یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA) نے بالآخر چار سال کے بعد قومی ایئر لائن، پی آئی اے، پر یورپ جانے اور وہاں سے پرواز کرنے پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ یہ اقدام پاکستان کی ایوی ایشن اتھارٹی کی کوششوں کی کامیابی کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، اس پیش رفت کے باوجود پی آئی اے کو اپنے یورپی روٹس پر پروازوں کی بحالی میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں، اور نئے طیاروں میں بھاری سرمایہ کاری بھی درکار ہوگی۔ اس کے علاوہ، برطانیہ کے لیے پی آئی اے پروازوں پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔ای اے ایس اے کے اس فیصلے سے پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی پر یورپی ایوی ایشن ریگولیٹرز کے اعتماد کی بحالی کا اشارہ ملتا ہے۔ پابندی کے خاتمے کا فیصلہ “سی اے اے کی نمایاں کوششوں” کی بنیاد پر کیا گیا، لیکن یورپی ممالک میں پی آئی اے کے طیاروں اور عملے کی سخت نگرانی جاری رہے گی تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے پہلے حفاظتی خدشات کو دور کیا جا سکے۔یہ کامیابی خوش آئند ہے، خاص طور پر اس لئے کہ یہ پابندی 2020 میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے المناک طیارہ حادثے اور اس کے بعد اس وقت کے وزیر ہوا بازی کی جانب سے مبینہ جعلی پائلٹ لائسنسوں کے دعوؤں کے نتیجے میں عائد کی گئی تھی۔ یہ پابندی پی آئی اے کے لیے نہ صرف مالی نقصان کا سبب بنی بلکہ قومی سطح پر ساکھ کو بھی دھچکا لگا۔یورپی پابندی کے نتیجے میں پی آئی اے کو سالانہ تقریباً 40 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہ پابندی ان وجوہات میں شامل تھی جس کی وجہ سے حکومت گزشتہ ماہ پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے میں ناکام رہی، جب صرف ایک خریدار 60 فیصد حصص خریدنے کے لیے سامنے آیا، وہ بھی 85 ارب روپے کی مانگ کے مقابلے میں محض 10 ارب روپے کی پیشکش کے ساتھ۔یورپی پروازوں کی بحالی کو قومی ایئر لائن کی بحالی کے لیے ایک اہم موقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے پی آئی اے کی نجکاری کے منصوبے کو روکنے کا جواز قرار دے رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ یورپ میں آپریشن کی بحالی نئی مینجمنٹ کے تحت ایئر لائن کو دوبارہ کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ لیکن ماضی کے تجربات نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ پی آئی اے کو حکومتی کوششوں کے ذریعے بچانے کے اقدامات زیادہ تر ناکام رہے ہیں۔پی آئی اے کے مسائل گہرے اور متنوع ہیں۔ ناقص مینجمنٹ، سیاسی مداخلت، اور وسائل کا غلط استعمال وہ بنیادی وجوہات ہیں جنہوں نے قومی ایئر لائن کو اس نہج پر پہنچایا۔ موجودہ حکومت کے کچھ رہنما ایئر لائن کی نجکاری کے خلاف ہیں، لیکن یورپی پروازوں کی بحالی سے پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کی توقع کرنا ایک سادہ لوحی ہوگی۔بہتر یہی ہوگا کہ حکومت پی آئی اے کو نجکاری کے لیے تیار کرے اور اس کی فروخت کے عمل کو شفاف اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنائے۔ یورپی روٹس کی بحالی اس عمل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور ممکنہ خریداروں کی دلچسپی کو بڑھا سکتی ہے۔یورپی پروازوں پر پابندی کا خاتمہ پی آئی اے کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اس کامیابی کو ادارے کے دیرینہ مسائل کا مستقل حل سمجھنا غلط ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایئر لائن کی مکمل نجکاری کے عمل کو مزید تیز کرے تاکہ عوامی وسائل کا مزید ضیاع روکا جا سکے۔ پی آئی اے کی کامیابی اس وقت ممکن ہوگی جب یہ ایک پیشہ ور اور موثر انتظامیہ کے تحت کام کرے، جو صرف نجی شعبے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔پی آئی اے کی بحالی یا اس کی نجکاری کے حق میں بحث کرتے ہوئے، ایک اہم پہلو جو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہ قومی معیشت پر ایئر لائن کے مسلسل خسارے کا بوجھ ہے۔ قومی خزانے سے پی آئی اے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے جو رقم خرچ کی جاتی رہی ہے، وہ ملک کے دیگر اہم شعبوں، جیسے تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی، پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے، عوامی وسائل کا دانشمندانہ استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔پی آئی اے کے موجودہ بحران کو سمجھنے کے لیے اس کے دیرینہ مسائل پر غور کرنا ضروری ہے۔ ان میں سیاسی مداخلت، سفارشی بھرتیاں، اور غیر ضروری مالی بوجھ شامل ہیں، جنہوں نے قومی ایئر لائن کی انتظامی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایسے ماحول میں کسی بھی قسم کی اصلاحات اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک کہ ایئر لائن کو مکمل طور پر پیشہ ورانہ بنیادوں پر نہ چلایا جائے۔مزید برآں، موجودہ وسائل کے ساتھ یورپی روٹس کی بحالی کے لیے درکار بھاری سرمایہ کاری اور نئے طیاروں کی خریداری، قومی خزانے پر مزید دباؤ ڈالے گی۔ جبکہ نجکاری کے ذریعے نہ صرف اس بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک قابل اور تجربہ کار انتظامیہ کی نگرانی میں پی آئی اے کو ایک منافع بخش ادارے میں تبدیل کرنے کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔پی آئی اے کو قومی تشخص کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی حمایت بھی موجود ہے۔ تاہم، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ایک قومی ادارے کی حیثیت صرف اس وقت اہمیت رکھتی ہے جب وہ ملک کی خدمت کے قابل ہو۔ ایک مسلسل خسارے میں چلنے والا ادارہ نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ بنتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اگر نجکاری کے ذریعے پی آئی اے کو ایک منافع بخش اور کارآمد ادارہ بنایا جا سکتا ہے، تو اس سے قومی تشخص کو نقصان کے بجائے تقویت ملے گی۔پی آئی اے کی نجکاری کا عمل اگر شفاف اور منظم انداز میں انجام دیا جائے تو یہ نہ صرف ایئر لائن کے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔ حکومت کو نجکاری کے عمل میں بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں تاکہ اسے سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنایا جا سکے۔ مزید برآں، حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کے ملازمین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انہیں نئی انتظامیہ کے تحت مناسب مواقع فراہم کیے جائیں۔پی آئی اے کو اس کی موجودہ حالت میں برقرار رکھنا کسی بھی طور پر قومی مفاد میں نہیں۔ یورپی روٹس کی بحالی اگرچہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے، لیکن یہ ادارے کے تمام مسائل کا حل نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ وقت ضائع کیے بغیر نجکاری کے عمل کو آگے بڑھائے اور پی آئی اے کو ایک مستحکم اور منافع بخش ادارے میں تبدیل کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔ صرف اسی صورت میں پی آئی اے دوبارہ قومی فخر اور بین الاقوامی معیار کی علامت بن سکتی ہے۔
پاکستان میں بیرونی قرضوں کی کمی اور اقتصادی
حکمت عملی کا سوالیہ نشان
پاکستان کے معاشی امور ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار موجودہ مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں بیرونی قرضوں کی صورت حال کی ایک پریشان کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر 2.723 ارب ڈالر کی رقم موصول ہوئی، جس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری پروگرام کی پہلی قسط کے 1 ارب ڈالر شامل ہیں۔ یہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں موصول ہونے والے قرضوں سے 1.1 ارب ڈالر کم ہے۔یہ کمی اس وقت سامنے آئی ہے جب موجودہ مالی سال کے بجٹ میں بیرونی وسائل کا تخمینہ 5,685.801 ارب روپے لگایا گیا تھا، جو گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ تخمینے سے 632.466 ارب روپے زیادہ تھا۔ تاہم، یہ حقیقت کہ بجٹ میں طے کردہ اہداف حقیقی طور پر حاصل نہیں ہو سکے، اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ موجودہ معاشی منصوبہ بندی میں خامیاں موجود ہیں۔یہ خیال کہ ایک فعال آئی ایم ایف پروگرام دیگر بیرونی مالی معاونت کو یقینی بنائے گا، خاص طور پر چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے، اب حقیقت سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ معاشی امور ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق، چین کے 5 ارب ڈالر، سعودی عرب کے 4 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کے وعدے اب تک پورے نہیں ہوئے۔یہ صورتحال صرف مالی مسائل کی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ غیر مالیاتی عوامل کے ممکنہ کردار پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ یہ تاخیر پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر کو متاثر کر رہی ہے، جو حالیہ مہینوں میں صارفین کی قیمتوں کے اشاریے (CPI) میں کمی کی بڑی وجہ تھی۔کمرشل قرضوں کے شعبے میں بھی مایوسی کا سامنا ہے۔ موجودہ سال کے بجٹ میں 3.779 ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی، لیکن اب تک اس مد میں کوئی رقم موصول نہیں ہوئی۔ یہ رجحان گزشتہ سال کی صورت حال کی تکرار ہے جب بجٹ میں یہی رقم رکھی گئی تھی لیکن حقیقت میں کوئی قرضہ حاصل نہ ہو سکا۔بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ میں بہتری کے باوجود ملک کو دیوالیہ ہونے کے بلند خطرے والے زمرے میں رکھا گیا، جس کی وجہ سے کمرشل شعبے سے قرض حاصل کرنا ناقابل برداشت مہنگا ہو گیا۔حکومت کے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں پر انحصار کا بڑا سبب ماضی کے قرضوں کی ادائیگی ہے۔ تاہم، موجودہ مالی سال میں موجودہ اخراجات میں 21 فیصد اضافے کا بجٹ ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے جب معیشت شدید کمزوری کا شکار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے اپنے اخراجات کو کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے تاکہ قرضوں پر انحصار کم ہو؟وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے کہا ہے کہ پالیسی شرح میں کمی سے حکومت کو قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 1.3 کھرب روپے کی بچت ہوگی۔ تاہم، یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ بچت موجودہ اخراجات میں مجموعی اضافے کو کم کرے گی یا ماضی کی طرح دیگر اخراجات کی تلافی کے لیے استعمال ہوگی۔یہ ضروری ہے کہ حکومت اپنے موجودہ اخراجات کے تمام شعبوں کی تفصیلات جاری کرے، خاص طور پر ان شعبوں کی جو محدود وسائل پر اشرافیہ کے قبضے کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ شفافیت نہ صرف عوامی اعتماد کو بڑھا سکتی ہے بلکہ معاشی اصلاحات کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔پاکستان کی موجودہ مالیاتی حکمت عملی کئی چیلنجز کا شکار ہے، جن میں بیرونی قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار، کمرشل قرضوں کی عدم دستیابی، اور حکومتی اخراجات میں غیر ضروری اضافے شامل ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے مالیاتی فیصلوں میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائے اور معیشت کو مزید خسارے سے بچانے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائے۔ اقتصادی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں، اور ان میں تاخیر پاکستان کو مزید مشکلات میں دھکیل سکتی ہے۔پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال ایک ایسی حکمت عملی کی متقاضی ہے جو نہ صرف قلیل مدتی مسائل کا حل پیش کرے بلکہ طویل مدتی استحکام کو بھی یقینی بنائے۔ مسلسل بیرونی قرضوں پر انحصار معیشت کو ایک ایسے دائرے میں دھکیل رہا ہے جہاں ترقی کے امکانات کم سے کم ہو رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک پر انحصار کم کرنے کے لئے ملک کے اندرونی وسائل کو متحرک کرنے کی حکمت عملی اپنائے۔ملک میں ٹیکس چوری اور ٹیکس نیٹ کی کمزوری طویل عرصے سے ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ اگر حکومت ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے تو ملکی خزانے میں اضافی وسائل دستیاب ہو سکتے ہیں، جو بیرونی قرضوں پر انحصار کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ٹیکس وصولیوں میں اضافہ نہ صرف حکومتی آمدنی کو بڑھائے گا بلکہ موجودہ اخراجات کے بوجھ کو بھی کم کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اشرافیہ کے مراعات یافتہ طبقات سے مؤثر ٹیکس وصولی کی جائے اور ٹیکس اصلاحات کو ترجیح دی جائے۔پاکستان میں کئی سرکاری ادارے، جن میں پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل ملز شامل ہیں، مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان اداروں کی نجکاری یا اصلاحات کا عمل معیشت کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ ان اداروں کی غیر مؤثر کارکردگی نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ ہے بلکہ معیشت کے دیگر شعبوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ان اداروں کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں یا ان کی نجکاری کا عمل شفاف طریقے سے مکمل کرنا چاہیے۔پاکستان کی معیشت زراعت اور صنعت پر مبنی ہے، لیکن ان دونوں شعبوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، پانی کے مؤثر انتظام اور کسانوں کو مراعات دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب، صنعت کے فروغ کے لیے توانائی کے مسائل کو حل کرنا، کاروباری آسانیاں پیدا کرنا، اور برآمدی شعبے کو تقویت دینا اہم ہوگا۔
توانائی کا بحران نہ صرف صنعت بلکہ مجموعی معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر قابل تجدید توانائی کے منصوبے شروع کرنے چاہئیں اور موجودہ وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ بجلی کے ضیاع کو کم کرنا اور توانائی کے نرخوں کو معقول بنانا بھی اہم اقدامات میں شامل ہیں۔حکومت کو اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومتی ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بنائیں۔ اشرافیہ کے مراعات پر نظر ثانی، غیر ضروری پروجیکٹس کو ختم کرنا، اور عوامی وسائل کو صرف ضروری امور پر خرچ کرنا اس عمل کا حصہ ہونا چاہیے۔بین الاقوامی تعلقات کے دائرے میں پاکستان کو ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو معیشت پر مثبت اثر ڈالیں۔ دوست ممالک کے ساتھ اقتصادی معاہدات کو ازسرنو ترتیب دینا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا اہم ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو خطے میں اپنی معاشی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے چین، خلیجی ممالک اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مؤثر تعلقات استوار رکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی معیشت کو موجودہ چیلنجز سے نکالنے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بیرونی قرضوں پر انحصار کو کم کرنے، داخلی وسائل کو متحرک کرنے، اور غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب حکومت شفافیت، احتساب، اور عملی اقدامات کے اصولوں پر کاربند ہو۔ اگر آج سخت فیصلے نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں ان غلطیوں کا خمیازہ بھگتیں گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تمام وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