آج کی تاریخ

Champions Trophy 2025, Cricket Champions Trophy,

ہمدردی موت کی مقروض کیوں؟

گھر میں بھوک کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ تین دن سے چولہا ٹوٹا ہوا تھا، اور کسی کے منہ میں روٹی تک نہیں تھی۔ ندیم کی بیوی بیمار تھی، لیکن وہ کوئی علاج نہیں کروا پا رہا تھا۔ گھر کی حالت ایسی تھی کہ جب تک کوئی چیز خریدنے کا سوال تھا، وہ ہمیشہ کا قرض بنتا تھا۔ وہ غریب اور بے بس تھا۔ اس کی بیوی کا جسم کمزور ہو چکا تھا، اور دل کی بیماری بھی اس پر غلبہ پا چکی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب ندیم کی زندگی کی ساری حقیقت سامنے آ چکی تھی۔ اس کا جسم تھک چکا تھا اور وہ بے شمار مشکلات کے بوجھ تلے دب چکا تھا۔ کاروبار کا ٹوٹا ہوا سلسلہ، بیمار بیوی اور بچوں کے لئے روزانہ کا کھانا، سب کچھ اسے شکست دے رہا تھا۔ غربت کی لکیر نے اس کے ذہن کو بیزار کر دیا تھا، اور زندگی کی جڑوں تک پہنچنے کے لیے وہ ہر روز تھک چکا تھا۔ اس کی بیوی کی حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ وہ بیچاری ایک پل کے لئے بھی آرام سے نہ بیٹھ سکی۔ وہ مسلسل درد میں مبتلا تھی، اور اس کا جسم اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ وہ کوئی بھی کام نہیں کر پاتی تھی۔
ندیم نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ کسی طرح اپنی بیوی کا علاج کروا سکے، لیکن اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ علاج کی فیس ادا کر سکے۔ روزانہ کی محنت اور بچت سے صرف اتنا ہی کچھ ہوتا تھا کہ وہ اور اس کی بیوی اور بچے کسی طرح کھانے کے قابل ہو پاتے تھے۔ اس کا دل کٹ رہا تھا جب وہ اپنی بیوی کو تکلیف میں مبتلا دیکھتا تھا، لیکن وہ کچھ نہ کر پاتا۔ وہ کبھی سوچتا تھا کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے، لیکن حالات نے اسے سکھایا تھا کہ زندگی کی حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ایک دن، اس کی بیوی کا جسم بالآخر مزید تاب نہ لا سکا۔ وہ بے ہوش ہو گئی اور اس کے ساتھ زندگی کی آخری سانسیں گزر گئیں۔ ندیم کی دنیا جیسے ایک لمحے میں ٹوٹ گئی۔ وہ بے بس تھا اور کسی بھی طریقے سے اس کا دکھ کم نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کے جسم کے قریب بیٹھا تھا اور اس کی آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو بہ رہے تھے۔ اس کی زندگی کا سب سے گہرا دکھ اس دن اس کے سامنے آ چکا تھا، لیکن اس کا دل ابھی تک یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ اس کی بیوی اس دنیا سے جا چکی ہے۔
ندیم نے بیوی کی تدفین کی تیاری شروع کی، لیکن اس کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا: “اب کیا ہوگا؟” وہ جانتا تھا کہ زندگی اب اس کے لئے پہلے کی طرح نہیں رہے گی۔ اب وہ اپنے بچوں کا اکیلا نگہبان بن چکا تھا، اور یہ صورتحال اس کے لئے انتہائی کٹھن تھی۔
بیوی کی تدفین کے بعد، ندیم گھر واپس آیا۔ دروازے پر قدم رکھتے ہی اس کی ناک میں چاولوں کی خوشبو آئی۔ وہ چند دنوں سے بھوکا تھا، اور یہ خوشبو اس کے جسم میں ایک عجیب سی تڑپ پیدا کر رہی تھی۔ اسے اس خوشبو سے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے اس کی بھوک کا احساس کیا ہو، اور یہ خوشبو اس کے جسم میں ایک سکون اور تروتازگی کا پیغام دے رہی ہو۔
اس کے گھر میں اب بھی سناٹا تھا، لیکن ایک عجیب سی حرکت تھی جو اس کے دل میں چھپی تھی۔ اس کا بیٹا، جو ابھی تین سال کا تھا، اندر دوڑتا ہوا آیا اور اس کے قدموں میں جھک کر کہا، “بابا، دیکھو! آج کھانا بن رہا ہے، بچہ خوش تھا، اور اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ وہ اس خوشبو میں غرق ہو کر اپنی دنیا کے رنگوں کو بھول چکا تھا۔ ندیم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور آہستہ سے کہا،
ہاں بیٹا، آج ہم سب پیٹ بھر کرکھائیں گے۔
برادری کے لوگ بھی اس کے گھر جمع ہو گئے تھے۔ کئی دنوں سے ان کے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ انہیں ندیم کی مدد کرنی چاہیے۔ لیکن جب تک بیوی کا انتقال نہ ہوا تھا، کسی نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ اب، جب وہ اس دنیا میں نہیں رہی، برادری کے لوگ آگے بڑھے اور چاول پکا رہے تھے۔ ندیم نے ان سب کو دیکھا، اور اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر آیا۔
یہ وہ لوگ تھے، جو زندگی بھر اس کے دکھ میں شریک نہ ہوئے، لیکن جب موت آ گئی تو وہ سب آگے آ گئے۔ وہ چاول پکانے والوں میں سے ایک شخص کے قریب جا کر بولا،آپ لوگ کیوں یہ سب کر رہے ہیں؟ جب میری بیوی زندہ تھی، تو کسی نے بھی مدد نہیں کی۔ اب کیوں؟
ایک شخص نے مسکرا کر کہا،ہمارے معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے، بھائی۔ جب تک کسی کا انتقال نہ ہو جائے، کوئی کسی کو اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن جب مر جائے، تو کئی لوگ آ کر مدد پیش کرتے ہیں۔
