پاکستان کی وفاقی حکومت کو پنشن کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے مسئلے کا سامنا ہے، جو قومی بجٹ کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، حکومت ایک تجویز پر غور کر رہی ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی اوسط عمر کو پانچ سال کم کر کے 55 سال کر دیا جائے گا۔ یہ اقدام ان طویل المدتی مالی مسائل کو حل کرنے کی ایک کوشش ہے جو غیر فنڈ شدہ پنشن کے نظام کی وجہ سے درپیش ہیں۔ تاہم، اس تجویز کے اطلاق اور ممکنہ نتائج کے حوالے سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
پاکستان میں پنشن کا بوجھ گزشتہ چند سالوں میں بے حد بڑھ گیا ہے۔ مالی سال 2018 میں یہ بل 245 ارب روپے تھا، جو موجودہ مالی سال میں ایک کھرب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس میں سول ملازمین اور مسلح افواج کے پنشن حصے بالترتیب 260 ارب روپے اور 750 ارب روپے ہیں۔ یہ شرح آئندہ چار سالوں میں دوگنی ہونے کی توقع ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یہ صورتحال حکومت کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ پنشن اصلاحات کے حوالے سے فوری اقدامات کرے۔
کم عمری میں ریٹائرمنٹ کی تجویز کا مقصد طویل مدت میں پنشن کے اخراجات کو کم کرنا ہے، کیونکہ پنشن کی رقم ریٹائرمنٹ کے وقت کی بنیادی تنخواہ پر مبنی ہوتی ہے۔ تاہم، اس اقدام کے منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ ابتدائی ریٹائرمنٹ سے فوری طور پر زیادہ ملازمین کی علیحدگی کے نتیجے میں پنشن اور دیگر مراعات کی مد میں اخراجات بڑھ سکتے ہیں، جو متوقع طویل مدتی بچت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، مسلح افواج میں کم عمری کی ریٹائرمنٹ کے موجودہ نظام نے مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کیے، بلکہ اخراجات میں اضافے کا سبب بنا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گزشتہ برسوں میں پنشن اصلاحات کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن ان کے نتائج اب تک مایوس کن رہے ہیں۔ نہ صرف پنشن کے موجودہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے کوئی مؤثر پالیسی وضع کی گئی، بلکہ مستقبل میں بڑھتے ہوئے پنشن کے اخراجات کو روکنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس، پنشن اخراجات میں مسلسل اضافے نے حکومتی آپریٹنگ اخراجات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پنشن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو کم کرنے کے لیے حکومت کو جامع اور وسیع البنیاد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ صرف وفاق تک محدود نہیں بلکہ صوبائی حکومتیں اور سرکاری ادارے بھی اسی طرح کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ پنشن کے نظام میں شفافیت لانا اور مالی منصوبہ بندی کے لیے ڈیٹا پر مبنی حکمت عملی اپنانا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔
حکومت کو پنشن اصلاحات کے لیے مختلف آپشنز پر غور کرنا چاہیے، جن میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ، پنشن فنڈز کے قیام، اور پنشن کے موجودہ غیر فنڈ شدہ نظام کو بتدریج فنڈ شدہ نظام میں تبدیل کرنا شامل ہیں۔ ان اقدامات سے طویل مدتی مالی استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، پنشن کے نظام میں اصلاحات کے لیے بین الاقوامی تجربات سے سبق حاصل کرنا بھی سودمند ہو سکتا ہے۔
کم عمری میں ریٹائرمنٹ کی پالیسی کے ممکنہ سماجی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی سے کئی افراد کے لیے قبل از وقت معاشی غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ملکی معیشت پر اس کے اثرات کا بھی جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ بڑی تعداد میں تجربہ کار سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ سے مختلف شعبے متاثر ہو سکتے ہیں۔
حکومت کو اس مسئلے پر پالیسی سازی میں شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سرکاری ملازمین، ماہرین معیشت، اور عوامی نمائندوں کو ان تجاویز پر مشاورت کا حصہ بنایا جائے تاکہ ایک جامع اور متفقہ حل نکالا جا سکے۔
پنشن اخراجات کا مسئلہ ایک پیچیدہ چیلنج ہے جس کے حل کے لیے حکومت کو قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں قسم کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ قلیل مدتی طور پر، پنشن کے فوری بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایمرجنسی اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جبکہ طویل مدتی طور پر نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہوگی۔
حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پنشن اصلاحات کے حوالے سے عوامی شعور کو بیدار کرے۔ عوام کو ان اصلاحات کی ضرورت اور ان کے ممکنہ فوائد سے آگاہ کرنا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ اقدامات عوامی حمایت حاصل کریں اور کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کریں۔
پنشن کے بڑھتے ہوئے اخراجات پاکستان کی معیشت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہیں۔ اس کا حل صرف وسیع البنیاد اصلاحات اور شفافیت پر مبنی پالیسی سازی میں مضمر ہے۔ حکومت کو اس معاملے پر فوری طور پر توجہ دینا ہوگی تاکہ مستقبل میں اس بحران کو قابو میں رکھا جا سکے اور ملک کی معیشت کو ایک پائیدار بنیاد فراہم کی جا سکے۔
