آج کی تاریخ

غزہ کا نوحہ

غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی مظالم کی حقیقت کو کسی اور دلیل یا وضاحت کی ضرورت نہیں، جیسا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل نے اسے “نسل کشی” قرار دیا ہے اور اس کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی کی تازہ رپورٹ، ‘آپ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں: غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نسل کشی’، اس ظلم کی شدت اور نوعیت کو بے نقاب کرتی ہے۔رپورٹ اسرائیل کی جانب سے خود دفاع کے دعوے کو رد کرتے ہوئے ثابت کرتی ہے کہ یہ ظلم مکمل طور پر نسل کشی کی نیت سے کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی قیادت کے 100 سے زائد بیانات، جو فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے جواز یا ان کی حمایت کرتے ہیں، اس نیت کو واضح کرتے ہیں۔ رپورٹ میں اکتوبر 2023 سے جون 2024 تک کے عرصے کا احاطہ کیا گیا ہے، جہاں گواہوں کے بیانات، صحت کارکنان کی شہادتیں، اور تصویری شواہد کو بنیاد بنایا گیا ہے۔اس عرصے میں، 13,000 سے زائد فلسطینی بچوں کو شہید کیا گیا، جبکہ 44,000 سے زائد جانوں کے ضیاع کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ہزاروں مزید افراد ملبے کے نیچے دبے ہو سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس ظلم کے تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے جو عالمی قوانین اور انسانی اقدار کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔رپورٹ نے امریکہ، جرمنی اور برطانیہ کو اس نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا ہے، کیونکہ یہ ممالک مسلسل اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکل جائے، لیکن اسرائیل کو امریکہ کی حمایت کی بدولت ہر ظلم سے استثنیٰ حاصل ہے۔یہ نسل کشی صرف اسرائیل کا مسئلہ نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ ایمنسٹی جیسے ادارے جو سچائی کو سامنے لاتے ہیں، ان کی آواز عالمی شعور کو بیدار کر رہی ہے۔ لیکن جب تک طاقتور ریاستیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتیں اور ظلم کو روکنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتیں، یہ تباہی جاری رہے گی۔اسرائیل جو مظالم فلسطینیوں پر کر رہا ہے، وہ تاریخ میں خود اس قوم کے ساتھ ہونے والے مظالم کی ہی بازگشت ہیں۔ عالمی برادری اور با ضمیر افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس قتل عام کو روکنے کے لیے آواز اٹھائیں اور انصاف کو یقینی بنائیں۔ انسانی وقار کا تقاضا ہے کہ غزہ میں خونریزی اور نسل کشی کو فوری روکا جائے۔

آزاد جموں و کشمیر: عوامی حقوق اور حکومتی اقدامات کا تصادم

آزاد جموں و کشمیر میں عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھنے والی احتجاجی تحریک نے ایک بار پھر اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالیہ ہڑتال، جس میں مختلف سول سوسائٹی تنظیموں اور چند سیاسی جماعتوں کا اتحاد شامل تھا، حکومت کے ایک متنازع صدارتی آرڈیننس کے خلاف کی گئی، جس کا مقصد عوامی اجتماعات کو ’منظم‘ کرنا بتایا گیا ہے۔ یہ آرڈیننس آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود نے گزشتہ ماہ جاری کیا تھا، جو غیر قانونی عوامی اجتماعات، ریلیوں اور احتجاج پر سخت سزائیں عائد کرتا ہے۔یہ قانون اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے ذریعہ جاری کردہ پبلک آرڈر اینڈ پیسفل اسمبلی ایکٹ 2024 سے متاثر معلوم ہوتا ہے، جس میں انتظامیہ کو عوامی اجتماعات کی اجازت دینے یا رد کرنے کے بے مثال اختیارات دیے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر میں اس آرڈیننس کے خلاف عوام نے سپریم کورٹ کے آرڈیننس کو معطل کرنے کے باوجود ہڑتال کی کال پر مثبت ردعمل دیا، جو اس خطے کے عوام کے جذبات کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔یہ آرڈیننس، جو عوامی آزادیوں پر ایک کاری ضرب تصور کیا جا رہا ہے، نہ صرف شہری حقوق کو محدود کرتا ہے بلکہ ریاستی اداروں کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ بھی کرتا ہے۔ مظاہرین کے مطابق، یہ قانون عوامی آزادیوں اور بنیادی حقوق کو براہ راست متاثر کرتا ہے، اور اس کے خلاف پرامن احتجاج عوام کے ان حقوق کے تحفظ کے عزم کا مظہر ہے۔ایک احتجاجی رہنما کے مطابق، “ہماری مہم ریاست کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے ہے، جنہیں اس قانون کے ذریعے کمزور کیا جا رہا ہے۔” یہ بیان اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے عوام اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کسی بھی ممکنہ حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کامیاب احتجاج کیا ہو۔ اس سے قبل بھی عوامی مظاہروں کے ذریعے حکومت کو اپنے فیصلے واپس لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ تحریک آزاد کشمیر کے عوام میں موجود عوامی شعور اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کی قوت کا ثبوت ہے۔تاہم، یہ رجحان حکومتی پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آزاد جموں و کشمیر ایک حساس خطہ ہے، جہاں عوامی حقوق اور آزادیوں کے خلاف اقدامات عوامی ردعمل کو تیز کر سکتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ وہ اس حساسیت کو سمجھیں اور عوامی خدشات کو حکمت اور تحمل کے ساتھ حل کریں۔آزاد جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ہونے والے ان واقعات کا پیغام واضح ہے: عوامی آزادیوں پر قدغن کے اقدامات صرف مزید بے چینی اور احتجاج کو جنم دیں گے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ قانون سازی میں عوامی مشاورت کو یقینی بنائیں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو عوامی جذبات کو مجروح کرتے ہوں۔آزاد کشمیر میں عوامی حقوق کی بحالی اور سماجی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی خدشات کو فوری اور مؤثر طریقے سے دور کیا جائے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ آزادی اظہار اور عوامی اجتماعات جمہوری معاشروں کا بنیادی حصہ ہیں، اور ان پر قدغن عائد کرنا طویل مدتی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔آزاد جموں و کشمیر کی احتجاجی تحریک ایک یاد دہانی ہے کہ عوام کے حقوق کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ عوامی آزادیوں پر قدغن کا کوئی بھی اقدام نہ صرف عوامی مزاحمت کو جنم دے گا بلکہ خطے میں بداعتمادی اور تنازعات کو بھی ہوا دے گا۔ عوامی جذبات کو سمجھنا اور ان کے ساتھ ہم آہنگ حکمت عملی اپنانا ہی حکومت کے لیے بہتر راستہ ہے۔

خوردنی تیل کی پالیسی: خود کفالت کی ضرورت

پاکستان کی وزارت تجارت کی جانب سے خوردنی تیل کے شعبے کے لیے جامع پالیسی بنانے کا منصوبہ ملک کی بڑھتی ہوئی درآمدی انحصار کو کم کرنے کا اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود، پاکستان کا خوردنی تیل کی درآمدات پر انحصار حیران کن ہے، جو کہ سالانہ 3 ارب ڈالر سے زائد ہے۔یہ درآمدی بل ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے، جبکہ مقامی تیل دار اجناس کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ صورتحال دہائیوں پر مشتمل پالیسی کی ناکامیوں اور ادارہ جاتی عدم استحکام کو ظاہر کرتی ہے۔خوردنی تیل پاکستان کے غذائی درآمدی بل کا سب سے بڑا حصہ ہے، جس کی طلب گزشتہ دو دہائیوں میں دگنی ہو چکی ہے۔ لیکن مقامی پیداوار میں اضافہ نہ ہونا پالیسی کی مستقل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، تیل دار اجناس کی پالیسی کے فقدان کی وجہ سے کئی چیلنجز پیدا ہوئے ہیں، جن میں تحقیق اور ترقی میں کمی، زرعی توسیعی خدمات کا فقدان، مارکیٹنگ اور خریداری کے غیر مؤثر نظام، اور ایک منتشر ویلیو چین شامل ہیں۔مزید برآں، تیل دار اجناس کے لیے امدادی قیمتوں کی عدم موجودگی کسانوں کو اس کی کاشت سے دور کرتی ہے، جبکہ غیر مؤثر تیل نکالنے کے طریقے مسائل کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ امدادی قیمتوں کی عدم موجودگی اور زرعی زمین پر دیگر فصلوں کی ترجیح نے تیل دار اجناس کی کاشت کو نظر انداز کیا ہے۔غیر معیاری بیج، جدید زرعی مشینری کی عدم دستیابی، اور غیر مؤثر زراعتی طریقے پیداوار کو کم کرتے ہیں۔