ندیم نے گہری سانس لے کر ان سب کو دیکھا اور پھر اندر کی طرف بڑھا۔ وہ جان چکا تھا کہ یہی ہے اس معاشرت کا رنگ، یہی ہے زندگی کا گندا چہرہ۔ لوگوں کی ہمدردیاں اس وقت تک کارگر نہیں ہوتی جب تک کہ کسی کا انتقال نہ ہو جائے۔ وہ جو محبت اور انسانیت کا دم بھرتے ہیں، وہ اس وقت تک کسی کو خاطر میں نہیں لاتے جب تک کہ ایک انسان مر نہ جائے۔
وہ گھر جس میں ایک فرد موت کی وادی میں پہنچ چکا تھا، وہاں چھائی خاموشی اور افسردگی کے درمیان، جب 10 دن بعد روٹی ملنے پر وہ لمحہ آیا تو، ندیم کے دل میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ خوشی نہ صرف اس کی اپنی بھوک کے خاتمے کی تھی بلکہ اس کے دل میں چھپی ایک تلخ حقیقت کے اجاگر ہونے کی تھی۔ وہ لمحہ، جب برادری والے آئے اور اُس کی مدد کی، گو کہ اس کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا تھا، لیکن اس کے دل میں ایک سوال تھا: کیوں؟ جب تک اس کی بیوی زندہ تھی، کسی نے اس کی مدد نہیں کی، لیکن جیسے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی، سب ہمدرد بن گئے۔
یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے کہ جب تک کسی کی موت نہ ہو جائے، کوئی کسی کو نہیں پوچھتا۔ لیکن جب ایک انسان اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو بہت سے لوگ، حتیٰ کہ جو دشمن بھی ہوتے ہیں، خود کو انسانیت کا علمبردار بنا کر پیش کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح مدد پیش کرتے ہیں۔ یہی ہمارے معاشرتی رویے کی حقیقت ہے، جہاں دکھ کے وقت افراد اکیلے ہوتے ہیں، لیکن موت کے بعد سب ہمدرد بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ہمیں انسانیت کے بنیادی اصول بتائے ہیں۔ وہ فرماتا ہے:
’’اور لوگوں کے مال نہ جھوٹ بول کر کھاؤ، اور نہ لوگوں کے مال کو حاکموں کے سامنے پیش کرو تاکہ تم جان بوجھ کر لوگوں کے مال میں سے کچھ کھا سکو‘‘(البقرہ: 188)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ معاشرتی انصاف اور ہمدردی کا حقیقی معیار تب ہوتا ہے جب ہم اپنے بھائیوں کی مدد کریں، اور نہ کہ جب ان کے پاس کوئی نہ ہو۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم انصاف کے ساتھ فیصلے کرو۔(النساء: 58)
یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے معاشرتی تعلقات میں انصاف اور مساوات کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ جب تک ہم انصاف کی بنیاد پر زندگی گزاریں گے، تب تک ہم کسی کے دکھ میں شریک ہو سکیں گے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جو اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتی ہے:
جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے، اللہ تعالی اس کی مدد کرتا ہے۔(صحیح مسلم)
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کی مدد کے لیے قدم بڑھانا چاہیے، اور یہی ہماری اصل انسانیت ہے۔ لیکن ہمارے معاشرتی رویے میں یہ دکھا گیا ہے کہ جب تک کوئی فوت نہ ہو جائے، انسانیت کا علم نہیں ہوتا۔
جب تک انسان زندہ رہتا ہے، وہ تکالیف میں اکیلا ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، انسانیت کا رنگ دکھایا جاتا ہے۔ یہ معاشرت کی سب سے بڑی کمزوری ہے، اور ایک تلخ حقیقت جو ہمیں اللہ کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگیوں میں لانے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں، اور زندگی کے ہر لمحے میں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، تو ہمارے معاشرے میں انسانیت اور ہمدردی کا چرچا ہوگا، اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اللہ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ کہانی نہ صرف ندیم کی ذاتی جدوجہد اور دکھوں کا عکاس ہے، بلکہ ہمارے معاشرتی رویے کی حقیقت کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انسانیت کا اصل تقاضا صرف اُس وقت نہیں ہوتا جب کوئی مر جائے، بلکہ یہ ہر وقت، ہر لمحے اور ہر حال میں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کا پیغام دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔ (صحیح مسلم)
اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کے دکھوں میں شریک نہیں ہوتے، ہم اپنی انسانیت کے اصل مفہوم کو سمجھ نہیں پاتے۔ آج کے دور میں، جہاں ہر فرد اپنی دنیا میں مگن ہے، ہمیں اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم نہ صرف ایک بہتر معاشرتی نظام بنا سکیں، بلکہ اللہ کی رضا بھی حاصل کر سکیں۔ جو لوگ صرف موت کے بعد ہمدرد بنتے ہیں، اُنہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انسان کی مدد کی اصل اہمیت اُس کی زندگی میں ہے نہ کہ اُس کے مرنے کے بعد۔

شیئر کریں

:مزید خبریں