آج کی تاریخ

کاروباری تعویز

کاروباری تعویز

’’یار جب ساڑھےگیارہ، 12 بجے زوال کے وقت کاروبار کھولو گے تو عروج کیسے حاصل ہوگا‘‘
بابا جی نے یہ کہہ کر تھوڑا توقف کیا اور بولے ’’آپ دنیا میں کامیاب لوگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو، وہ کم کھاتے، کم سوتے اور کم بولتے تھے۔ کامیاب اقوام کا رہن سہن دیکھ لو، وہ دن کا آغاز صبح تڑکے کے وقت کر لیتے اور مغرب کے وقت اپنے گھر پہنچ جاتے اور اپنے بیوی بچوں کو وقت دیتے ہیں۔ ہمارا دین اسلام بھی تو یہی کہتا ہے‘‘ ۔
کمرے میں بابا جی سمیت ہم پانچ لوگ موجود تھے۔بابا جی کوئی عمر رسیدہ شخص نہیں بلکہ اپنی دانشوری اور موٹیویشن کی وجہ سے ہم انہیں بابا جی کہتے تھے۔ عمر یہی کوئی 40 ،45 سال ہو گی۔ جمعہ کی چھٹی کی وجہ سے سب دوست بابا جی کے ’’ڈیرے‘‘پر موجود تھے جہاں باقی تین دوستوں کے کاروباری ’’رونے‘‘ سن کر بابا جی اپنے طور پر سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
تینوں دوستوں میں سے ایک کی شہر کے بڑے بازار میں دکان تھی، دوسرے نے ایک فوڈ پوائنٹ کھولا ہوا تھا جبکہ تیسرے کا ایک چھوٹا سا خراد کا کارخانہ تھا جہاں مختلف پرزے تیار کئے جاتے تھے۔ تینوں دوستوں کا ایک ہی شکوہ تھا کہ حکومت کبھی بجلی بچت، کبھی سموگ اور کبھی احتجاج، مظاہروں کے نام پر دکانیں، مارکیٹیں، ہوٹل جلد بند کرا دیتی ہے۔ جب لوکوں کے باہر نکلنے کاوقت ہوتا ہے ہم گھروں کو جا رہے ہوتے ہیں۔ سر شام ہی پولیس بازاروں میں گشت کرنے لگ جاتی ہے اور مجسٹریٹس ہزاروں روپے کے جرمانے ٹھونک دیتے ہیں۔ کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا ہے، ان حالات میں ہم کہاں جائیں، کون قصور وار ہے۔
بابا جی نے چائے کی ایک لمبی چسکی لی اور دکاندار دوست سے پوچھا:میاں جی، دکان خیر سے کس ٹائم کھولتے ہو ،دوست بولا :بابا جی یہی کوئی ساڑھےگیارہ، 12 بجے تک، کبھی اس سے بھی تھوڑا لیٹ ہو جاتا ہوں۔ پابندی کی وجہ سے دکانیں جلدی بند ہونے کے باوجود رات کو دیر تک جاگنے کی عادت پڑ گئی ہے، صبح اٹھا ہی نہیں جاتا ،لیکن خیر اس کا کاروباری مندے سے کوئی تعلق نہیں، پورا بازار کھلتا ہی لیٹ ہے۔ میاں جی نے خجل سے لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔
بابا جی کے پوچھنے پر باقی دو دوستوں کا جواب بھی تقریباً یہی تھا اور تمام قصوروار حکومت اور اس کی پالیسیاں قرارپائیں جس کی وجہ سے بازاروں میں الو بول رہے ہیں، کاروبار تباہ ہو گیا ہے، ملازمین کی تنخواہیں اور بجلی کا بل تک ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ فوڈ پوائنٹ والے دوست نے اپنا کام لیٹ کھولنے کا ایک جواز یہ بھی پیش کیا کہ شوارما، برگر کا کام چلتا ہی شام کو ہے، میں نے جلدی کھول کر کیا کرنا ہے۔
بابا جی نے سب کی باتیں تحمل سے سن کر اگلا سوال کیا: فجر کی نماز کون کون پڑھتا ہے؟ جواب میں سب یہی بولے، بابا جی روز کوشش کرتا ہوں مگر سوتے سوتے لیٹ اتنا ہو جاتے ہیں کہ صبح آنکھ ہی نہیں کھلتی، الارم بج بج کر خود سو جاتا ہے، یہ کہہ کر تینوں ڈھٹائی سے ہنس پڑے۔