1979 میں پاکستان ایڈیبل آئل کارپوریشن کا خاتمہ اور پاکستان آئل سیڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کی غیر مؤثر کارکردگی اس شعبے میں ادارہ جاتی ناکامی کی مثالیں ہیں۔تیل دار اجناس کے لیے جامع پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں اقدامات پر توجہ دی جائے۔ سورج مکھی، کینولا، اور سویا بین جیسی اجناس فوری حل فراہم کر سکتی ہیں۔کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے معیاری بیجوں کی سبسڈی، امدادی قیمتیں، اور پراسیسنگ پر ٹیکس چھوٹ جیسے اقدامات اہم ہیں۔پنجاب کے آئل سیڈ پروموشن پروگرام اور وفاقی حکومت کے نیشنل آئل سیڈ اینہانسمنٹ پروگرام کو ملک گیر سطح پر توسیع دی جائے۔خوردنی تیل اور گھی پر معتدل ڈیوٹیز مقامی سطح پر سورج مکھی اور ریپ سیڈ کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں۔طویل مدتی منصوبوں میں پام آئل اور سویا بین کی پیداوار کے فروغ پر کام کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پام آئل کی پیداوار طویل مدت کا منصوبہ ہے، لیکن نئی تکنیکی تحقیقات اور پائلٹ پروجیکٹس مستقبل کے لیے راہ ہموار کر سکتے ہیں۔پاکستان آئل سیڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کو مزید وسائل اور وفاقی و صوبائی تعاون فراہم کیا جائے۔ زمین کی مطابقت، معیاری بیج، اور موسمیاتی مزاحمت کے حوالے سے تحقیق پر سرمایہ کاری کی جائے۔خوردنی تیل کے استعمال میں کمی اور صحت مند متبادلات کو فروغ دینے کے لیے عوامی آگاہی مہم شروع کی جائے۔پاکستان کو ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک سے سیکھنا چاہیے، جنہوں نے پام آئل انڈسٹری میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ تاہم، پاکستان کو اپنے منفرد زرعی و موسمی حالات کے مطابق حکمت عملی اپنانی ہوگی۔پاکستان کے لیے خوردنی تیل میں مکمل خود کفالت حاصل کرنا ممکن نہ ہو، لیکن درآمدی بل میں کمی ملک کی معیشت پر نمایاں مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔جامع پالیسی، اگر حکمت اور تسلسل کے ساتھ نافذ کی جائے، تو یہ نہ صرف زرعی شعبے کو تبدیل کر سکتی ہے بلکہ تجارتی خسارے کو کم کر کے پاکستان کو ایک مضبوط زرعی معیشت کے طور پر بحال کر سکتی ہے۔یہ ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرز، اور بین الاقوامی شراکت دار اس عمل میں شامل ہوں۔کسانوں کو فوری فوائد کے لیے معیاری بیج، جدید ٹیکنالوجی، اور مالی مدد فراہم کی جائے۔معاشی استحکام اور خود کفالت کے لیے خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔خوردنی تیل کی پالیسی میں عوامی شمولیت اور رائے کو شامل کرنا اس کے مؤثر ہونے کے لیے ضروری ہے۔زرعی شعبے میں جدت اور ترقی خوردنی تیل کی درآمدات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔پاکستان کو اپنی پالیسیاں مستقل بنیادوں پر نافذ کرنے اور ان میں اصلاحات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔یہ موقع پاکستان کے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور معیشت کو مضبوط کرنے کا اہم موقع فراہم کرتا ہے۔خوردنی تیل کی درآمدات میں کمی سے پاکستان کے تجارتی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔یہ عمل پاکستان کی معیشت کو خود مختار بنانے اور اسے عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔خوردنی تیل کی جامع پالیسی پاکستان کے لیے ایک نیا باب کھول سکتی ہے، بشرطیکہ اسے مستقل مزاجی اور عزم کے ساتھ نافذ کیا جائے۔خوردنی تیل کی جامع پالیسی کے نفاذ کے بعد نہ صرف کسانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک کے زرعی ماحولیاتی نظام میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔ اس پالیسی کے تحت کسانوں کو نہ صرف معیاری بیج فراہم کیے جائیں بلکہ ان کی کاشت اور پیداوار میں جدید تکنیکی مدد بھی فراہم کی جائے۔حکومت کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ تیل دار اجناس کے کاشتکاروں کو مناسب مارکیٹ تک رسائی ملے اور ان کی پیداوار کو مناسب قیمت پر خریدا جائے۔ کسانوں کو معاشی تحفظ فراہم کرنے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ زیادہ زمین پر تیل دار اجناس اگانے پر آمادہ ہوں گے۔