شیخ اياز جدید سندھی ادبی تاریخ میں صرف ایک فرد نہیں، بلکہ ایک وسیع موضوع ہیں، جدید سندھی ادب کا پورا ایک دور ہیں۔ اسی لیے جدید سندھی ادب میں شیخ اياز کی حیثیت بنیادی محور کی ہے۔ مجھے شیخ اياز کی شاعری، ان کے نثری ادب، غیر معمولی تخلیقی صلاحیت اور اس کے خوبصورت اظہار سے بچپن سے ہی محبت اور انسیت رہی ہے، اور اس دلچسپی کا رنگ کبھی ماند نہیں پڑا۔ یہ صرف میرا ذاتی احساس نہیں، بلکہ اياز کے دور اور ان کی شاعری کے مداحوں کی بھی یہی رائے ہے۔ اياز سندھی ادبی اور ثقافتی تاریخ کی خوبصورتیوں اور دانش کی روایات کا ایک منفرد تخلیقی تسلسل ہیں۔
قومیں اور معاشرے اپنی فکری، ذہنی اور تخلیقی صلاحیت کا اظہار عظیم روایات، رویوں اور ثقافت کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ چند افراد کی شکل میں بھی کرتے ہیں۔ یہ غیر معمولی تخلیق کار اپنی تخلیقی بلندی کو چھو کر ایک ایسا دور تخلیق کرتے ہیں جو قوموں کو تاریخ میں فکر، فن اور زبان کی ترقی کی منازل طے کرا کر آگے لے جانے کا محرک بنتا ہے۔ بیسویں صدی میں سندھ کے ادبی میدان میں شیخ اياز ایک ایسی ہی شخصیت تھے۔ وہ صرف ایک فرد نہیں، بلکہ جدید سندھی ادب کی ترقی، تخلیقی، روحانی، جمالیاتی اور مزاحمتی قوت کا مکمل دور تھے اور ہیں۔
جدید سندھی شعری ادب میں اگرچہ کئی باکمال شاعر ہیں، جیسے کشنچند بیوس، کھیل داس فانی، ہری دلگیر، ہوندراج دکھائیل، عبدالکریم گدائی، نیاز ہمایونی، تنویر عباسی، استاد بخاری، نرائن شیام، امداد حسینی، ابراہیم منشی، آکاش انصاری، اياز گل اور حسن درس۔ لیکن شیخ اياز بیسویں صدی کے آخری نصف میں صرف ایک عظیم جدید تخلیقی شاعر نہیں، بلکہ اپنے ساتھ ایک مکمل نیا ادبی دور لے کر آئے۔ اس دور کے گہرے اور ہمہ جہت اثرات آج تک سندھی ادب پر موجود ہیں اور شاید کئی زمانوں تک رہیں گے۔ کیونکہ ہر بڑا شاعر اپنے دور کے بعد ایک رجحان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
رشید بھٹی نے اياز کے کردار پر لکھا
“سندھی ادب میں فن اور فکر کے لحاظ سے نئے موڑ اور اقدار لانے میں شیخ اياز کی شخصیت نے ایک اہم اور ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے وسیع عالمی ادب کے مطالعے اور پرکھ کی وجہ سے، ملک کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حالات و تبدیلیوں کے مشاہدے کی بنیاد پر سندھی شاعری کو نئے موضوعات دیے، بلکہ اپنی شاعری کے پرانے موضوعات اور اقدار (عظیم فارسی اور سندھی لوک و کلاسیکی شاعری کے) تصوف، بے ریائی، انسانیت، محبت، صلح کل، رواداری اور وطن سے محبت کو بھی رائج کیا، جنہیں ہمارے انگریزی دور کے فارسی نقال شاعروں نے فراموش کر دیا تھا۔
ظاہر ہے کہ شیخ ایاز سے پہلے، یا جدید سندھی ادب اور شاعری سے پہلے، سندھی زبان اور معاشرہ کلاسیکی دور سے گزر چکا تھا۔ اگر اس کلاسیکی دور میں روایتی شاعری کی روایتیں موجود تھیں، تو اسی وقت اس دور نے شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے عظیم شاعر بھی پیدا کیے۔ اس پورے کلاسیکی دور کی اہمیت کو ڈاکٹر تنویر عباسی نے اپنی کتاب “شاہ لطیف کی شاعری” میں یوں بیان کیا ہے:
“قاضی قادن نے سندھی شاعری کی عمارت کے لیے بنیاد کھودی، شاہ کریم نے اس کی بنیاد رکھی، شاہ لطف اللہ قادری اور میاں شاہ عنات نے دیواریں کھڑی کیں، اور شاہ لطیف نے اسے رنگ و روپ دے کر اور نقش و نگار سے سجا کر خوبصورت بنایا۔”
جیسے شاہ لطیف نے سندھی کے کلاسیکی دور کو عروج بخشا، اسی طرح شیخ ایاز جدید سندھی ادب کا ایک مکمل اور بھرپور دور ثابت ہوئے۔ شیخ ایاز کے دور کی حیثیت اور کردار کے بارے میں رسول بخش پلیجو لکھتے ہیں:
“شیخ ایاز جدید سندھی قوم کے معماروں میں سے ہیں۔ سندھی زبان، سندھی شاعری، اور سندھی بیداری کا شیخ ایاز کے بغیر تصور بھی ممکن نہیں۔ شیخ ایاز انسان ہیں، اور انسان غلطیوں کا پتلا ہوتا ہے، لیکن شیخ ایاز کی شاعری، فن اور مقصد کے اعتبار سے، بدترین دور میں بھی ہمیشہ بنیادی طور پر بے عیب، بے خطا، باوقار، بے مثال اور انمول رہی ہے۔”
شیخ ایاز کے قریبی دوست اور نقاد، سائیں محمد ابراہیم جویو، ایاز کی شاعری کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“ایاز کی شاعری سندھی زبان کا ایک کرشمہ ہے۔ زبانوں کے ایسے کرشمے صدیوں کے بعد ظاہر ہوتے ہیں، اور جب ظاہر ہوتے ہیں، تو وہ زبانوں کے ساتھ اپنے اپنے دور کی کایا پلٹ کا باعث اور بنیادی محرک بن جاتے ہیں۔ سندھی زبان کے اس کرشمے نے اپنے ساتھ اپنے دور کو دوسرے شاعر اور دوسرے ادیب بھی دیے۔”
شیخ ایاز سندھی کے جدید ادبی افق پر یوں نمودار ہوئے جیسے انہوں نے خود کہا ہے:
رات ڈھلی، وہ آنا تھا،
تُو چھوڑ نہ پائل پیروں کی
نوجوان ادبی نقاد ڈاکٹر اسحاق سمیجو نے جدید سندھی ادب میں شیخ ایاز کی آمد کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
“ایاز اس دھند میں سورج کی روشنی بن کر ابھرا۔ اس کی شاعری ندی کی تیزی اور طوفان کی شدت کی مانند آئی اور نہ صرف اپنے سے پہلے کی تمام ادبی روایات کو پیچھے چھوڑ دیا، بلکہ اپنے ہم عصر دور کو بھی اتنا متاثر کیا جتنا شاید ہی کسی اور شاعر کی شاعری نے اپنے دور کو متاثر کیا ہو۔”
میرا خیال ہے کہ شیخ ایاز کے ہمہ جہت مطالعے اور گہرے تجزیے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی شاعری کے پس منظر، یعنی سندھ کے کلاسیکی دور کی شاعری کے ساتھ ساتھ مشرق و مغرب کی جدید اور کلاسیکی شاعری کا بھی عمیق مطالعہ کیا جائے، کیونکہ ایاز کی شاعری کے تاریخی، فکری، فنی اور موضوعاتی پس منظر کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
سندھی شاعری کا کلاسیکی دور مختلف روایات، رجحانات اور ادوار سے گزرتے ہوئے جدید رنگ کے ساتھ ایاز تک پہنچا۔ سندھی زبان میں کلاسیکی شاعری کی مختلف روایات رہی ہیں، جن کا جدید سندھی شاعری سے گہرا تاریخی، لسانی اور ہمہ جہت تعلق ہے۔ کیونکہ گزرنے والا ہر دور آنے والے دور پر کبھی واضح اور کبھی غیر واضح اثرات چھوڑتا ہے۔ ماضی کی روایات ضروری نہیں کہ مکمل طور پر ختم ہو جائیں، بلکہ وہ ادب اور فن میں، خاص طور پر کلاسیکی درجے پر، ابھرنے والی نئی روایات پر اثر ڈالتی ہیں۔ ہر روایت کی اپنی خوبصورتی اور انفرادیت ہوتی ہے، چاہے اس میں کمزوریاں بھی ہوں۔
مثال کے طور پر، سندھی شاعری کے سومرا اور سماں ادوار اور ان میں بھاگو بھان، سمونگ چارن اور دیگر رزمیہ شاعروں کی شاعری میں جو لسانی کمال دکھائی دیتا ہے، وہ سندھی زبان کی وسعت اور گہرائی کا ناقابل یقین اظہار ہے۔ میں نے اپنے ایک مقالے میں یونانی رزمیہ شاعر ہومر اور اسلام سے قبل عربی کے بڑے رزمیہ شاعروں کا تقابلی مطالعہ بھاگو بھان، سمونگ چارن اور دیگر رزمیہ شاعروں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ ان شاعروں کی شاعری میں سندھی زبان کی روانی، ثقافتی، محاوراتی اور لسانی حسن کو جو انداز میں بیان کیا گیا ہے، وہ لاجواب ہے۔ ان کی زبان کی وسعت اور دولت کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔
سندھی زبان اور ادب کی تاریخ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی بجا طور پر نہ صرف سندھ بلکہ دنیا کے عظیم ترین شاعر اور مفکر شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے سندھی زبان کو ہمہ جہت وسعت، معنویت اور ابدیت بخشی۔ اپنے فکر، زبان کی خوبصورتی اور فن کے کمال کے ساتھ، لطیف نے اپنی شاعری میں ایک پورا نیا دور اور جہان تخلیق کیا۔
اس لیے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کلاسیکی اور جدید ادبی روایات کے درمیان گہرا اور اٹوٹ تعلق ہوتا ہے۔ اگر کوئی جدید ادبی روایت اپنے کلاسیکی ورثے سے کٹ جائے تو وہ تاریخی طور پر استحکام حاصل نہیں کر سکتی، اور نہ ہی اس میں وہ وسعت آ سکتی ہے جو کسی تاریخی دور پر اثرانداز ہو سکے۔ ادب میں کلاسیکی اور جدید ادوار کے درمیان ایک متوازن تعلق موجود ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ تعلق تخلیقی ہو نہ کہ محض تقلیدی۔
خود لطیف کے جد امجد، شاہ عبدالکریم بلڑی (1538-1623 عیسوی) کی شاعری، اگرچہ موجودہ طور پر کم میسر ہے، لیکن وہ انتہائی معیاری ہے۔ ان کے اشعار ہمیں کتاب “بیان العارفین” میں ملتے ہیں۔ ان کا مشہور شعر ہے:
“ورُ سا سُڃي ويڙهه، جتي سڄڻ هيڪڙو،
سو ماڳو ئي ڦيرِ، جتي ڪُوڙ ڪماڙوئين۔”
(ترجمہ: وہی میدان جنگ کامیاب ہے جہاں دوست ایک ہو،
جھوٹ اور فریب کے کھیل کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔)
اسی طرح شاہ لطف اللہ قادری، جو سندھی زبان کی کلاسیکی شاعری میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں، اپنے اشعار اور نظموں کے ذریعے ایک منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی شاعری میں فکر اور جمالیات کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں:
“کِنی پاتو پیریان، اپیریءَ میں پیرُ،
ایءُ اونہو تر اگھور، گھڻو ڪن اُتِ اُبتو پیرُ،
سرُ مِٹیءَ سو نٿو سَهي، تنین ڪر پائي پیرُ،
ان ڀونءِ سَندو ڀیرُ، ڪَوڙین منجهان ڪو لهي۔”
شاہ عنات کا دور شاہ لطیف سے کچھ پہلے کا تھا، لیکن روایات کے مطابق شاہ لطیف نوجوانی میں شاہ عنات سے ملاقات کرتے تھے اور ان کی صحبت سے متاثر بھی ہوئے۔ شاہ عنات پہلے کلاسیکی شاعر تھے جنہوں نے مکمل رسالہ مرتب کیا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
“میئیں شاہ عنات نے قالب تیار کیے، تو بھٹائی صاحب نے انہیں تراش کر سنوارا۔ میئیں شاہ عنات نے دیواریں کھڑی کیں، تو بھٹائی صاحب نے عمارتیں بنائیں۔ میئیں شاہ عنات نے صورتیں تخلیق کیں، تو بھٹائی صاحب نے ان میں روح پھونک کر انہیں زندہ کیا۔”
شاہ عنات کی شاعری میں فکر کی گہرائی اور سندھی زبان کی جمالیات کا خوبصورت اظہار ملتا ہے۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے:
“ڳُڻین پرین رُٺام، اَوڳُڻَ رُسي سڀ ڪو۔”
(ترجمہ: اگر نیکیوں والے رنجیدہ ہو جائیں، تو برائیاں سب کو ناراض کر دیتی ہیں۔)
ان سے بھی پہلے قاضی قادن، جنہیں سندھی شاعری کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے، نے اپنی شاعری میں فلسفیانہ گہرائی اور زندگی کی حقیقتوں کو بیان کیا۔ ان کا مشہور شعر ہے:
“کایا مُنهن ڏيئي، پيٹھا جي درياهه ۾،
پَسندا سَي ئي، ماڻڪ اکڙين سين۔”
(ترجمہ: جو لوگ جسم کو دریا کے سپرد کر دیتے ہیں، وہی آنکھوں میں موتی دیکھتے ہیں۔)
ان عظیم شعرا کی تخلیقات نے سندھی شاعری کی کلاسیکی روایات کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ آنے والے ادوار کے لیے فکری اور فنی بنیادیں بھی فراہم کیں۔ ان کی شاعری سندھی زبان کی وسعت، گہرائی اور انفرادیت کا شاہکار ہے، جو جدید دور تک اپنے اثرات چھوڑتی آ رہی ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ کی کلاسیکی شاعری کے اس دور کے ساتھ جو صوفیانہ روایت تھی، وہ اپنی طاقتور اور کمزور روایتوں کے ساتھ چلتی رہی، لیکن سندھی شاعری میں جو دوسری عروضی روایت آئی، اس میں خلیفہ گل محمد گل اور کچھ دیگر شاعروں کو چھوڑ کر فارسی اس حد تک داخل ہو گئی کہ سندھی شاعری اپنی زبان، اپنے وطن، اپنے ماحول اور اس کی علامتوں، اپنی ثقافت اور تہذیب، اور اپنی کلاسیکی شاعری میں موجود فکری حسن سے تقریباً کٹ کر رہ گئی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سندھی شاعری میں یہ روایتیں خاص طور پر کلاسیکی دور کے بعد ظاہر ہوئیں، جن میں خیال اور معیاری فن کمزور ہو گیا اور بے معنیٰ لفظی نمائش زیادہ نظر آنے لگی۔ اس شاعری میں نہ تو سندھ کی اپنی علامتیں تھیں، نہ ہی اپنی ترکیبیں اور نہ ہی اپنے استعارے۔ یہ غیر تخلیقی شاعری کی روایت تھی، جس کا سارا زور تصنع، تقلید اور اتباع پر تھا۔ اس میں ایک کھوکھلی، بے معنیٰ اور بے روح شاعری نظر آتی ہے۔ نتیجتاً یہ وہ دور تھا جب ہماری شاعری کی عظیم کلاسیکی روایت اپنے سماج، اپنی زبان، اپنے وطن اور قدرتی و سماجی ماحول سے کٹ کر اجنبیت کا شکار ہو گئی۔
اس دور میں شاعری سے معنویت، احساس کی گہرائی، تخیل کی پرواز اور فکر کے معیار کے عناصر ختم ہوتے گئے، اور شاعری محض بے معنیٰ الفاظ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اردو شاعری بھی تقریباً دو صدیوں تک اس مسئلے کا شکار رہی ہے۔ اگر ہم اردو شاعری سے امیر خسرو، میر تقی میر، غالب، نظیر اکبر آبادی، اقبال، جوش، فیض، ن۔م۔راشد، فراق، ساحر، مخدوم محی الدین، فراز اور چند دیگر اہم شاعروں کو نکال دیں تو اردو شاعری کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں نظر آتی، سوائے اس کی کلاسیکی اور جدید شاعری کے چند اہم حصوں کے۔
شاعری یا نثری ادب میں اگر تاریخی اور سماجی شعور اور تخلیقی جوہر نہ ہو تو وہ ادب بے جان اور بے ذائقہ ہو جاتا ہے۔ زبان کی تخلیقی خوبصورتی اور نکھار بھی ادب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ سندھی شاعری کی عروضی روایت، خاص طور پر بیسویں صدی کی پہلی نصف کی غزل گوئی، ان تمام عناصر کو کھو چکی تھی۔ انیسویں صدی کی عروضی شاعری میں پھر بھی تھوڑا بہت تخلیقی اثر نظر آتا ہے، لیکن بیسویں صدی کی پہلی نصف میں یہ شاعری تقلید کی تمام حدیں عبور کر چکی تھی۔
یہی حال تصوف کی شاعری کا بھی تھا، جس میں لطیف اور سچل جیسے چند بڑے شاعروں کو چھوڑ کر حد سے زیادہ روحانیت اور الٰہیات نے انسان اور سماج سے شاعری کو دور کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جیسے عروضی شاعر عوام میں زیادہ یاد نہیں کیے جاتے، ویسے ہی زیادہ روحانیت میں ڈوبی ہوئی شاعری بھی عوامی یادداشت کا حصہ نہ بن سکی، اور مخصوص صوفی حلقوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔
شیخ ایاز جدید سندھی شاعری کے پہلے بڑے اور غیر معمولی شاعر تھے، جنہوں نے سندھی شاعری کو اس روایتی فارسی آمیزش اور صوفیانہ محدودیت سے آزاد کرایا۔ شیخ ایاز نے نوجوان شاعروں کی شاعری کی مشترکہ کتاب “ڏيئا ڏيئا لاٽ اسان” کے طویل مقدمے میں خود لکھا:
“میں یہ فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سندھی غزل اور دیگر شاعری کو میں نے غیر ملکی روایات سے نکالا اور اس کی جڑیں سندھی شاعری سے ملائیں۔” (6)
شیخ ایاز نے اس روایتی تقلیدی شاعری سے بغاوت کرتے ہوئے جدید سندھی شاعری کو کلاسیکی دور سے جوڑا اور اپنی بے پناہ تخلیقی قوت کے ذریعے سندھی شاعری کو ایک ایسے دور میں داخل کیا، جہاں یہ نہ صرف اپنی فکری، فنی اور لسانی جڑوں کو دھرتی، اس کی تاریخ، فطری خوبصورتی، کرداروں، لوگوں اور مٹی سے جوڑتی ہے بلکہ ہم عصر عالمی ترقی پسند تحریکوں، یورپ کی رومانوی اور آزاد خیالی تحریکوں اور ان کی شعری روایات سے بھی مربوط ہو جاتی ہے۔
میرا ماننا ہے کہ یہ جدید سندھی شاعری کا عروج کا دور تھا، جس میں سندھی شاعری کے موضوعات اور علامات دھرتی کی گہرائی سے ابھرے، اور وہ عالمی دھاروں سے جڑ گئی۔ مختلف روایات کے اس امتزاج نے جدید سندھی ادب کی بنیاد رکھی، اور اس میں شیخ ایاز کا بنیادی اور قائدانہ کردار تھا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جدید سندھی شاعری میں شیخ ایاز ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے جمود کو توڑا۔ روایتی، بے جان اور غیر متاثر کن شاعری کے بالمقابل، شیخ ایاز نے تخلیقی، محرک اور خالص شاعری کا ایک بھرپور دور شروع کیا، جس کی بنیاد پہلے ہی پڑ چکی تھی، اور ایاز نے اس دور کو عروج کی بلندیوں تک پہنچایا۔
ایاز شناسی کے حوالے سے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایاز کس دور، پس منظر اور حالات سے ابھرے۔ ہر بڑا شاعر جب اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور جامعیت کے ساتھ ابھرتا ہے، تو اس میں نہ صرف اس کی انفرادی تخلیقی مہارت، خیالات اور اظہار کی گہرائی شامل ہوتی ہے، بلکہ اس کے پس منظر، حالات، فکری اور فنی روایات کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔ شیخ ایاز ایک منفرد تخلیقی نابغہ تھے، لیکن ان پر مختلف ادبی، فکری، فنی اور شعری روایات کا اثر بھی تھا، جس کی تشریح اور تجزیہ ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جدید سندھی ادب میں شیخ ایاز کے ہم پلہ کوئی اور شاعر یا ادیب نہیں، جنہوں نے اپنے ہم عصروں اور بعد میں آنے والے ادبی نسلوں پر اتنے گہرے اور متنوع اثرات چھوڑے۔ دراصل، شیخ ایاز کو اظہار کے لیے ایک بھرپور تاریخی دور ملا۔
اگر والٹیئر کو فرانس میں جاگیردارانہ زوال اور سرمایہ داری کے عروج کا دور نہ ملا ہوتا، اور فرد کی آزادی کا تصور سیاست اور فلسفے میں اتنی قوت سے نہ ابھرتا، تو کیا وہ اتنی مقبولیت حاصل کر سکتے تھے؟ یا ایسے موضوعات شاعری اور ڈراموں میں شامل کر سکتے تھے؟ ادب میں رومانوی تحریک، لبرل فکر کی پیداوار تھی، جس کے فکری بنیاد روسو کے فطرت کی طرف واپسی اور آزاد خیالی کے اثرات سے جڑے تھے۔
کولرج اور ورڈز ورتھ نہ صرف گہرے دوست تھے بلکہ اس تحریک کے بنیاد گزار بھی تھے۔ فرانس کے انقلاب (1789ء) نے انہیں بے حد متاثر کیا۔ دوسری طرف، وہ سرمایہ داری کے عروج اور صنعتی معاشرے کے باعث شہری زندگی سے بیزار تھے، جہاں آرٹ کے لیے سازگار حالات نہیں تھے۔ انہوں نے ادب کو دیہی علاقوں اور فطرت سے جوڑنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کلاسیکی دور سے بغاوت کی، شاعری میں نئے رجحانات اور موضوعات شامل کیے، اور شاعری کے مقصد پر مباحثے شروع کیے، کیونکہ وہ ادبی نقاد بھی تھے۔ اسی طرح لارڈ بائرن، جو رومانوی تحریک کے سب سے بڑے شاعر تھے، نے آزاد خیالی اور چرچ کی تنگ نظری سے بغاوت کی۔ انہوں نے ریاست کو مذہب سے جدا کرنے اور انسان کے رومانوی اور فطری جذبات کے اظہار پر زور دیا۔
انیسویں صدی میں، فرانس میں بالزاک کے ناولوں نے سماجی زندگی کی نئی جھلکیاں پیش کیں۔ اسی طرح شیخ ایاز نے جدید سندھی ادب میں اپنے منفرد انداز اور بصیرت کے ساتھ ایک نیا باب رقم کیا۔
اگر فرانس میں والٹیئر کو آزاد خیالی نے متاثر کیا، رومانوی تحریک کی فطرت پسندی ورڈز ورتھ اور کولرج کو بھا گئی، تو فرانس کے ایمیل زولا نے سرمایہ داری کے مظالم کو بے نقاب کیا اور ادب میں سماجی انصاف، مزدوروں کے حقوق، عوام میں بھوک اور جسم فروشی جیسے موضوعات متعارف کروائے۔ اگر انیسویں اور بیسویں صدی میں روس کے وہ حالات نہ ہوتے تو کیا پشکن، ٹالسٹائی، دوستوفسکی اور گورکی جیسے تخلیق کار وجود میں آ سکتے؟ حقیقت یہ ہے کہ ادب پر دور کا اثر ہوتا ہے، اور اس کے حالات نئے موضوعات لے کر آتے ہیں، جنہیں عظیم تخلیق کار اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔
شیخ ایاز کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سب سے پہلے، انہیں تقسیمِ ہند سے پہلے جدید سندھی شاعری کا ایک تاریخی خلا ملا۔ قلیچ، سانگی، کشنچند بیوس، ہری دلگیر، فانی، گدائی اور دیگر شعراء مل کر بھی اس خلا کو پُر نہیں کر سکے تھے۔
جدید سندھی شاعری جیسے ایاز جیسے کسی غیر معمولی شاعر کے ابھرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ایاز سے پہلے کے جدید شعراء نے سندھی شاعری کو روایتی شاعری کی تقلید سے نکالنے کے لیے ابتدائی قدم تو اٹھائے، لیکن ان میں فکری اور فنی طور پر ایک نیا دور پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ تقسیمِ ہند خود ایک بڑا تاریخی حادثہ تھا، جس نے ایاز سمیت برصغیر کے ادب کو متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایاز کو تقسیم سے پہلے ہی عالمی اور برصغیر کے ترقی پسند دور کا سامنا تھا۔ ایاز کا زیادہ تر عروج اور ابھار ون یونٹ کے دور میں ہوا، جو سندھی سماج کے لیے بے حد اہمیت کا حامل دور تھا۔
ایک طرف، سندھ تاریخی طور پر ادبی میدان میں اپنے دور کے حالات کے اظہار کے لیے کسی بڑے تخلیقی ترجمان کا انتظار کر رہا تھا، اور ایاز اس دور کی آواز اور ان تمام محرکات کا ترجمان ثابت ہوئے۔ دوسری بات یہ کہ وہ دور سندھ میں قومی شعور کے ساتھ ترقی پسند فکر اور رجعت پسند ادبی روایت کے درمیان ایک تاریخی تضاد کا دور بھی تھا۔ چونکہ رجعت پسند روایت اپنی فطرت میں فرسودہ اور زوال پذیر ہو چکی تھی، اور یہ تاریخی طور پر طے تھا کہ اس جدلیات میں فتح ترقی پسند اور روشن خیال جدید روایت کی ہونی تھی۔ اس کا ترجمان بھی شیخ ایاز ہی ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن حیات پنهور، غلام محمد گرامی، رسول بخش پلیجو، رشید بھٹی اور دیگر کئی نقادوں نے شیخ ایاز کے دفاع میں لکھا، اور سندھی ادب میں ترقی پسند ادب کی روایت اس قدر شدت اور گہرائی کے ساتھ ابھری کہ رجعت پسند اس کے سامنے کھڑے نہ ہو سکے۔