مدارس کے رجسٹریشن ایکٹ 2024 پر ریاست اور مذہبی قوتوں کے درمیان تنازع ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام نے اس قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کروایا، لیکن صدر آصف زرداری نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نے اس بل کے خلاف مؤقف اپناتے ہوئے اپنی خودمختاری برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ تنازع دونوں فریقین کی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ علماء کو چاہیے کہ اس قانون کے ذریعے طلباء کو متحرک کرنے سے گریز کریں اور حالات کو مزید کشیدہ نہ بنائیں، کیونکہ ملک اس وقت مزید سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب ریاست کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ جمعیت علماء اسلام کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ البتہ، علماء کے حقیقی تحفظات کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ باہمی گفت و شنید سے حل ہو سکے۔
مدارس چونکہ تعلیمی ادارے ہیں، انہیں صوبائی محکمہ تعلیم کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے مدارس کے رجسٹریشن کے عمل کو مکمل شفاف اور مربوط بنانا ضروری ہے تاکہ ریاست کو معلوم ہو کہ کتنے مدارس ہیں، ان میں کیا پڑھایا جا رہا ہے، اور ان کے وسائل کہاں سے آتے ہیں۔ یہ کوئی غیر منصفانہ مطالبہ نہیں۔
مدارس میں پیشہ ورانہ تربیت اور روزمرہ زندگی کے ہنر بھی شامل کیے جائیں تاکہ فارغ التحصیل طلباء کے لیے صرف مذہبی شعبے ہی نہیں بلکہ دیگر پیشہ ورانہ مواقع بھی پیدا ہوں۔ ریاست کو معلوم ہونا چاہیے کہ مذہبی اداروں میں کیا ہو رہا ہے تاکہ انتہا پسندی کے عناصر کا سدباب کیا جا سکے۔ اس حوالے سے دونوں فریقین کو اپنے مؤقف میں لچک دکھانی ہوگی اور اس حساس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔
مدارس کے حوالے سے ریاست اور مذہبی حلقوں کے درمیان یہ تنازع نہ صرف تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت کو نمایاں کرتا ہے بلکہ اس بات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ مذہبی اور ریاستی ادارے کس طرح ہم آہنگی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ موجودہ تنازع کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تمام فریق ایک دوسرے کی حساسیت کو سمجھیں اور قومی مفاد کو ترجیح دیں۔
ریاست کو چاہیے کہ مدارس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے صرف اصلاحاتی قانون سازی پر انحصار نہ کرے بلکہ ایک جامع حکمت عملی ترتیب دے جس میں علماء کرام کو مشاورتی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ اگر علماء کو یہ احساس ہو کہ ان کی رائے کو اہمیت دی جا رہی ہے تو وہ نہ صرف اصلاحات کے عمل میں تعاون کریں گے بلکہ مدارس کی اصلاحات کو کامیاب بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ اس کے برعکس، ریاستی طاقت کا استعمال یا زبردستی اقدامات صورتحال کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔
علماء کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مدارس صرف مذہبی تعلیم کے ادارے نہیں بلکہ ان کے طلباء ملک کے مستقبل کے شہری ہیں۔ ان کا تعلیمی معیار اور تربیت صرف دینی امور تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان میں جدید علوم، سماجی شعور، اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت بھی شامل ہونی چاہیے۔ دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں مدارس کی اصلاحات کے مثبت نتائج کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی ان تجربات سے سبق لیا جا سکتا ہے۔
اس تنازعے کے حل کے لیے ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جس میں ریاستی نمائندے، دینی مدارس کے ذمہ داران، اور تعلیمی ماہرین شامل ہوں۔ اس کمیٹی کا مقصد ایک ایسا متفقہ نظام وضع کرنا ہوگا جس میں مدارس کی خودمختاری اور ریاست کی ضروریات کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکے۔
آخر میں، یہ سمجھنا اہم ہے کہ یہ معاملہ محض قانون سازی یا سیاسی دباؤ کا نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کا حل صرف مفاہمت، حکمت، اور بصیرت سے ہی ممکن ہے۔ اگر یہ تنازعہ طول پکڑتا ہے تو اس کا نقصان نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ قومی یکجہتی پر بھی پڑے گا۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ تمام فریق اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک بہتر اور پائیدار حل تلاش کریں۔
کرم میں انسانی المیہ
ضلع کرم، خاص طور پر پاراچنار، اس وقت ایک سنگین انسانی بحران سے دوچار ہے جس کے فوری حل کے لیے ریاستی مداخلت کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 70 دنوں سے پشاور سے کرم کا مرکزی راستہ بند ہے، جس نے پاراچنار کو عملی طور پر ایک جزیرہ بنا دیا ہے جہاں صرف فضائی راستے سے رسائی ممکن ہے۔ اس بندش نے علاقے کے رہائشیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
یہ بحران نومبر میں ایک قافلے پر حملے کے بعد شروع ہونے والے قبائلی جھگڑوں سے جنم لے چکا ہے، جس میں 43 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ بعد میں اس تنازع نے فرقہ وارانہ اور زمینی مسائل کی پیچیدگی اختیار کر لی۔ اب تک 130 سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، لیکن اصل المیہ وہ بے قصور شہری ہیں جو اس تشدد کا شکار ہیں۔ اسپتالوں میں دواؤں اور آکسیجن کی شدید قلت ہے، نمونیا کے شکار بچے مناسب علاج سے محروم ہیں، جبکہ شوگر اور کینسر کے مریض علاج کے لیے باہر جانے سے قاصر ہیں۔ سرد موسم میں ایندھن اور خوراک کی قلت نے صورتحال مزید خراب کر دی ہے۔
نجی تنظیمیں فضائی راستے سے امداد پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن یہ اقدامات ریاست کی ذمہ داری کا متبادل نہیں بن سکتے۔ حکومتی ہیلی کاپٹر مشنز قابل تحسین ضرور ہیں، مگر یہ بحران کی شدت کے سامنے ناکافی ہیں۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مسئلے کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنا انسانی مسائل پر سیاست کی عکاسی کرتا ہے، جو کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔
ریاست کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ دواؤں، خوراک، اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ متبادل راستے کھول کر پاراچنار کی تنہائی کا خاتمہ کیا جائے۔ امن مذاکرات کو مؤثر بنانے کے لیے جرگوں کو ریاستی سرپرستی دی جائے تاکہ قبائلی تنازعات کا دیرپا حل نکالا جا سکے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری نبھاتے ہوئے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ کرم کے لوگوں کو جغرافیائی قید اور قبائلی تنازعات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ناقابل قبول ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرے اور انسانیت کے تقاضے پورے کرے۔
کرم کے موجودہ بحران میں ریاست کے کردار پر سوالات اٹھانا لازمی ہے، کیونکہ یہ انسانی المیہ نہ صرف ریاست کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی متزلزل کرتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی توجہ سیاسی اختلافات سے ہٹا کر انسانی مسائل کے حل پر مرکوز کرے، کیونکہ یہ بحران نہ صرف کرم کے عوام بلکہ ملک کی مجموعی تصویر پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
ایک مربوط حکمت عملی کے تحت فوری اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، کرم کے شہریوں تک بنیادی سہولتوں کی رسائی کے لیے ایک جامع امدادی منصوبہ ترتیب دیا جائے۔ یہ منصوبہ صرف ایمرجنسی امداد تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ علاقے کی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو پر بھی توجہ مرکوز کرے۔ مستقل بنیادوں پر غذائی اجناس، دوائیں، اور ایندھن کی فراہمی کے لیے فضائی اور زمینی راستوں کو بحال اور محفوظ بنایا جائے۔