زرعی پیداوار کے ساتھ ساتھ پراسیسنگ انڈسٹری کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ تیل نکالنے کی جدید مشینری اور پروسیسنگ یونٹس کے قیام سے مقامی صنعت کو فروغ ملے گا، جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔اس پالیسی کے تحت تحقیق اور ترقی (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری اہم ہوگی تاکہ مقامی حالات کے مطابق بیجوں کی اقسام تیار کی جا سکیں اور زمین کی زرخیزی میں بہتری لائی جا سکے۔ یہ تحقیق نہ صرف پیداوار میں اضافہ کرے گی بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔بین الاقوامی ماہرین اور اداروں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی اور معلومات کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ عالمی معیار کے مطابق تیل کی پیداوار بھی ممکن ہوگی۔خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومت کو کسانوں اور پراسیسنگ یونٹس کے لیے مالی مدد فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ سبسڈی، آسان قرضوں، اور ٹیکس میں چھوٹ کے ذریعے اس صنعت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔طویل مدتی منصوبوں میں پام آئل کی پیداوار کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم اس کے لیے زمین کی موزونیت اور ماحولیاتی اثرات کا تفصیلی جائزہ لینا ہوگا۔ نئے تجرباتی منصوبے شروع کر کے اس پیداوار کے امکانات کو جانچا جا سکتا ہے۔خوردنی تیل کی طلب میں کمی کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا بھی اہم ہے۔ صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے اور غیر ضروری تیل کے استعمال کو کم کرنے کے لیے تعلیمی مہمات شروع کی جا سکتی ہیں۔پالیسی کے نفاذ میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانا بھی ضروری ہوگا۔ سرکاری اداروں کو کسانوں اور صنعت کاروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ مسائل کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔اگر حکومت اس پالیسی کو تسلسل کے ساتھ نافذ کرے اور اس میں عوامی رائے اور نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرے تو پاکستان نہ صرف خوردنی تیل کی درآمدات میں کمی کر سکتا ہے بلکہ اپنے زرعی شعبے کو ایک مضبوط معیشت میں تبدیل کر سکتا ہے۔خوردنی تیل کی پالیسی کے تحت اگر تمام پہلوؤں کو بہتر طور پر نافذ کیا جائے تو یہ پالیسی نہ صرف ملکی معیشت کو مضبوط کرے گی بلکہ پاکستان کو زرعی خود کفالت کی جانب بھی گامزن کرے گی۔خوردنی تیل کا شعبہ ایک اہم امتحان ہے، جہاں کامیابی نہ صرف پالیسی سازی پر منحصر ہے بلکہ اس کے نفاذ میں مستقل مزاجی اور عزم کی بھی ضرورت ہوگی۔یہ وقت ہے کہ حکومت اس موقع کو ضائع نہ کرے اور پاکستان کو خوردنی تیل کی درآمدات کے بوجھ سے نکالنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائے۔ اس پالیسی کے نتائج ملکی معیشت اور عوام کے لیے دور رس ہوں گے۔پاکستان کے زرعی شعبے میں بہتری اور خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں اضافہ نہ صرف معیشت کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ یہ ملکی خود مختاری کی جانب بھی ایک اہم قدم ہوگا۔اس پالیسی کے ذریعے پاکستان عالمی منڈیوں میں اپنے زرعی مصنوعات کو بہتر طور پر پیش کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، جس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا اور معیشت کو استحکام ملے گا۔یہ پالیسی پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی زرعی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرے اور مستقبل میں درپیش چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کرے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پالیسی کو قومی ترجیح بنائے اور اس کے نفاذ میں تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرے۔ اس پالیسی کی کامیابی کا دارومدار نہ صرف اس کی تیاری بلکہ اس کے مؤثر نفاذ پر بھی ہوگا۔یہ وقت ہے کہ پاکستان خوردنی تیل کے شعبے میں خود کفالت حاصل کرنے کی جانب عملی اقدامات کرے تاکہ ملک کی معیشت پر بوجھ کم ہو اور عوام کو بہتر مواقع فراہم ہوں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں