مطلب محنت کروانا ہے اور وہ بھی کم سے کم اجرت میں۔ البتہ سرمایہ دار صرف استحصال ہی نہیں کرتے۔  یعنی محنت کروا کر پوری اجرت نہ دینا ہی نہیں ان کا کام نہیں ۔ بلکہ سرمایہ داری کا لازم جز ریاست ہے۔ریاست جبر کرتی ہے۔ استھصال منافع بنانے کے لیے۔ جبر وسائل جمع کرنے کے لیے۔ قوموں پر جبر جدید دور میں وسائل پر کنٹرول کے لیے ہے۔جبر واضع ہوتا ہے۔ استحصال مخفی۔ جبر فوجی آپریشن، مسنگ پرسنز، تشدد کے زریعہ نستبا واضع ہے۔ جبکہ استحصال کروانا تو مزدور کی مجبوری ہے کہ وگرنہ بھوکوں مرے۔ تو یوں استحصال چھپا ہوا، فطری نظر آتا ہے۔ جبکہ جبر کھلا اور غیر فطری نظر آتا ہے ۔ جبر ریاستی قوت سے ہوتا ہے۔  فوج کسی علاقے کے تیل گیس معدنیات گزرگاہوں پر کنٹرول کرنے کے لیے مقامی پر تشدد اور انہیں دربدر کرتی تو  بہت واضع نظر آتی ہے۔ اسی لیے قومی جبر کا شکار عوام جن میں بڑی تعداد مزدوروں کی ہوتی ہے انہیں فوری حل جبر کے خاتمے میں نظر آتا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ جبر کا شکار قوم کے ہی سرمایہ دار اشرافیہ اپنی قوم کا استحصال عین اسی وقت کربھی  رہے ہوتے ہیں تب بھی مزدور کو یہ اشرافیہ یہی احساس دلاتی ہے کہ یہ تو فطری ہے۔ یہ کہتے ہیں جس نے سرمایہ لگایا، اس نے رسک لیا، سرمایہ دار کا حق ہے کہ محنت کروائے تو اپنا منافع رکھ لے، رسک مزدور نے نہیں سرمایہ دار نے لیا۔ یہ وہ جعلی نظریہ ہے جس کا استعمال تمام ریاستیں اور سرمایہ دار اپنی ہی قوم کو مغلوب رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ یوں استحصال فطری نظر آتا ہے جبکہ یہ ہے نہیں۔

ہجرت اور اردو گجراتی بولنے والوں کی بالادستی

 جبر کی کئی صورتیں ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم نے ایک بہت بڑا جبر کیا، بے دخلی۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمانوں کو تقسیم کر دیا اور صدیوں ایک ہی علاقے میں رہنے والے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ان کے ساتھ موقع کی تلاش والے بھی ضرور آئے۔ لیکن بنیادی محرک انگریزوں کاتقسیم ہند تھا۔ اس جبر نے ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان میں لا بسایا۔ یہ اپنے آپ کو پاکستانی کہتے اور اس امید میں تھے کہ ہندوستان آنا جانا لگا رہے گا۔ یوں انکی ثقافتی بنیادیں کچھ عرصے قائم رہیں۔ بعد ازاں انڈیا سے دو جنگوں نے انہیں کمزور کر دیا۔ البتہ اسی دور میں بنگالیوں میں احساس محرومی ایک علیحدہ وطن کی گوریلا جنگ میں بدل گیا، جسے کچلنے کے لیے ایک خونی آپریشن پاکستانی فوج نے کیا، مگر ناکام ہوئی۔ بچے ہوئے پاکستان میں بھٹو برسراقتدار آئے تو دنیا بھر میں مزدور طبقہ، طلبہ و کسان ایک بہت بڑے انقلابی دور سے گزر رہے تھے کہ ساتھ ہی عالمی کساد بازاری ایک بہت بڑا بحران لیے کھڑی تھی۔ ہر ریاست اپنے اندر نجی سرمایہ داروں کو ریاستی تحفظ دینے کی انتہاء تک  پہنچ چکی تھی۔ شرقی پاکستان پر آپریشن سرچ لائٹ اس کی بہت بڑی مثال تھا۔ وسائل پر قبضہ رکھنے کے لیے ۲۵ لاکھ بنگالیوں کا خون بہا مگر وسائل پھر بھی ہاتھ سے کیا نکلے پورا خطہ مشرقی بنگال ہی نکل گیا۔ یہی صورت مغربی پاکستان میں بھی تھی اور دنیا بھر کی سرمایہ دار ریاستیں اب قومیانے کی پالیسی پر گامزن تھیں۔

مارکس ازم کی ایک بنیادی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ کسی نظریہ اور نہ کسی نظام کو جامد نہیں سمجھتی۔ تبدیلی حرکت میں ہے اور سرمایہ داری کیونکہ ایک حرکی نظام ہے اس لیے دنیا کے کسی خطے میں تبدیلی کا محرک سرمایہ داروں کے مفاد یا مزدور و محکوم کا ان سے نبردآزما ہونے پر کنسیشن یعنی چھوٹ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ سرمایہ داری میں بنیادی محرک سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے اور معاشی تبدیلی کے کا یہ اثر ہوتا ہے یا معاشی تبدیلی کی خواہش سیاست کو جنم دیتی ہے۔ سماج میں معاشی معاملات نئی سیاست، شناخت کی سیاست سمیت، جنم دیتے ہیں اور یوں معاشرت اور ثقافت بدلتی ہے۔اور اسی کی سمجھ مارکس وادیوں کو ابھرتے چیلنجز جیسے قومی سوال سے نمٹنے میں مدد دیتی ہے۔