قبائلی تنازعات کے حل کے لیے جرگوں کو نہ صرف مضبوط ریاستی پشت پناہی دی جائے بلکہ ان میں تمام فریقین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ امن کے امکانات کو تقویت ملے۔ حکومت کو چاہیے کہ قبائلی نظام کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے ایسے ادارے قائم کرے جو نہ صرف تنازعات کے حل میں مدد کریں بلکہ مستقبل میں ایسے مسائل کے پیدا ہونے کے امکانات کو کم کریں۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ریاست کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ایسے پروگرامز اور مہمات کا آغاز کیا جائے جو عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے اصولوں پر جوڑ سکیں۔ تعلیم اور شعور بیداری کے ذریعے نفرت انگیز عناصر کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے، جو اکثر ایسے تنازعات کو ہوا دیتے ہیں۔
کرم کے عوام کو ان کا جائز حق دلانے کے لیے ایک طویل مدتی وژن کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کرم کا بحران محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ قومی یکجہتی، انسانی حقوق، اور ریاستی استحکام کا سوال ہے۔ عوام کے مسائل کو نظرانداز کرنا ایک خطرناک رجحان کو جنم دے سکتا ہے جو نہ صرف ریاستی ڈھانچے کو کمزور کرے گا بلکہ عوام کے دلوں میں مایوسی کو مزید گہرا کرے گا۔
یہ وقت ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے متحد ہو کر اس انسانی المیے کا سامنا کریں۔ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر خالص انسانی ہمدردی اور قومی ذمہ داری کے تحت ایسے فیصلے کیے جائیں جو کرم کے عوام کے لیے راحت کا باعث بنیں۔ کرم کے لوگ یہ حق رکھتے ہیں کہ انہیں بھی وہی مواقع اور سہولتیں فراہم کی جائیں جو ملک کے دیگر شہریوں کو دستیاب ہیں۔ یہ وقت عملی اقدامات کا ہے، محض بیانات کا نہیں۔
کرپشن کا ناسور ۔ واسا ملتان تباہ کیوں ہو رہا ہے ؟
روزنامہ قوم ملتان کے صفحہ اول پر خبر شایع ہوئی ہے کہ واسا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ورکس اور ڈپٹی ڈائریکٹر انجنینئرنگ دونوں نے محض دو سال میں اربوں روپے کی کرپشن کی ۔ کرپشن بھی ایسی ننگی اور کھلی کہ رہے نام اللہ کا- خبر کے مطابق واسا ملتان میں بدترین کرپشن یہ انکشاف خود حکومت پنجاب کی طرف سے ڈجی جی ایم ڈی اے ملتان کو بھیجے جانے والے ایک مراسلے سے ہوا ہے۔ واسا ملتان وہ ادارہ ہے جو ملتان کے شہریوں کو پینے اور دیگر ضروریات کے استعمال کے لیے پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا ۔ اپنے قیام سے لیکر اب تک یہ اس پورے نظام کو بہتر نہیں بنا سکا ہے۔ ملتان کے 80 فیصد سے زیادہ شہری اب بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے محروم ہیں جبکہ باقی ماندہ 20 فیصد آبادی تک واسا کے واٹر سپلائی کا شعبہ پرانی اور خستہ حال پائپ لائنوں کو درست نہیں کرسکا ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کے لیے سیوریج لائنیں اکثر بند رہتی ہیں یا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں- اکثر ڈسپوزل پمپ اسٹیشنوں کی مشینری پرانی ہے اور اسے تبدیل نہین کیا جاسکا ہے۔ جب کبھی واسا حکام سے پوچھا جاتا ہے تو وہ اکثر فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے رہتے ہیں – لیکن واسا کے شعبہ ورکس اور شعبہ انجنئرنگ کے دو سربراہ افسران کی میگا کرپشن کا جو اسکینڈل خود حکومت پنجاب نے طشت از بام کیا ہے اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ جو فنڈز واسا کو دیے جاتے رہے ان کی کھلی لوٹ مار ہوتی رہی یہ سرکاری حزانے پر ڈاکہ ڈالنے کے برابر تو ہے ہی لیکن خود ملتان کی عوام کو پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کی دو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے کی سازش بھی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ دو مبینہ بدعنوان افسران پوری حکومت پنجاب سے طاقت ور ثابت ہوئے اور انھوں نے دو سال تک خوب لوٹ مار کا بازار گرم رکھا ۔ محکمہ ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ و پبلک ہیلتھ انجنئرنگ کے سیکرٹری سمیت ان دو افسران کے اوپر بیٹھے افسران کو ان کے خلاف تادیبی کاروائی کا حکم دینے میں دو سال کا عرصہ لگ گیا- ابھی بھی یہ دونوں افسران واسا ملتان میں ورکس اور انجنئیرنگ ونگز کی سربراہی سنبھال کر بیٹھے ہیں- کروڑوں روپے کے ٹینڈر اور ان کے تحت کام ان دونوں کی نگرانی میں کیے جا رہے ہیں ۔ ان دو افسران کےان ونگز کو کنٹرول کرنے کا عالم یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے جس مراسلے میں پیڈا ایکٹ 2024ء کی شقوں کے تحت ان افسران کے خلاف کاروائی کا حکم جاری کیا ہے اس مراسلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جن معاملات میں ان پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہے ان سے متعلقہ ریکارڈ انھوں نے دبا رکھا ہے اور دو سال کزر جانے کے باوجود انھوں نے وہ ریکارڈ محکمہ ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ و پبلک ہیلتھ انجنئرنگ کے کسی انکوآئری افسر کے حوالے نہیں کیا- اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حکم عدولی پر ان دو افسران کو ان کے عہدوں سے فی الفور ہٹاکر پیڈا ایکٹ کی کاروائی کیوں نہ شروع کی گئی اور پیڈا ایکٹ کی کاروائی انہیں ان کے موجودہ عہدوں پر براجمان رکھ کر کیوں کرائی جا رہی ہے؟ پنجاب حکومت کی ایسی کون سی مجبوری ہے کہ جو ان جیسے بدنام زمانہ افسران کو واسا ملتان کے کلیدی عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔ واسا ملتان میں بدانتظامی کا حال یہ ہے کہ اس میں کئی ایک افسران نے فرنٹ مین رکھ کر خود ٹھیکے داری شروع کر رکھی ہے اور ان کا رہن سہن ان کی تنخواہ سے کہیں زیادہ آسائش والا ہے ۔ واسا کی مالی حالت جتنی پتلی ہے اس کے کئی افسران کی مالی حثیت اتنی ہی زیادہ ترقی کر رہی ہے۔ ملتان کے شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور سیوریج کی ابتر حالت نے ان کی زنگیاں اجیرن کر رکھی ہیں ۔ واسا کے ایم ڈی اور اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کرپٹ ماتحت افسران کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے میں بے بس نظر آتے ہیں ۔ یہ بے بسیکرپٹ افسران اور اہلکاروں کو حاصل سیاسی پشت پناہی کے سبب ہے۔ ملتان سے منتخب ہونے والے عوامی نمآئندوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ اپنے حلقے کےعوام کے مفادات کا خیال رکھنے سے کہیں زیادہ کرپٹ افسران اور ٹھیکے داروں کے مذموم مفادات کا خیال رکھتے ہیں اور ان کے خلاف چلنے والی انکوائریوں کو منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیتے۔ کھلی کرپشن اور لوٹ مار نے پنجاب کے اکثر محکموں میں مالیاتی کرپشن اور بد انتظامی کو انتہا پر پہنچا دیا ہے اور مالیاتی غیر شفاف پن اور انتظامی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کی مالیاتی پوزیشن بے انتہا خراب ہے۔ وفاقی فنانس ڈویژن کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت 140 ارب روپے کی مقروض ہے اور اس کی ٹیکس اور نان ٹیکس امدن اس کے کل مالیاتی وسائل کا محض 17 فیصد ہے جبکہ 83 فیصد مالی وسائل پنجاب حکومت قابل تقسیم محصولات ، وفاقی حکومتوں سے ملنے والی گرانٹس ، قرضوں اور کمرشل بینکوں سے قرض لیکر پورا کر رہی ہے۔ پنجاب حکومت کی مالی حالت کے خراب ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی محکمے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو کئی ماہ سے پنشن ہی ادا نہیں کر پارہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن ایک ناسور بن چکی ہےاس نے صوبہ پنجاب کو مالیاتی اور انتظامی بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے خلاف حکومت کو فی الفور اقدامات اٹھانے ہوں گے۔