بابا جی بولے: ایک تعویذ دوں؟تمہارا کام چلے گا نہیں بلکہ دوڑے گا، تینوں بے صبری سے بولے: جی جی، بابا جی دیں، آپ تو آج اصلی بابا لگ رہے ہیں، شاید اس طرح ہمارا کاروبار چل پڑے۔ کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو کاروبار میں برکت کا تعویز لاتے ہیں اور ان کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔
بابا جی کہنے لگے: رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور وہ کہتا ہے میں جسے چاہوں بے حساب دوں، بس میرے شکر گزار بنے رہو۔ ’’میرے پاس کاروبار کھولنے کا کوئی تعویز نہیں بلکہ دماغ کھولنے کا تعویز ہے۔ اگر تم اس پر عمل کرو تو جو چاہو گے پاؤ گے‘‘، تینوں یک زبان بولے:چلیں بتائیں بابا جی۔
بابا جی نے بچی کچھی چائے ایک ہی سانس میں اندر انڈیلی اور کپ ایک سائیڈ پر رکھ کر بولے:لوگ مغربی ممالک کی کامیابی اور امیری سے تو بڑے متاثر ہیں۔ کیا کبھی ان کی ترقی کی وجوہات پر بھی غور کیا ہے؟ جاپان، یورپ،برطانیہ، امریکا،جرمنی،فرانس،چین سمیت عالمی منڈیوں پر چھا جانے والے ممالک کے شہری صرف محنتی نہیں، بلکہ دن کا آغاز صبح سویرے کرتے ہیں۔ صبح نو بجے تک تمام دکانیں، مارکیٹیں کھل جاتی ہیں ۔ریسٹورنٹس صبح ناشتے کیلئے سات بجے کھل جاتے ہیں جبکہ دکانیں اور مارکیٹیں شام چھ سے سات بجے تک جبکہ ہوٹل اور ریسٹورنٹس رات 9 سے 10 بجے تک بند ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ لوگ اپنے گھر والوں کو ٹائم دیتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں ،مختصر سی مووی دیکھتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر پھر سے نئے دن کا آغاز کرتے ہیں۔
باباجی نےاپنی بات آگے بڑھائی:صرف جلدی جاگنا،جلدی کام پر جانا اور جلدی واپس آنا ان کی کامیابی کی وجہ نہیں بلکہ ان کی کامیابی کی اصل وجہ محنت، مستقل مزاجی ،لگن، وقت کی پاسداری اور معیار پر توجہ ہے۔ یہ لوگ ٹیم ورک کے تحت کام کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور جدت اپناتے ہیں۔ دکانوں،ریسٹورنٹس کا ماحول صاف ستھرا رکھتے ہیں۔گاہکوں اورکلائنٹس سے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔چیز تبدیل کردیتےہیں یہاں تک کہ شکایت پراستعمال شدہ چیز واپس لیکر پورے پیسے واپس پکڑادیتے ہیں۔کیاہمارے ہاں ایسی کوئی مثال ہے؟ یہ لوگ کام میں کامیابی کیلئے کاروباری حکمت عملی اپناتے ہیں۔ قیمتوں کی پالیسی بناتے ہیں کہ کس طرح خریداروں کو راغب کیا جا سکے، وہ لوگ سیل کے نام پر قیمتیں پہلے ڈبل کر کے اسے کاٹ کر آدھا کر کے نہیں لکھتے، سیل کا مطلب سیل ہی ہوتا ہے۔ ابھی کرسمس کا تہوار آرہا ہے، تمام بڑےسٹورز اور برانڈز نے سیل لگا دی ہے تاکہ سب لوگ اپنے مذہبی تہوار کو خوشی خوشی منا سکیں ۔ دوسری جانب ہمارے مسلمان بھائی عیدین اور دیگر تہواروں پر جو لوٹ مارکرتے ہیں وہ آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا؟
بابا جی نے سلسلے کلام پھر سے جوڑا: کاروبار میں برکت کاتعویز یہی ہے کہ ان باتوں پر عمل شروع کر دو جو پہلے بتائی ہیں ۔تم شہر کے کامیاب بزنس مین بن جاؤ گے ،کسی تعویذ کی ضرورت نہیں ۔ بابا جی نے فاسٹ فوڈ والے دوست سے پوچھا:تمہاری دکان پر باقی سارا دن کیا کام ہوتا ہے؟دوست بولا:بابا جی دن میں بند ہوتی ہے۔ عصر کے وقت کھولتا ہوں، کام ہی سارا رات کو چلتا ہے۔ بابا جی بولے: تم سارا دن کیوں ضائع کرتے ہو، صبح کو اسے ناشتہ پوائنٹ بنائو، دن میں لنچ کی سہولت ہونی چا ہئے، شام کو تم اپنا فاسٹ فوڈ چلاؤ، کیا کسی نے روکا ہے؟ دوست بولا: نہیں بابا جی ،روکا تو کسی نے نہیں مگر میں نے اصل میں اس پر پہلے سوچا کبھی نہیں ،آج آپ نے میری کھوپڑی میں یہ بات ڈالی ہے تو اس پر عمل شروع کرتا ہوں، میرے دماغ میں تو یہ بات پہلے کبھی آئی ہی نہیں۔
بابا جی کہنے لگےیارو کبھی ناکامی سے نہ گھبرانا، تمہیں پتہ ہے تھامس ایڈیسن کو جب ایک ہزار بار بلب بنانے میں ناکامی ہوئی تو اس نے کیا تاریخی جملہ کہا تھا ؟اس نے کہا: میں ناکام نہیں ہوا بلکہ میں نے ہزار ایسے طریقے دریافت کئے ہیں جو کام نہیں کرتے ۔ کے ایف سی کے بانی کرنل ہارلینڈ سینڈرز نے اپنی فرائیڈ چکن کی ترکیب کو تقریبا ًایک1009 بار مسترد کئے جانے کے بعد کامیابی حاصل کی، آج کے ایف سی پوری دنیا میں موجود ہے۔ ایلون مسک کے پہلے تین راکٹ لانچ ناکام ہو گئے تھے، چوتھے لانچ کیلئے ایلون مسک کے پاس آخری سرمایہ ہی بچا تھا،اسے کامیابی ملی اور آج سپیس ایکس دنیا کی سب سے بڑی نجی خلائی کمپنی ہے، ہمت نہ ہارنا اور خطرہ اٹھانا سب سے اہم چیز ہے ۔
بابا جی نے ایک اور مثال دیتے ہوئے کہا :جیک ما، جو علی بابا کے بانی ہیں، انہوں نے کئی نوکریوں کیلئے اپلائی کیا لیکن مسترد ہو گئے، یہاں تک کہ انہیں کے ایف سی میں بھی نوکری نہ ملی لیکن وہ مستقل مزاجی سے لگے رہے اور آج علی بابا دنیا بھر میں مشہور ہے۔
بابا جی نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا یہ صرف چند مثالیں ان ممالک کے لوگوں کی ہیں جنہیں ہم آئیڈیل سمجھتے ہیں لیکن ان کے نقش قدم پر نہیں چلتے۔ ہمارے اسلام اور اسلامی ممالک میں بھی ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں مگر ہم ان سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ آج ہم اس کاروباری برکت کے تعویذ پر عمل شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی قدم چومے، ہمارے اللہ نے بھی تو یہی کہا ہے کہ صبح رزق کی تقسیم کا وقت ہے، اسلئے صبح جاگو، نماز پڑھ اور اپنا رزق وصول کرو ۔
تینوں دوستوں کے ساتھ ساتھ میری کھوپڑی میں بھی یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ جب صبح کام کا آغاز زوال کے وقت کریں گے تو عروج کیسے حاصل ہوگا؟۔

شیئر کریں

:مزید خبریں