نجی سے ریاستی ملکیت اور مہاجر قومی شناخت کا ابھار

۷۰ء کے اولین سالوں میں پاکستانی ریاست اپنے بحران سے نکلنے اوربچے کچھے ملک کو قائم رکھنے کے لیے مزید فوجی آپریشن بھی کرتی ہے ، یہ مزدور طبقہ کو مراعات بھی دیتی ہے ، یہ ڈوبتے سرمایہ داروں کو بچانے کے لیے نجی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے کر اپنا معاشی استحکام حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ویسے ہی جیسے آج کل بتایا جاتا ہے کہ نجکاری ہی معاشی استحکام کی ضمانت ہے!، تب قومیانا استحکام کی ضمانت تھا۔ یوں وہ بنک، انشورنس کمپنیاں،ملیں، کیمیکل کارخانے، اسکول، کالج اور زندگی کے کئی شعبہ جات میں نجی کاروبار کے ادارے جو معاشی طور پر ڈوب چکے تھے یا انکی افادیت سرمایہ داروں کے اپنے مفاد میں نہ تھی انہیں سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ایک محرک یقینا مزدوروں اور طلبہ کی ۱۹۶۹ کی تحریک بھی تھی کہ جس کے سبب  مزدور طبقہ کی ملازمتیں مستقل ہوئیں، انہیں یونین کے حقوق ملے۔ البتہ اداروں پر ریاستی کنٹرول ایک بیوروکریسی کی صورت سامنے آیا۔ اور یہی وہ سیاسی تبدیلی تھی جو آئندہ کے بحران سے نمٹنے میں ریاست کے کام آئی۔

نجی اداروں کا ریاستی کنٹرول  اپنے ساتھ میں ملازمتوں کو بھی ریاستی کنٹرول میں لے آیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کوٹہ سسٹم آیا۔ اب ملازمتیں قومیائے گئے سرکاری اداروں اور پہلے سے سرکاری اداروں جیسے واپڈا، ایگریکلچر،مواصلات وغیرہ میں صوبائی آبادی کی بنیاد پر دی جانے لگیں۔ مہاجر احساس محرومی اسی قومیانے کے عمل کا ایک بڑا سیاسی نتیجہ ثابت ہوئی۔

قومیائے جانے سے قبل بھی کراچی مغربی پاکستان کا ایک بہت بڑا صنعتی و سروسز کا مرکز تھا، یہ ۱۹۵۷ تک ملک کا دارالحکومت تھا۔ تقسیم کے بعد پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے مہاجر پاکستانی قومیت کی بنیاد پر کراچی ہی آن بسنا اس لیے فطری تھا، کہ ان کی یہاں ضرورت اس لیے تھی کہ یہاں پیشوں میں ہندو اکثریت اب ہجرت کر چکی تھی۔

مہاجر شناخت کے بغیر نجی سرمایہ کے ساتھ مقام!

جناح کا گجراتی مسلم بورژوازی سے تعلق ان کی سیاسی زندگی اور ہندوستان میں مسلم قوم پرستی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گجراتی مسلم بورژوازی، جو تاجر، صنعتکار اور پیشہ ور افراد پر مشتمل تھی، ایک معاشی طور پر اثرورسوخ رکھنے والا طبقہ تھا ۔اس کی حمایت جناح نے اپنی سیاسی جدوجہد میں حاصل کی۔ یہ گروہ خاص طور پر بمبئی اور کراچی جیسے شہری مراکز میں تجارت اور کاروبار میں کامیاب رہا تھا۔ہجرت کرنے والوں کا ملکی معیشت میں غالب کردار تقسیم کی تاریخ اور ہندوستان میں مذہبی تفریق سے وابستہ ہے۔ جناح کا گجراتی مسلم بورژوازی سے تعلق ان کی سیاسی زندگی اور ہندوستان میں مسلم قوم پرستی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جناح کے لیے یہ تعلق سیاسی صف بندی میں اہم تھا۔ انہوں نے گجراتی مسلمانوں کی معاشی طاقت کو پہچانا اور ان کے سیاسی حمایت کو اپنے مقاصد کے لیے اہم سمجھا، خاص طور پر جب وہ ہندوستانی نیشنل کانگریس میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے تھے اور بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما بنے۔گجراتی مسلم بورژوازی نے جناح کے علیحدہ مسلم ریاست کے وژن کی حمایت کی، کیونکہ وہ ہندوستانی اکثریتی طبقے کی حکمرانی سے تشویش میں مبتلا تھے۔ ان کے اقتصادی مفادات جناح کے مسلم اقلیتوں کے لیے سیاسی خودمختاری اور تحفظات کے مطالبے سے ہم آہنگ تھے، جو آخرکار پاکستان کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔عامر حسینی اس پہلو پر کہتے ہیں کہ گجراتی بورژوازی  دیگر ممالک سے کاروبار ، خاندان پاکستان لائے اور ریاست نے انہیں  کراچی میں املاک اور صنعتیں لگانے کے لیے زمینیں، گرانٹس اور قرضے بھی فراہم کیے -کراچی   دارالحکومت تو تھا ہی یہ صنعتی و تجارتی سرمائے کا مرکز بنا اور وسائل کا سارا رخ کراچی کی طرف موڑا گیا – بیوروکریسی میں یوپی بہار کے مہاجر چھائے اور تنخواہ دار پرت بھی انہی پر مشتمل تھی۔ پاکستانی قومیت ان کا فطری اثاثہ تھا اور ۱۹۷۰ تک یہ سیاست میں مذہب اور اردو کو مرکزیت بخش کر بالادست رہ سکے۔ ( ۵)

قومیانے کا عمل اور مہاجر شناخت کا ابھار

 ریاستی پالیسی کا اہم عنصر کراچی اس لیے بھی تھا کہ یہ پورٹ سٹی تھا۔ اس لیے بنک، انشورنس، اسٹاک مارکیٹ، ہول سیل مارکیٹ ، ایڈورٹائزنگ، صحافت اور ان کے لیے کالج، ٹیکنیکل،یونیورسٹی کے گریجویٹس کی ایک وسیع تعداد کی ضرورت نے نجی ادارے بنوائے۔ سرکاری ملازمتوں میں تو مہاجر تھے ہی یہ نجی اداروں میں چھائے ہوئے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ  دیگر صوبوں کے پروفیشنلز بھی کراچی میں ملازمت کو اعلی سمجھتے کہ یہاں اجرتیں زیادہ تھی اور مواقع بھی۔ البتہ قومیانے کے. عمل نے جب سرکاری اور قومیائے گئے اداروں میں ملازمتوں کو تمام صوبوں میں پھیلا دیا تو یہ پہلی بار تھا کہ اب کراچی والوں کے لیے ڈومیسائل اور کوٹہ سرکاری ملازمتوں میں رکاوٹ بن گئے۔ دنیا بھر میں ۶۰ کی دہائی کا معاشی بحران ہر ہی ملک میں نجی سرمایہ داروں کو بحران میں لایا۔ مضبوط ریاستوں نے تحفظ دیا جبکہ کمزور نے انکی ملکیت اپنا لی۔ سرمایہ داری ایک حرکی نظام ہے تو قومیانے کا عمل بحیثیت عمومی سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے میں ریاستی تحویل میں لینے سے کارآمد ثابت ہوا۔ سرمایہ داری کایہ  اہم سیاسی پہلو ہے کہ جہاں ملازمتیں کوٹے سے کم ہوئیں وہیں پروفیشنل و یونیورسٹی تعلیم کے ادارے جو فزیکلی کراچی میں تھے اور اب قومیانے کی وجہ سے ان میں فیسیں بھی کم تھیں تو یہ پیداوار کراچی میں جاری رہی۔لیکن ملازمتوں میں کمی کا بہت گہرا اثر ہوا۔ بھٹو حکومت میں ہی کراچی میں لسانی فسادات کی ابتداء بھٹو کے کزن اور وزیر متاز بھٹو  کی سندھی لسانی سیاست کی وجہ سے ہوئی۔ اور یہ احساس جو اب ملازمتوں کے ساتھ ایک کھوئے ہوئے مقام کا احساس بن چکا تھا وہ تیز تر ہوا۔” پاکستان مہاجروں نے بنایا تھا، مہاجر بانی پاکستان تھے، ہجرت میں قربانیاں پاکستان کے لیے دیں” جیسے احساسات کو سیاسی شکل ملنا شروع ہوئی۔ صرف الطاف حسین ہی نہیں اس دور میں لیفٹ کی قریب ہر سیاسی پارٹی و طلبہ تنظیم میں یہ فکر موجود تھی کہ شہری نوجوان ایلینیٹ یعنی کنارے لگایا جا رہا ہے۔

لیفٹ اور کوٹا سسٹم کے اثرات

 ڈاکٹر ظفر عارف کو جب ۱۹۸۴ میں یونیورسٹی سے مارشل لاء کی مخالفت میں نکالا گیا تو انہوں نے کراچی شہری محاذ قائم کیا اور اس کا ایک شاہکار کتابچہ کراچی میں بلدیات، صحت، تعلیم، روزگار جیسے مسائل پر ایک جاندار  انداز میں نوجوان کی محرومی کا ترجمان بنا، البتہ اس میں شناخت مہاجر نہ تھی بلکہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے سندھ میں دیہی شہری تفریق  سے متاثر کراچی کا نوجوان زیر بحث تھا۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی محض اردو بولنے والوں کی محرومی نہ تھا بلکہ ملک بھر سے یہاں آئے اور بسے ہوئے لوگوں کا احساس محرومی لیے ہوئے تھا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ کیونکہ فوجی حکومت نمائندہ نہیں اس لیے مسائل ہیں اور لیفٹ اور دیگر سیاسی پارٹیاں جمہوریت کو حقوق میں ناانصافی کا علاج تصور  کرتی تھیں۔ لیفٹ میں ہر طرف یہ بات بھی عام تھی کہ مزدور طبقہ  کی اصل لڑائی سرمایہ دارانہ ریاست سے ہے نہ کہ کراچی میں بسے دیگر زبان بولنے والے یا کسی اور علاقے کے فرد سے۔ اور یہ سوچ بھی کراچی کے مسائل کو شناخت کا مسئلہ بنانے سے اجتناب کی ایک وجہ تھی۔ سوشل ازم سرمایہ داری سے نجات کا نظام ہے اور سرمایہ داری ہی قومی جبر کرتی ہے تو سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد تمام مزدوروں کی ہو گی نہ کہ کسی ایک علاقے کے مزدوروں کی۔ کراچی میں لوئیر مڈل کلاس جو مختلف نجی چھوٹے کاروبار یا اس میں ملازم  تھی یہ تبدیلی کا محرک ہی نہ تھی، اس کی کوئی ایسی شکل بھی نہ تھی _جبکہ ہنر مندوں کی ایک فوج اس شہر میں موجود بھی تھی اور بڑھتی ہوئی سرمایہ داری اس میں تیز تر اضافہ کر رہی تھی۔ یوں لیفٹ کا مدعامنظم مزدور تھے جو کارخانوں اور سروسز میں جہاں یونین سازی تھی موجود تھے. ابھی نیولبرل دور کی یونین حقوق کی پامالی کا دور شروع نہ ہوا تھا اور نہ ہی لوگ جاب سیکورٹی نہ ہونے کے عالم میں کام کرتے. لیفٹ مزدور یکجہتی کا علم بردار تھا، ایک مشترکہ قوت بننے کا جس کے رستے میں سرمایہ دار اورانکی فوج رکاوٹ تھے۔  یوں یہ مارشل لاء کے خاتمے سے انہی حاصلات کی امید رکھتا تھا جو ایوب خان مخالف کامیابی  سے ملی تھیں. لیکن تب جدوجہد کامیاب ہوئی اور اب یہ ناکام ہونے جا رہی تھی. الطاف حسین کی قیادت میں مہاجر قومی موومنٹ تو ۱۹۷۸ میں بن چکی تھی لیکن یہ ۱۹۸۳ اور پھر ۱۹۸۵ میں جب  سیاسی کارکنوں پرمارشل لاء کا جبر عروج پر تھا اور ان پارٹیوں کی قیادت بالائی طبقہ کی ہونے کی  وجہ سے اپنی جگہ  چاہتی تھی نہ کہ مارشل لاء کا خاتمہ، اس لیے تحریک بحالی جمہوریت پانچ دن میں ہی بری طرح ناکام ہو گئی ۔ اس ناکامی نے یہ احساس پیدا کیا کہ نہ جمہوریت بحال ہو گی نہ ہی نمائندگی ملے گی نہ وہ مزدور حقوق۔ اور یوں اپنے اپنوں کی سوچ کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ مہاجر قومی موومنٹ سے پہلے بھی الطاف حسین کی قیادت میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن موجود تھی  لیکن ان کی شناخت اور اس میں مضمر  مہاجروں کے اشرافیہ اور دیگر سے برتر ہونے کی سوچ اپنے طور آمریت پسند ہی تھی۔ ١٩٨٤ میں جنرل ضیاء نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تو تمام لیفٹ رائٹ اور قوم پرست طلبہ تنظیموں نے اتحاد بنایا اور ملک بھر میں چھ ماہ کالجز اور یونیورسٹیاں بڑی تعداد میں بند رہیں۔ کراچی یونیورسٹی اس جدوجہد کا مرکز تھا لیکن یہاں مہاجر تنظیم طلبہ اتحاد سے باہر رہی. ایک جانب طلبہ پر مارشل لاء کا جبر اور پکڑ دھکڑ وتشدد جاری تھا تو دوسری جانب یہ فوجی گورنر چانسلر سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ یوں جمہوریت بحالی کی تحریک جب جون ۱۹۸۵ میں ناکام ہوئی تو جو مایوسی پھیلی تو اس کا فائدہ ایم کیوایم نے اٹھایا اور ١٨ اگست۱۹٨۵ کو کراچی نشتر پارک میں بڑا جلسہ ہوا اور مہاجر قومیت، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور بنگلہ دیش سے بہاریوں کی واپسی جیسے مطالبات انکی سیاست کی بنیاد بنے۔

مہاجر قومیت سے کراچی کنٹرول کا سفر

نوے کی دہائی کا آغاز ہوا تو روس اور مشرقی یورپ اور افریقہ میں نام نہاد سوشل ازم کا انہدام بھی ہو گیا۔ دنیا بھر میں نیو لبرل ازم کے سائے تلے لیفٹ اور رائٹ کا فرق ختم ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی معاشی پالیساں اب عوام دوست بمقابلہ سرمایہ دوست نہ رہیں، یہ سب سرمایہ داری کے پھیلاو کے لیے نجکاری کے حامی بنے۔ یہ وہی دور ہے کہ جب عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنے بحران سے کچھ باہر نکلنے میں کامیاب بھی ہو رہی تھی۔ نجکاری کا سلسلہ بے نظیر بھٹو نے شروع کیا اور اگلے دس سالوں میں کئی لاکھ سرکاری ملازمین ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ٹیکسٹائل کو فروغ ملا اور امریکہ دوستی نے ایک بڑی مارکیٹ افغان حہاد کے بدلے یورپ اور امریکہ میں ٹیکسٹائل اور دیگر اشیاء کی برآمد کے لیے کھول دی۔ معاشی استحکام عارضی ہی سہی مگر اس کا اثر یہ ہوا کہ اب بنک، انشورنس، اسکول تعلیم ، ایڈورٹائزمنٹ اور صحافت کا جیسے ایک بوم یعنی تیز بازاری آگئی۔ کراچی میں نجی ملازمتیں ،گو کہ سرمایہ داروں کے استحصال کا آلہ کار تھیں،  تیزی سے بڑھیں اور ڈوبی ہوئی نجی سرمایہ کاری کو ایک نئی زندگی ملی۔ اب ملازمتیں جو نجکاری سے پہلے ہی کم ہو رہی تھیں ان کا مرکزہ سرکاری ادارے نہ رہے بلکہ یہ نجی ادارے بن گئے۔ آبادی کے لیے سرکاری ہسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں نہ تھے تو بہت بڑے پیمانے پر سروس انڈسٹری پھیلتی  چلی گئی۔ نجی اسکول، ہسپتال، کلینکس کے ساتھ ساتھ شہری زندگی میں ٹرانسپورٹ سرکاری ختم ہوئی تو اسکی جگہ نجی آ گئی ۔ پورٹ تو تھا ہی تو کاروبار نجی سطح پر پھیلتا چلا گیا اور مہاجر ان ملازمتوں میں کھپتے چلے گئے۔ گو معیار زندگی اگر بڑھا نہِیں تو دیکھنے میں بڑھ گیا۔ جن والدین نے سرکاری اسکول میں پڑھا اب اس شہر کا ۷۰ فیصد نجی اسکولوں میں جا رہا تھا۔ نیولبرل ازم نے جیسے کراچی میں گھر کر لیا اور نجی تعلیم، صحت، کاروبار  جیسے فطری طور پر اپنا لیے گئے۔ معاشی ابھار نے شہروں کو وسیع اور دیہاتوں کو تباہ کر دیا لیکن کراچی کی عوام اس تباہی سے بہت دور تھی۔ یوں مہاجر قومیت منوانے کا معاملہ معاشی تبدیلی نے ایک بار پھر پیچھے کر دیا۔  احساس محرومی رہا کہ کوٹہ سسٹم رہا لیکن اب ایم کیوایم مہاجر قومیت، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور بنگلہ دیش سے بہاریوں کی واپسی جیسے مطالبات سے پیچھے ہٹتی گئی اور کراچی کی اشرافیہ، بلڈرز، فیکٹری مالکان اور کاروباریوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی لوئیر مڈل کلاس کی ترجمان بن گئی جو صنعتی مزدور نہ تھے۔نجی سرمائے کا فروغ ویسے ہی ہونے لگا جیسے ۱۹۵۰ کی دہائی میں ان نئے مہاجرین کے والدین کے سامنے ہو رہا تھا۔ کراچی ایک بار پھر ملازمتوں کا گڑھ بن گیا_گو کہ یہ ملازمتیں کافی نہ تھیں لیکن پھر بھی ۷۰ اور ۸۰ء کی دہائی سے بہت بہتر صورتحال تھی۔ ایم کیوایم مختلف قومی اتحادوں اور ان کے بکھرنے سے نئی حکومتوں کا حصہ بنی رہی_ یہ اب اس گلے سڑے نظام کا ویسے ہی حصہ تھی جیسے پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیاں ۔ اور یوں ان کی سیاست کا مرکز مہاجر شناخت کو کراچی پر ایم کیو ایم کے کنٹرول کی صورت میں بننے لگا۔ کراچی میں خونی ہڑتالیں مہاجروں کی دیگر غریب عوام پر بالادستی کا ثبوت ہوتیں اور ریاست کے اندر ریاست برقرار رکھنے کا سبب بنتی۔ مافیائیں کئی طرح کی انہی میں سے بنیں لیکن لینڈ گریبنگ، سرکاری اداروں جیسے بلدیات میں چند ہزار ملازمتوں کے زریعہ ایم کیو ایم کا اشرافیہ کی پسندیدہ جماعت ہونے کی حقیقت کو چھپاتا رہا.

