ریاست اور تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان حالیہ تصادم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ دارالحکومت کے ریڈ زون میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران مبینہ اموات کے حوالے سے دونوں فریقین کے بیانیے نے ایک وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ کسی پی ٹی آئی کارکن کی جان نہیں گئی، جبکہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں نے ان کے کارکنان کو نشانہ بنایا اور اس دوران 12 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان متضاد دعووں نے نہ صرف عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ان واقعات کی حقیقت کو کیسے واضح کیا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں موجود حکومت نے ان جھڑپوں میں کسی بھی قسم کی غیر قانونی کارروائی کا انکار کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جھڑپوں کے دوران کسی پی ٹی آئی کارکن کی موت نہیں ہوئی، بلکہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کے مطابق، چار سکیورٹی اہلکار ان جھڑپوں میں جان سے گئے، اور تقریباً 190 زخمی ہوئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اہلکار مظاہرین کا سامنا کرتے ہوئے زخمی ہوئے اور ان کی قربانی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی نے ان جھڑپوں میں 12 کارکنان کی موت کا دعویٰ کیا ہے اور حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ حقیقت کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں جماعت کا کہنا ہے کہ ان کے کارکنان کو نشانہ بنایا گیا اور ریاستی ادارے اس معاملے میں براہ راست ملوث ہیں۔ پی ٹی آئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر ان کے بیانیے کو دبانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے، اور اسی وجہ سے ایک مشترکہ ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے تاکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنان کو نشانہ بنایا جا سکے۔
سوشل میڈیا نے اس معاملے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں فریقین نے اپنے بیانیے کو عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ حکومت کے مطابق، پی ٹی آئی نے جھوٹے دعووں اور گمراہ کن مواد کے ذریعے اپنے حامیوں کو مشتعل کیا، جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر ان کے کارکنان کو ہدف بنا رہی ہے۔ ان متضاد بیانیوں نے سوشل میڈیا کو ایک میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں سچائی اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ایسی صورتحال میں، ضروری ہے کہ تمام دعووں اور الزامات کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ اس معاملے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے سنجیدگی سے لیں اور ایک آزاد عدالتی کمیشن قائم کریں جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہ کمیشن اس بات کی تحقیق کرے کہ جھڑپوں کے دوران واقعی کتنی جانیں ضائع ہوئیں اور کون ان اموات کا ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ، ان اموات میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مظاہروں کے دوران ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے کچھ بنیادی اصول وضع کریں۔ احتجاج کا حق جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ مظاہرے پرامن رہیں اور عوام کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ اس سلسلے میں، تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے ضابطہ کار (SOPs) پر اتفاق کرنا ہوگا جو آئندہ مظاہروں کو خونریزی کا سبب بننے سے روک سکیں۔
وزیر اعظم نے حال ہی میں ایک خصوصی اینٹی رائٹ اسکواڈ تشکیل دینے کی تجویز دی ہے۔ اگر یہ منصوبہ آگے بڑھتا ہے، تو ریاست کو واضح رہنما اصول فراہم کرنا ہوں گے کہ یہ اسکواڈ کس طرح اور کہاں تعینات ہوگا۔ اس اسکواڈ کا بنیادی مقصد مظاہروں کے دوران حساس صورتحال کو غیر مہلک ذرائع سے قابو پانا ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی، اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ اسکواڈ کا استعمال مظاہرین کو دبانے کے لیے نہ ہو بلکہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہو۔
حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی احتجاجی مہم کو “ریاست مخالف” قرار دینے کی حکمت عملی پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ تنقید اور احتجاج جمہوریت کا حصہ ہیں، اور انہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کے زمرے میں شامل کرنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس سے عوامی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ حکومت اور ریاست کے درمیان ایک واضح فرق ہونا چاہیے، اور تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔
موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے شفافیت، انصاف اور بات چیت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو نہ صرف موجودہ تنازعے کو حل کریں بلکہ مستقبل میں اس طرح کی صورتحال کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک آزاد عدالتی کمیشن تشکیل دیں، شفاف تحقیقات کریں اور مظاہروں کے لیے اصول وضع کریں، تو اس سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ جمہوری عمل کو بھی تقویت ملے گی۔
وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوامی مفادات کو ترجیح دیں۔ عوامی مسائل کا حل صرف اور صرف شفافیت، انصاف اور جمہوری اقدار کی پاسداری میں مضمر ہے۔ اس سلسلے میں، تمام فریقین کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا تاکہ عوام کو ایک پرامن اور مستحکم سیاسی ماحول فراہم کیا جا سکے۔
پاکستان میں سیاسی تصادم اور احتجاج کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے تنازعات اکثر شدید بحرانوں کو جنم دیتے ہیں۔ حالیہ واقعات بھی اسی روایت کا تسلسل ہیں، جہاں ریاست اور اپوزیشن کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھا جائے تاکہ موجودہ بحران کو حل کرنے کے ساتھ مستقبل میں اس قسم کے تصادم سے بچا جا سکے۔
موجودہ حالات نے نہ صرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے بلکہ عوام کے ریاستی اداروں پر اعتماد کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔ جب تک شفاف تحقیقات اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے، عوامی اعتماد کی بحالی ممکن نہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے عوام کو یقین دلائے کہ ان کے حقوق محفوظ ہیں۔
سوشل میڈیا نے موجودہ تنازعے کو ایک نئی جہت دی ہے۔ دونوں فریقین نے اپنی حمایت میں مواد شیئر کیا، جس نے عوام میں مزید کنفیوژن پیدا کی۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے مواد کی نگرانی کے لیے ایک غیرجانبدارانہ اور شفاف نظام قائم کیا جائے۔ تاہم، یہ بھی ضروری ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے کا احترام کیا جائے اور کسی بھی قسم کی سینسرشپ کو عوامی حقوق کی خلاف ورزی نہ بننے دیا جائے۔
اپوزیشن کو بھی اپنی حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت میں احتجاج کا حق ضرور ہے، لیکن یہ حق پرامن طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتوں کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا جو تصادم کی فضا پیدا کریں اور عوامی زندگی کو متاثر کریں۔ اپوزیشن کی جانب سے مذاکرات کا راستہ اپنانا ہی موجودہ بحران کے حل کا واحد قابل قبول طریقہ ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار اس بحران میں نہایت اہم رہا ہے۔ ان اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو غیرجانبداری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نبھائیں۔ ریاستی طاقت کا غلط استعمال نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے عوامی غم و غصہ بھی بڑھتا ہے۔ ان اداروں کو اپنی کارروائیوں میں شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ عوام کا ان پر اعتماد بحال ہو سکے۔
موجودہ بحران نے ملک میں سیاسی استحکام کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ جب تک حکومت اور اپوزیشن اپنے اختلافات کو ختم نہیں کرتے اور ایک متفقہ حکمت عملی نہیں اپناتے، ملک میں امن و امان اور اقتصادی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے تمام جماعتوں کو اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔
موجودہ بحران کے حل میں عدالتی نظام کا کردار انتہائی اہم ہو سکتا ہے۔ ایک آزاد عدالتی کمیشن کی تشکیل اس بات کو یقینی بنائے گی کہ تمام فریقین کو انصاف ملے۔ عدالتی نظام کو نہ صرف غیرجانبدار رہنا ہوگا بلکہ عوامی توقعات پر بھی پورا اترنا ہوگا تاکہ کوئی بھی فریق اس کے فیصلے پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
پاکستان کے نوجوانوں نے ہمیشہ سیاسی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور موجودہ بحران بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ نوجوان اپنی توانائیاں مثبت اور تعمیری کاموں میں استعمال کریں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات پھیلانے کے بجائے امن اور استحکام کے لیے کام کریں۔
میڈیا کو اس بحران میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ میڈیا کا کام عوام کو حقائق فراہم کرنا ہے، نہ کہ تنازعات کو ہوا دینا۔ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ غیرجانبدار رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں اور عوام کو درست اور تصدیق شدہ معلومات فراہم کریں تاکہ افواہوں اور جھوٹے بیانیوں کا خاتمہ ہو۔
آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ موجودہ بحران کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام فریقین قومی مفاد کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ حکومت، اپوزیشن، عدلیہ، میڈیا اور عوام سب کو مل کر ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کرنی ہوگی جو امن، استحکام اور انصاف پر مبنی ہو۔ اختلافات کو ختم کرنے اور مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ تمام جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ یہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