شناخت اور مزدور طبقہ کی بدترین تقسیم

کراچی پر کنٹرول نے کراچی میں مزدور طبقہ کی جدوجہد پر قیامت خیز اثر ڈالا۔ اور جتنا زیادہ قتل و غارت بڑھتی اتنا ہی زیادہ کام کی جگہ چاہے سرکاری ہو یا نجی مہاجر مزدور اپنے ساتھی مزدوروں سے فاصلے پر ہوتے چلے گئے۔ یہ شہر میں اسی تنظیم کے زریعہ علاقے میں دیگر اقوام پر حاوی تھے. سیکٹر آفس علاقائی تنازعات کی عدالت تھا. مہاجر مزدور اس نفسیاتی بالاتر ہونے کے احساس کو ہی ایم کیو ایم کی دین سمجھتے۔ لیکن کراچی کی سروس انڈسٹری ہو یا پروڈکشن انڈسٹری اس میں اجرتوں کو کم رکھنے، ملازمتوں کو کچا اور غیر محفوظ رکھنے اور یونین سازی کے مکمل خاتمے پر ایم کیو ایم کا وہی رویہ ہوتا جو طلبہ یونین کی بحالی کی ۱۹۸۳ کی تحریک میں تھا، یعنی اس جمہوریت سے ہمیں کیا فائدہ۔جنرل ضیاء کی نسبت جنرل مشرف دور میں ایم کیو ایم آمریت کی نہ صرف حواری بنی بلکہ ایک فاشسٹ قوت کا دست و بازو بنی جس کی مثال ۱۲ مئی ۲۰۰۷ کا کراچی وکلاء تحریک پر حملہ تھا۔کراچی  پاکستان میں بنگال کے بعد شناخت کی سب سے بڑی تحریک کی پہچان بنا مگر یہی مہاجر شناخت قتل عام کی دہشت انگیز علامت بن گئی۔   ایم کیو ایم مہاجر شناخت کی علامت تو تھی لیکن کام کی جگہ پر محنت کش کو اس کے حقوق کی ترجمانی کرنے سے صاف انکاری رہتی۔ جن سرکاری اداروں میں ان کی یونین ایسوسی ایشن ہوتی وہاں یہ برسرعام تعصب کی بنیاد پر ووٹ لے کر ان اداروں کی انتظامیہ کے آلہ کار بنے رہتے، جہاں نجکاری ہوتی یہ نجکاری مخالف تحریک کا حصہ نہ بنتے۔ جہاں ورلڈ بنک کی تباہ کن مداخلت ہوتی جیسے نجی اسکولوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں کو فروغ تو وہاں  یہ خاموش رہتے کہ ان کی بالا پرت جانتی تھی کہ سرکاری ادارے ختم ہونگے تو وہی انکی جگہ نجی ادارے قائم کریں گے. یہ اچھی طرح جانتے تھے  کہ جتنا زیادہ  شہری سہولیات جیسے تعلیم صحت، بلدیات کاروبار بنیں گے اتنا زیادہ فائدہ مہاجر کاروباریوں کو ان شعبوں میں اسکول کالج، یونیورسٹی، ہسپتال کھولنے سے ملے گا۔ یوں جسے ایم کیو ایم مہاجر قوم کی سیاست کہتی رہی وہ دراصل مہاجر شناخت کی سیاست تک محدود رہی اور مزدور و محکوم مہاجر اور سرمایہ پرست مہاجر کی تفریق پر پردہ پڑا رہا۔ اس دور میں مہاجر شناخت کی سیاست دراصل سرمایہ داری کے حواری کی سیاست تھی۔ اسی لیے ریاستی سطح پر جب تک نجکاری کا فروغ ہو رہا تھا ایم کیو ایم کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کی چھوٹ دراصل سرمایہ داروں کے مفاد میں تھی۔ (٦)

ملک میں معاشی بحران کی ابتداء یوں تو سنہ ۲۰۰۰ سے شروع ہوئی لیکن  اس کے لیے کراچی کے سرمایہ داروں کو اب ریاستی تحفظ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ایم کیو ایم سنہ ۲۰۱۰ تک ایک دہشت گرد تنظیم کی شکل اختیار کر چکی تھی جو ایک جانب مہاجروں کے گرتے معیار زندگی پر کوئی توجہ نہ دیتی اور دوسری جانب ریاست کے لیے اب اتنی کارآمد نہ رہی کہ سروسز اور صنعتوں میں اب بہت بڑی تعداد میں دیگر علاقوں کے لوگ ایک بار پھر شامل ہونے لگے۔ سرمایہ داروں میں سے الکرم کے مالک نے ایک بیان میں کہا کہ اب کراچی کسی ایک تنظیم سے کنٹرول نہیں ہو سکتا۔ وجہ یہ تھی کہ حقوق کی جدوجہد اب ایم کیو ایم کے باہر سے چلنا شروع ہو چکی تھیں۔ فوجی آپریشن ۲۰۱۳ یوں تو کراچی کے لیاری کے لیے شروع ہوا لیکن یہ چند سالوں میں ایم کیو ایم مخالف آپریشن میں بدل گیا۔  سرمایہ دار یہ جان گئے تھے کہ کراچی میں صنعتی امن کے لیے اب فوج کی ضرورت ہے۔ اسی لیے گزشتہ ۸ سالوں میں ایکسپورٹ کی صنعتوں نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی جس کا تصور ایم کیو ایم کے  دور میں ممکن نہ تھا۔ موجودہ مہنگائی ، بے روزگاری کے دور میں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے پاس کوئی معاشی متبادل نہِیں ماسوائے اس کے کہ یہ اسی نجی سرمایہ داری کے پھیلاو کی بات کرتے ہیں جو کام کی جگہ پر مہاجر محنت کشوں کو نہ حقوق دیتا ہے، نہ جاب سیکورٹی بلکہ ان کا بدترین استحصال کر کے انہیں غریب سے غریب تر ویسے ہی بنا رہا ہے جیسے دیگر زبان بولنے والوں کو۔

نمائندگی سے محروم شہر اور شناخت

آج کراچی کے عوام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اس نظام میں نمائندگی سے محروم ہیں۔مہاجروں کو کھل کر اپنے مسائل پر سیاست کی آزادی نہیں کہ ریاست کو خدشہ ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کی کوشش شہری کاروبار کو برباد کر دے گی۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہری نمائندگی کا فقدان مہاجر نوجوانوں میں ایک بار پھر احساس محرومی پھیلا رہا ہے۔ ۲۰۲۴ کے الیکشنز کے بعد یہ احساس اب ملک گیر سطح پر بھی ہے۔ البتہ دیکھنا یہ ہو گا کہ شناخت کی سیاست کیسے کراچی میں مزدور طبقہ کی جڑت اور طلبہ کی ایک قوت کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔

شناخت کی سیاست اور مارکس وادیوں کے مسائل

پاکستان میں جہاں عورت، جینڈر، اقلیتوں کے مسائل اور تحریکوں پر مارکس وادی نسبتا انکلوسیو نکتہ نظر رکھتے ہیں لیکن نئی شناختوں اور خاص کر مہاجر شناخت پر سندھی قوم پرستی کا گہرا اثر ہے۔ عالم یہ ہے کہ یہاں افغان مہاجرین کی جبری افغانستان منتقلی کی وکیل اگر پاکستانی ریاست ہے تو اس کے حواری سندھی قوم پرست تو ہیں ہی مگر ان کے ساتھ لیفٹ کا اچھا خاصہ حصہ بھی ہے۔ اسی طرح کراچی پر پیپلز پارٹی کی سیاست کے جو اثرات ہیں اس سے یکسر آنکھ چرا کر لیفٹ کی سیاست کی جاتی ہے۔ بحریہ ٹاون کا سندھ کی زمین پر قبضہ ہو یا ملیر ایکسپریس وے جو کراچی کے قریب یا کراچی کے اندر ہی بن رہے ہیں لیکن یہاں اسے بلوچ و سندھیوں کی زمین سے بے دخلی کے طور پر تحریک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یہی گروپس کراچی کے مہاجر علاقوں میں بے دخلیوں کا کام اردو بولنے والے لیفٹ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس بھارت میں مارکس وادیوں کا کہنا ہے کہ شناخت کی سیاست اکثر نظامی معاشی استحصال اور طبقاتی تضادات کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔- تاہم، وہ ذات، جنس اور دیگر شناختوں کو طبقاتی جدوجہد میں شامل کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں تاکہ ایک جامع فریم ورک تیار کیا جا سکے۔بھارت میں شناخت کی سیاست مختلف ظلم و جبر کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ مارکسی نقطہ نظر اس بات پر زور دیتا ہے کہ بھارت کی گہری جڑوں والی عدم مساوات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے طبقے اور شناخت کی جدوجہد کو یکجا کرنا ضروری ہے۔البتہ بھارت میں بھی جب کشمیر یا خالصتان کی علیحدگی کی تحریک آگے بڑھتی ہے تو لیفٹ کی بڑی اکثریت بھارتی ریاست کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ہے۔ یوں شناخت سے قوم پرستی اور یہاں سے قومی آزادی کا سفر یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ بھی ہے اور مہاجر یا کراچی شناخت بھی اسی سرمایہ دارانہ ترقی کے عمل کے اثرات سے ابھرتی اور ڈوبتی ہے۔مارکس وادیوں کے لیے ضروری یہ ہے کہ شناخت اور قوم کا سرٹیفیکیٹ دینے کے بجائے ان سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کو اجاگر کریں جو طبقاتی تفریق کے ساتھ لسانی و قومی تفریق کو ابھارتا ہے اور مزدور طبقہ کی جدوجہد کو کمزور کرتا ہے۔

نوٹس:

  1. شناخت سے نسل پرستی

مثال کے طور پر، اگر یورپ میں فاشزم کے خلاف جدوجہد صرف ان نسلی گروپوں تک محدود ہو جائے جو فوراً فاشسٹوں کی طرف سے نشانہ بن رہے ہیں، تو یہ تباہ کن ہو گا۔آج فلسطین جینوسائڈ دنیا میں قتل عام  پر پورا عالمی میڈیا اس کا حامی ہے اور اس انسانیت سوز عمل پر پاکستان میں شناخت و قوم کے علم بردار یہی کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم پر زیادہ ظلم ہو رہا ہے یا یہ کہ عرب عرب کا ساتھ دیں ہمارا کیا کام ہم اپنے اسرائیل سے نمٹیں. یہی بے اعتنائی افغان مہاجرین کی بے دخلی اور پشتون افغان نسل پرستانہ ریاستی پروفائلنگ پر بھی نظر آتی ہے. شناخت کے علم بردار مارکس وادی تو یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ افغانوں اور دیگر کو سندھ میں دوسرے درجے کا شہری قرار دیا جائے کیونکہ سندھی نچلے درجے پر ہیں. نسل پرستی اور فاشسٹ تحریک کا بڑھنا صرف ‘غیر ملکی پیدا ہونے والے’ کارکنوں کے لیے نہیں، بلکہ تمام کارکنوں کے لیے خطرہ ہے۔ یورپ میں فاشسٹوں کے حالیہ عروج کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے، ان تمام افراد کو جو انتہائی دائیں بازو کے مخالف ہیں، ان کی نسل کے فرق کے بغیر، فاشزم مخالف تحریک میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ظلم کے خلاف کوئی بھی جدوجہد کامیاب ہونے کے لیے سب سے مضبوط ممکنہ تحریک کی تشکیل پر مبنی ہونی چاہیے، اور یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک تحریک مختلف گروپوں کے کارکنوں کو ایک مشترکہ جدوجہد میں متحد کرے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی خاص ظلم کا سامنا کرنے والے افراد ہی اس ظلم کے خلاف لڑیں، جیسے یہ ضروری نہیں کہ غربت کے خلاف لڑنے کے لیے خود غربت کا سامنا کرنا پڑے۔ جو لوگ کسی خاص ظلم کا شکار نہیں ہیں، وہ ان افراد سے ہمدردی محسوس کر سکتے ہیں جو اس کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں ایک مشترکہ جدوجہد میں اتحادی کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔

http://isj.org.uk/mistaken-identity-can-identity-politics-liberate-the-oppressed/

۲۔مسلم بنگلہ شناخت کی تاریخ

1850 سے 1940 کے دوران مسلمان بنگالیوں کی شناختی سیاست نوآبادیاتی حکمرانی، سماجی عدم مساوات، اور اقتصادی پسماندگی کے زیر اثر تشکیل پائی۔ 1793 کے مستقل بندوبست کے نتیجے میں زمینداری نظام ہندو اشرافیہ کے حق میں ہوگیا، جبکہ مسلمان بنگالی زیادہ تر دیہی علاقوں میں چھوٹے کاشتکار یا مزدور کے طور پر رہ گئے۔ اس عدم مساوات نے فرقہ وارانہ تناؤ کو جنم دیا۔انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہندو ثقافتی احیاء اور اصلاحی تحریکوں کے ردعمل میں مسلمان بنگالیوں نے اپنی مذہبی شناخت کو مضبوط کیا۔ فرائضی اور وہابی جیسی اصلاحی تحریکوں نے اسلام کی پاکیزگی اور مسلم روایات پر زور دیا، جس سے ایک اجتماعی شناخت ابھری۔ تعلیم، جو ابتدا میں ہندو اشرافیہ تک محدود تھی، مسلمانوں کے لیے ایک اہم مسئلہ بن گئی۔ انیسویں صدی کے آخر تک سر سید احمد خان اور نواب سلیم اللہ جیسے رہنماؤں نے مسلمانوں کو تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا، جس میں کلکتہ کی علیا یونیورسٹی کا قیام قابل ذکر ہے۔1905 میں بنگال کی تقسیم نے مسلمان بنگالیوں کو اقتصادی اور سیاسی خودمختاری کی امید دلائی، لیکن 1911 میں اس کی منسوخی نے مایوسی اور دھوکہ دہی کا احساس پیدا کیا۔ 1906 میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے قیام نے مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی طور پر متحرک کیا۔ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قوم پرستی کی تحریک کے اندر مسلمان بنگالیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔دیہی اور شہری بنگالی مسلمانوں کے مسائل مختلف تھے۔ شہری اشرافیہ سیاسی معاملات میں مصروف تھی، جبکہ دیہی مسلمان زمین، کرایہ داری، اور اقتصادی انصاف پر توجہ دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مسلمان بنگالی مصنفین اور دانشوروں نے اپنی ادبی اور صحافتی کوششوں کے ذریعے ثقافتی اور مذہبی شناخت کو مستحکم کیا۔1940 کی دہائی تک، مسلمان بنگالیوں کے اندر علیحدہ ریاست کے مطالبے نے زور پکڑ لیا، جو 1947 میں مشرقی پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔ یہ دور مسلمان بنگالیوں کی مذہبی، سماجی، اور سیاسی خواہشات کے امتزاج سے ایک منفرد اجتماعی شناخت کے ارتقا کا عکاس ہے۔مشرقی بنگال میں اقتصادی پسماندگی، ہندو اشرافیہ کا غلبہ، اور مسلم اکثریتی کسان طبقے کی محرومی نے سماجی و سیاسی تقسیم کو جنم دیا۔ نوآبادیاتی بیوروکریسی اور مغربی بنگال کے ہندو متوسط طبقے کی اجارہ داری نے مشرقی بنگال میں مسلم قوم پرستانہ سیاست کو فروغ دیا۔ حسین شہید سہروردی نے مسلم شناخت کی نمائندگی کی، جبکہ ہندو نیشنلسٹ سیاست کی قیادت تلک کر رہے تھے۔مسلم لیگ اور فضل الحق کی کرشک پرجا پارٹی نے مشرقی بنگال کی علیحدگی اور الگ صوبے کے قیام کی وکالت کی، جو مسلم بورژوازی، اشرافیہ، اور تنخواہ دار طبقے کے مفادات کی عکاس تھی۔

۳-کراچی انٹر بورڈ نتائج اور تعصب کا اصل مقصد

ایک بڑا شفٹ ہوا تعلیمی نظام میں پچھلے 20 سالوں میں. اسکول اور یونیورسٹی تعلیم کا بہت بڑا انرولمنٹ، بڑے شہروں میں سرکاری سے نجی میں چلا گیا. سرکاری یونیورسٹی میں بے پناہ ریگولیشن لائی گئی، داخلہ، امتحان، دورانیہ سب یونیورسٹی کے اوپر سے کنٹرول. نجی یونیورسٹیوں کو کھلی چھوٹ. ایسے ہی نجی اسکولوں پر سرکاری کنٹرول کا یکسر خاتمہ. یوں نجی میٹرک کا انرولمنٹ پرائیویٹ بورڈز جیسے آغا خان، ضیاالدین میں منتقل ہوا. آغا خان اشرافیہ کے لیے جو کیمبرج فیس افورڈ نہیں کر سکتے. ضیاالدین نچلے درجہ والے نجی اسکولوں کے لیے جہاں بورڈ کا کام رجسٹریشن و امتحانی فیس جمع کرنا  اور نمبر بانٹنا. سرکاری میٹرک بورڈ درمیانہ درجہ کے نجی اسکولوں و کوچنگ سینٹروں کے مالکان کی رشوتوں سے گریڈ بیچنے والے بن گئے. رہ گیا انٹر بورڈ تو یہاں  نجی کالج انرولمنٹ اب سرکاری کے مقابلے میں 30 فیصد ہو گیا ہے. شہر میں مڈل کلاس کا سائز گزشتہ 10 سال سے کم ہو رہا ہے. اور حالیہ انٹر بورڈ نتائج میں کراچی کے طلبہ کے ساتھ زیادتی حقیقی بھی ہے اور متعصبانہ بھی. لیکن اس کا حل بھی انٹر کے نجی بورڈز قائم کرنے کی اجازت سے ہو گا اور سرکاری کالجوں کو ان نجی بورڈز سے الحاق کرنے پر مجبور کیا جائے گا. سرکاری بورڈز نہ رہے تو تعلیم لوئر مڈل کلاس کے ہاتھ سے نکل جائے گی.

۴۔https://ivavalleybooks.com/wp-content/uploads/2022/10/Marxism-and-the-National-Question.pdf

۵۔ مہاجروں کا تقسیم کے بعد غلبہ

جناح نے 1930ء سے 1940ء کے دوران مسلم تاجر برادری ، مالیاتی دھڑوں کا ایک مربوط گروپ تیار کیا تھا ان میں گجرات کی مسلم تاجر برادری بڑی نمایاں تھی جن میں سے ایک آدم جی تھے – میمن ، بوہرہ اور کھوجا گجراتی صرف گجرات سے ہی نہیں بلکہ برما اور افریقہ سے بھی  اپنے کاروبار ، خاندان پاکستان لیکر آئے اور انھیں کراچی میں متروکہ املاک بورڈ نے عالیشان مکانات اور عمارتیں الاٹ کیں اور صنعتیں لگانے کے لیے زمینیں، گرانٹس اور قرضے بھی فراہم کیے – جناح کے 12 قریبی ساتھی جن میں حبیب ابراہیم، رحیم ، اصفہانی ، آدم و دیگر شامل تھے کراچی اور مشرقی بنگال میں قائم ہونے والی صنعتی و تجارتی ڈھانچے پر چھائے ہوئے تھے – کراچی کو بطور دارالحکومت بناکر اور صنعتی و تجارتی سرمائے کا مرکز بناکر وسائل کا سارا رخ کراچی کی طرف موڑا گیا – اور ملک کے بیوروکریٹک ڈھانچے میں بھی اردو مہاجر پیٹی بورژوازی کی تنخواہ دار پرت ہی غالب رہی ۔۔۔ مہاجر صعنتکار و تاجر اور تنخواہ دار پرت کی اکثریت نے 1970ء تک سیاست کے میدان میں اسلام ، مسلم قومیت، اردو  اور مضبوط مرکزیت کو ہی شناخت کی  سیاست کے طور پر اپنائے رکھا – اس میں بنیادی تبدیلی اور مہاجر شناخت کا پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں آنا شروع ہوا کیونکہ ایک تو کراچی سے تعلق رکھنے والے صنعتی ، تجارتی اور مالیاتی اشرافیہ مشرقی بنگال میں اپنے سرمائے اور اثاثوں سے محروم ہوگئی دوسرا مغربی پاکستان خاص طور پر کراچی میں انھیں نیشنلائزیشن کی پالیسی نے سرمائے اور اثاثے سے محروم کردیا صرف اور صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری بچی تھی جسے قومیایا نہیں گیا تھا – سندھ اور وفاقی سول سروسز میں مہاجر مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی شمولیت کا عمل بھی کم ہوا – جنرل ضیاء الحق نے اگرچہ کراچی کی صنعتی، تجارتی اور مالیاتی اشرافیہ کی بحالی میں کچھ کردار ادا کیا لیکن اس نے لاہور اور فیصل آباد اور سیالکوٹ کو صعنت خاص طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری ، تجارت کا مرکز بنایا اور پنجابی صنعتکار ، تاجر اور مالیاتی سرمایہ کاروں نے کراچی میں پرانی اشرافیہ کے درمیان اپنی جگہ بنائی اور سول سروسز میں اور فوج میں پنجابی افسران اور ملازمین کی تعداد میں اور تیزی سے اضافہ ہوا – مہاجر مڈل کلاس بڑی تیزی سے سول سروسز میں اپنی تعداد کم کرتی چلی گئی – یہ وہ تبدیلی تھی جس نے کراچی کی سیاست میں بتدریج مہاجر شناخت کو مرکزی حیثیت دی اور اس میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی مہاجر اکثریت کو شامل کیا ایم کیو ایم کی تشکیل اور اس کا کراچی سمیت سندھ کے مہاجر اکثریت کے شہروں میں نمائندہ سیاسی جماعت بننے کے پیچھے ایک بنیادی سبب یہ بھی تھی۔

Armytage, Rosita. Big Capital in an Unequal World: The Micropolitics of Wealth in Pakistan. 1st ed. Vol. 29. Berghahn Books, 2020

٦۔ ایم کیوایم کا خونی کردار

مہاجر قومی موومنٹ ایک تحریک تھی اور اسکے قائدین الیکشن میں حصہ نہ لیتے بلکہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے جیسے ۱۹۸۵ کے غیر جماعتی انتخابات میں یہ مختلف پارٹیوں میں مہاجر امیدواروں کو سپورٹ کرتے۔ البتہ مزدور طبقہ کی جدوجہد جو سویت یونین کے زوال کے ساتھ ایک نظریاتی جدوجہد سے محروم ہو رہی تھی پسپائی پر تھی، اسی طرح طلبہ حقوق کی جدوجہد بھی اب یونیورسٹیوں میں خونی معرکوں کی شکل میں تباہی کا شکار تھی۔ یوں ۱۹۸۹ کے آتے آتے جہاں ایم کیوایم مڈل کلاس میں جڑیں پکڑکر بلدیاتی انتخابات بعد کراچی کی اکثریت نشستوں پر حقیقی طو رپر کامیاب ہوتی ہے تو اس کی قیادت پر بوجھ اقتدار میں شراکت کا آیا۔ یہ بھی نظام کا حصہ بننے لگے، ملک گیر اتحاد سے وفاقی حکومت بنانے کی کنجی انکی ۱۴ نشستوں کے پاس تو تھی لیکن یہ آئینی ترمیم کے  لیے دوتہائی اکثریت سے کئی سو نشست دور تھی۔ کراچی میں مہاجر وں کی مظلومیت کا علم انکے ہاتھ میں تھا لیکن طبقاتی طور پر یہ اس اشرافیہ کے نمائندے تھے جو صنعتی و سروسز مزدوروں کو مہاجر بمقابلہ دیگر کے طور پر تقسیم رکھتے اور نجکاری مخالف بڑی لڑائیوں میں یہ سرمایہ داروں کے بہت کام آئے۔ مہاجروں کے مسائل اپنی جگہ رہے۔ کوٹہ ختم نہ ہوا، بہاری واپس نہ آئے نہ پانچویں قومیت تسلیم ہوئی لیکن کراچی ریاست کے اندر ریاست کا ایک خونی نمونا بن گیا اور یہاں اجرتیں ملک بھر سے کم تر سطح پر چلی گئیں جس سے سرمایہ داروں کو بہت فائدہ ہوا۔  یوں احساس برتری کا شکار مہاجر قوم تعصب زدہ افراد کا مجموعہ بن گئی، تشدد، قتل و غارت گری کراچی اور مہاجروں کے نام پر ہوتا اور انکی قیادت اس میں ملوث نہ بھی ہوتی مگر پھر بھی مرنے والوں کی شناخت کی بنیاد پر پرے تماشہ دیکھتی۔  یوں لوئیر مڈل کلاس کی پرت برسراقتدار آگئی جبکہ اس کے پاس اختیار صرف دیگر قومیتوں کو کچل رکھنے کا تھا۔

ڈاکٹر ریاض احمد کراچی یونیورسٹی کے چیئرمین شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری رہے ہیں

شیئر کریں

:مزید خبریں